٭… آنحضرتؐ نے مکہ کے قریب خاموشی سے لشکر کو پہنچایا اور دس ہزار آگیں روشن کروائیں ٭… ہزاروں مسلمانوں کو آنحضورؐکی امامت میں نماز ادا کرتے ہوئے دیکھ کر ابوسفیان نے کہا کہ مَیں نے کسریٰ کا دربار بھی دیکھا ہے اور قیصر کا دربار بھی دیکھا ہے، لیکن اُن کی قوموں کو اُن کا اِتنا فدائی نہیں دیکھا، جتنا محمد (رسول اللهؐ) کی جماعت اُس کی فدائی ہے ٭… آپؐ نے بلال کا انتقام اِس طرح نہ لیا کہ تلوار کے ساتھ اُس کے دشمنوں کی گردنیں کاٹ دی جائیں ، بلکہ اُس کے بھائی کے ہاتھ میں ایک بڑا جھنڈا دے کر کھڑا کر دیا، اور بلال کو اِس غرض کے لیے مقرر کر دیا کہ وہ اعلان کر دے کہ جو کوئی میرے بھائی کے جھنڈے کے نیچے آ کر کھڑا ہو گا، اُسے امن دیا جائے گا۔ کیسا شاندار یہ انتقام تھا! کیسا حسین یہ انتقام تھا! ٭… فتح مکہ کے موقع پر آنحضرتؐ نے بدلہ لینے کے بجائے صلح اور معافی کا اعلیٰ نمونہ پیش کیا ٭… مکرمہ امینہ شہناز صاحبہ اہلیہ مکرم انعام الله صاحب آف لاہور کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲۷؍جون ۲۰۲۵ء بمطابق ۲۷؍احسان ۱۴۰۴؍ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے اميرالمومنين حضرت خليفة المسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے مورخہ ۲۷؍جون ۲۰۲۵ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت صہیب احمد صاحب(مربی سلسلہ) کے حصے ميں آئي۔ تشہد،تعوذاور سورة الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنےفرمایا: آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کا لشکر کے ساتھ خاموشی سے مکے کے قریب پہنچنے اور پڑاؤ ڈالنےکا ذکر ہو رہا تھا۔ آپؐ نے دس ہزار جگہ آگ روشن کروائی، ابوسفیان اور اُس کے ساتھیوں نے اِس چیز کو دیکھا اور سخت گھبرا گئے۔ اِس کی کچھ تفصیل پہلے بیان ہوئی تھی، اِس ضمن میں مزید تفصیل بیان کرتا ہوں، حضرت مصلح موعود رضی الله عنہ یہ تفصیل ایک جگہ کچھ اِس طرح بیان کرتے ہیں کہ چونکہ عباسؓ ابوسفیان کے پرانے دوست تھے، اِس لیے اُنہوں نے ابوسفیان سےاصرار کیا کہ وہ اِن کے ساتھ سواری پر بیٹھ جائے اور رسول اللهؐ کی خدمت میں حاضر ہو، چنانچہ اُنہوں نے اُس کا ہاتھ پکڑ کے اونٹ پر اپنے ساتھ بٹھا لیا اور اونٹ کو ایڑھ لگا دی۔ رسول اللهؐ کی مجلس میں پہنچے۔حضرت عباسؓ ڈرتے تھے کہ حضرت عمرؓ ، جو اُن کے ساتھ پہرے پر مقرر تھے، کہیں اُن کو قتل نہ کر دیں۔ لیکن رسول اللهؐ پہلے ہی فرما چکے تھے کہ اگر ابوسفیان تم میں سے کسی کو ملے تو اُسے قتل نہ کرنا۔ یہ سارا نظارہ ابوسفیان کے دل میں ایک عظیم الشان تغیر پیدا کر چکا تھا۔