سابق وکیل المال ثالث تحریک جدید ربوه ’’ہر قدم پر ان سے وابستہ ہیں یادیں بیشمار‘‘ موت کا ایک وقت مقدر ہے۔ مخلوقات میں سے کسی کو بھی اس سے استثناء نہیں۔ مبارک ہے جو اپنی زندگی کے اوقات خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لیے صرف کرتا ہے اور آخر کار سرخرو ہو کر اپنے مولیٰ کے حضور حاضر ہو جاتا ہے۔ میرے والد قاضی محمد رشید صاحب مرحوم و مغفور اُن ہی لوگوں میں سے تھے جنہوں نے مقدور بھر اپنے مقصد حیات کو پالیا اور فَمِنۡہُمۡ مَّنۡ قَضٰی نَحۡبَہٗ کے مصداق ٹھہرے۔ یعنی جنہوں نے اپنی قربانیوں کو پورا کر دکھایا۔ وفات پا جانے والوں کا یہ حق ہوتا ہے کہ ان کے اچھے کاموں سے ان کو یاد کیا جائے تاکہ دوسروں کے لیے تحریک و تحریص و ترغیب کا باعث ہو۔ خاندانی حالات : ہمارے ابا جان خانصاحب قاضی محمد رشید ریٹائرڈ سویلین گزیٹڈ آفیسر (C.G.O) و سابق وکیل المال ثالث تحریک جدید ربوه مورخہ ۳؍ستمبر ۱۸۹۷ء کو موضع حاجی پورہ ضلع سیالکوٹ میں محترم حکیم مولوی محمد اعظم انصاری صاحب اور محترمہ سکینہ بی بی صاحبہ کے ہاں پیدا ہوئے۔ آپ چھ بہن بھائیوں ( چار بھائی اور دو بہنوں) میں سب سے بڑے تھے۔ مولانا محمد سعید انصاری صاحب مبلغ بورنیو، ملائیشیا، سنگا پور و انڈونیشیا آپ کے سب سے چھوٹے بھائی تھے۔ آپ نے پرائمری تک تعلیم موضع منڈی کرال ضلع گورداسپور میں حاصل کی۔ میرے دادا جان حکیم تھے اور اسی نسبت سے ان کے حضرت خلیفۃالمسیح الاوّل رضی اللہ عنہ سے ذاتی تعلقات تھے۔ اس لیے انہوں نے ابا جان کو مزید تعلیم کے لیے قادیان بھجوادیا۔ جہاں انہیں چھٹی جماعت سے لے کر نویں جماعت تک تعلیم حاصل کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ یہیں سے احمدیت ان کے دل میں رچ بس گئی۔ ابا جان قرآن کریم کے عاشق تھے۔ میرے بڑے بھائی صاحب سے ابا جان نے بیان کیا کہ جب آپ تعلیم الاسلام ہائی اسکول قادیان میں داخل ہوئے تو آپ کی رہائش قادیان کے ایک قریبی گاؤں’’ ڈَلَّہ‘‘ میں تھی۔ ان دنوں حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ نوجوانوں کے لیے قرآن مجید کا درس ( جسے عرف عام میں ‘‘میاں عبدالحئی والا درس’’ کہا جاتا تھا) مسجد اقصیٰ میں نماز عصر کے بعد دیا کرتے تھے۔ میرے والد صاحب تو خود اس درس میں شامل نہ ہو سکتے تھے کیونکہ انہیں تو اپنے رہائشی گاؤں ڈَلَّہ میں پہنچنا ہوتاتھا۔ اس لیے وہ چھٹی ہونے پر اپنا بستہ ڈیسک کے اندر رکھ کر خالی ہا تھ گاؤں کی طرف پیدل روانہ ہو جاتے۔ صاحبزادہ عبدالحئی صاحب آپ کے کلاس فیلو تھے اور وہ جانتے تھے کہ میرے والد صاحب کی لکھائی بہت اچھی ہے اس لیے میاں صاحب اپنے درس کے نوٹس والد صاحب سے خوشخط کرایا کرتے تھے جس سے ابا جان حافظہ اچھا ہونے کے باعث درس میں چھٹی ہونے پر بذات خود شامل نہ ہوتے ہوئے بھی پوری طرح مستفید ہوتے رہے۔ والد صاحب فرمایا کرتے تھے کہ درس میں شامل ہونے والوں نے تو شائد اتنا فائدہ درس سے نہ اٹھایا ہو جتنا میں نے درس کے نوٹس کو خوشخط لکھنے سے اٹھایا ہے۔اس درس کی برکت سے ابا جان کی قرآن کریم سے محبت آخری دم تک قائم رہی۔ جب وہ نویں کلاس میں تھے تو بیمار ہو گئے۔ بعد میں میٹرک کا امتحان جو ان دنوں ‘‘انٹرنس’’ کہلاتا تھا، پرائیویٹ طور پر لاہور سے پاس کیا۔ اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے آپ کو غیر معمولی بصیرت اور بہت زرخیز ذہن اور حافظہ عطا فر مایا تھا۔ انہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا معروف عربی قصیدہ ‘‘یَا عین فیض اللّٰہ والعرفانٖ’’ کے تمام اشعار زبانی یاد تھے۔ اور عموماً رات سونے سے پہلے دہرایا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ۱۹۱۱ء میں محض چودہ سال کی عمر میں حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کے ہاتھ پر اپنے والدین سے پہلے ہی بیعت کرنے کی توفیق عطا فرمائی۔ الحمد للہ علی ذالک خلافت سے وابستگی اور جماعتی خدمات و اعزازات: ہمارے ابا جان، حضرت خانصاحب مولوی فرزند علی کے توسط سے محکمہ آرڈ نینس میں بھرتی ہوگئے۔ فیروز پور (انڈیا) سےملازمت کا آغاز کیا اور رفتہ رفتہ ترقی کرتے ہوئے سویلین گزیٹڈافسر کے عہدہ سے ریٹائر ہوئے۔ آپ نے ۱۹۴۴ء میں اپنے آپ کو وقف کے لیے پیش تو کر دیا تھا لیکن حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ابھی اپنی سروس مکمل کریں۔ ۱۹۴۵ء میں دوران ملازمت برٹش گورنمنٹ نے آپ کو ’’خانصاحب‘‘ کا خطاب معہ تمغہ سے نوازا۔ اپنی ملازمت کے دوران آپ نے راولپنڈی، کوئٹہ اور پونا (انڈیا)میں بطور امیر جماعت اور نوشہرہ میں نائب امیر جماعت خدمات سرانجام دینے کی توفیق پائی۔ قادیان میں ایک جلسہ سالانہ اور ایک دفعہ خطبہ جمعہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کچھ ان الفاظ میں اظہار خوشنودی فرمایا کہ راولپنڈی کا امیر ایک نوجوان کلرک ہے لیکن جماعت میں اس کا رعب (اور تعاون) اس قدر ہے کہ اگر وہ جماعت کو کہتا ہے کہ کھڑے ہو جاؤ تو سب کھڑے ہو جاتے ہیں اور جب انہیں کہتا ہے کہ بیٹھ جاؤ تو سب کے سب بیٹھ جاتے ہیں۔ امیر ہوتو ایسا ہو۔ ابا جان سویلین گزیٹڈ آفیسر کے عہدہ سے ۲۴؍دسمبر ۱۹۵۲ء کو نوشہرہ ضلع پشاور سے ریٹائر ہوئے۔ ربوہ میں اپنا گھر بنوایا اوربطور وکیل المال ثالث تحریک جدید کئی سال تک خدمت کی توفیق پائی۔ مکرم چودھری حمیداللہ صاحب وکیل اعلیٰ تحریک جدید نے ابا جان کی وفات کے موقع پر میرے بڑے بھائی جان سے اس بات کا اظہار کیا کہ انہوں نے شعبہ مال کی ابتدائی تربیت ہمارے والد صاحب سے حاصل کی۔ آپ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک تہائی حصہ کے موصی تھے اور آپ کا وصیت نمبر ۱۵۳۵ تھا۔ آپ دوسرے چندہ جات میں بھی بھر پور حصہ لیتے تھے۔ تحریک جدید کے پانچ ہزاری مجاہدین میں نہ صرف خود شامل ہوئے بلکہ اپنے اہل وعیال ، والدین اور ہمشیرہ کو بھی اس مبارک تحریک میں شامل کرایا اور تادم آخر ان سب کی طرف سے بھی چندہ ادا کرتے رہے۔ تنخواہ ملتی تو سب سے پہلے چندہ جات کی رقوم علیحدہ رکھ لیتے پھر باقی ماندہ رقم سے گھر کا خرچ چلاتے۔ اس ضمن میں انہیں ہماری والدہ محترمہ کا پورا پورا تعاون حاصل رہا۔ تحریک جدید کا دفتر اول ۱۹۳۴ء سے شروع ہو کر جب دس سال بعد ۱۹۴۴ء میں ختم ہونے لگا تو اپنی سب سے چھوٹی بیٹی عزیزہ قانتہ شاہدہ اہلیہ عزیزم مکرم عطاءالمجیب راشد صاحب (امام مسجد فضل لندن) جن کی ولادت ۲؍فروری ۱۹۴۴ء میں ہوئی۔ ان کا دس سال کا چندہ اکٹھا ادا کر کے انہیں بھی دفتر اول میں شامل کروا لیا۔ میرا خیال ہے کہ عزیزہ قانتہ سلمہا غالباً پنج ہزاری مجاہدین تحریک جدید کی اس فہرست میں کم عمر ترین ممبرز میں سے ہیں۔ (یہاں میں یہ سمجھتی ہوں کہ اس چندہ کی برکت سے ہی ہماری اس بہن کو بھی اللہ تعالیٰ نے بہت سی جماعتی خدمات و اعزازات سے نوازا ہے) اسی طرح ہمارے والد صاحب نے اپنے سات بچوں کو دفتر اول کا ممبر بنا یا۔ فجزا ہم اللہ تعالیٰ۔ آپ مرکز سے موصولہ ہر حکم اور تحریک پر عمل کرنے کے لیے ہر دم کمر بستہ رہتے۔ یہ نومبر ۱۹۴۱ء کی بات ہے جبکہ جنگ عظیم دوم ابھی ختم نہ ہوئی تھی اور ابا جان اپنی ملازمت کے سلسلہ میں بمبئی ( حال ممبئی) میں مقیم تھے اور مولوی محمد دین صاحب شہید مبلغ البانیہ جس بحری جہاز میں بمبئی سے روانہ ہوئے تھے وہ جہاز دوتین دن بعد ہی ڈوب گیا۔ جو لوگ زندہ بچے انہیں بمبئی لایا گیا۔ چنانچہ مولوی صاحب موصوف شہید کی شہادت کی تصدیق و تحقیق کا کام حضرت خلیفۃ المسح الثانی رضی اللہ عنہ نے ابا جان کے سپرد کیا۔ انہوں نے اس حادثہ سے زندہ بچ جانے والے لوگوں سے رابطہ کرکے ایک عینی شاہد سے گواہی لے کر حضورؓ کی خدمت میں قادیان رپورٹ بھجوائی تھی۔ مکرم احمد علی صاحب آف راولپنڈی اپنے ایک مضمون میں (جو اپریل ۱۹۶۶ء کے روز نامہ الفضل میں شائع ہو چکا ہے بیان کرتے ہیں کہ ’’۱۹۴۱ء میں جب خان صاحب خرطوم (سوڈان) میں جنگ عظیم دوم کے دوران مقیم تھے تو وہاں آپ کے خلاف کسی مخالف نے رپورٹ کر دی کہ یہ ایک ایسے گروہ سے تعلق رکھتے ہیں جو حکومت برطانیہ کے خلاف سازشیں کرتا رہتا ہے۔ قریباً دو صد صفحات کی فائیل کا پلندہ جب پولیس ان کے انگریز افسر کے پاس لے کر آئی تو اس انگریز افسر نے پولیس کو تو واپس بھجوا دیا اوراپنی طرف سے قاضی محمد رشید صاحب کے متعلق نہایت شاندار الفاظ میں رپورٹ لکھی کہ جن لوگوں کے متعلق اس رپورٹ میں ذکر ہے وہ گورنمنٹ کے حقیقی خیرخواہ ہیں اور حکومت کے اہم ذمہ داری کے کاموں کے روح رواں ہیں۔ قاضی محمد رشید میرا ڈیوٹی کلرک ہے۔ اس کے متعلق مَیں اتنا جانتا ہوں کہ میں نے اپنی ساری سروس کے دوران جو میں نے ہندوستان میں کی ہے اس سے زیادہ پکا اور سچا مسلمان نہیں دیکھا۔‘‘ ایک دفعہ ( غالباً ۱۹۵۱ء میں ) نوشہرہ میں ہماری جماعت کے خلاف مخالفین نے ایک جلسہ منعقد کرنے کا پروگرام بنایا۔ باہر سے ان کے مولوی بھی آگئے اور نہایت اشتعال انگیز اشتہارات شہر کی دیواروں پر چسپاں کر دیے گئے۔ جلسہ سے ایک روز قبل جماعت کے سرکردہ افراد حکام بالا سے ملے بھی مگر کوئی شنوائی نہ ہوئی۔ شام کو میں جناب خانصاحب کی خدمت میں گیا اور آپ کو سارا واقعہ سنایا۔ آپ نے فرمایا اگر ابھی کوئی اور بالا افسر رہتا ہو تو پہلے اس سے مل لو۔ میں نے عرض کیا اب اور کس سے ملیں۔ فرمایا ان دنیاوی افسروں سے بالا ایک اور ہستی بھی ہے جسے خدائے علیم و خبیر کہتے ہیں اس سے کیوں نہیں ملتے۔ پھر فرمایا آپ تمام احباب جماعت کے پاس میری یہ درخواست لے کر جائیں کہ جس جگہ مخالفین جلسہ کرنا چاہتے ہیں، آج رات میں وہاں تہجد کی نماز پڑھوں گا۔ اگر دوست جماعت تہجد میں شریک ہونا چاہیں تو رات کے دو بجے وہاں آجائیں۔ قریباً چالیس احباب نے محترم جناب خانصاحب کی معیت میں نماز تہجد نہایت خشوع و خضوع سے ادا کی۔ اور سچ تو یہ ہےکہ جماعت میں روحانیت کی ایک رَو جو بجلی سے بھی زیادہ تیز تھی آگئی۔ خدا کا کرنا ہوا کہ اگلے روز صبح سویرے ہی حکومت کی طرف سے ہرقسم کے جلسہ جلوس پر پابندی عائد کر دی گئی۔ الحمد لله۔ اپنے اسی مضمون میں مکرم احمد علی صاحب مزید بیان کرتے ہیں کہ ۱۹۳۵ء کا ایک واقعہ مکرم چودھری عبدالرشید خان صاحب نے انہیں بتایا کہ کوئٹہ میں زلزلہ کے بعد حکومت بلوچستان نے تمام محکموں کے نام ایک حکم نامہ بھیجا جس میں تحریر تھا کہ کوئٹہ میں زلزلہ کی وجہ سے جو نقصان ہوا ہے حکومت کو مسلمانوں کے متعلق بہت فکر ہے۔ دیگر قوموں میں تو کوئی شرعی قانون نہیں ہے مگر مسلمانوں کے ہاں شرعی قانون موجود ہے اس لیے تشویش ہے کہ کوئی بے انصافی نہ ہو جائے اس لیے کسی بہترین عالم کی ضرورت ہے جو نہ صرف شرعی قانون سے واقف ہو بلکہ حکومت کی اس اہم معاملہ میں صحیح راہنمائی بھی کرسکے۔ کوئٹہ میں جو انگریز کرنل ڈیپو کے کمانڈنگ آفیسر تھے انہوں نے قاضی صاحب موصوف کا نام بغیر ان سے مشورہ کیے پر زور سفارش کے ساتھ پیش کر دیا۔ چنانچہ آپ حکومت کی طرف سے اس اہم کام کی انجام دہی کے لیے مقرر کر دیے گئے۔ اس طرح ابا جان کو خدا تعالیٰ کےفضل سے مسلمانوں کی خدمت کا ایک اہم موقع مل گیا۔الحمد لله۔ آنمکرم ( احمد علی صاحب) کے پاس چودھری عبداللہ خانصاحب آف را ولپنڈی نے بیان کیا کہ ایک بار کوئٹہ میں جماعت نے سیرۃ النبیﷺ کا جلسہ منعقد کیا۔ جس میں بہت سے غیر از جماعت پٹھان شریک ہوئے۔ اگر چہ دیگر مقررین کی تقاریر بھی بہت عمدہ تھیں مگر قاضی صاحب کی تقریر میں ایک خاص چاشنی تھی جس کا اثر یہ ہوا کہ جلسہ کے ختم ہوتے ہی پٹھانوں نے انہیں گھیر لیا۔ کوئی پاؤں کو چھوتا، کوئی گھٹنوں کو چومتا اور ساتھ ساتھ وہ یہ مطالبہ بھی کرتے جاتے ’’آقاتعویذ!، آقا تعویذ ! ‘‘مگر قاضی صاحب جواباً یہی کہتے رہے : بھئی جانے دو۔ ہم تعویذ وغیرہ نہیں دیتے ہم تو صرف دعا کرتے ہیں۔ ابا جان کی خلافت سے وابستگی کی ایک مثال پیش کرتی ہوں۔ حضرت مصلح موعودؓ جومولانا نور الحق صاحب (ابوالمنیر) کے رشتہ کے لیے کئی احباب کو تحریک کرچکے تھے لیکن کوئی بات بن نہ سکی۔ اس پر حضرت مصلح موعودؓ نے ۱۹۴۴ء میں میری بڑی ہمشیرہ مکرمہ صفیہ صدیقہ صاحبہ کا رشتہ مولانا ابو المنیر نورالحق صاحب کے ساتھ از خود تجویز فرمایا تھا اور مولوی صاحب موصوف سے فرمایا تھا کہ اب میں آپ کے رشتہ کے لیے ایک ایسے شخص کو لکھوں گا جو انکار کرنا نہیں جانتا اور میرے پسینہ کی جگہ اپنا خون بہانا جانتا ہے۔ ابا جان اُس وقت اپنی ملازمت کے سلسلہ میں سکندر آباد دکّن میں مقیم تھے۔ حضورؓ نے ابا جان کو رشتہ کے بارے میں لکھا اور مولوی صاحب کا ذکر کرتے ہوئے پوچھا کہ کیا آپ اس شخص کو جانتے ہیں ؟ ابا جان نے نہایت فدائیت کے رنگ میں جواب دیا کہ ’’ میں نہ اس شخص کو جانتا ہوں اور نہ ہی مجھے جاننے کی کوئی ضرورت ہے۔ میں تو صرف اپنے مرشد کو جانتا ہوں۔‘‘ اس طرح یہ رشتہ خلیفۂ وقت کے ہاتھوں دعاسے طےہوا اور بہت بابرکت ثابت ہوا۔ الحمدلله۔ ابا جان احمدیت کے فدائی اور بہت دعا گو بزرگ تھے۔ تبلیغ کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے۔ زندگی بھر دین کو دنیا پر مقدم رکھا۔ خدمت خلق کے جذبہ سے سرشار نہایت متوکل انسان تھے۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد ، دونوں کا بہت خیال رکھتے تھے۔ والدین کے نہایت فرمانبردار ، رشتہ داروں سے صلہ رحمی کرنے والے اور مہمان نواز تھے۔ آپ کی شادی حضرت مولوی محمد عبد اللہ صاحب بوتالویؓ اور حضرت امۃالعزیز صاحبہؓ (دونوں صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام) کی بڑی صاحبزادی محترمہ امۃالحمید بیگم صاحبہ سے ۱۹۱۹ء میں ہوئی۔ ( انہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی متبرک لسی پینے کا اعزاز بھی حاصل تھا۔ نیز لوائے احمدیت کے لیے سوت کات کر دھاگہ بنانے کی سعادت بھی حاصل ہوئی۔ ) آپ کا نکاح حضرت مصلح موعودؓ نے حج کے روز مسجد مبارک قادیان میں پڑھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس جوڑے کو دس بچوں سے نوازا۔ ان میں سے ایک بچہ صغر سنی میں فوت ہو گیا اور ایک شادی شدہ بیٹی رضیہ عفیفہ اہلیہ مکرم خالد ہدایت بھٹی صاحب لاہور جنوری ۱۹۵۴ء میں ایک سوا سال کا بچہ چھوڑ کر داغ مفارقت دے گئیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ یہاں میں دعا کی تحریک کی غرض سے اپنے دادا جان مرحوم و مغفور مولوی حکیم محمد اعظم انصاری صاحب کا ذکر کرنا بھی ضروری سمجھتی ہوںجو اپنے پہلے پوتے مکرم مبارک احمد انصاری صاحب کی ولادت کے دن سے اپنی وفات تک نہایت التزام سے ان کے لیے روزانہ دو نفل ادا کرتے رہے اور کبھی ناغہ نہ ہونے دیا۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔ آمین ہمارے ابا جان بچوں کی تعلیم اور تربیت کا خاص خیال رکھتے تھے۔ باوجود پنجابی ہونے کے آج سے بیاسی برس قبل بچوں کو اردو زبان سکھائی تاکہ تعلیم حاصل کرنے اور حضرت مسیح موعودؑ کی کتب پڑھنے اور سمجھنے میں آسانی رہے اور کھیل ہی کھیل میں ہم بچوں کو علم الاعداد بھی سکھا دیا۔ الغرض بچوں کی تربیت اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت عمدہ رنگ میں کرنے کی توفیق پائی۔ گھر میں دینی ماحول دیا۔ اعلیٰ تعلیم دلوائی اور آٹھ بچوں کی وصیت اپنی زندگی میں کروائی اور اپنے چھوٹے بیٹے سے کہا کہ جب تمہاری عمر اٹھارہ سال ہو جائے تو پھر تم بھی وصیت کر لینا ( چنانچہ ایسا ہی کیا گیا ) آپ کہا کرتے تھے کہ ہم جماعت کا بوجھ اٹھانے کے لیے پیدا کیے گئے ہیں، جماعت پر بوجھ ڈالنے کے لیے نہیں۔ آپ کی خواہش تھی کہ آپ کے سب بیٹے واقف زندگی ہوں۔ دو بیٹے تو ان کی زندگی میں ہی حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے دور خلافت میں وقف میں آچکے تھے۔ دو بعد میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کے دور میں آئے۔ چنانچہ مکرم مبارک احمد صاحب انصاری ایم ایس سی ریٹائرڈ پروفیسر آف کیمسٹری ٹی آئی کا لج ربوہ اور بعد ازاں بطور پروفیسر جامعہ احمدیہ کینیڈا، خدمت سرانجام دی۔ اور مکرم رفیق احمد ثاقب صاحب ایم ایس سی ( کیمسٹری) نے قریباً تیرہ سال ٹی آئی کالج ربوہ میں کام کیا اور پھر بطور پرنسپل فضل عمر احمد یہ سیکنڈری سکول کانو نائیجیریا میں بیس سال کے قریب خدمت کا موقع ملا۔ آپ بھی اباجان کی زندگی میں ہی اپنے آپ کو وقف کے لیے پیش کر چکے تھے۔ جبکہ محترم منیر احمد منیب صاحب سابق پرنسپل احمد یہ بشیر ہائی سکول کمپالہ یوگنڈا ( حال پروفیسر و نائب پرنسپل جامعہ احمدیہ ) اور چوتھے بھائی محترم ڈاکٹر لئیق احمد انصاری صاحب آف گیمبیا ، آئیوری کوسٹ و کینیا (حال فضل عمر ہسپتال ) نے خلافت ثالثہ کے دور میں وقف کیا اور خدمات بجا لانے کا موقع بفضلہ تعالیٰ پایا۔ اسی طرح آپ کے تین داماد مولانا ابوالمنیر نورالحق صاحب مرحوم (مدفون بہشتی مقبرہ ربوہ) ، مکرم لطف الرحمٰن شاکر صاحب ریٹائرڈ فضل عمر ہسپتال ربوہ (حال جرمنی) اور مولانا عطاء المجيب راشد (امام مسجد فضل لندن) بھی واقف زندگی ہیں۔ ذالك َفضل اللّٰه يُؤتيهِ من يَّشَاء۔ یہاں خاکسار اپنے سب بھائیوں کے وقف سے متعلق کچھ ایمان افروز باتیں مختصراً بیان کرنا ضروری سمجھتی ہے۔ ۱۹۵۴ء میں جبکہ ہمارے ابا جان ربوہ میں وکیل المال ثالث تحریک جدید تھے تو آپ نے ایک روز حضرت خلیفۃالمسیح الثانی ؓسے ذکر کیا کہ میرے بڑے بیٹے (مبارک احمد انصاری) ایم ایس سی کرچکے ہیں۔ اور عزیز نے ۱۹۴۴ء سے وقف کیا ہوا ہے تو حضورؓنے فرمایا کہ بیٹے کو صبح میرے پاس بھیج دیں۔ حضورؓ نے خود انٹرویو لیا اور اگلے روز کالج میں ڈیوٹی پرحاضر ہونے کو کہا۔ چنانچہ وہ حاضر ہو گئے اور کام شروع کر دیا۔ ۱۹۵۶ء میں جب آپ کے دوسرے بیٹے ( رفیق احمد ثاقب) نے بھی ایم ایس سی کرلی تو آپ نے حضوؓر کو اس کی اطلاع دے دی۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثانی ؓنے حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحبؒ جو اس وقت ٹی آئی کالج ربوہ کے پرنسپل تھے سے فرمایا کہ قاضی صاحب کا دوسرا بیٹا جس نے وقف کیا ہوا ہے اسے بھی کالج میں لگالیں نیز یہ بھی فرمایا کہ یہ ایک مخلص گھرانے کا نوجوان ہے اور ایم ایس سی کر کے آیا ہے۔چنانچہ اس وقت ان کی بھی اسی کالج میں تقرری ہو گئی گو کہ تیرہ سال بعد انہیں نائیجیریا مغربی افریقہ بھجوا دیا گیا جہاں انہیں تقریباً بیس سال کام کرنے کا موقع ملا۔ الحمد لله ۱۹۶۸ء میں تیسرے بیٹے (عزیزم منیر احمد منیب صاحب) اپنی تعلیم کی تکمیل کے بعد از خود حضرت خلیفةالمسیح الثالث ؒکی جلسہ سالانہ کی تقریر میں تحریک کے نتیجہ میں وقف کے لیے پیش ہو گئے جسے قبول کر لیا گیا اور انہیں کمپالہ یوگنڈا (مشرقی افریقہ) میں پہلے تو بطور سائنس ٹیچر اوربعد میں بطور پرنسپل کام کرنے کا موقع ملا۔ چوتھے بیٹے ڈاکٹرلئیق احمد انصاری نے ۱۹۷۴ء کے فسادات کے بعد نشتر میڈیکل کالج ملتان سے MBBS پاس کر کے اپنی تعلیم مکمل کی۔ (فسادات کی وجہ سےکچھ حصہ امتحان کا جو رہ گیا تھا اس کی تکمیل بہاولپور اور لاہور سے کی۔ )حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ نے ایک مرتبہ بڑے بھائی جان (مبارک احمد انصاری ) کو پیغام بھیجا کہ وہ حضورؒ سے ملیں۔ جب ملاقات ہوئی تو حضورؒ نے فرمایا کہ آپ کے چھوٹے بھائی ڈاکٹر لئیق احمد انصاری ڈاکٹر بن چکے ہیں آپ ان کو ترغیب دلائیں کہ وہ نصرت جہاں سکیم کے تحت کم از کم تین سال کے لیے اپنی زندگی وقف کریں کیونکہ جماعت کو مغربی افریقہ کے لیے ڈاکٹروں کی بہت ضرورت ہے۔ چنا نچہ عزیزم لئیق احمد صاحب نے تین سال کے لیے وقف کر دیا۔ انہیں گیمبیا بھجوادیا گیا۔ تین سال بعد حضوؒر نے عزیز کو لکھا کہ میں چاہتا ہوں کہ آپ مزیدتین سال کے لیے وقف کر دیں۔چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔ مزید تین سال گزارنے کے بعد انہوںنے از خود پوری عمر کے لیے ہی اپنے آپ کو وقف کر دیا۔ الحمدلله ابا جان قرآن کریم کے عاشق تھے۔ بہت کثرت سے پڑھتے اور پڑھاتے۔ آخر عمر میں چند ریٹائرڈ دوستوں کے ساتھ جن میں حضرت شیخ فضل احمد بٹالوی صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حاجی ملک محمد عبدالله صاحب سابق نائب ناظر بیت المال ربوہ، خواجہ عبیداللہ صاحب انجینئر (جو خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس صاحبؓ کے خسر تھے) اور چند اَور احباب بھی شامل ہو جاتے اور مل بیٹھ کر قرآن کریم کے معانی پر غور کرتے تھے۔ یہ بیس جنوری ۱۹۷۱ء کا واقعہ ہے (جبکہ ہمارے ابا جان کی وفات ہو چکی تھی ) کہ حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ ہمارے تیسرے بھائی منیر احمد منیب کی شادی میں ( جو امۃالحکیم لئیقہ بنت مولانا ابوالعطاء صاحب سے ہوئی) بنفس نفیس شامل ہوئے۔ ان کے گھر پر ’’بیت العطاء‘‘ لکھا ہوا دیکھ کر ساتھ والے گھر یعنی ہمارے والد صاحب کے گھر کی نسبت فرمایا کہ اس گھر کا نام ’’بیت الوفا‘‘ہونا چاہیے۔ ابا جان کو علمی ذوق بہت تھا۔ اردو ،انگریزی ، پنجابی، عربی اور فارسی پر عبور حاصل تھا۔ اور ان زبانوں میں بہت اچھی نظمیں بھی کہیں۔ اباجان کی ایک اردو کی طویل نظم میں سے کچھ منتخب اشعار بطور نمونہ پیش کر رہی ہوں جو انہوں نے ۱۹۵۹ء میں اپنے پہلے پوتے عزیزم مبشر احمد شہاب (حال کینیڈا) کی تیسری سالگرہ کے موقع پر کہی : حمد و ثناء اسی کو جو صنعتِ جہاں ہے صنعت سے اس کی ظاہر صانع مگر نِہاں ہے اک وقت تھا کہ بچہ کوئی نہ اپنے ہاں تھا وحشت کدہ وہی اب پُررونق آشیاں ہے ماضی کی تلخیاں سب تُو نے بھلا دیں یا رب ان کی بجائے بر لب اک میٹھی داستاں ہے اولاد پہلے دی پھر اولاد نافلہ دی لبریز قلب میرا از شُکر و اِمتناں ہے ابا کا سایہ سر پر اس کے رہے خدایا یا رب بہو سلامت پوتے مِرے کی ماں ہے ماں باپ خوشیاں دیکھیں اور ان کے والدین بھی اور سب پہ فضلِ ربی جو حرزِ بیکساں ہے اپنی اسی نظم کے آخر میں وصیت کے طور پر ابا جان کا پیغام اپنےسب بچوں کے نام ملاحظہ ہو: تم سب کو پیارے بچو میری ہے یہ وصیت اللہ کو یاد رکھنا مسلم کا یہ نشاں ہے دنیا ہے ایک جِیفہ اک مزبلہ کثیفہ ہاں اِک کنیف گندی جو جائے امتحان ہے حرص و ہوا و لالچ خود غرضی شُحّ نفسی یہ مار آستیں