https://youtu.be/sTI-cRcuv50 ’’ان آیات کو اگر کوئی شخص تامل اور غور کی نظر سے دیکھے تو میں کیونکر کہوں کہ وہ اس بات کو سمجھ نہ جائے کہ خدا تعالیٰ اس امت کے لیے خلافت دائمی کا صاف وعدہ فرماتا ہے۔اگر خلافت دائمی نہیں تھی تو شریعت موسوی کے خلیفوں سے تشبیہہ دینا کیا معنے رکھتا تھا اور اگر خلافت راشده صرف تیس برس تک رہ کر پھر ہمیشہ کے لیے اس کا دور ختم ہو گیا تھا تو اس سے لازم آتا ہے کہ خداتعالیٰ کا ہرگز یہ ارادہ نہ تھا کہ اس امت پر ہمیشہ کے لیے ابواب سعادت مفتوح رکھے‘‘(حضرت اقدس مسیح موعودؑ) جماعت احمدیہ کاموقف ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد اُسی طریق پر شخصی خلافت سلسلہ احمدیہ میں جاری ہے جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد شخصی خلافت کا اجرا ہوا۔ذیل میںحضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشادات کی روشنی میں یہ مضمون بیان کیا جاتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد امت محمدیہ میں خلافت کے دائمی طور پر جاری رہنے کا ذکر ہے اور جن سے خالصۃً یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد خلافت کا سلسلہ قائم ہوگا۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام تحریر فرماتے ہیں ’’بعض صاحب آیت وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسۡتَخۡلِفَنَّہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ کَمَا اسۡتَخۡلَفَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ (النور:۵۶) کی عمومیت سے انکار کرکے کہتے ہیں کہ مِنۡکُمۡ سے صحابہ ہی مراد ہیں اور خلافت راشدہ حقہ انہیں کے زمانہ تک ختم ہو گئی اور پھر قیامت تک اسلام میں اس خلافت کا نام ونشان نہیں ہوگا۔گویا ایک خواب و خیال کی طرح اس خلافت کا صرف تیس ۳۰ برس ہی دور تھا اور پھر ہمیشہ کے لیے اسلام ایک لازوال نحوست میں پڑ گیا۔‘‘ (شہادۃ القرآن، روحانی خزائن جلد۶ صفحہ ۳۳۰) اسی کتاب میں آپؑ فرماتے ہیں: ’’ان آیات[النور: ۵۶، الرعد: ۳۲، بنی اسرائیل: ۱۶]کو اگر کوئی شخص تامل اور غور کی نظر سے دیکھے تو میں کیونکر کہوں کہ وہ اس بات کو سمجھ نہ جائے کہ خدا تعالیٰ اس امت کے لیے خلافت دائمی کا صاف وعدہ فرماتا ہے۔اگر خلافت دائمی نہیں تھی تو شریعت موسوی کے خلیفوں سے تشبیہہ دینا کیا معنے رکھتا تھا اور اگر خلافت راشده صرف تیس برس تک رہ کر پھر ہمیشہ کے لیے اس کا دور ختم ہو گیا تھا تو اس سے لازم آتا ہے کہ خداتعالیٰ کا ہرگز یہ ارادہ نہ تھا کہ اس امت پر ہمیشہ کے لیے ابواب سعادت مفتوح رکھے۔‘‘ (شہادۃ القرآن روحانی خزائن جلد ۶صفحہ ۳۵۳) ان ارشادات سے اُن لوگوں کی تردید کی گئی ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ خلافت صرف صحابہ ؓتک ہی محدود تھی اور آئندہ کے لیے خلافت کو بند سمجھتے ہیں۔آپؑ نے ان ارشادات سے واضح کر دیا ہے کہ آیت استخلاف میں دائمی خلافت کا صاف وعدہ ہے۔خلافت کی علتِ غائی بھی اس بات کی متقاضی ہے کہ آیت استخلاف کی عمومیت کو تسلیم کیا جائے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی اسی کتاب شہادة القرآن میں تحریر فرمایا ہے:’’چونکہ کسی انسان کے لیے دائمی طور پر بقا نہیں۔