ابو سفیان نے دیکھا کہ چند ہی سال پہلےہم نے رسول اللهؐ کو صرف ایک ساتھی کے ساتھ مکے سے نکلنے پر مجبور کر دیا تھا۔ لیکن آج ابھی سات ہی سال گزرے ہیں کہ وہ دس ہزار قدوسیوں سمیت مکے پر بلا ظلم اور بلاتعدی کےجائز طور پر حملہ آور ہوا ہے اور مکے والوں میں طاقت نہیں کہ وہ اِس کو روک سکیں۔ چنانچہ رسول اللهؐ کی مجلس تک پہنچتے پہنچتے کچھ اِن خیالات کی وجہ سے اور کچھ دہشت اور خوف کی وجہ سے ابو سفیان مبہوت ہو چکا تھا۔ رسولِ کریمؐ نے اُس کی یہ حالت دیکھی تو حضرت عباسؓ سے فرمایا کہ ابوسفیان کو اپنے ساتھ لے جاؤ اور رات اپنے پاس رکھو اور صبح اِسے میرے پاس لانا۔ چنانچہ رات ابوسفیان حضرت عباسؓ کے ساتھ رہا۔ جب صبح اُسے رسول اللهؐ کے پاس لائے تو فجر کی نماز کا وقت تھا۔ مکے کے لوگ صبح اُٹھ کر نماز پڑھنے کو کیا جانتے تھے؟ ابو سفیان نے اِدھر اُدھر مسلمانوں کو پانی کے بھرے ہوئے لوٹے لے جاتے ہوئے دیکھا اور اُسے نظر آیا کہ کوئی وضو کر رہا ہے، کوئی صف بندی کر رہا ہے، تو ابوسفیان نے سمجھا کہ شاید میرے لیے کوئی نئی قسم کا عذاب تجویز ہوا ہے۔ چنانچہ اُس نے گھبرا کر حضرت عباسؓ سے پوچھا کہ یہ لوگ صبح صبح یہ کیا کر رہے ہیں؟ حضرت عباسؓ نے کہا کہ تمہیں ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے، یہ لوگ نماز پڑھنے لگے ہیں۔ اِس کے بعد ابوسفیان نے دیکھا کہ ہزاروں ہزار مسلمان رسول اللهؐ کے پیچھے کھڑے ہو گئے اور جب آپؐ رکوع کرتے ہیں تو سب کے سب رکوع کرتے ہیں اور جب آپؐ سجدہ کرتے ہیں تو سب کے سب سجدہ کرتے ہیں۔ حضرت عباسؓ چونکہ پہرے پر ہونے کی وجہ سے نماز میں شامل نہیں ہوئے تھے۔ ابوسفیان نے اُن سے پوچھا کہ اب یہ کیا کر رہے ہیں، مَیں دیکھتا ہوں کہ جو کچھ محمد(رسول اللهؐ) کرتے ہیں، وہی یہ لوگ کرنے لگ جاتے ہیں؟ عباسؓ نے کہا کہ تم کن خیالات میں پڑے ہوئے ہو؟ یہ تو نماز ادا ہو رہی ہے۔ لیکن محمد رسول اللهؐ اگر اِن کو حکم دیں کہ کھانا پینا چھوڑ دو تو یہ لوگ کھانا اور پینا بھی چھوڑ دیں۔ ابوسفیان نے کہا کہ مَیں نے کسریٰ کا دربار بھی دیکھا ہے اور قیصر کا دربار بھی دیکھا ہے، لیکن اُن کی قوموں کو اُن کا اِتنا فدائی نہیں دیکھا، جتنا محمد (رسول اللهؐ) کی جماعت اُس کی فدائی ہے۔ پھر عباسؓ نے کہا کہ یہ نہیں ہو سکتا کہ تم محمد رسول اللهؐ سے آج یہ درخواست کرو کہ آپؐ اپنی قوم سے عفو کا معاملہ کریں۔ جب نماز ختم ہو چکی تو حضرت عباسؓ ابوسفیان کو لے کر محمد رسول اللهؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپؐ نے فرمایاکہ ابوسفیان! کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ تجھ پر یہ حقیقت روشن ہو جائے کہ الله کے سوا کوئی معبود نہیں؟ ابوسفیان نے کہا کہ میرے ماں باپ آپؐ پر قربان ہوں! آپؐ نہایت ہی حلیم ، نہایت ہی شریف اور نہایت ہی صلہ رحمی کرنے والے انسان ہیں۔ مَیں اب یہ بات سمجھ چکا ہوں کہ اگر خدا کے سوا کوئی اور معبود ہوتا، کچھ تو ہماری مدد کرتا! اِس کے بعد رسول اللهؐ نے فرمایا کہ اَے ابوسفیان! کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ تم سمجھ لو کہ مَیں الله کا رسول ہوں؟ ابوسفیان نے پھر وہی کہا کہ میرے ماں باپ آپؐ پر قربان ہوں! اِس بارے میں ابھی میرے دل میں کچھ شبہات ہیں۔ مگر ابوسفیان کے تردد کے باوجود اُس کے دونوں ساتھی، جو اُس کے ساتھ ہی مکے سےباہر مسلمانوں کے لشکر کی خبر لینےآئے تھے، اور جن میں سے ایک حکیم بن حزام تھے، وہ مسلمان ہو گئے۔ اِس کے بعد ابوسفیان بھی اسلام لے آیا۔ مگر اُس کا دل غالباً فتح مکہ کےبعد پوری طرح کھلا۔ ایمان لانے کے بعد حکیم بن حزامؓ نے کہاکہ یا رسول اللهؐ! کیا یہ لشکر آپؐ اپنی قوم کو ہلاک کرنے کے لیے اُٹھا لائے ہیں؟ رسول اللهؐ نے فرمایا کہ اِن لوگوں نے ظلم کیا، اِن لوگوں نے گناہ کیا اور تم لوگوں نے حدیبیہ میں باندھے ہوئے عہد کو توڑ دیا اور خُزاعہ کے خلاف ظالمانہ جنگ کی، اُس مقدس مقام پر جنگ کی، جس کو خدا نے امن عطا فرمایا ہوا تھا۔ حکیم نے کہا کہ یارسول اللهؐ! ٹھیک ہے، آپؐ کی قوم نے بے شک ایسا ہی کیا ہے، لیکن آپؐ کو تو چاہیے تھا کہ بجائے مکے پر حملہ کرنے کے ہوازن کی قوم پر حملہ کرتے۔ رسول اللهؐ نے فرمایا کہ وہ قوم بھی ظالم ہے، لیکن مَیں خدا سے اُمید کرتا ہوں کہ وہ مکے کی فتح اور اسلام کا غلبہ اور ہوازن کی شکست ، یہ ساری باتیں میرے ہی ہاتھ پر پوری کرے گا۔ اِس کے بعد ابوسفیان نے کہا کہ اگر مکے کے لوگ تلوار نہ اُٹھائیں تو کیا وہ امن میں ہوں گے؟ آپؐ نے فرمایا کہ ہاں! ہر شخص جو اپنے گھر کا دروازہ بند کر لے، اُسے امن دیا جائے گا۔ حضرت عباسؓ نے کہا کہ یارسول اللهؐ! ابوسفیان فخر پسند آدمی ہے، اِس کا مطلب یہ ہے کہ میری عزت کا بھی کوئی سامان کیا جائے، آپؐ نے فرمایا کہ بہت اچھا! جو شخص ابوسفیان کے گھر میں چلا جائے، اُس کو بھی امن دیا جائے گا۔ جو مسجدِ کعبہ میں گھس جائے، اُس کو بھی امن دیا جائے گا۔ جو اپنے ہتھیار پھینک دے، اُس کو بھی امن دیا جائے گا۔ جو اپنا دروازہ بند کر کے بیٹھ جائے، اُس کو بھی امن دیا جائے گا۔ جو حکیم بن حزام کے گھر میں چلا جائے، اُس کو بھی امن دیا جائے گا۔ جب ابوسفیان اور حکیم بن حزام واپس جا رہے تھے تو حضرت عباسؓ نے رسول اللهؐ کی خدمت میں عرض کی کہ یارسول اللهؐ! مجھے ابوسفیان کے اسلام کے بارے میں خدشہ ہے، اُسے واپس بلا لیں، یہاں تک کہ وہ اسلام کو سمجھ لے اور آپؐ کے ساتھ الله کے لشکروں کو دیکھ لے۔ ابنِ اسحٰق رحمہ الله نے بیان کیا ہے کہ جب ابوسفیان واپس جا رہا تھا تو رسول اللهؐ نے حضرت عباسؓ سے فرمایا کہ ابوسفیان کو وادی کی گھاٹی میں روک لو۔چنانچہ حضرت عباسؓ نے ابوسفیان کو جا کر روک لیا۔ اِس پر ابوسفیان نے کہا کہ اَے بنی ہاشم! کیا تم دھوکا دیتے ہو؟ حضرت عباسؓ نے فرمایا کہ اہلِ نبوت دھوکا نہیں دیتے۔ البتہ تُو صبح تک انتظار کر یہاں تک کہ تُو الله کے لشکر کو دیکھے اور اُس کو دیکھے جو الله نے مشرکوں کے لیے تیار کیا ہے، چنانچہ حضرت عباسؓ نے ابوسفیان کو اِس گھاٹی میں روکے رکھا، یہاں تک کہ صبح ہو گئی۔ مختلف قبائل ایک ایک دستہ ہو کر ابوسفیان کے سامنے سے گزرنے لگے۔ جب ایک دستہ گذرا تو اُس نے کہا کہ اَے عباس یہ کون ہیں؟ اُنہوں نے کہا کہ یہ غفار ہیں۔ اُس نے کہا کہ مجھے غفار سے کیا سروکار۔ پھر جُہینہ گزرے تو اُس نے ویسے ہی کہا۔ پھر سَعْد بن ھُدیم گذرے تو اُس نے ویسے ہی کہا کہ مجھے اِن لوگوں سے کیا لینا۔ پھر سُلَیْم گزرے تو اُس نے پھر ویسے ہی کہا۔ یہاں تک کہ ایک دستہ ایسا آیا کہ اِس جیسا اُس نے نہیں دیکھا تھا، تو اُس نے کہا کہ یہ کون ہیں؟ حضرت عباسؓ نے کہا کہ یہ انصار ہیں، اِن کے سردار حضرت سَعْد بن عُبَادہؓ ہیں، اِن کے پاس جھنڈا ہے۔ حضرت سَعْد بن عُبَادہؓ نے جوش سے کہا کہ اَے ابوسفیان! آج کا روز لڑائی کا روز ہے۔ آج کعبہ کی حرمت نہیں رہے گی۔ ابوسفیان نے یہ سن کر کہا کہ عباس! بربادی کا یہ دن کیا خوب ہو گا کہ اگر مقابلے کا موقع مل جاتا۔ پھر ایک دستہ آیا اور وہ تمام دستوں سے چھوٹا تھا، اِس میں رسول اللهؐ تھے اور آپؐ کے صحابہؓ تھے اور نبی صلی الله علیہ وسلم کا جھنڈا حضرت زبیر بن العوامؓ کے پاس تھا۔ بمطابق ایک دوسری روایت جب رسول اللهؐ ابوسفیان کے پاس سے گزرے تو اُس نے کہا کہ یا رسول اللهؐ! کیا آپؐ نے اپنی قوم کے قتلِ عام کا حکم دے دیا ہے؟ کیا آپؐ نہیں جانتے کہ سَعْد بن عُبَادہ کیا کہہ رہے ہیں؟ آپؐ نے پوچھا کہ اُس نے کیا کہا ہے؟ تو ابوسفیان نے بتایا کہ وہ اِس اِس طرح کہہ رہا تھا۔ مَیں آپؐ کو آپؐ کی قوم کے بارے میں الله تعالیٰ کا واسطہ دیتا ہوں، آپؐ سارے لوگوں سے زیادہ پاکباز، صلہ رحمی کرنے والے اور رحم فرمانے والے ہیں۔ رسول اللهؐ نے فرمایا کہ سَعْد نے غلط کہا ! آج کا دن تو رحمت کا دن ہے، آج الله تعالیٰ کعبہ کو عظمت عطا کرے گا اور الله تعالیٰ قریش کو حقیقی عزت عطا فرمائے گا۔ رسول اللهؐ نے حضرت سَعْدؓ کی طرف پیغام بھیجا اور اُن سے جھنڈا لیا اور اُن کے بیٹے حضرت قیس رضی الله عنہ کو عطا کر دیا۔ حضرت مصلح موعودؓ اِس کے بارے میں بیان فرماتے ہیں کہ ا ِس طرح آپؐ نے مکے والوں کا دل بھی رکھ لیا اور انصار کے دلوں کو بھی صدمہ پہنچنے سے محفوظ رکھا۔ اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو قیس پر پورا اِعتماد بھی تھا۔ کیونکہ قیس نہایت ہی شریف طبیعت کے نوجوان تھے۔ ایسے شریف کے تاریخ میں لکھا ہے کہ اُن کی وفات کے قریب جب بعض لوگ اُن کی عیادت کے لیے آئے اور بعض نہ آئے تو اُنہوں نے اپنے دوستوں سے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ بعض جو میرے واقف ہیں، میری عیادت کے لیے نہیں آئے؟ اِن کے دوستوں نے کہا کہ آپؓ بڑے مخیر آدمی ہیں، آپؓ ہر شخص کو اُس کی تکلیف کےوقت قرضہ دے دیتے ہیں، شہر کے بہت سے لوگ آپؓ کے مقروض ہیں اور وہ اِس لیے آپؓ کی عیادت کے لیے نہیں آئے کہ شاید آپؓ کو ضرورت ہو اور آپؓ اُن سے روپیہ مانگ بیٹھیں۔ آپؓ نے فرمایا کہ اوہو! میرے دوستوں کو بلاوجہ تکلیف ہوئی، میری طرف سے تمام شہر میں منادی کردو کہ ہر شخص جس پر قیس کا قرضہ ہے، وہ اُسے معاف ہے۔ اِس پر اِس قدر لوگ اُن کی عیادت کے لیے آئے کہ اُن کے مکان کی سیڑھیاں ٹوٹ گئیں۔ ابنِ ابی شیبہ نے روایت کیا ہے کہ حضرت عباسؓ نے کہا کہ یارسول اللهؐ! آپؐ مجھے اجازت دیں تو مَیں اہلِ مکہ کے پاس جاؤں اور اُنہیں دعوت دوں اور آپؐ اُنہیں امن عطا کر دیں۔ چنانچہ وہ رسول اللهؐ کے سفید شہباء نامی خچر پر سوار ہو کر روانہ ہو گئے۔ وہ مکے میں داخل ہوئے اور اُنہوں نے کہا کہ اَے اہلِ مکہ! اسلام لے آؤ نجات پا جاؤ گے۔ تمہارے پاس اتنا بڑا لشکر آیا ہے کہ جس کا مقابلہ کرنے کی تم میں طاقت نہیں ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں کہ جبکہ ابوسفیان اپنے دل میں خوش تھا کہ مَیں نے مکے کے لوگوں کی نجات کا راستہ نکال لیا ہے، اُس کی بیوی ہندہ، جو ابتدائے اسلام سے مسلمان سے بُغض و کینہ رکھنے کی تعلیم لوگوں کو دیتی چلی آئی تھی اور باوجود کافر ہونے کے فی الحقیقت ایک بہادر عورت تھی، آگے بڑھ کر اپنے خاوند کی داڑھی پکڑی اور مکے والوں کو آوازیں دینی شروع کیں کہ آؤ اور اِس بُڈھے احمق کو قتل کر دو کہ بجائے اِس کے کہ یہ تم کو نصیحت کرتا کہ جاؤ اور اپنی جانوں اور شہر کی عزت کے لیے لڑتے ہوئے مارے جاؤ، یہ تم میں امن کا اعلان کر رہا ہے۔ ابوسفیان نے اُس کی حرکت کو دیکھ کر کہا کہ بے وقوف! یہ اِن باتوں کا وقت نہیں، جا اور اپنے گھر میں چھپ جا، مَیں اُس لشکر کو دیکھ کر آیا ہوں کہ جس لشکر کے مقابلے کی طاقت سارے عرب میں نہیں ہے۔ اسلامی لشکر کے مکے میں داخل ہونے کا واقعہ بخاری میں لکھا ہے کہ حضرت عُروہؓ سے روایت ہے کہ آپؐ نے حضرت زبیر رضی الله عنہ کو حکم دیا کہ مکے کے بالائی حصے کَداء سے داخل ہو، وہ اپنا جھنڈا حجون میں گاڑ دیں اور آپؐ کے آنے تک جگہ نہ چھوڑیں۔ حضرت خالد بن ولیدؓ لشکر کے دائیں حصے پر مقرر تھے، اُن کے دستے میں اَسلم، سُلَیْم، غِفار، مُزَینہ اور جُہینہ کے قبائل شامل تھے۔ رسول اللهؐ نے اُنہیں حکم دیا کہ وہ مکہ مکرمہ کے نشیبی علاقے سے داخل ہوں۔ آپؐ نے اُنہیں قریبی گھروں کے پاس جھنڈا گاڑ دینے کا حکم دیا۔آنحضرتؐ نے حضرت ابوعُبَیْدہ بن الجراحؓ کا تقرر پیادہ دستے پر کیا۔ آنحضرتؐ نے اپنے اُمراء کو حکم دے رکھا تھا کہ وہ لڑائی سے اپنے ہاتھ روکے رکھیں، صرف اُس کے ساتھ قتال کریں، جو اُن کے ساتھ قتال کرے۔ ابنِ اسحٰقؒ نے لکھا ہے کہ صفوان، عکرمہ اور سُہیل نے رسول اللهؐ سے لڑائی کے لیے لوگوں کو بلایا۔ اُنہوں نے لوگوں کو خندمہ میں جمع کیا جو کہ منٰی کے راستے میں مکے کا ایک مشہور پہاڑ ہے۔ قریش، بنو بکر اور ہُذیل کےلوگ اُن کے پاس جمع تھے۔ اُنہوں نے ہتھیار پہن رکھے تھے اور وہ الله کی قسمیں کھا رہے تھے کہ محمد (صلی الله علیہ وسلم) کبھی بھی طاقت سے مکے میں داخل نہیں ہو سکیں گے۔بنو بکر کے ایک شخص جِماش بن قیس نے جب رسول اللهؐ کی آمد کے بارے میں سنا تو وہ اپنے ہتھیار درست کرنے لگا۔ اُس کی بیوی نے اُسے کہا کہ یہ تیاری کس لیے ہو رہی ہے؟ اُس نے کہا کہ محمد(صلی الله علیہ وسلم) اور اِن کے ساتھیوں کے لیے۔ اُس عورت نے کہا کہ بخدا! محمد(صلی الله علیہ وسلم) اور اُن کے ساتھیوں کے سامنے آج کوئی چیز نہیں ٹھہر سکتی۔ پھر وہ غلام بنا کے لانے کے تکبرانہ اظہار کے بعد صفوان، عکرمہ اور سُہیل کے ساتھ خندمہ چلا گیا۔ پھر جب حضرت خالد بن ولیدؓ وہاں سے اِس طرح داخل ہوئے جیسے رسول اللهؐ نےداخل ہونے کا حکم دیا تھا، تو اُنہوں نے ایک جتھا دیکھا، جنہوں نے اُنہیں داخل ہونے سے روکا اور اُن کے لیےہتھیار لہرائے اور اُن پر تیراندازی کی اور اُنہوں نے کہا کہ تم طاقت کے ساتھ یہاں داخل نہیں ہو سکتے۔ حضرت خالدؓ نے اپنے ساتھیوں کو پکارا اَور مشرکین کے ساتھ جنگ ہوئی۔ بنو بکر کے بیس اور ہُذیل کے تین یا چار افراد مارے گئے۔ اُنہیں بری طرح شکست ہوئی۔ وہ ہر طرف بکھر گئے۔ ایک گروہ پہاڑوں پر چڑھ گیا۔ جِماش بن قیس جو بڑے فخر سے اپنی بیوی کو جواب دے رہا تھا ، وہ وہاں سے بھاگا اور اپنے گھر پہنچ کر بیوی سے کہا کہ دروازہ بند کر دو۔ بیوی نے پوچھا کہ وہ تمہارے دعوے کہاں گئے؟ تو اُس نے معذرت خواہانہ لہجے میں جواب دیا اور کچھ شعر پڑھے ، جن کا مفہوم یہ تھا کہ اگر تُو خندمہ کی جنگ خود دیکھ لیتی ، جب صفوان بھی بھاگ کھڑا ہوا اَور عکرمہ بھی اور اُن سب کا استقبال تلواروں نے کیا۔ تلواریں ہر کلائی اور ہر کھوپڑی پر پڑ کر اُس کو کاٹ رہی تھیں۔ بخاری میں ہے کہ حضرت خالدؓ کے گھڑ سواروں میں سے دو شخص مارے گئے۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ اب جب مکے والے امان حاصل کر رہے تھے ، ایسے میں آنحضرتؐ اپنے جاں نثار عُشاق، وفادار ساتھیوں کو نہیں بھولے تھے، آپؐ کو یقیناً چند سال پہلے مکے کی ہی گلیوں میں کیے جانے والے ظلم و ستم بھی یاد آ رہے ہوں گے۔ وہ بلالؓ بھی، جس کو رسیوں سے سے باندھ کر ، یہاں اُنہیں پتھریلی گلیوں میں گھسیٹا جایا کرتا تھا۔ آج وہ بلالؓ اِس فاتح فوج میں شامل تھا۔ اُن کے دماغ میں بھی ظلم و ستم کے سارے مناظر تازہ ہو چکے ہوں گے۔ آپؐ نے اِس کا انتقام لینا بھی ضروری سمجھا اور آنحضرتؐ نے کس قدر خوبصورت انتقام لیا۔ حضرت مصلح موعودؓ نے اِس بارے میں بیان فرمایا ہے کہ اِس کے بعد ابی رُویحہؓ، جن کوآپؐ نے بلال حبشی کا غلام بنایا ہوا تھا، اُن کے متعلق آپؐ نے فرمایا کہ ہم اِس وقت ابی رُویحہ کو اپنا جھنڈا دیتے ہیں، جو ابی رویحہ کے جھنڈے کے نیچے کھڑا ہو گا، ہم اُس کو بھی کچھ نہ کہیں گے۔ اور بلالؓ سے کہا کہ ساتھ ساتھ تم یہ اعلان کرتے جاؤ کہ جو شخص ابی رویحہ کے جھنڈے کے نیچے آجائے گا، اُس کو امن دیا جائے گا۔ اِس حکم میں کیا ہی لطیف حکمت تھی۔ مکے کے لوگ بلال کے پیروں میں رسی ڈال کر اُس کو گلیوں میں کھینچا کرتے تھے۔ مکے کی گلیاں، مکے کے میدان، بلال کے لیے امن کی جگہ نہیں تھے بلکہ عذاب اور تذلیل اور تضحیک کی جگہ تھے۔ رسول اللهؐ نے خیال فرمایا کہ بلال کا دل آج بار بار انتقام کی طرف مائل ہوتا ہو گا، اِس وفادار ساتھی کا انتقام لینا بھی ضروری ہے، مگر یہ بھی ضروری ہے کہ ہمارا اِنتقام اسلام کی شان کے مطابق ہو۔ پس، آپؐ نے بلال کا انتقام اِس طرح نہ لیا کہ تلوار کے ساتھ اُس کے دشمنوں کی گردنیں کاٹ دی جائیں ، بلکہ اُس کے بھائی کے ہاتھ میں ایک بڑا جھنڈا دے کر کھڑا کر دیا، اور بلال کو اِس غرض کے لیے مقرر کر دیا کہ وہ اعلان کر دے کہ جو کوئی میرے بھائی کے جھنڈے کے نیچے آ کر کھڑا ہو گا، اُسے امن دیا جائے گا۔ کیسا شاندار یہ انتقام تھا! کیسا حسین یہ انتقام تھا! جب بلال بلند آواز سے یہ اعلان کرتا ہو گا کہ اَے مکے والو! آؤ! میرے بھائی کے جھنڈے کے نیچے کھڑے ہو جاؤ، تمہیں امن دیا جائے گا، تو اُس کا دل خود ہی انتقام کے جذبات سے خالی ہوتا جاتا ہو گا اور اُس نے محسوس کر لیا ہو گا کہ جو انتقام محمد رسول اللهؐ نے میرے لیے تجویز کیا ہے، اِس سے زیادہ شاندار اور اِس سے زیادہ حسین انتقام میرے لیے اور کوئی نہیں ہوسکتا ۔ ایک اور جگہ آپؓ فرماتے ہیں کہ تو اُس وقت بلال کا دل اور اُس کی جان کس طرح محمد رسول اللهؐ پر نچھاور ہو رہی ہو گی، وہ کہتا ہو گا کہ مَیں نے تو خبر نہیں کہ اِن کفار سے بدلہ لینا تھا یا نہیں یا لے سکتا کہ نہیں، اب وہ بدلہ لے لیا گیا ہے کہ ہر شخص جس کی جوتیاں میرے سینے پر پڑتی تھیں، اُس کے سر کو میری جوتی پر جھکا دیا گیا ہے۔