https://youtu.be/wadroRqCEcY (انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲۱؍جولائی ۲۰۲۳ء) جنگِ بدر کی اہمیت اور اس کے اثرات کے بارے میں لکھا ہے کہ جب فتح بدر کی خوشخبری لے کر عبداللہ بن رَوَاحَؓہ اور زید بن حارثہؓ مدینہ پہنچے تو ان کے منہ سے فتح کی خوشخبری کا اعلان سن کر اللہ کا دشمن کعب بن اشرف یہودی ان کو جھٹلانے لگا۔ وہ کہنے لگا کہ اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ان بڑے بڑے رؤسا کو مار ڈالا ہے تو زمین کی پشت پر رہنے سے زمین کے اندر رہنا بہتر ہے۔ یعنی زندہ رہنے سے موت بہتر ہے۔ (سیرۃ الحلبیہ جلد2صفحہ250 دارالکتب العلمیہ بیروت 2002ء) فتح بدر کے نتائج بیان کرتے ہوئے حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے یوں لکھا ہے کہ ’’ابھی تک مدینہ میں قبائل اوس اورخزرج کے بہت سے لوگ شرک پر قائم تھے۔ بدر کی فتح نے ان لوگوں میں ایک حرکت پیدا کر دی اوران میں سے بہت سے لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس عظیم الشان اور خارق عادت فتح کو دیکھ کر اسلام کی حقانیت کے قائل ہوگئے۔ اور اس کے بعد مدینہ سے بت پرست عنصر بڑی سرعت کے ساتھ کم ہونا شروع ہو گیا مگر بعض ایسے بھی تھے جن کے دلوں میں اسلام کی اس فتح نے بغض وحسد کی چنگاری روشن کر دی اور انہوں نے برملا مخالفت کو خلاف مصلحت سمجھتے ہوئے بظاہر تو اسلام قبول کر لیا لیکن اندر ہی اندراس کے استیصال کے درپے ہو ہو کر منافقین کے گروہ میں شامل ہو گئے۔ ان موخرالذکر لوگوں میں زیادہ ممتاز عبداللہ بن اُبی ابن سلول تھا جو قبیلہ خزرج کاایک نہایت نامور رئیس تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ میں تشریف لانے کے نتیجہ میں اپنی سرداری کے چھینے جانے کا صدمہ اٹھا چکا تھا۔ یہ شخص بدر کے بعد بظاہر مسلمان ہو گیا، لیکن اس کا دل اسلام کے خلاف بغض وعداوت سے لبریز تھا اوراہلِ نفاق کا سردار بن کر اس نے مخفی مخفی اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ریشہ دوانی کاسلسلہ شروع کر دیا۔‘‘(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 376) مزید فرماتے ہیں کہ ’’جنگِ بدر کااثر کفار اور مسلمانوں ہردو کے لیے نہایت گہرا اور دیر پا ہوا اوراسی لیے تاریخِ اسلام میں اس جنگ کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے حتی کہ قرآن شریف میں اس جنگ کا نام یوم الفرقان رکھا گیا ہے۔ یعنی وہ دن جبکہ اسلام اور کفر میں ایک کھلا کھلا فیصلہ ہو گیا۔ بیشک جنگِ بدر کے بعد بھی قریش اور مسلمانوں کی باہم لڑائیاں ہوئیں اور خوب سخت سخت لڑائیاں ہوئیں اور مسلمانوں پر بعض نازک نازک موقعے بھی آئے لیکن جنگِ بدرمیں کفار مکہ کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ چکی تھی جسے بعد کا کوئی جراحی عمل مستقل طور پر درست نہیں کر سکا۔ تعداد مقتولین کے لحاظ سے بے شک یہ کوئی بڑی شکست نہیں تھی۔ قریش جیسی قوم میں سے ستر بہتر سپاہیوں کامارا جانا ہرگز قومی تباہی نہیں کہلا سکتا۔ جنگِ احد میں یہی تعداد مسلمان مقتولین کی تھی لیکن یہ نقصان مسلمانوں کے فاتحانہ رستہ میں ایک عارضی روک بھی ثابت نہیں ہوا۔‘‘حالانکہ مسلمان تو اس وقت بہت کمزور تھے۔ ’’پھر وہ کیا بات تھی کہ جنگِ بدر یوم الفرقان کہلائی؟ اس سوال کے جواب میں بہترین الفاظ وہ ہیں جو قرآن شریف نے بیان فرمائے اور وہ یہ ہیں۔ یَقْطَعَ دَابِرَ الْکَافِرِیْنَ۔ واقعی اس دن کفار کی جڑ کٹ گئی یعنی جنگِ بدر کی ضرب کفار کی جڑ پر لگی اور وہ دو ٹکڑے ہو گئی۔ اگر یہی ضرب بجائے جڑ کے شاخوں پر لگتی توخواہ اس سے کتنا گنا زیادہ نقصان کرتی وہ نقصان اس نقصان کے مقابلہ میں ہیچ ہوتا لیکن جڑکی ضرب نے ہرے بھرے درخت کو دیکھتے دیکھتے ایندھن کا ڈھیر کر دیا اور صرف وہی شاخیں بچیں جو خشک ہونے سے پہلے دوسرے درخت سے پیوند ہو گئیں۔ پس بدر کے میدان میں قریش کے نقصان کا پیمانہ یہ نہیں تھا کہ کتنے آدمی مرے بلکہ یہ تھا کہ کون کون مرے اور جب ہم اس نقطہ نگاہ سے قریش کے مقتولین پہ نظر ڈالتے ہیں تو اس بات میں ذرا بھی شک وشبہ کی گنجائش نہیں رہتی کہ بدر میں فی الواقعہ قریش کی جڑ کٹ گئی۔ عتبہ اور شیبہ اور امیہ بن خَلَف اور ابوجہل اور عقبہ بن ابی مُعَیط اور نضر بن حارث وغیرہ قریش کی قومی زندگی کے روح رواں تھے اوریہ روح بدر کی وادی میں قریش سے ہمیشہ کے لیے پرواز کرگئی اوروہ ایک قالب بے جان کی طرح رہ گئے۔ یہ وہ تباہی تھی جس کی وجہ سے جنگِ بدر یوم فرقان کے نام سے موسوم ہوئی۔‘‘(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 371-372) حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی اس بارے میں لکھا ہے۔ آپؓ فرماتے ہیں کہ ’’یہی وہ جنگ ہے جس کا نام قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرقان رکھا ہے اور یہی وہ جنگ ہے جس میں عرب کے وہ سردار جو اس دعویٰ کے ساتھ گھر سے چلے تھے کہ اسلام کا نام ہمیشہ کے لیے مٹا دیں گے خود مٹ گئے اور ایسے مٹے کہ آج ان کا نام لیوا کوئی باقی نہیں اور اگر کوئی ہے تو اپنے آپ کو ان کی طرف منسوب کرنا بجائے فخر کے عار خیال کرتا ہے۔ غرضیکہ اس جنگ میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو عظیم الشان کامیابی عطا فرمائی تھی۔‘‘(سیرة النبیﷺ،انوار العلوم جلد 1صفحہ 610) پھر حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ’’اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مسلمانوں پر اس کے بعد بھی مظالم ہوتے رہے اور انہیں کفار سے کئی لڑائیاں لڑنی پڑیں مگر اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ جنگِ بدر نے کفار کی طاقت کو بالکل توڑ دیا تھا اور مسلمانوں کی شوکت ان پر ظاہر ہو گئی تھی۔ جنگِ بدر جسے قرآن کریم نے فرقان قرار دیا ہے اس کے متعلق بائبل میں بھی پیشگوئی پائی جاتی ہے۔ چنانچہ یسعیاہ باب 21آیت 13 تا 17 میں لکھا ہے ’’عرب کی بابت الہامی کلام۔ عرب کے صحرامیں تم رات کو کاٹو گے۔ اے دوانیوں کے قافلو! پانی لے کے پیاسے کا استقبال کرنے آؤ۔ اے تیما کی سرزمین کے باشندو! روٹی لے کے بھاگنے والے کے ملنے کو نکلو کیونکہ وے تلواروں کے سامنے سے ننگی تلوار سے اور کھینچی ہوئی کمان سے اور جنگ کی شدت سے بھاگے ہیں کیونکہ خداوند نے مجھ کو یوں فرمایا۔ ہنوز ایک برس، ہاں مزدور کے سے ایک ٹھیک برس میں قیدار کی ساری حشمت جاتی رہے گی اور تیر اندازوں کے جو باقی رہے قیدار کے بہادر لوگ گھٹ جائیں گے کہ خداوند اسرائیل کے خدا نے یوں فرمایا۔‘‘ آپؓ فرماتے ہیں کہ ’’یسعیاہ نبی کے اس کلام میں یہ پیشگوئی کی گئی تھی کہ ہجرت کے زمانہ پر ٹھیک ایک سال گزرنے کے بعد عرب میں ایک ایسی جنگ ہو گی جس میں قیدار کی ساری حشمت خاک میں مل جائے گی اور وہ جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بھاگ جانے کا الزام لگاتے تھے اپنے لاؤ لشکر کی موجودگی میں پیٹھ دکھائیں گے اور وہ بھی ایسی حالت میں کہ کمانڈر اور ان کے جرنیلوں کی لاشیں میدانِ جنگ میں پڑی رہ جائیں گی اور آخر وادی مکہ اپنے جرنیلوں کو کھو کر اپنی اس شوکت کو بالکل کھو بیٹھے گی جو اس سے پہلے اسے حاصل تھی۔ اِسی طرح قرآن کریم نے ایک گیارھویں رات کی خبر دے کر یہ پیشگوئی کی تھی کہ ہجرت کے پورے ایک سال کے بعد کفار کی ساری طاقت ٹوٹ جائے گی اور مسلمانوں کے لیے فتح اور کامرانی کی صبح ظاہر ہو جائے گی۔ چنانچہ عین ایک سال کے بعد جنگِ بدر ہوئی جس میں کفار کے بڑے بڑے لیڈر مارے گئے اور مسلمانوں کو ان پر نمایاں غلبہ حاصل ہوا۔‘‘ فرماتے ہیں کہ ’’… دیکھ لو مدینہ میں آنے کے بعد پہلے رمضان تک اس پیشگوئی پر دس سال پورے ہوئے تھے اور رمضان سے گیارہویں سال کا آغاز ہوا تھا۔ اس ایک سال کے گزرنے پر دوسرے سال 17 رمضان کو بدر کی جنگ ہوئی جس میں بڑے بڑے کفار مارے گئے اور ان کے ظالمانہ حملوں کا خاتمہ ہو گیا۔گویا وہ گیارہویں لیل جو مسلمانوں پر آئی ہوئی تھی ٹھیک ایک سال گزرنے کے بعد دور ہو گئی۔ اور مسلمانوں نے فتح و کامرانی کی صبح کو اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی تائید اور نصرت کے ساتھ دیکھ لیا۔‘‘ ( تفسیر کبیر جلد8صفحہ 515) ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: توہینِ رسالتﷺ پر ایک مسلمان کا ردعمل کیا ہونا چاہیے؟