حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کی قربانیوں کے معیار اور اطاعت کے اعلیٰ ترین نمونے کا ذکر کرتے ہوئے ایک جگہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان فرمایا کہ ایک دفعہ جب آپ قادیان آئے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا مجھے آپ کے متعلق الہام ہوا ہے کہ اگر آپ اپنے وطن گئے تو اپنی عزت کھو بیٹھیں گے۔ اس پر آپ نے وطن واپس جانے تک کا نام تک نہ لیا۔ اس وقت آپ اپنے وطن بھیرہ میں ایک شاندار مکان بنا رہے تھے۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ جب میں بھیرہ گیا ہوں تو میں نے بھی یہ مکان دیکھا تھا۔ اس میں آپ ایک شاندار ہال بنوا رہے تھے تا کہ اس میں بیٹھ کر درس دیں اور مطب بھی کیا کریں۔ حضرت مصلح موعودؓ کہتے ہیں کہ موجودہ زمانے کے لحاظ سے (یعنی اس زمانے میں جب یہ بیان ہو رہا ہے) تو وہ مکان زیادہ حیثیت کا نہ تھا لیکن جس زمانے میں حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ نے قربانی کی تھی اس وقت جماعت کے پاس زیادہ مال نہیں تھا۔ اس وقت اس جیسا مکان بنانا بھی ہر شخص کا کام نہیں تھا۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ارشاد کے بعد آپ نے واپس جا کر اس مکان کو دیکھا تک نہیں۔ بعض دوستوں نے کہا بھی کہ آپ ایک دفعہ جا کر مکان تو دیکھ آئیں۔ لیکن آپ نے فرمایا کہ میں نے اسے خدا تعالیٰ کے لئے چھوڑ دیا ہے اب اسے دیکھنے کی کیا ضرورت ہے۔ (ماخوذ از مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع 1956ء میں خطابات، انوارالعلوم جلد25صفحہ419-420) …حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں حضرت خلیفۃ المسیح الاول میں جس قدر اخلاص تھا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ لیکن انہیں تیز چلنے کی عادت نہیں تھی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب سیر کے لئے تشریف لے جاتے تو حضرت خلیفۃ المسیح الاول بھی ساتھ ہوتے مگر تھوڑی دُور چل کر جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تیز قدم کر لینے تو حضرت خلیفہ اول نے قصبہ کے مشرقی طرف باہر ایک بَڑ کا درخت تھا اس کے نیچے بیٹھ جانا۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سیر سے واپس آنا تو پھر آپ کے ساتھ ہو لینا۔ کسی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ذکر کیا کہ حضرت مولوی صاحب سیر کے لئے نہیں جاتے۔ آپ نے فرمایا وہ تو روز جاتے ہیں۔ اس پر آپ کو بتایا گیا کہ وہ سیر کے لئے ساتھ تو چلتے ہیں لیکن پھر بڑ کے نیچے بیٹھ جاتے ہیں اور واپسی پر ساتھ شامل ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ اس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمیشہ حضرت خلیفہ اول کو اپنے ساتھ سیر میں رکھتے اور جب آپ نے تیز ہو جانا اور حضرت خلیفہ اوّل نے بہت پیچھے رہ جانا تو آپ نے چلتے چلتے ٹھہر جانا اور فرمانا مولوی صاحب فلاں بات کس طرح ہے۔ مولوی صاحب تیز تیز چل کر آپ کے پاس پہنچتے اور ساتھ چل پڑتے تو پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام تھوڑی دیر کے بعد پھر تیز چلنا شروع کرتے آگے نکل جاتے تھوڑی دور جا کر پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ٹھہر جاتے اور فرماتے مولوی صاحب فلاں بات اس اس طرح ہے۔ مختلف باتیں ہوتیں۔ مولوی صاحب پھر تیزی سے آپ کے پاس پہنچتے اور تیز تیز چلنے کی وجہ سے ہانپنے لگ جاتے مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام آپ کو اپنے ساتھ رکھتے۔ تیس چالیس گز چل کر مولوی صاحب پیچھے رہ جاتے اور آپ پھر کوئی بات کہہ کر مولوی صاحب کو مخاطب فرماتے اور وہ تیزی سے آپ سے آ کر مل جاتے…‘‘(ماخوذ از تحریک جدید کے مقاصد اور ان کی اہمیت، انوارالعلوم جلد 14صفحہ 126-127)(خطبہ جمعہ ۱۳؍نومبر ۲۰۱۵ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۴؍ دسمبر۲۰۱۵ء) مزید پڑھیں: یہ مخالفتیں ہمیں ترقیات کی طرف لے جانے والی ہیں