لہٰذا خدا تعالیٰ نے ارادہ کیا کہ رسولوں کے وجود کو جو تمام دنیا کے وجودوں سے اشرف و اولیٰ ہیں ظلی طور پر ہمیشہ کے لیے تا قیامت قائم رکھے۔سواسی غرض سے خدا تعالیٰ نے خلافت کو تجویز کیا۔تا دنیا کبھی اور کسی زمانہ میں برکات رسالت سے محروم نہ رہے پس جو شخص خلافت کو تیس برس تک مانتا ہے وہ اپنی نادانی سے خلافت کی علت غائی کو نظر انداز کرتا ہے اور نہیں جانتا کہ خداتعالیٰ کا یہ ارادہ تو ہر گز نہیں تھاکہ رسول کریم کی وفات کے بعد صرف تیس برس تک رسالت کی برکتوں کو خلیفوں کے لباس میں قائم رکھنا ضروری ہے۔پھر بعد اس کے دنیا تباہ ہوجائے تو ہو جائے کچھ پرواہ نہیں۔‘‘(شہادۃ القرآن روحانی خزائن جلد ۶صفحہ۳۵۴,۳۵۳) ان عمومی ارشادات کے بعد جو خلافت کے سلسلہ کو جاری رکھنے کی واضح دلیل ہیں، اب خصوصی ارشادات پیش کیے جاتے ہیں، جن سے ایک اور ایک دو کی طرح یہ ثابت ہو گیا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد خلافت کا سلسلہ جاری رہے گا اور یہ خلافت شخصی خلافت ہو گی۔اور خلافت راشدہ کے طریق اور طرز پر ہوگی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی کتاب حمامة البشریٰ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث کو درج فرمایا اور لکھا ہے کہ’’پھر مسیح موعود یا اس کے خلفاء میں سے کوئی خلیفہ سرزمین دمشق کی جانب سفر کرے گا۔‘‘ (حمامۃالبشریٰ، روحانی خزائن جلد۷ اردو ترجمہ صفحہ ۱۲۱) حضور علیہ السلام نے اپنی کتاب میں یہ تحریر فرما کر دو نہایت ہی واضح گواہیاں خلافت کے مسئلہ پر پیش فرمائی ہیں۔ایک تو یہ کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسیح موعود کے جانشین اور خلیفہ ہوں گے اور اُن میں سے کوئی خلیفہ دمشق کا سفر بھی کرے گا۔دوسری گواہی آپ کی اپنی ہے کہ گویا آپ نے اس حدیث کو قبول فرمایا اور اس طرح آپ نے اپنے بعد جو کچھ ہونے والا تھا اس کا اظہار اس حدیث کے درج کرنے سےفرما دیا اور اپنی وفات سے پندرہ سال پہلے یہ گواہی دے دی کہ میرے بعدخلیفے ہوں گے اور ان میں سے کوئی ایک خلیفہ دمشق کا سفر بھی کرے گا۔اپنی وفات سے کچھ عرصہ قبل حضورؑ نے رسالہ الوصيت تحریر فرمایا اور اس میں یہ لکھا کہ’’ایسے وقت میں ان (نبیوں اور رسولوں) کو وفات دے کرخداتعالیٰ … جو بظاہر ایک ناکامی کا خوف اپنے ساتھ رکھتا ہے مخالفوں کو ہنسی اور ٹھٹھے اورطعن و تشنیع کا موقع دےدیتاہے اور جب وہ ہنسی ٹھٹھاکر چکتے ہیں تو پھر ایک دوسرا ہاتھ اپنی قدرت کا دکھاتا ہے اور ایسے اسباب پیدا کر دیتاہے جن کے ذریعہ سے وہ مقاصد جو کسی قدر نا تمام رہ گئے تھے اپنے کمال کو پہنچتے ہیں۔غرض دو قسم کی قدرت ظاہر کرتا ہے (ا) اوّل خود نبیوں کے ہاتھ سے اپنی قدرت کا ہاتھ دکھاتا ہے (۲) دوسرے ایسے وقت میں جب نبی کی وفات کے بعد مشکلات کا سامنا پیدا ہو جاتا ہے اور دشمن زور میں آجاتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ اب کام بگڑ گیا اور یقین کرلیتے ہیں کہ اب یہ جماعت نابود ہو جائے گی اور خود جماعت کے لوگ بھی تردّد میں پڑ جاتے ہیں اور ان کی کمریں ٹوٹ جاتی ہیں اور کئی بدقسمت مرتد ہونے کی راہیں اختیار کرلیتے ہیں۔ تب خدا تعالیٰ دوسری مرتبہ اپنی زبردست قدرت ظاہر کرتا ہے اور گرتی ہوئی جماعت کو سنبھال لیتا ہے۔پس وہ جو اخیر تک صبر کرتا ہے خدا تعالیٰ کے اس معجزہ کو دیکھتا ہے جیسا کہ حضرت ابو بکر صدیق ؓکے وقت میں ہوا، جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی موت ایک بے وقت موت سمجھی گئی اور بہت سے بادیہ نشین نادان مرتد ہو گئے اور صحابہؓ بھی مارے غم کے دیوانہ کی طرح ہوگئے۔ تب خدا تعالیٰ نے حضرت ابو بکر صدیقؓ کو کھڑا کر کے دوبارہ اپنی قدرت کا نمونہ دکھایا اور اسلام کو نابود ہوتے ہوتے تھام لیا اور اس وعدہ کو پورا کیا جو فرمایا تھا وَلَیُمَکِّنَنَّ لَہُمۡ دِیۡنَہُمُ الَّذِی ارۡتَضٰی لَہُمۡ وَلَیُبَدِّلَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ خَوۡفِہِمۡ اَمۡنًا (النور:۵۶) یعنی خوف کے بعد پھر ہم اُن کے پیر جما دیں گے۔‘‘ اور پھر فرمایا: ’’سو اے عزیزو! جب کہ قدیم سے سُنّت اللہ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ دو۲ قدرتیں دکھلاتا ہے تا مخالفوں کی دو۲ جھوٹی خوشیوں کو پامال کر کے دکھلا وے سو اب ممکن نہیں ہے کہ خدا تعالیٰ اپنی قدیم سنت کو ترک کر دیوے۔اس لئے تم میری اس بات سے جو میں نے تمہارے پاس بیان کی غمگین مت ہو اور تمہارے دل پریشان نہ ہو جائیں کیونکہ تمہارے لئے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے اور اُس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا۔اور وہ دوسری قدرت نہیں آ سکتی جب تک مَیں نہ جاؤں۔لیکن مَیں جب جاؤں گا تو پھر خدا اُس دوسری قدرت کو تمہارے لئے بھیج دے گا جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی۔‘‘(رسالہ الوصیت روحانی خزائن جلد ۲۰صفحہ۳۰۴، ۳۰۵) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس تحریر سے کئی نتائج نکلتے ہیں۔ پہلا نتیجہ یہ ہے کہ قدرت ثانیہ خلفاء ہی کا نام ہے۔کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں ’’تب خدا تعالیٰ نے حضرت ابو بکر صدیق ؓکو کھڑا کر کے دوبارہ اپنی قدرت کا نمونہ دکھایا۔‘‘(رسالہ الوصیت روحانی خزائن جلد۲۰ صفحہ۳۰۵) قدرت ثانیہ کے سمجھانے کے لیے حضرت ابو بکر صدیق ؓ کی مثال دے کر حضور ؑنے اس بات کو واضح فرما دیا کہ قدرت ثانیہ سے مراد خلافت ہے۔ دوسرا نتیجہ اس عبارت سے یہ نکلتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام آیت استخلاف سے صرف ماموریت والی خلافت ہی مراد نہیں لیتے بلکہ اس کو عمومیت کا رنگ دیتے ہیں اور اس خلافت کو بھی آیت استخلاف کا مصداق ہی سمجھتے ہیں جس کے مستحق حضرت ابو بکر صدیق ؓ ہوئے ہیں۔ پس خلفاء کا وہ سلسلہ بھی آیت استخلاف کا مصداق قرار پاتا ہے جس کی ابتدا حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے وجود سے ہوئی۔ تیسرا نتیجہ اس عبارت سے یہ نکلتا ہے کہ انبیاء کے بعد سخت ابتلاؤں کا آنا مقدر ہوتا ہے اور ان ابتلاؤں کا خلفاء کے ذریعہ سے زائل کیا جانا اللہ تعالیٰ کی سنت قدیمہ ہے۔