https://youtu.be/MyOtJDVeDQo اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔ مکرم چودھری مبشر احمد باجوہ صاحب روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ ۶؍جنوری۲۰۱۴ء میں مکرم مبشر احمد عابد صاحب نے اپنے دوست محترم چودھری مبشر احمد باجوہ صاحب کا ذکرخیر کیا ہے جن کی وفات ۱۰؍اپریل۲۰۱۳ء کو اسّی سال کی عمر میں ہوئی اور حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی نماز جنازہ غائب بھی پڑھائی۔ محترم چودھری مبشر احمد باجوہ صاحب ۱۹۳۳ء میں داتازیدکا ضلع سیالکوٹ میں مکرم چودھری رشید احمد باجوہ صاحب کے ہاں پیدا ہوئے جو حضرت چودھری سرمحمد ظفراللہ خان صاحبؓ کے ماموںزاد تھے۔ ابتدائی تعلیم قادیان میں حاصل کی اور میٹرک تعلیم الاسلام ہائی سکول چنیوٹ سے کیا۔ پھر گورنمنٹ کالج لاہور میں زیر تعلیم رہے اور پھر زمیندارہ کی خاطر داتازیدکا کے قریبی ایک گاؤں کھوکھروالی میں رہائش اختیار کی۔ علاقہ بھر میں سیاسی اثرورسوخ کے ساتھ مظلوموںکی مدد اور خدمت خلق میں بھی نام پیدا کیا۔ سیلاب زدگان کی مدد کے لیے ٹیم تیار کرکے اپنے ہاتھ سے خدمت کرتے۔ آپ کے مخالفین بھی آپ کے ہمیشہ سچ بولنے کی گواہی برملا دیتے۔ احمدیت کی بہت غیرت تھی۔ چنانچہ اگر کسی بڑے سے بڑے آدمی نے بھی جماعت کے خلاف کچھ کہا ہوتا تو اُس سے پھر کبھی تعلق نہ رکھتے۔ جماعتی خدمت کا بہت شوق تھا لیکن عہدے کی کبھی خواہش نہیں کی۔ احمدیت کی خاطر بننے والے مقدمات میں اسیران کی بہت خدمت کرتے اور اُن کی ضمانتوں کے لیے ہرممکن کوشش کرتے۔ جن دیہات میں اِکّادُکّا احمدی گھرانے تھے اُن کا بہت خیال رکھتے۔ لیکن غریب پرور اتنے تھے کہ اس میں مذہب و ملّت کی تفریق نہ کرتے۔ خدمت دین میں ہمیشہ حاضر رہے۔مربیان کا بےحد احترام کرتے۔ مَیں جب آپ کے علاقہ میں تعیّنات ہوا تو مجھے ساتھ لے جاکر اہم افراد سے متعارف کروایا۔ اگر اپنے ڈیرے پر پولیس افسران اور دوسرے سرکردہ افراد کے ساتھ بیٹھے ہوتے تو میرے جانے پر فوراً وہاں سے اُٹھتے اور مجھے گھر لے آتے جہاں دوسرے احمدی دوست بھی اکٹھے ہوجاتے اور ہم اپنا پروگرام کرلیتے۔ مجھ سے عمر میں بہت بڑے تھے لیکن اس کے باوجود نہایت عاجزی سے خود اشیائے خورونوش اٹھاکر لاتے جس پر مجھے بےحد شرمندگی بھی ہوتی۔ آپ اپنے حلقہ کے امیر اور صدر جماعت تھے لیکن امیرصاحب ضلع نے امورعامہ کے بہت سے کام بھی آپ کے سپرد کررکھے تھے۔ جب نارووال ضلع بنا تو آپ امیر ضلع بھی رہے۔ نیز قاضی ضلع اور ناظم انصاراللہ ضلع کے طور پر بھی خدمت کی توفیق پائی۔ مقامی جماعت کی صدارت مستقل آپ کے پاس رہی۔ ۱۹۹۵ء میں ذیابیطس میں مبتلا ہونے کے بعد گردوں پر اثر پڑا اور عمومی صحت بھی کمزور ہوگئی۔ بوقت وفات بھی نائب امیر ضلع خدمت کررہے تھے۔ ایک بار جب علاقے میں فصل نہ ہوسکی تو ایک مخلص مقامی دوست نے مشورہ دیا کہ مرکز کو لکھ کر چندہ معاف کروالیا جائے۔ آپ نے اس مشورے کو ناپسند کیا اور کہیں سے قرض لے کر اپنا اور اُس دوست کا چندہ بروقت ادا کردیا۔ اسی طرح ایک دوست جو اپنے گاؤں کے نمبردار تھے انہوں نے ایک خواب کی بِنا پر احمدیت قبول کرلی۔ لیکن اُن کی اولاد احمدی نہ ہوئی اور اسی لیے وہ دوست اپنے آخری سالوں میں چندے کی ادائیگی بھی نہ کرسکتے تھے جس کی انہیں بہت تکلیف تھی۔ محترم باجوہ صاحب کو علم ہوا تو آپ نے خاموشی سے اُس دوست کا چندہ ادا کرکے اُنہیں کسی ذریعے سے یہ اطلاع بھی پہنچادی تاکہ عدم ادائیگی پر اُن کا دکھ دُور ہوجائے۔ دوسروں کا اس قدر خیال رکھتے کہ ۱۹۹۱ء میں جلسہ سالانہ قادیان پر گئے تو بیت الدعا میں چند منٹ دعا کرکے باہر آجاتے۔ پوچھنے پر بتایا کہ مسجد مبارک، بیت الفکر اور دوسرے مقامات پر لمبی دعا کرلیتا ہوں لیکن یہاں دوسروں کا خیال آتا ہے کہ باہر کھڑے انتظار کررہے ہیں۔ اسی جلسے پر جماعت سیالکوٹ خلیفہ وقت سے ملاقات کے لیے بیٹھی تھی۔ حضورؒ کے لیے کرسی رکھ دی گئی تھی اور لوگ اُس کے قریب حلقہ بنائے بیٹھے تھے لیکن چودھری صاحب کمرے کے آخر میں سر نیچے کیے بیٹھے تھے۔ اسی دوران حضورؒ تشریف لائے اور چودھری صاحب کے بالکل پیچھے کھڑے ہوگئے۔ اس موقع کی تصویر بھی ہے۔ پھر احباب کو پتا لگا تو حضورؒ کی کرسی وہاں لائی گئی اور ساری جماعت کا رُخ حضورؒ کی طرف ہوگیا۔ اس طرح چودھری صاحب سب سے آگے بیٹھے تھے۔ حضورؒ نے آپ کا حال بھی دریافت فرمایا۔ اس خداداد خوش قسمتی پر آپ کو احباب نے مبارکباد بھی دی۔ آپ نے اپنے گاؤں میں ایک مسجد بھی تعمیر کروائی جس کا سارا خرچ اپنے عزیزوں کے ساتھ مل کر اٹھایا۔ تعمیر مکمل ہوئی تو مسجد کی رجسٹری صدر انجمن کے نام منتقل کروادی۔ آپ نے پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ تین بیٹے اور ایک بیٹی چھوڑے ہیں۔ ………٭………٭………٭……… زمانۂ حاضر اور ابن عربیؒ کی پیشگوئیاں روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ ۹؍جنوری۲۰۱۴ء میں شیخ اکبر حضرت محی الدین ابن عربیؒ کی زمانۂ حاضر سے متعلق پیشگوئیاں شذرات کے عنوان کے تحت شائع ہوئی ہیں جو اوریا مقبول جان کے کالم (مطبوعہ روزنامہ ’’دنیا‘‘ ۲۱؍نومبر۲۰۱۲ء) سے منقول ہیں (مرسلہ:مکرم طلحہ احمد صاحب)۔ عظیم صوفی بزرگ حضرت ابن عربیؒ کو اہل فکر و نظر شیخ اکبر کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ آپؒ قریباً سات سو سال قبل سپین کے شہر قرطبہ میں پیدا ہوئے جو اُس وقت علم و عرفان کا گہوارہ تھا۔ آپؒ روحانیت کے اعلیٰ مقام پر فائز اور تصوّف کے بانیوں میں سے مانے جاتے ہیں۔ تصوّف کی راہ پر چلنے والوں کے لیے آپؒ کی کتاب ’’فصوص الحکم‘‘ کا مطالعہ بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ آپؒ کا ایک رسالہ دورِ حاضر کے بارے میں اہم پیشگوئیوں پر مشتمل ہے۔ آپؒ فرماتے ہیں: ٭… اس زمانے میں مذہب کا نام لے کر حکومت کی جائے گی لیکن صحیح معنوں میں مذہب کی پابندی نہ ہوگی۔ ٭…عورتیں مَردوں کے مراتب عقل و ہنر سے بڑھ جائیں گی اور مَردوں کی مردانگی فقط رسمی رہ جائے گی۔ ٭…چاندی اور سونے کی قدر گھٹ جائے گی اور لوہے کی قدر بڑھ جائے گی۔ چاندی اور سونے کی ہم شکل دھاتیں نکل آئیں گی اور ان کی اشیاء گھر گھر رواج پائیں گی۔ ٭…آخرت کے راستوں سے بےپروائی ہوگی اور شہروں کے راستے بہت خوبصورت بنائے جائیں گے۔ ٭…بازاروں میں بیٹھ کر کھانا فخر سمجھا جائے گا۔ تم کھانا کھانے کے لیے لوہے کے ہاتھ بناؤگے اور تمہارے دسترخوان سینے کے پاس چُنے جائیں گے۔ ٭…لباس دامن بریدہ پہنا جائے گا اور اس کی اتنی اقسام ہوں گی جن کا سوچنا بھی ابھی دشوار ہے۔ ٭…ماں باپ کی عزت مثل ایک دوست کے ہوگی اور بیویوں کو سجدہ کیا جائے گا۔ استاد کی حرمت چھن جائے گی۔ ٭…تمہاری جوتیاں زمین پر ٹکرانے والی اور مغرور بنانے والی ہوں گی۔ تم جوتیوں کے آگے سر جھکاؤگے اور عماموں کو پامال کروگے۔ ٭…بازاروں میں رات کے وقت سورج سوا نیزے پر جگہ جگہ ہوں گے اور سہانی روشنی دیں گے مگر اُس وقت تمہاری بصارت اور بصیرت میں خلل پڑ جائے گا۔ ٭…خیرات لینے اور دینے کے نئے نئے ڈھنگ نکل آئیں گے، نفسی نفسی کی پکار ہوگی، کوئی کسی کے نیک اور بد سے سروکار نہ رکھے گا۔ ٭…خدا کے نام کے بغیر کتابیں لکھی جائیں گی۔ تمہارا لکھنا لوہے کا محتاج ہوگا اور کتابیں بھی لوہے کی دستکاری سے تیار ہوں گی۔ آدمی اپنے خیالات دوسرے ملکوں اور شہروں کے باشندوں کو آن کی آن میں بھیج دیا کریں گے۔ ٭…غریب اور مفلس امیروں کی برابری چاہیں گے۔ تم سے دس قسم کی زکوٰۃ لی جائے گی۔ ٭…تلواریں نیاموں سے تڑپ تڑپ کر نکلیں گی، آگ کی بارش ہوگی جس میں آگ کے بھاری اولے ہوں گے جو آدمیوں کو دم بھر میں تباہ و برباد کردیں گے۔ ٭… تمہاری عورتیں ہتھیار باندھ کر میدان میں جائیں گی، ہر باشندے کو جنگ کا بلاوا آئے گا، یہ جنگ دین اور ملک کے لیے نہ ہوگی بلکہ خدا کا قہر ہوگا جو بندوں پر نازل ہوگا۔ زمین بھی لاشوں کو اپنے اندر نہ آنے دے گی۔ وہ بڑا ہولناک زمانہ ہے۔ تم اگر اس زمانے میں موجود ہو تو ہر وقت اللہ تعالیٰ سے توبہ کرو، خدا کے حضور سجدے میں گرکر پناہ مانگو، خداوندتعالیٰ ہی تم کو اس تباہی و بربادی سے نجات دے سکتا ہے۔ خدا کے نیک بندوں کو اس وقت گھبرانا نہیں چاہیے۔ جو اپنے خالق حقیقی کا دامن تھام لیں گے، اُن کو وہ عافیت دے گا۔ ………٭………٭………٭……… اوساکا (Osaka) جاپان جاپان کے اہم صنعتی، تجارتی اور ثقافتی مرکز اور مشہور بندرگاہ اوساکا کے بارے میں ایک مختصر معلوماتی مضمون (مرسلہ مکرم امان اللہ امجد صاحب) روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ ۱۷؍جولائی ۲۰۱۴ء میں شامل اشاعت ہے۔ دارالحکومت ٹوکیو کو جاپان کا سیاسی مرکز جبکہ اوساکا کو تجارتی مرکز کہا جاتا ہے کیونکہ ملک کا چالیس فیصد کاروبار اسی شہر میں ہوتا ہے۔ یہاں کپڑا، چینی، دھات کی مصنوعات اور جہازسازی کے کارخانے ہیں۔ یہ جاپان کا تیسرا بڑا شہر ہے۔ اس کا ایک حصہ ایک جزیرے پر واقع ہے۔ شہر میں ستّر نہریں اور ایک ہزار سے زیادہ پُل ہیں۔ قریباً دو ہزار سال قبل اوساکا جاپان کا صدرمقام تھا۔ ۱۹۹۵ء میں کوبے شہر میں آنے والے زلزلے سے اوساکا بھی متأثر ہوا۔ تاہم اب دونوں شہر باہم ایک ہی ہوچکے ہیں۔ تعلیمی اعتبار سے اوساکا بہت ترقی یافتہ ہے یہاں ایک سو سے زائد کالج اور یونیورسٹیاں ہیں۔ یہاں کی قدیم ترین اوساکا یونیورسٹی کا قیام ۱۵۸۴ء میں عمل میں آیا تھا۔ ایک بار یہ شہر آتشزدگی سے تباہ بھی ہوچکا ہے جس کے بعد ۱۸۷۱ء میں اسے ازسرِنَو تعمیر کیا گیا تھا اور یہاں زیرزمین ریلوے کا نظام بھی قائم کیا گیا تھا۔ ………٭………٭………٭……… روزنامہ ’’الفضل‘‘ربوہ یکم نومبر۲۰۱۴ء میں محرم الحرام کی اہمیت کے حوالے سے کہی گئی مکرم اطہر حفیظ فراز صاحب کی ایک نظم شامل اشاعت ہے۔ اس نظم میں سے انتخاب ہدیۂ قارئین ہے: یہ اِک حسرت پرانی ہے ، اسی خواہش پہ جینا ہےسبو ساغر اُٹھا لاؤ! شہادت جام پینا ہےمرے رہبر کا فرماں ہے ، سنو تم اے جہاں والو!درود پاک کثرت سے ، محرم کا مہینہ ہےیزیدی طاقتیں اِک دن خود اپنے سر کو پھوڑیں گیمحبت آل سے کرلو کہ یہ جنت کا زینہ ہےذرا سا بغض بھی رکھا حسینؓ ابن علیؓ سے جوہے موجب سلبِ ایماں کا ، یہ اِک واضح قرینہ ہےوہ طاہر بھی ، مطہر بھی وہ سردارِ عدن بھی ہےجو مہدیؑ نے بیاں کی ہے کسی نے بھی کہی نہ ہےتجھی سے ہے وجود اپنا ، تجھی پہ جان قرباں ہےجو تجھ سے ہٹ کے جینا ہے ، بھلا کوئی یہ جینا ہےمحمدؐ کے چراغوں کی وفا سے لَو بڑھائیں گےمگر سب کچھ دعاؤں سے اگرچہ زخمی سینہ ہے مزید پڑھیں: سقراط ۔ ایتھنز کی بَڑ مکھی