https://youtu.be/qQniZL0vHdg حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ لکھتے ہیں کہ یاد رکھنا چاہیے کہ حکایت عن الغیر (یعنی دوسروں کے حوالے سے جب بات کی جاتی ہے یا دوسروں کی بات کو آگے بیان کیا جاتا ہے) اس کا طریق کلام عربوں میں رائج تھا بلکہ خود قرآن کریم نے بھی بعض جگہ اس طرز کلام کو اختیار کیا ہے۔ چنانچہ ایک جگہ دوزخیوں کو مخاطب کر کے خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ذُقْ اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْکَرِیْمُ (الدخان: 50) کہ یعنی اے جہنم میں ڈالے جانے والے شخص!تو خدا کے اس عذاب کو چکھ۔ بے شک تُو بہت عزت والا اور بڑا شریف انسان ہے۔ اس جگہ یہ مراد ہرگز نہیں کہ نعوذ باللہ خدا دوزخیوں کو معزز اور شریف خیال کرتا ہے بلکہ حکایت عن الغیر کے رنگ میں مراد یہ ہے کہ اے وہ انسان جسے اس کے ساتھی اور وہ خود معزز اور شریف خیال کرتے تھے (دنیا میں غلط کام کرنے کے بعد سمجھتے تھے ہم بہت معزز ہیں) تو اب خدا کے آگ کے عذاب کا مزاچکھ۔ بعینہ ٖیہی رنگ اس رؤیا میں ان دو آدمیوں یا دو فرشتوں نے اختیار کیا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس رؤیا میں نظر آئے تھے۔ چنانچہ انہوں نے جب یہ کہا کہ اس شخص کو سحر کیا گیا ہے تو ان کی مراد یہ نہیں تھی کہ ہمارے خیال میں سحر کیا گیا ہے مگر مراد یہ تھی کہ لوگ کہتے ہیں کہ اسے سحر کیا گیا ہے۔ (جادو کیا گیا ہے) اور خواب کی اصل غرض و غایت اس کے سوا کچھ نہیں تھی کہ جو چیز ان خبیثوں نے چھپا کر اس کنویں میں رکھی ہوئی تھی اور اس کے ذریعہ وہ اپنے ہم مشرب لوگوں کو دھوکا دیتے تھے۔ (اپنے جیسے لوگوں کو دھوکا دیتے تھے، مشہور کر رہے تھے، منافقوں میں باتیں پھیلا رہے تھے)، اسے خدا اپنے رسولؐ پر ظاہر کر دے تا ان کے مزعومہ سحر کو ملیا میٹ کر دیا جائے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ ان کے سحر کا آلہ سپرد خاک کر دیا گیا اور کنویں کو پاٹ دیا گیا۔ اور بالواسطہ طور پر اس کے نتیجہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طبیعت کا یہ فکر بھی کہ یہ لوگ اس قسم کی شرارتیں کر کے سادہ مزاج لوگوں کو دھوکا دینا چاہتے ہیں زائل ہو گیا اور یہ خدائی وعدہ بڑی آب و تاب کے ساتھ پورا ہوا کہ لَا یُفْلِحُ السَّاحِرُ حَیْثُ اَتٰی(طٰہٰ:70) یعنی ایک ساحر خواہ کوئی سا طریق اختیار کرے وہ خدا کے ایک نبی کے مقابلے پر کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا۔ (خطبہ جمعہ ۸؍مارچ ۲۰۱۹ء، مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۲۹؍مارچ ۲۰۱۹ء) مزید پڑھیں: حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کی سیرت کا بیان