ہیں یہ فوجِ رہزناں ہے اس سے نہ دل لگانا عُقبیٰ کا گھر بنانا دار القرار وہ ہے جانا ہمیں جہاں ہے کرتے رہو عبادت اللہ کی اطاعت در آیَہ مَاخَلَقْتُ… جوغرضِ اِنسْ جاں ہے کچھ کہہ دیا زبان سے باقی بھرا ہے دل میں یا رب تُو خوب جانے دل کی کہ رازداں ہے ابا جان نے اپنی آخری نظم اپنی چھوٹی بیٹی ’’قانتہ‘‘ کے بی اے کے امتحان میں پنجاب بھر میں اول آنے اور دو طلائی تمغے حاصل کرنے پر ۱۹۶۴ء میں فارسی زبان میں کہی تھی جس میں انہوں نے ستائش خداوندی کے علاوہ حضرت چھوٹی آپا صاحبہ رحمہ اللہ حرم حضرت مصلح موعودؓ (ڈائریکٹرس جامعہ نصرت کالج ربوہ) اور مسز فرخندہ شاہ صاحبہ ( پرنسپل ہذا ) مرحومہ کی توجہ، دعاؤں اور ان کی کاوشوں کو بہت سراہا تھا۔ مکرم چودھری شبیر احمد صاحب وکیل المال (اول) تحریک جدید ربوه روزنامہ الفضل ربوه مورخہ ۱۹؍اپریل ۱۹۶۶ء کے پرچہ میں تحریر فرماتے ہیں :’’غالباً ۱۹۴۹ء کی بات ہے کہ بسلسلہ ملازمت مجھے نوشہرہ جانا پڑا۔ جمعہ کا دن آیا تو معلوم ہوا کہ جماعت کے کوئی بزرگ قاضی محمد رشید صاحب ہیں۔ ان کے دولت کدہ پر نماز ادا کی جائے گی۔ چنانچہ خاکسار دریافت کرتے کراتے وہاں پہنچ گیا۔ اس سے پہلے مجھے جناب قاضی صاحب موصوف سے کوئی تعارف نہ تھا۔ خطبہ جمعہ کے لیے جو بزرگ کھڑے ہوئے ان کی وضع قطع و خدو خال، حرکت و سکون، غرضیکہ ہر جہت سے بزرگی اور تقویٰ کے آثار نمایاں طور پر نظر آئے۔ خطبہ کے لیے لب کشائی ہوئی تو ایک ایک لفظ دل میں اترتا گیا۔ کیا بلحاظ تلفظ اور کیا بلحاظ وسعت ِمعانی ، خطبہ کا مضمون بڑا دلنشین اور جامع تھا۔ اور میں یہ معلوم کر کے حیران رہ گیا کہ خطیب ہمارے مرکزی علماء میں سے نہیں بلکہ ایک سرکاری محکمہ کے آفیسر تھے۔ لیکن عربی، اردو اور دینیات کا علم اتنا ٹھوس کہ کسی مسئلہ کی وضاحت کے وقت کوئی پہلو تشنہ نہیں رہنے دیا جاتا۔ یہ تھے وہ تاثرات جو خاکسار نے حضرت قاضی محمد رشید صاحب کی پہلی ملاقات ہی میں اخذ کیے‘‘ ابا جان مرحوم تقریباً ایک ماہ بیمار رہے۔ بیماری کے دوران امی جان کو ہدایات دیں کہ مجھے کھلے پانی سے غسل دیا جائے۔ دورانِ غسل پر دے (ستر) کا خاص خیال رکھا جائے۔ جن خواتین کا میری زندگی میں پردہ رہا ہے وہ بعد میں بھی میرا منہ نہ دیکھیں۔ تدفین میں دیر نہ کی جائے۔ اور میری وفات پر اونچی آواز سے کوئی نہ روئے۔ ۲۳؍فروری کو علاج کے لیے آپ کو پی اے ایف ہسپتال سرگودھا لے جایا گیا جہاں ۲۵؍فروری ۱۹۶۶ء بروز جمعۃالمبارک صبح سات بجے ہمارے پیارے ابا جان بعمر ۶۹ سال ۶ ماہ اپنے مولائے حقیقی سے جاملے۔اناللہ و انا الیہ راجعون۔ اسی روز جنازه ربوه لایا گیا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی اقتدا میں نماز عشاء کے بعد نماز جنازہ پڑھی گئی۔ آپ کی دینی خدمات کی وجہ سے آپ کو بہشتی مقبرہ کے قطعہ بزرگان میں جگہ ملی۔ الحمد للہ۔میں یہاں یہ بتا دوں کہ جب میت سرگودھا سے ربوہ اپنے مکان پر پہنچی تو ساتھ والےاپنے مکان کے دروازہ میں ہمارے خالو جان مولانا ابوالعطاء صاحب کھڑے تھے۔ انہوں نے بڑے بھائی صاحب سے قرآن مجید کی آیت کے یہ الفاظ پڑھ کر تعزیت کی ’’ وَمَا تَدۡرِیۡ نَفۡسٌۢ بِاَیِّ اَرۡضٍ تَمُوۡتُ‘‘۔ اور کوئی ذی روح نہیں جانتا کہ کس زمین میں وہ مَرے گا۔ ۲۴ اور ۲۵؍فروری ۱۹۶۶ء کی درمیانی رات محمد ارشد صاحب سابق پروفیسر تعلیم الاسلام کا لج ربوہ و مغربی افریقہ نے خواب میں دیکھا کہ ایک کھلی جگہ میں حضرت خلیفہ اولؓ کا جنازہ رکھا ہوا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام جنازہ پڑھا رہے ہیں۔ انہیں یہ خواب بہت عجیب معلوم ہوئی۔ تو وہ حضرت حافظ مختار احمد صاحب شاہجہان پوریؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور تعبیر چاہی۔ حضرت حافظ صاحبؓ نے فرمایا کہ آج کسی ایسے شخص کی وفات ہوگی جس کا حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ کی طبیعت سے کچھ رنگ ملتا جلتا ہوگا۔ اسی اثناء میں ابا جان کی وفات کی خبر بھی پہنچ گئی تو فرمایا کہ یہ ہے آپ کے خواب کی تعبیر ہمارے محترم خالو جان مرحوم خالد احمدیت حضرت مولانا ابوالعطاءجالندھری صاحب نے الفضل ربوہ مورخہ ۱۸؍مارچ ۱۹۶۶ء میں ابا جان مرحوم کے متعلق یوں اپنے خیالات کا اظہار فرمایا: ’’میری موجودہ بیوی سے جو حضرت قاضی صاحب سے چھوٹی نسبتی بہن ہے۔ میری شادی ۱۹۳۰ء میں ہوئی تھی۔ اس وقت سے مجھے انہیں قریب سے دیکھنے کا موقع ملتا رہا۔ آپ خاموشی سے خدمت دین کرنے والے انسان تھے۔ راہِ خدا میں مال خرچ کرنا ان کا شعار تھا۔ تبلیغ اسلام اپنے دائرہ میں خوب کرتے تھے۔ تقویٰ شعار انسان تھے۔ صلہ رحمی میں قاضی صاحب ایک نمونہ تھے۔‘‘ ’’ہمارے بزرگ خسر حضرت مولوی محمد عبداللہ صاحب بوتالویؓ سے ان کی وفات تک قاضی صاحب مرحوم نے نہایت مخلصانہ اور خادمانہ تعلقات رکھے۔ حضرت مولوی صاحب کی دلی خواہش تھی کہ ان کے لڑکوں اور لڑکیوں کے مکانات ربوہ میں ایک جگہ ہوں۔ جب مجھے محترم قاضی صاحب کے ساتھ جگہ خریدنے کی توفیق ملی تو بہت خوش ہوئے۔ اور قاضی صاحب بھی جو میرے ہم زلف تھے، بہت مسرور تھے کہ اب تینوں بھائیوں کے علاوہ دو نوں بہنوں کے گھر بھی پاس پاس ہونگے۔ گذشتہ سے پیوستہ سال جب ’’بيت العطاء‘‘ کی تعمیر شروع ہوئی تو اخویم قاضی صاحب نے بہت دلچسپی لی اور مفید مشورے دئے۔ اور مکمل ہونے پر بہت خوش ہوئے۔ حضرت قاضی صاحب کی زندگی ذکر الٰہی میں گزرتی تھی۔ اپنے بچوں اور بچیوں کی تربیت کا بہت اہتمام فرماتے اور یہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل تھا کہ انہیں اس پہلو سے آنکھوں کی ٹھنڈک حاصل رہی اور وہ اس دنیا سے خوشی کے ساتھ گئے ہیں۔ غرض جہاں تک گھر اور اولاد کا تعلق ہے حضرت قاضی صاحب خاص خوش بخت انسانوں میں شامل ہیں۔‘‘ ’’میں جب مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش) کے سفر پر روانہ ہونے لگا تو ان کی حالت کمزور ہی تھی۔ میں پروگرام بنا کر دعا کرتے ہوئے روانہ ہو گیا۔ ان دنوں میری اہلیہ بھی بیمار تھیں۔ اللہ کے فضل سے میری بیوی تو چار پانچ روز میں صحتیاب ہو گئیں۔ حضرت قاضی صاحب کی بیماری بڑھتی گئی۔ عزیزم مولوی ابوالمنیر ( نورالحق) صاحب نے بتایا کہ قاضی صاحب مرحوم پوچھتے رہتے تھے کہ مولوی صاحب کب آئیں گے ؟ آج کتنے دن واپسی میں رہتے ہیں۔ میں ۲۲ فروری کی شام کو واپس ربوہ پہنچا تو اس وقت انہیں ضعف بہت زیادہ تھا اور غنودگی طاری تھی۔ مجھ سے خیریت پوچھنے کے بعد تین بار سلام کا لفظ دہرایا۔ پھر اپنے ایک بچے کو اس کا نام لے کر سلام کیا اور پھر یہ فقرہ ان کی زبان پر تھا ’’میری بہن کو سلام‘‘ اس آخری فقرہ پر میری طبیعت پر خاصی رقت طاری ہو گئی اور میں نے کہا انہوں نے صلہ رحمی کاحق ادا کر دیا۔‘‘ آخر میں ابا جان کے ایک خط کا عکس دیا جا رہا ہے جو انہوں نے اپنی جواں سال بیٹی رضیہ عفیفہ مرحومہ کی وفات پر حضرت خلیفۃالمسیح الثانی ؓکی خدمت میں تحریر کیا تھا اور اس کی دوسری جانب حضورؓ کی طرف سے اس کا جواب حضورؓ کے قلم سے تحریر کردہ بطور نمونہ پیش خدمت ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو اور ہماری اولادوں کو پکے اور سچے خلافت پر قائم رہنے والے احمدی مسلمان بنائے۔ آمین وَمَا توفيقي الا باللّٰهِ العَليِّ العظيم (صالحہ قانتہ بھٹی۔ امریکہ) مزید پڑھیں: ہمارے پرنسپل محترم میر محمود احمدناصر صاحب مرحوم