یہ وہ بدلہ تھا، جو یوسفؑ کے بدلے سے بھی زیادہ شاندار تھا، اِس لیے کہ یوسفؑ نے اپنے باپ کی خاطر اپنے بھائیوں کو معاف کیا تھا۔ جس کی خاطر کیا، وہ اِس کا باپ تھا اور جن کو کیا وہ اِس کے بھائی تھے۔ اور محمد رسول اللهؐ نے اپنے چچوں اور بھائیوں کو ایک غلام کی جوتیوں کے طفیل معاف کیا۔بھلا یوسف علیہ السلام کا بدلہ اِس کے مقابلے میں کیا حیثیت رکھتا ہے؟ ایک کمزور شخص، جس کا بچپن اور جوانی سردارانِ قریش کی غلامی میں گذرا، اُس کی ایسی دلجوئی اور ایسی عزت افزائی آپؐ نے کی ہے، جس کی مثال، جیسا کہ بیان ہوا ہے، تاریخِ عالَم میں نہیں ملتی۔ یہ ہمیشہ کے لیے یادگار رہے گی۔ آخر پر حضور انور نے فرمایا کہ پس! یہ ہے ہمارے آقا و مطاع کا بدلہ لینے کا اُسوہ! اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلٰٓی اٰلِ مُحَمَّدٍ وَ بَارِكْ وَسَلِّمْ اِنَّكَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ! نیز فرمایا کہ یہ مکے میں داخل ہونے کا ابتدائی بیان ہے، یہ ان شاء الله آئندہ بھی بیان ہو گا۔ خطبۂ ثانیہ سے قبل ارشاد فرمایا کہ اِس وقت مَیں ایک مرحومہ کا ذکر کرنا چاہتا ہوں، جن کا جنازہ نماز کے بعد پڑھاؤں گا۔ یہ مکرمہ امینہ شہناز صاحبہ اہلیہ مکرم انعام الله صاحب آف لاہور ہیں۔ جو گذشتہ دنوں ستاون سال کی عمر میں وفات پا گئیں۔ انا لله و انا الیہ راجعون! اِن کے خاندان میں احمدیت اِن کے والد مکرم محمد دین صاحب کے ذریعے آئی۔ جنہوں نے ۱۹۳۴ء میں پندرہ سال کی عمر میں قادیان جا کر حضرت خلیفۃ المسیحِ الثانیؓ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔ مرحومہ الله تعالیٰ کے فضل سے موصیہ تھیں۔ پسماندگان میں میاں کے علاوہ ایک بیٹا اور چار بیٹیاں شامل ہیں۔ اِن کے بیٹے مکرم وجیہ الله صاحب سینیگال میں مبلغ ہیں اور وہاں خدمت کی توفیق پا رہے ہیں اور میدانِ عمل میں ہونے کی وجہ سے اپنی والدہ کے جنازے اور تدفین میں شامل نہیں ہو سکے۔ مرحومہ کاتفصیلی تذکرۂ خیر کرنے کے بعد حضور انور نے فرمایا کہ الله تعالیٰ اِن سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے، بیٹا، جو میدانِ عمل میں ہونے کی وجہ سےجنازے میں شامل نہیں ہو سکا، الله تعالیٰ اُسے بھی صبر اور حوصلہ عطا فرمائے اورسب بچوں کو اِن کی دعاؤں کا وارث بنائے ۔ ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: غزوہ فتح مکہ کےتناظر میں سیرت نبوی ﷺ کا بیان نیز عالمی حالات کے پیش نظر دعاؤں کی تحریک۔ خلاصہ خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۰؍جون ۲۰۲۵ء