https://youtu.be/bJ6Ke6YthOM عام طور پر یہ خیا ل کیا جاتاہے کہ یونان میں کوئی نبی نہیں گزرا اور گویہ ہمارا کام نہیں کہ ہم وہاں کے کسی نبی کو تلاش کرتے پھریں مگر چونکہ قرآن کریم نے اصولی طور پر کہہ دیا ہے کہ ہر قوم میں کوئی نہ کوئی نبی گزرا ہے اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ یونان میں بھی نبی آیا ہے اور سقراط کے متعلق تاریخ کہتی ہے کہ وہ کہا کرتا تھا مجھ پر فرشتے اُترتے ہیں اور مجھ سے باتیں کرتے ہیں(حضرت مصلح موعودؓ) اندازاً چار سو ستر برس قبل مسیح ایتھنز یونانی دنیا کا تہذیبی مرکز مانا جاتا تھا، اس دور میں علم فلسفہ نے خوب ترقی کی۔ اس دور میں اس پُرہجوم شہر ایتھنز میں ایک ایسا شخص پیدا ہوا جس نےآگے چل کر فلسفے کی دنیا میں امامت کرنا تھی۔دنیا آج تک اس عظیم شخص کے سحر سے آزاد نہیں ہو سکی۔ معلوم تاریخِ انسانی میں شائد یہ پہلا انسان تھا جس نے اپنے علم اور سچ کی بنا پر بھرے مجمع میں زہر پی لیا اور امر ہوگیا۔ ’سقراط (Socrates)‘ یہاں پر ذرا توقف کرتے ہیں کہ ایک ایسے عظیم انسان کا نام آپ نے ابھی پڑھاہے جس نے خود کتابیں نہیں لکھیںمگر جس کی ذات پر اور تعلیمات پر بہت سی کتب لکھی گئی ہیں، جس نے کسی ملک یا شہر پرفتح نہیں پائی مگر اپنی وفات کے دوہزار سال سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد بھی لوگوں کے دل و دماغ کو فتح کررہا ہے۔ جس کے ساتھ اس دَور میں سب سے زیادہ نفرت کی گئی مگر سب سے زیادہ محبت بھی اسی کے ساتھ کی گئی۔ سقراط کا باپ سوفرونیسکس (Sophroniscus) ایک پیشہ ور سنگ تراش اور والدہ فیناریٹے(Phaenarete) ایک ماہر دائیہ تھی۔باپ کی طرف سے سقراط کو بنا بنایا کاروبار بھی ملا ، اس نے مجسمے بھی بنائے۔ مگر سقراط نے تجارت کی بجائے علم کی ترویج کو ترقی دی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سقراط کی والدہ کے پیشے نے اس کی ذات پر زیادہ اثر ڈالا، سقراط عظیم نے بعد میں اپنا موازنہ ایک دائی سے کیا جو بچوں کو جنم نہیں دیتی تھی بلکہ لوگوں کے ذہنوں میں سوال پیدا کرتی تھی، اور انہیں نئی زندگی عطا کرتی تھی ۔ سقراط ایک عجیب و غریب شخصیت کا مالک تھا۔روم کے میوزیم میں پڑے ہوئے سقراط کے ایک مجسمے کے مطابق :’’آپ کی شکل خالص یونانی نہیں تھی، چوڑا چہرا، چپٹی ناک، موٹے ہونٹ اور گھنی داڑھی‘‘۔ تاریخ کے مطابق عظیم سقراط شکل و صورت کے لحاظ سے انتہائی بھدا آدمی تھا، پستہ قد، فربہ اندام، بڑی بڑی اور باہر کو نکلتی آنکھیں۔ مگر سقراط کا دماغ تیز دھار تلوار سے بھی زیادہ تیز تھا،سقراط انتہائی خوش مزاج، بذلہ سنج اور انسان دوست تھا۔ سقراط کے باپ نے اپنے بیٹے کو آبائی پیشہ سنگ تراشی سکھایا۔ سقراط نے ملک کی خاطر جنگوں میں بھی حصہ لیا ۔ پیلونیشیا کی جنگ میں وہ پیدل فوج کا حصہ تھا۔ پوٹیڈیا، ڈیلیم اور ایمفپولس جیسی لڑائیوں میں اس نے قابل ذکر ہمت اور شجاعت کا مظاہرہ کیا، آپ کئی میل برف پر ننگے پاؤں چل سکتے تھے اور کئی کئی دن بھوک پیاس برداشت کرتے۔ آپ کے ان اوصاف کی وجہ سے سقراط کے ساتھ سپاہی ان کی بہت عزت کرتے تھے۔ سقراط نے خود کو ہمیشہ چاق و چوبند و توانا رکھا۔وہ ایک بہت بہادر انسان تھا۔ ذرا تصور کریں کہ جنگ کے میدان میں سقراط کے ایک ہاتھ میں تلوار اور دوسرے ہاتھ میں ڈھال ہے۔ وہ سر اُٹھائے دشمن پر جھپٹنے کے لیے پر تول رہا ہے، اور پھر ذرا تصور کریں جنگ کے میدانوں سے دُور شہر کے بازاروں میں سقراط سر جھکائے دنیا سے بے نیاز اپنی سوچ اپنی دُھن میں مگن ہے۔ یہ دو بالکل الگ دنیائیں ہیں ۔ سقراط کو عظیم اس کے جنگی معرکوں نے نہیں بلکہ شہر کے بازاروں میں گزارے ہوئے وقت نے بنایا ۔سقراط نے ایتھنز میں سکول، کالجز نہیں بنائے، کوئی ہسپتال نہیں تعمیر کیا یا کتابیں نہیں لکھیں بلکہ وہ شہر کے پُرہجوم مقام پر جاتا جہاں وہ لوگوں کے ذہنوں میں سوچ کے بیج بوتا تھا اور دلوں میں سوال کرنے کی ہمت پیدا کرتا تھا۔ وہ شاعروں ، فلسفیوں، ادیبوں حتیٰ کہ عام نوجوانوں سے ملتا اور ان سے بات چیت کا آغاز ایک لاعلم انسان کی طرح سوال کر کے کرتا، جیسے کہ ’’حوصلہ کیا ہے؟‘‘یا ’’انصاف کِسے کہتے ہیں؟‘‘اور پھر ان سوالات کے جوابوں سے مزید سوال کرتا۔جب اسے جواب ملتے تو اس کی آنکھوں میں ستارے چمک اُٹھتے ، وہ ان جوابوں کوا پنے سوالوں سے توڑتا، اور انہی سوالوں کی مدد سے وہ سوچ کے نئے زاویے کھولتا اور لوگوں کو سوچنے پر مجبورکر دیتا۔ یہ سقراط عظیم کا انداز تھا۔ ’’سوالات کے ذریعے سچائی کی انتھک جستجو‘‘۔ سقراط نے سب کچھ جاننے کا کبھی بھی دعویٰ نہیں کیا بلکہ وہ تو برملا اپنی لاعلمی کا اظہار کرتا تھا۔ اس کے نزدیک حکمت اور عقلمندی ہر چیز کا علم رکھنا نہیں ہوتا بلکہ اپنی لا علمی کو پہچان لینا ہی اصل علم ہے اس لیے وہ کہا کرتا تھا کہ ’’وہ جانتا ہےکہ وہ کچھ نہیں جانتا۔‘‘ایک عاجزانہ اعتراف کہ حقیقی حکمت اپنی جہالت کو پہچاننے سے ہی شروع ہوتی ہے۔اس نے ہر مبہم نظریے، آسان تعمیم (جنرلائزیشن) یا مخفی تعصب کو للکارا، اس نے عادت بنا لی کہ صبح سویرے بیدار ہوتا اور منڈی، جمنازیم، اکھاڑوں یا دست کاروں کے کارخانوں میں چلا جاتا اور ہر اس شخص سے بحث کرتا جو تحریک انگیز ذہانت یا دلچسپ حماقت کا امکان رکھتا۔ ایک دفعہ سقراط کے دوست شیرفون (Chaere-phon) نےڈیلفی میں شہر کے بڑے دانا پروہت (Oracle) سے پوچھا ، کیا سقراط سے زیادہ کوئی عقلمند ہے؟ تو اوریکل یعنی پروہت نے جواب دیا ’’کوئی نہیں۔‘‘اس بات نے سقراط کو حیران کر دیا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ وہ عقلمند نہیں ہے۔ اس لیے سقراط نے کسی دانا، عقلمند کی تلاش کرنے کا ارادہ کیا۔ اس نے سیاست دانوں ، شاعروں ادیبوں فلاسفرز وغیرہ سے سوالات کیے یہ جاننےکے لیے کہ آیا انہیں پتا ہے کہ وہ نہیں جانتے۔ اس سے سقراط نے اپنا مشہور نتیجہ نکالا کہ ’’میں اس آدمی سے زیادہ عقلمند ہوں کیونکہ ہم دونوں میں سے کوئی بھی قابلِ قدر چیز نہیں جانتا، لیکن اس آدمی کو یہ گمان ہے کہ وہ جانتا ہے جبکہ درحقیقت وہ نہیں جانتا۔ جبکہ مجھے پتا ہے کہ مجھے کچھ علم نہیں اور میں کچھ علم رکھنے کا سوچتا ہی نہیں۔‘‘ سقراط کا ایک مشہور جملہ ہے کہ‘‘An unexamined life is not worth living’’ ’’ایک بے تحقیق زندگی جینے کے قابل نہیں‘‘۔ اس کا خیال تھا کہ ایک بامقصد اور کامیاب وجود بننے کے لیے خودکی عکاسی اور علم کا حصول لازمی ہے۔ اس نے ایتھنز کے باشندوں کو ان کے اپنے عقائد پر سوال کرنے کی ترغیب دی، انہیں چیلنج کیا کہ وہ اپنی اقدار اور اپنے مفروضوں اور عقائد کو درست ثابت کریں۔ سقراط نے ژانتھیفے(Xanthippe) نام کی ایک عورت سے شادی کی جو شہر بھر میں اپنے غصے اور بدمزاجی کی وجہ سے مشہورتھی۔ سقراط سے کسی نے پوچھا کہ اس سے ہی شادی کیوں کی؟ تو مسکراتے ہوئے عظیم سقراط نے جواب دیا کہ ’’اگر میں اس کو برداشت کر لوں تو ہر چیز برداشت کر سکتا ہوں۔‘‘ سقراط نے نہایت سادہ زندگی گزاری، دولت کو یکسر مسترد کر دیا، اور اکثر ننگے پاؤں پھرتا رہتا، کبھی کبھار اچانک رک جاتا اور دیر تک ایک جگہ خاموشی سے کھڑا رہتا،گہری سوچ میں گم۔ سقراط عظیم کے دور میں ایتھنز سوفسطائیوں (Sophists) سے بھرا پڑا تھا۔ یہاں مختصراً یہ بتانا ضروری ہے کہ یہ سوفسطائی لوگ کون تھے۔جوسٹین گارڈر(Jostein Gaarder) جو ناروے کا مشہور مصنف ہے اپنے شہرہ آفاق ناول ’’سوفی کی دُنیا‘‘ (Sophie’s World) میں لکھتا ہے کہ ’’خانہ بدوش معلموں اور فلسفیوں کا گروہ جو مختلف یونانی نوآبادیوں سے تعلق رکھتا تھا، ایتھنز میں گھس آیا۔ وہ اپنے آپ کو سوفسطائی کہتے تھے۔ سوفسطائی کے لفظی معنی ہیں ایک ذہین اور باخبر انسان۔ ایتھنز میں یہ لوگ وہاں کے باشندوں کو آمدنی کے ذرائع اور مختلف طریقوں سے رقم بٹورنے کے طریقے سکھانے لگے، سوفسطائی لوگوں کی ایک خصوصیت مشترکہ تھی وہ لوگ فطری فلسفہ کے بارے میں بےحد تنقیدی اور روایتی رویہ رکھتے تھے…سوفسطائی افراد آزاد مزاج لوگ تھے۔ انہوں نے دنیا دیکھ لی تھی اور مختلف حکومتوں کے طریقہ کار کا مطالعہ کیا تھا۔ وہ قوانین سے واقف تھے۔ اسی علم کی بنیاد پر وہ یہ سوال اُٹھانے میں حق بجانب تھے کہ سماجی طور پر کیا بہتر ہے۔ ان کے اسی قسم کے مجہول خیالات نے ایتھنز کی شہری زندگی پر بہت اثر ڈالا۔‘‘ سوفسطائی لوگوں کو پیسوں کے عوض حکمت سکھانے کا دعویٰ کرتے تھے اور شعلہ بیان مقرر ہوتے تھے۔ اس وجہ سے وہ لوگوں کو اکثر متاثر کرنے میں کامیاب ہو جاتے اور لوگ ان کے چنگل میں پھنس جاتے۔ سقراط کا سامنا اکثر ان خودساختہ دانشمند سوفسطائیوں سے ہوتا۔ سقراط کے برعکس یہ سوفسطائی اپنی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے رہتے۔ اور سقراط کے برعکس اپنے شاگردوں کو جائز و ناجائز ذرائع سے دولت جمع کرنے کے سبق سکھاتے رہتے۔ جب سقراط ان کی مجلسوں میں جاتا تو اپنے مسلسل عقلی سوالوں سے انہیں زچ کر دیتا، ان کے تمام دلائل ختم کردیتا۔سقراط کے ان عوامی مباحثوں میں شہر کی بہت سی خودساختہ معزز شخصیات شرمندہ ہوئیں۔ اس کےنتیجے میں جہاں اس کے مداح بڑھنے لگےوہاں طاقتور دشمن بھی جمع ہونے لگ گئے۔ سقراط نےاپنے بارے میں کہا تھا کہ ’’مجھے خدا نے محض ایک بَڑ مکھی کی طرح بنایا ہے میں ہر وقت ہر جگہ تم پر مسلط ہوں، تمہیں مشتعل کرتا، قائل کرتا اور تمہیں ملامت کرتا ۔‘‘ “I am that gadfly which God has given the state, and all day long and in all places am always fastening upon you, arousing and persuading and reproaching you” (Apology. Trans. Benjamin Jowett) سقراط کی زندگی کا سب سے عجیب و غریب پہلو تب سامنے آیا جب اس نے دعویٰ کیا کہ کوئی اندرونی آواز یا الٰہی سرگوشی اسے سنائی دیتی ہےجو اسے غلطیوں سے خبردار کرتی ہے۔ یہ کوئی زوردار آواز نہیں کہ ہر کوئی سن سکے۔بلکہ یہ تو محض ایک دوست کی دوسرے دوست کو سرگوشی ہوتی ہے۔ اس دعوے کا لوگوں نے بہت مذاق بنایا۔ ایتھنز کے ڈرامہ نگار ارسطوفینس نے توایک ڈرامے میں سقراط کو ایک مسخرے کے طور پر پیش کیا جو آسمانوں میں اڑتا اور ہذیان بولتا تھا۔ شہر کے معززین کے ہنسی ٹھٹھوں اور مخالفت کے باوجود سقراط کے چاہنے والے بہت تھے خاص طور پر نوجوان طبقہ۔ افلاطون (Plato) نام کا ایک شاگرد ہمہ وقت اس کے ساتھ رہتا، سقراط کا ہر لفظ سنتا لکھتا اور یاد رکھتا۔(ہم تک سقراط افلاطون کی بدولت ہی پہنچا ہے)زینوفن نامی ایک شاگرد اسے عملی راہنما سمجھتا تھا۔ نوجوان نسل میں سقراط کی اسی مقبولیت کی وجہ سے ایتھنز کے بزرگ پریشان تھے۔انہیں خدشہ تھا کہ وہ اگلی نسل کو خراب کر رہا ہے، ان کی روایات کے خلاف بغاوت پر اکسا رہا ہے۔ سقراط کے بعض مشہور شاگردوں میں افلاطون سرِ فہرست ہے۔ جس کے تیکھے تخیل پر اس عظیم ولی نے اس قدر پائیدار نقش ثبت کیا کہ فلسفیانہ تاریخ میں دونوں ذہن ہمیشہ کے لیے مدغم ہو گئے۔ امیر کبیر کرائٹو بھی تھا جس نے سقراط کو ہمیشہ محبت کی نظر سے دیکھا اور اس کا بے انتہا خیال رکھا کہ وہ کبھی کسی چیز کا محتاج نہ ہو۔ زینوفن بھی تھا جس نے فلسفہ چھوڑ کر سپہ گری اختیار کر لی مگر تصدیق بھی کی کہ سقراط کی رفاقت سے زیادہ مفید اور کوئی چیز نہیں۔ اس کےعلاوہ بہت سے امراء اور وزراء کےبیٹے اس ولی سقراط کے اسیر تھے جن کی وجہ سے وہ گاہےبگاہے حکومتِ وقت کے کان بھرتے رہتے تھے۔ سال ۳۹۹ء قبل مسیح میں جب کہ سقراط عظیم ستر برس کا تھا اس پر بغاوت، دیوتاؤں کی بے حرمتی،نوجوانوں کو بگاڑنے کے الزامات لگائے گئے۔ ان الزامات کو لگانے میں میلیٹس نامی ایک شاعر اور لائکن نامی ایک شعلہ بیان سوفسطائی خطیب پیش پیش تھے۔ انہوں نے سقراط کو خطرناک باغی کے طور پر پیش کیا۔ سقراط کو گرفتار کیا گیا، اس پر مقدمہ چلایا گیا۔ سقراط رحم کی بھیک مانگ سکتا تھا، فرار بھی ہو سکتا تھا۔ مگروہ اپنے دفاع میں ڈٹ کر کھڑا ہوگیا، اس نے عقل سے اپنا دفاع کیا، دلیل سے بات ججز تک پہنچائی، اور سچائی کو ہاتھ سے نہ چھوڑا، اس نے کہا کہ ’’میں نے سچائی کی تلاش میں ایتھنز کی خدمت کے سوا کچھ بھی نہیں کیا۔‘‘ سقراط نے کبھی رحم کی بھیک نہیں مانگی،بلکہ سکون سے اپنا مقدمہ لڑا اور دلیل دی کہ ’’میں کسی کو کچھ نہیں سکھا سکتا، میں صرف انہیں سوچنے پر مجبور کر سکتا ہوں۔‘‘ جب اس سے پوچھا گیا کہ اپنے آپ کو کس سزا کا مستحق سمجھتا ہے تو اس نے خوش مزاجی سے کہا کہ ’’اسے ایک اولمپک ہیرو کی طرح زندگی بھر مفت کھانا دیا جائے۔‘‘ ججز نے سقراط کو موت کی سزا سنا دی۔ اپنے آخری دنوں میں وہ ایک کوٹھڑی میں بند پرسکون رہا، اس کے یار دوست، شاگرد روتے ہوئے اسے فرار ہونے پر اکساتے رہے مگر وہ ہمیشہ انکار کر دیتا یہ کہتے ہوئے کہ ’’قانون کی پاسداری کرنا قانون کو دھوکہ دینے سے کہیں زیادہ بہترہے۔‘‘ اپنے آخری دن اسے ایک مجمع کے سامنے لایا گیا۔سقراط کے تمام شاگرد اس کے گرد بیٹھے رو رہے تھے۔سقراط کو زہر کا پیالہ تھمایا گیا جسے سقراط نے سکون سے پی لیا۔ زہر نے اس کے جسم کے نچلے حصے کو مفلوج کر دیا۔ وہ پھر بھی اپنے شاگردوں کے ساتھ ہنسی مذاق کرتا رہا، باتیں،نصائح کرتا رہا۔ اس نے اپنے شاگردوں کے ساتھ روح کے لافانی ہونے پر گفتگو کرتے ہوئے کہا ’’موت تمام انسانی نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت ہوسکتی ہے۔‘‘ “Death may be the greatest of all human blessings” یہاں تک کہ اس دن ایک طرف سورج غروب ہوااور ایک طرف سقراط اس جہانِ فانی سے رخصت ہوگیا۔ اس کے آخری الفاظ تھے:’’کرایٹو، ہم اسکلیپئیس کے ایک مرغ کے مقروض ہیں ۔ یہ قرض ادا کردینا اسے نظرانداز مت کرنا۔‘‘“Crito, we owe a rooster to Asclepius. Pay it and do not neglect it” حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ اپنی تصنیف لطیف ’’الہام، عقل ، علم اور سچائی‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’سقراط کا مذہبی اور سیاسی فلسفہ آسمانی تعلیمات کے آسمانی انداز سے ہمیشہ ہم آہنگ رہا۔تاریخ کسی بھی ایسے نبی کا ذکر نہیں کرتی جس نے ملکی قانون کے خلاف علم بغاوت بلند کیا ہو۔ لیکن جب بھی ریاست خدا تعالیٰ کی اطاعت کے راستہ میں حائل ہوئی تو انبیاءنے اسے بلاخوف و تردّدردّ کر دیا اور خداتعالیٰ کے احکامات پر عمل پیرا ہوئے۔ سقراط کا بھی بالکل یہی فلسفہ تھا۔ وہ ریاست کا کامل فرمانبردارتھا لیکن جب یہ وفاداری اطاعتِ خداوندی سے متصادم ہوئی تو پھر اس کا دو ٹوک فیصلہ تھا کہ وہ اس وفاداری کو جو خالق کا حق ہے ریاست کی وفاداری پر ترجیح دے گا۔ اس نے سزائے موت سنانے والے ایوان کے سامنے پورے سکون اور وقار کے ساتھ کہا: ایتھنز کے لوگو! مجھے تم سے بہت پیار ہے اور میں تمہاری عزت کرتا ہوں لیکن اطاعت خدا ہی کی کروںگا، تمہاری نہیں۔ اور جب تک میں زندہ ہوں حکمت و دانائی کی تعلیم دینے اور اس پر عمل کرنے سے نہیں رکوں گا۔‘‘(صفحہ۸۲) حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ اسی کتاب الہام عقل، علم اور سچائی کے صفحہ ۸۸ پر لکھتے ہیں: ’’ہم سقراط کی شخصیت کے ہر پہلو کے معترف ہیں۔ اس کا کردار نہایت اعلیٰ تھا اور مطمح نظر عظیم الشان۔ اس نے ایسی پاکیزہ زندگی گزاری جو اوہام پر مبنی نہیں ہوتی۔ اس نے سلامتی کے ساتھ جنم لیا، سلامتی کے ساتھ زندہ رہا اور سلامتی کے ساتھ مسکراتے ہوئےاپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کر دی جبکہ اس کے محبت کرنے والے اس کے گرد کھڑے سسکیوں، آہوں اور چیخوں میں اسے الوداع کہہ رہے تھے۔ ایتھنز نے کبھی اس جیسی پاک روح کو رخصت ہوتے نہیں دیکھا تھا۔ خدا اس سے راضی ہو اور اس پر اپنی رحمتوں کی بارش نازل فرمائے۔ مگر اس کے قاتلوں پر افسوس کہ ایتھنز کو سقراط جیسا عظیم انسان کبھی دوبارہ دیکھنا نصیب نہیں ہوگا۔‘‘ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ بیان فرماتے ہیں :’’عام طور پر یہ خیا ل کیا جاتاہے کہ یونان میں کوئی نبی نہیں گزرا اور گویہ ہمارا کام نہیں کہ ہم وہاں کے کسی نبی کو تلاش کرتے پھریں مگر چونکہ قرآن کریم نے اصولی طور پر کہہ دیا ہے کہ ہر قوم میں کوئی نہ کوئی نبی گزرا ہے اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ یونان میں بھی نبی آیا ہے اور سقراط کے متعلق تاریخ کہتی ہے کہ وہ کہا کرتا تھا مجھ پر فرشتے اُترتے ہیں اور مجھ سے باتیں کرتے ہیں۔اُس وقت کی حکومت نے جو بُت پرست تھی اُس کے قتل کی تاریخ مقرر کر دی اُس کے ایک شاگرد نے یہ پیشکش کی کہ آپ یہاں سے بھاگ جائیں تو سقراط نے جواب دیا کہ مجھے تو فرشتوں نے بتایا ہے کہ تیری موت اِس طرح واقع ہوگی۔ مَیں اِس موت سے کِس طرح بھاگ سکتاہوں۔ (دائرۃ المعارف)‘‘(سیر روحانی صفحہ۷۷۵، شائع کردہ فضل عمر فاؤنڈیشن انڈیا، ۲۰۱۷ء) ہمارے عظیم سقراط نے کبھی ایک لفظ نہیں لکھا، پھر بھی اس کے خیالات نے مغربی فلسفے کی رَوِش کو تشکیل دیا۔ اس کے طالب علم افلاطون اور افلاطون کے شاگرد ارسطو نے سقراط کی میراث کو آگے بڑھایا، جس نے ان گنت نسلوں کو متاثر کیا۔ اپنی زندگی کے ذریعے عظیم سقراط نے یہ ثابت کیا کہ حکمت تمام جواب رکھنے کے بارے میں نہیں ہے بلکہ اصل حکمت صحیح سوال پوچھنے میں پوشیدہ ہے۔ بقول شاعر ورنہ سقراط مر گیا ہوتا اُس پیالے میں زہر تھا ہی نہیں مزید پڑھیں: کچا آم۔ موسم گرما کا بیش بہا تحفہ