(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۸؍مئی۲۰۲۰ء) بدری صحابی حضرت خَبَّابْ بن اَرَتْ رضی اللہ تعالیٰ عنہ … کا تعلق قبیلہ بنو سعد بن زید سے تھا۔ ان کے والد کا نام اَرَتْ بن جَنْدَلَہ تھا۔ ان کی کنیت ابوعبداللہ اور بعض کے نزدیک ابو محمد اور ابو یحیٰی بھی تھی۔ زمانہ جاہلیت میں غلام بناکر مکہ میں یہ بیچ دیے گئے۔ یہ عُتبہ بن غَزْوَان کے غلام تھے۔ بعض کے نزدیک اُمِّ اَنمار خُزَاعِیہ کے غلام تھے۔ بنو زُہرہ کے حلیف ہوئے۔ اول اسلام لانے والے اصحابؓ میں یہ چھٹے نمبر پر تھے اور اُن اولین میں سے ہیں جنہوں نے اپنا اسلام ظاہر کر کے اس کی پاداش میں سخت مصائب برداشت کیے۔ حضرت خَبَّابؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دار ارقم میں تشریف لانے اور اس میں دعوت دینے سے پہلے اسلام لائے تھے۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 3 صفحہ 121۔ 122 خَبَّاب بن الارت دار الکتب العلمیۃ بیروت 1990ء) (الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ جلد 2 صفحہ221 خَبَّاب بن الارت دار الکتب العلمیۃ بیروت 1995ء) (اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابۃ جلد 2 صفحہ 147 خَبَّاب بن الارت دار الکتب العلمیۃ بیروت 2003ء) مجاہد کہتے ہیں کہ سب سے پہلے جن لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے اسلام ظاہر کیا وہ یہ ہیں: حضرت ابوبکرؓ، حضرت خَبَّابؓ، حضرت صُہیبؓ، حضرت بِلالؓ، حضرت عَمَّارؓ اور حضرت سُمَیّہؓ والدہ حضرت عَمَّارؓ۔ …حضرت خَبَّابؓ کا ایک واقعہ جو حضرت عمرؓ کے اسلام قبول کرنے کے وقت پیش آیا اس کا تفصیلی ذکر کرتے ہوئے حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے سیرت خاتم النبیینؐ میں یوں بیان فرمایا ہے کہ ابھی حضرت حمزہؓ کو اسلام لائے صرف چند دن ہی گزرے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ایک اَور خوشی کا موقع دکھایا یعنی حضرت عمرؓ جو ابھی تک اشد مخالفین میں سے تھے مسلمان ہو گئے۔ ان کے اسلام لانے کا قصہ بھی نہایت دلچسپ ہے۔ بہت سارے لوگوں نے سنا بھی ہوا ہے، پڑھا بھی ہو اہے لیکن یہ تفصیل جو آپؓ نے بیان کی ہے یہ بھی میں بیان کردیتا ہوں اور یہ بیان کرنا ان کی تاریخ کے لیے ضروری ہے۔ حضرت عمرؓ کی طبیعت میں سختی کا مادہ تو زیادہ تھا ہی مگر اسلام کی عداوت نے اسے اور بھی زیادہ کر دیا تھا۔ چنانچہ اسلام سے قبل عمر غریب اور کمزور مسلمانوں کو ان کے اسلام کی وجہ سے بہت سخت تکلیف دیا کرتے تھے لیکن جب وہ انہیں تکلیف دیتے دیتے تھک گئے اور ان کے واپس آنے کی کوئی صورت نہ دیکھی تو خیال آیا کیوں نہ اس فتنے کے بانی کا یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی خاتمہ کر دیا جاوے۔ یہ خیال آنا تھا کہ تلوار لے کر گھر سے نکلے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاش شروع کی۔ راستے میں ایک شخص نے انہیں ننگی تلوار ہاتھ میں لیے جاتے دیکھا تو پوچھا۔ عمر! کہاں جاتے ہو؟ عمر نے جواب دیا محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کا کام تمام کرنے جاتا ہوں۔ اس نے کہا کیا تم محمد کو قتل کرکے بنو عبدمناف سے محفوظ رہ سکو گے؟ ذرا پہلے اپنے گھر کی تو خبر لو۔ تمہاری بہن اور بہنوئی مسلمان ہو چکے ہیں۔ حضرت عمرؓ جھٹ پلٹے، واپس ہوئے اور اپنی بہن فاطمہ کے گھر کا راستہ لیا۔ جب گھر کے قریب پہنچے تو اندر سے قرآن شریف کی تلاوت کی آواز آئی۔ جو خَبَّاب بن اَلْاَرَت خوش الحانی کے ساتھ پڑھ کر سنا رہے تھے۔ عمرؓ نے یہ آواز سنی تو غصہ اور بھی بڑھ گیا۔ جلدی سے گھر میں داخل ہوئے لیکن ان کی آہٹ سنتے ہی خَبَّاب تو فوراً کہیں چھپ گئے اور فاطمہ نے قرآن شریف کے اور اق بھی اِدھر ادھر چھپا دیے۔ حضرت عمرؓ کی بہن کا نام فاطمہ تھا۔ حضرت عمرؓ اندر آئے تو للکار کر کہامیں نے سنا ہے تم اپنے دین سے پھر گئے ہو۔ یہ کہہ کر اپنے بہنوئی سعید بن زید سے لِپٹ گئے۔ فاطمہ اپنے خاوند کو بچانے کے لیے آگے بڑھیں تو وہ بھی زخمی ہوئیں مگر فاطمہ نے دلیری کے ساتھ کہا۔ ہاں عمر! ہم مسلمان ہو چکے ہیں اور تم سے جو ہو سکتا ہے کر لو۔ اب ہم اسلام کو نہیں چھوڑ سکتے۔ حضرت عمرؓ نہایت سخت آدمی تھے لیکن اس سختی کے پردہ کے نیچے محبت اور نرمی کی بھی ایک جھلک تھی جو بعض اوقات اپنا رنگ دکھاتی تھی۔ بہن کا یہ دلیرانہ کلام سنا، یہ بات سنی تو آنکھ اوپر اٹھا کر اس کی طرف دیکھا تو وہ خون میں تربہ تر تھی۔ اس نظارہ کا عمر کے قلب پر ایک خاص اثر ہوا۔ کچھ دیر خاموش رہ کر بہن سے کہنے لگے کہ مجھے وہ کلام تو دکھاؤ جو تم پڑھ رہے تھے؟ فاطمہ نے کہا کہ میں نہیں دکھاؤں گی کیونکہ تم ان اور اق کو ضائع کر دو گے، ان صفحوں کو ضائع کر دو گے۔ عمر نے جواب دیا۔ نہیں نہیں تم مجھے دکھاؤ۔ میں ضرور واپس کر دوں گا۔ فاطمہ نے کہا مگر تم نجس ہو، ناپاک ہو اور قرآن کو پاکیزگی کی حالت میں ہاتھ لگانا چاہیے۔ پس تم پہلے غسل کر لو تو پھر دکھا دوں گی اور پھر دیکھ لینا۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ لکھتے ہیں کہ غالباً ان کا منشا یہ بھی ہو گا کہ غسل کرنے سے عمر کا غصہ بالکل فرو ہو جائے گا اور وہ ٹھنڈے دل سے غور کرنے کے قابل ہو سکیں گے۔ جب عمر غسل سے فارغ ہوئے تو فاطمہ نے قرآن کے اور اق نکال کر ان کے سامنے رکھ دیے۔ انہوں نے اٹھا کر دیکھا تو سورۂ طٰہٰ کی ابتدائی آیات تھیں۔ حضرت عمرؓ نے ایک مرعوب دل کے ساتھ انہیں پڑھنا شروع کیا اور ایک ایک لفظ اس سعید فطرت کے اندر گھر کیے جاتا تھا اپنا اثر دکھا رہا تھا۔ پڑھتے پڑھتے جب حضرت عمرؓ اس آیت پر پہنچے کہ اِنَّنِیۡۤ اَنَا اللّٰہُ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّاۤ اَنَا فَاعۡبُدۡنِیۡ ۙ وَاَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِذِکۡرِیۡ۔اِنَّ السَّاعَۃَ اٰتِیَۃٌ اَکَادُ اُخۡفِیۡہَا لِتُجۡزٰی کُلُّ نَفۡسٍۭ بِمَا تَسۡعٰی (طٰہٰ: 15-16) یعنی میں ہی اس دنیا کا واحد خالق و مالک ہوں میرے سوا اور کوئی قابلِ پرستش نہیں۔ پس تمہیں چاہیے کہ صرف میری ہی عبادت کرو اور میری ہی یاد کے لیے اپنی دعاؤں کو وقف کر دو۔ دیکھو ! موعود گھڑی جلد آنے والی ہے مگر ہم اس کے وقت کو مخفی رکھے ہوئے ہیں تاکہ ہر شخص اپنے کیے کا سچا سچا بدلہ پاسکے۔ جب حضرت عمرؓ نے یہ آیت پڑھی تو گویا ان کی آنکھ کھل گئی اور سوئی ہوئی فطرت چونک کر بیدار ہو گئی۔ بے اختیار ہو کر بولے۔ یہ کیسا عجیب اور پاک کلام ہے۔ خَبَّابؓ نے یہ الفاظ سنے تو فوراً باہر نکل آئے اور خدا کا شکر ادا کیا اور کہا۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کا نتیجہ ہے کیونکہ خدا کی قسم! ابھی کل ہی میَں نے آپؐ کو یہ دعا کرتے سنا تھا کہ یا اللہ! تو عمر ابن الخطاب یا عمرو بن ہشام یعنی ابوجہل میں سے کسی ایک کو ضرور اسلام عطا کر دے۔ حضرت عمرؓ کو اب ایک ایک پل گراں تھی۔ اس کلام کو پڑھنے کے بعد اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کو پہچاننے کے بعد ان کے لیے اب یہاں ٹِک رہنا بڑا مشکل ہو رہا تھا۔ انہوں نے خَبَّابؓ سے کہا کہ مجھے ابھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا راستہ بتاؤ وہ کہاں ہے۔ مگر کچھ ایسے آپے سے باہر ہو رہے تھے کہ تلوار اسی طرح ننگی کھینچ رکھی تھی۔ یہ خیال نہیں آیا کہ تلوار بھی میان میں ڈال لیں۔ ننگی تلوار کو اسی طرح ہاتھ میں پکڑا ہوا تھا۔ بہرحال اس زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دارِارقم میں مقیم تھے۔ چنانچہ خَبَّابؓ نے انہیں وہاں کا پتہ بتادیا۔ عمرؓ وہاں گئے اور دروازے پر پہنچ کر زور سے دستک دی۔ صحابہؓ نے دروازے کی دراڑ میں سے عمر کو ننگی تلوار تھامے ہوئے دیکھ کر دروازہ کھولنے میں تامل کیا، ہچکچاہٹ کی مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ دروازہ کھول دو اور حضرت حمزہؓ نے بھی کہا، حضرت حمزہؓ بھی وہاں تھے کہ دروازہ کھول دو۔ اگر نیک ارادے سے آیا ہے تو بہتر ورنہ اگر نیت بد ہے تو واللہ اسی کی تلوار سے اس کا سر اڑادوں گا۔ دروازہ کھولا گیا۔ عمر ننگی تلوار ہاتھ میں لیے اندر داخل ہوئے۔ ان کو دیکھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھے اور عمر کا دامن پکڑ کر زور سے جھٹکا دیا اور کہا عمر کس ارادے سے آئے ہو؟ واللہ! میں دیکھتا ہوں کہ تم خدا کے عذاب کے لیے نہیں بنائے گئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مَیں دیکھتا ہوں کہ تم خدا کے عذاب کے لیے نہیں بنائے گئے۔ عمرؓ نے عرض کیا۔ یارسول اللہؐ ! مَیں مسلمان ہونے آیا ہوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ الفاظ سنے تو خوشی سے جوش میں اللہ اکبر کہا اور ساتھ ہی صحابہؓ نے اس زور سے اللہ اکبر کا نعرہ مارا کہ مکہ کی پہاڑیاں گونج اٹھیں۔ (ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ157تا159) مزید پڑھیں: فتح بدر کے نتائج اور اثرات