ہر ایک نبی کی امت سے یہ معاملہ پیش آیااور یہ سنت قدیمہ سلسلہ احمدیہ میں بھی ضرور پوری ہوگی جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا:’’سو اب ممکن نہیں ہے کہ خدا تعالیٰ اپنی قدیم سنت کو ترک کر دیوے۔‘‘ (رسالہ الوصیت روحانی خزائن جلد ۲۰صفحہ۳۰۵)یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات پر بھی جماعت کو سخت ابتلا پیش آوے گا اور خوف کی حالت پیدا ہو گی۔لیکن سنت قدیمہ کے مطابق آپ کے خلفاء کے ذریعہ اس خوف کو امن سے بدل دیا جائے گا اور ابتلاؤں کو زائل کیا جائے گا۔اور یہ حقیقت بھی سب پر بارہا آشکار ہوچکی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد جماعت پر ہر دور میں کئی ابتلا آئے۔لیکن اللہ تعالیٰ نے خلیفہ کے ہاتھ سے اُن کو دُور کیا اور اس طرح اللہ تعالیٰ کی قدیم سنت پوری ہوئی۔ چوتھا نتیجہ اس عبارت سے یہ نکلتا ہے کہ قدرت ثانیہ کے سلسلہ یعنی خلافت کے سلسلہ کو دوام بخشا جائے گا اور تاقیامت خلفائے سلسلہ احمدیہ میں آتے رہیں گے۔جماعت کا نظام دن بدن مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا جائے گا اور اسے ایسا استحکام حاصل ہو جائے گا کہ خلافت کا سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا۔ اس بارے میں حضورؑ نے فرمایا کہ’’وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا۔‘‘(رسالہ الوصیت روحانی خزائن جلد ۲۰صفحہ۳۰۵) پانچواں نتیجہ اس عبارت سے یہ نکلتا ہے کہ دوسری قدرت کا ظہور حضرت مسیح موعودؑ کی وفات کے بعد ہو گا، یعنی آپؑ کے جانے کے بعد دوسری قدرت آئے گی، جیسا کہ آپؑ نے فرمایا:’’وہ دوسری قدرت نہیں آ سکتی جب تک مَیں نہ جاؤں ‘‘(رسالہ الوصیت روحانی خزائن جلد ۲۰صفحہ۳۰۵) انجمن تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں قائم ہو چکی تھی لیکن یہاں پر قدرت ثانیہ کے ظہور کے متعلق آپؑ فرماتے ہیں کہ’’وہ نہیں آسکتی جب تک کہ میں نہ جاؤں۔‘‘ اور جیسا کہ بیان ہوچکا ہے قدرت ثانیہ سے مراد خلافت ہے اس لیے حضورؑ نے فرمایا کہ جب تک میں نہ جاؤں دوسری قدرت نہیں آسکتی، یعنی میرے جانے کے بعد خلافت کا سلسلہ قائم ہو گا جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہوا۔آپ کے جانے کے بعد قدرت ثانیہ کا ظہور حضرت ابو بکر صدیق ؓکے وجود سے ہوا۔یہ سب نتائج جو رسالہ الوصیت کی عبارت سے نکلتے ہیں ثابت کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد خلافت کا سلسلہ جاری رہے گا اور شخصی خلافت کی صورت میں ہوگا۔ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ جمعہ فرمودہ۲۹؍جون ۲۰۱۲ء میں بیان فرمایا: ’’جب ہمیں اللہ تعالیٰ نے یہ خوشخبری دی ہے کہ مسیح موعودؑ کے بعد دائمی خلافت کا سلسلہ بھی قائم رہنا ہے تو ہمیں اس سے فیض اُٹھانے کے لئے خیرالقرون کے زمانے کو بھی قائم رکھنے کی کوشش کرتے چلے جانا چاہئے۔ ایک نسل کے بعد دوسری نسل میں وہ روح پھونکنی ہو گی اور پھونکتے رہنا چاہئے کہ ہم نے اپنے ہر قول و فعل کو خدا تعالیٰ کی رضا کے مطابق ڈھالنا ہے۔ اگر یہ نہیں ہو گا پھر ہم اُس عمدہ زمانے کی خواہش رکھنے والے نہیں ہوں گے جس کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کیا ہے، بلکہ اندھیرے دور میں پھر ڈوبتے چلے جائیں گے۔ پس اس کے لئے کوشش کرنے کی بھی بہت ضرورت ہے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۹؍جون۲۰۱۲ء) پھرحضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۹؍ مئی ۲۰۱۵ء میں خلافت کے حوالے سے فرمایا:’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ فرمایا کہ تم میں نبوت قائم رہے گی اس وقت تک جب تک اللہ تعالیٰ چاہے۔ پھر اس کے بعد خلافت علیٰ منہاج نبوت قائم ہو گی۔ وہ خلافت قائم ہو گی جو نبی کے طریق پر چلنے والی ہو گی۔ اس کے ذاتی مفادات نہیں ہوں گے۔ وہ نبی کے کام کو آگے بڑھانے والی ہو گی۔ لیکن ایک عرصے کے بعد یہ خلافت جو راشد خلافت ہے ختم ہو جائے گی۔ یہ نعمت تم سے چھینی جائے گی۔ پھر ایسی بادشاہت قائم ہو جائے گی جس سے لوگ تنگی محسوس کریں گے۔ پھر اس سے بھی بڑھ کر جابر بادشاہت ہو گی۔پھر اللہ تعالیٰ کا رحم جوش میں آئے گا اور پھر خلافت علیٰ منہاج نبوت قائم ہو گی۔(مسند احمد بن حنبل، جلد ۶، صفحہ ۲۸۵مسند النعمان بن بشیر، حدیث: ۱۸۵۹۶، عالم الکتب، بیروت، ۱۹۹۸ء) ہم دیکھتے ہیں کہ باوجود اس کے کہ اسلام کی تاریخ میں مختلف ادوار میں آنے والے مسلمان سربراہان حکومت اپنے آپ کو خلفاء کہلاتے رہے۔ یہ بتاتے رہے کہ ان کا مقام خلیفہ کا مقام ہے لیکن اس کے باوجود مسلمانوں کی اکثریت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپؐ کے جو پہلے چار خلفاء ہیں ان کو ہی خلفائے راشدین کا مقام دیتی ہے۔ انہی کا دور خلافت راشدہ کا دَور کہلاتا ہے۔ یعنی وہ دَور جو ہدایت یافتہ اور ہدایت پھیلانے والا دَور تھا جو اپنے نظام کو اس طرح چلاتے رہے جس طرح انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو چلاتے دیکھا۔ قرآنی تعلیمات کے مطابق اس نظام کو چلایا۔ خاندانی بادشاہت نہیں رہی بلکہ مومنین کی جماعت کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے خلافت کی ردا انہیں پہنائی۔ لیکن ان کے علاوہ باقی خلفاء خاندانی بادشاہت کو ہی قائم رکھتے رہے اور حرف بہ حرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیشگوئی پوری ہوئی۔ جب پہلی دو باتوں میں یہ پیشگوئی حرف بہ حرف پوری ہوئی تو جو آخری بات آپ نے بیان فرمائی اس میں بھی ہمارے آقا حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول نے ہی پورا ہونا تھا کہ اس دنیاداری اور مسلمانوں کے بگڑے ہوئے حالات کو دیکھ کر وہ خدا جس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تاقیامت قائم رہنے والی شریعت کے ساتھ بھیجا تھا اس کا رحم جوش مارتا اور خلافت علی منہاج نبوت کو دنیا میں دوبارہ قائم فرماتا۔ اور ہم احمدی یہ یقین رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کئے گئے وعدے کے مطابق اپنے رحم کو جوش دلایا۔ اس کا رحم جو ش میں آیا اور ہمارے آقا و مولیٰ کی بات کو پورا فرماتے ہوئے مسیح موعود اور مہدی معہود کے ذریعہ خلافت علی منہاج نبوت کو قائم فرمایا۔ آپؑ کو جہاں امّتی نبی ہونے کا مقام عطا فرمایا وہاں خاتم الخلفاء کے مقام سے بھی نوازا کہ اب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سلسلۂ خلافت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق اور خاتم الخلفاء کے ذریعہ سے ہی جاری ہونا ہے۔ پس ہم خوش قسمت ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس خوشخبری سے حصہ پانے والوں میں شامل ہیں جو آپ نے خلافت علیٰ منہاج نبوت کے قیام کی ہمیں عطا فرمائی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ جمعہ کی آیت وَاٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ (الجمعۃ:۴) کی وضاحت میں جن بعد میں آنے و الوں کو پہلوں سے ملایا تھا ان میں ہم شامل ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے جس پیارے کے بارے میں فرمایا تھا کہ وہ ایمان ثریّا سے زمین پر لے کر آئے گا۔(صحیح البخاری کتاب التفسیر سورۃ الجمعہ باب قولہ وَآخَرِیْنَ مِنْھُمْ۴۸۹۷) ہمیں اس کے ماننے والوں میں شامل فرمایا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس مسیح و مہدی کو اپنا سلام پہنچانے کے لئے کہا تھا۔ (مسند احمد بن حنبل جلد ۳صفحہ۱۸۲مسند ابی ہریرۃ حدیث:۷۹۵۷ عالم الکتب بیروت ۱۹۹۸ء) ہمیں اللہ تعالیٰ نے توفیق دی کہ یہ فرض ادا کرنے والوں میں شامل ہوں اور پھر جماعت احمدیہ مبائعین پر یہ بھی اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ آپ کے بعد جاری سلسلۂ خلافت کی بیعت میں بھی شامل فرمایا۔ پس اللہ تعالیٰ کے یہ تمام فضل ہر احمدی سے تقاضا کرتے ہیں کہ اس کا شکر گزار بنتے ہوئے اپنی حالتوں میں وہ تبدیلی لائیں جو اللہ تعالیٰ کے اس فرستادہ کے ماننے والوں کا فرض ہے۔ تبھی اس بیعت کا حق ادا کر سکیں گے۔ مسیح موعود اور مہدی معہود نے ایمان کو ثریا سے زمین پر لانا تھا اور اپنے ماننے والوں کے دلوں کو اس سے بھرنا تھا اور ہر احمدی یقیناً اس بات کا گواہ ہے کہ آپ نے یہ کام کر کے دکھایا۔ لیکن اس ایمان کا قائم کرنا صرف آپ کی زندگی تک محدود نہیں تھا یا چند دہائیوں تک محدود نہیں تھا بلکہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خلافت علیٰ منہاج نبوت کی خوشخبری دے کر خاموشی اختیار کی تو پھر اس کا مطلب تھا کہ اس ایمان کو تاقیامت زمین پر اپنی شان و شوکت سے قائم رہنا ہے اور ہر وہ شخص جو اپنے آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں شمار کرتا ہے اس کا فرض ہے کہ اس ایمان کو اپنے دلوں میں بٹھا کر اس پر ہمیشہ قائم رہے۔ یہ ان ماننے والوں کا فرض ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد آپ کے طریق پر چلنے والے نظام خلافت کے ساتھ جُڑ کر اس ایمان کے مظہر بنتے ہوئے اسے دنیا کے کونے کونے میں پھیلائیں اور توحید کو دنیا میں قائم کریں۔ اس کام کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہمارے آقا و مطاع حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا تھا اور اس کام کے لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کے غلامِ صادق کو بھیجا ہے۔ اور اسی کام کی سرانجام دہی کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خلافت کے تاقیامت رہنے کی پیشگوئی فرمائی تھی۔ اور اسی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جماعت کو اپنے اس دنیا سے جانے کی غمناک خبر کے ساتھ یہ خوشخبری بھی دی تھی اور فرمایا تھا کہ’’قدیم سے سنّت اللہ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ دو قدرتیں دکھاتا ہے تا مخالفوں کی دو جھوٹی خوشیوں کو پامال کر کے دکھلاوے۔ سو اب ممکن نہیں کہ خداتعالیٰ اپنی قدیم سنت کو ترک کر دیوے۔‘‘فرمایا ’’کیونکہ تمہارے لئے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے اور اس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہو گا۔‘‘(رسالہ الوصیت، روحانی خزائن جلد ۲۰صفحہ۳۰۵) پس ایمان کو زمین پر قائم کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد اس دوسری قدرت کو جاری فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نہیں چاہتا کہ مخالفینِ دین خوش ہوں کہ دین دوبارہ دنیا سے ختم ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ نہیں چاہتا کہ شیطان دندناتا پھرے۔ اللہ تعالیٰ نے مخالفین کی جھوٹی خوشیوں کو پامال کرنا ہے۔ اس لئے اس نے ایمان کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعد جاری نظام خلافت کی مدد کرتے ہوئے دنیا میں قائم رکھنا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کا بھی فرض قرار دیا ہے جو اس نظام سے جڑنے کا دعویٰ کرتے ہیں کہ اس ایمان کو دنیا میں قائم رکھنے کے لئے خلافت کے مددگار بنیں اور اپنے عہد بیعت کو سامنے رکھتے ہوئے یہ مصمّم ارادہ کریں کہ ہم نے اپنے ایمان کی بھی حفاظت کرنی ہے اور دوسروں کو بھی ایمان کی روشنی سے آشکار کرنا ہے۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی قدیم سے سنّت ہے کہ وہ دو قدرتیں دکھلاتا ہے اور ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ دوسری قدرت نظام خلافت ہے۔ پس نظام خلافت کا دینی ترقی کے ساتھ ایک اہم تعلق ہے اور شریعت اسلامیہ کا یہ ایک اہم حصہ ہے۔ دینی ترقی بغیر خلافت کے ہو ہی نہیں سکتی۔ جماعت کی وحدت خلافت کے بغیر قائم رہ ہی نہیں سکتی۔ اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہم میں سے ہر ایک جو خلافت سے وابستہ ہے اس بات کو اچھی طرح جانتا ہے کہ خلافت کا جماعت میں جاری رہنا ایمان کا حصہ ہے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۹؍مئی ۲۰۱۵ء) خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۷؍مئی ۲۰۲۲ء میں ہمارے پیارے امام ایدہ اللہ تعالیٰ بیان فرماتے ہیں:’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ظلم و ستم کے دَور کو ختم کرنے کی جو پیشگوئی فرمائی تھی وہ ان لوگوں کے لیے تھی جو خاتم الخلفاء مسیح موعود اور مہدی معہود کی بیعت میں آئیں گے اور اس کی تعلیم کے مطابق اس پر عمل کریں گے۔اللہ تعالیٰ نے تو انتظام فرما دیاہے۔ اگر لوگ اس انتظام کے تحت نہ آئیں، اپنی ضد پر قائم رہیں تو پھر اس کا وہی نتیجہ نکلتا ہے اور نکلا ہے جو آج کل مسلمان دیکھ رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو بھی عقل اور سمجھ دے اور یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق کی پہچان کرنے والے ہوں نہ کہ انکار کر کے مسیح موعود کی جماعت پر ظلم اور تعدی میں بڑھنے والے ہوں۔ بہرحال یہ بھی واضح ہو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ کہنے کے بعد پھر خاموش ہونا کہ تم میں خلافت علیٰ منہاجِ نبوت آخری زمانے میں قائم ہو گی اس بات کا اظہار ہے کہ یہ ایک لمبا عرصہ چلنے والا نظام ہے۔ یہ جو بعض لوگ بعض باتوں کو نہ سمجھنے کی وجہ سے یہ باتیں کرتے ہیں کہ اس خاموشی کا مطلب یہ ہے کہ یہ نظام بھی جلد ختم ہو جائے گا یعنی مسیح موعود علیہ السلام کے بعد جو نظام خلافت ہے۔ یہ سب لوگ غلطی خوردہ ہیں۔ خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس بات کی وضاحت فرما دی ہے کہ یہ نظام جاری رہنے والا نظام ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ نے جو وعدے فرمائے ہیں وہ پورے ہونے والے ہیں اور زمین و آسمان ٹل سکتے ہیں لیکن خدائی وعدوں کو پورا ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔… پس آپ کے یہ الفاظ کہ خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے اور وہ دوسری قدرت یعنی خلافت تم میں قیامت تک قائم رہے گی۔ ایسے لوگ ہمیشہ پیدا ہوتے رہیں گے جو خلافتِ احمدیہ کی حفاظت کرنے والے ہوں گے۔ پس خوش قسمت ہیں ہم میں سے وہ لوگ جو خلافت احمدیہ کے ساتھ ہمیشہ جڑے رہیں اور اپنی نسلوں کو بھی اس کی تلقین کرتے رہیں اور بد قسمت ہیں وہ جو خلافت احمدیہ کو کسی دَور تک محدود کرنا چاہتے ہیں یا یہ سوچ رکھتے ہیں۔ ایسے لوگ ہمیشہ کی طرح ناکامی اور نامرادی دیکھیں گے۔جیساکہ جماعت کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۷؍مئی ۲۰۲۲ء) پس خلافتِ احمدیہ نے تو تاقیامت جاری و ساری رہنا ہے اور اللہ تعالیٰ اپنی اس نعمتِ عظمیٰ سے اپنے پیاروں کو نوازتا چلا جائے گا لیکن ہماری سب سے بڑی اور اہم ذمہ داری یہ ہے کہ ہم خلافتِ احمدیہ کے دست و بازو بنیں۔ ہم اس کے سلطانِ نصیر بنیں۔ ہم اس کے تمام تقاضوں کو ادا کرنے والے ہوں۔ اور ہم میں، ہاں ہم میں ایسے خوش قسمت مقدادؓ پیدا ہوں جو ہر دور میں اپنے امام کی خدمت میں عرض گزار ہوں کہ اے ہمارے جان سے پیارے آقا! دشمن آپ پر آگے سے حملہ آور نہیں ہو سکتا جب تک وہ ہم پر حملہ آور نہ ہو۔ دشمن آپ پر پیچھے سے حملہ آور نہیں ہو سکتا جب تک وہ ہم پر حملہ آور نہ ہو۔ دشمن آپ پر دائیں جانب سے حملہ آور نہیں ہو سکتا جب تک وہ ہم پر حملہ آور نہ ہو۔ دشمن آپ پر بائیں جانب سے حملہ آور نہیں ہو سکتا جب تک وہ ہم پر حملہ آور نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو خلافت کا جاںنثار سپاہی بننے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم اور ہماری آنے والی نسلیں اس دائمی خلافت کے ساتھ چمٹے رہنے والوں میں شمار ہوں۔ آمین ثم آمین۔ مزید پڑھیں: سقراط ۔ ایتھنز کی بَڑ مکھی