https://youtu.be/RNM24gG4uSY جیسا کہ پہلا آدم جمالی اور جلالی رنگ میں مشتری اور زحل کی دونوں تاثیریں لے کر پیدا ہوا اسی طرح وہ آدم جو ہزار ششم کے آخر میں پیدا ہوا وہ بھی یہ دونوں تاثیریں اپنے اندر رکھتا ہے (حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام) جنت قریب کر دی جائے گی آیت نمبر۱۴ ہے: وَإِذَا الْجَنَّةُ أُزْلِفَتْ (اور جب جنت قریب کر دی جائے گی) یعنی قرب الٰہی کے نئے میدان کھلیں گے۔ حضرت مسیح موعودؑ نے جماعت کو مالی و جانی قربانیوں اور قلمی جہاد کی طرف بلایا اور تبلیغ اسلام کی لَو اُن کے دلوں میں جگائی۔نظام وصیت قائم کیا۔ اسی کا ذکر حدیث نبوی ﷺ میں کیا گیا ہے کہ وَيُحَدِّثُهُمْ بِدَرَجَاتِهِمْ فِي الْجَنَّةِ(صحیح مسلم کتاب الفتن بَابُ ذِكْرِ الدَّجَّالِ وَصِفَتِهِ وَمَا مَعَهُ حدیث نمبر ۲۹۳۷)مسیح موعودؑ اپنے ساتھیوں کو جنت کی بشارتیں دے گا۔ آج ہزار ہا احمدی اس نظام سے منسلک ہو چکے ہیں۔ اس سے مراد وہ سامان آسائش بھی ہو سکتے ہیں جو مغربی اقوام نے ایجاد کیے ہیں جیسا کہ دجال کے ذکر میں احادیث میں آتا ہے کہ اس کے ساتھ جنت بھی ہوگی اور جہنم بھی ہوگی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ فرماتے ہیںکہ فی زمانہ اسباب تنعم اور مصائب و شدائد دونوں بڑھ گئے ہیں۔(حقاٰئق الفرقان جلد ۴صفحہ ۳۳۵) حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ فرماتے ہیں: اس دن دوزخ بھی بھڑکائی جائے گی جو جنگ کی دوزخ بھی ہوگی اور آسمانی غضب کی دوزخ بھی ہوگی۔ اس کے باوجود جو لوگ اللہ تعالیٰ کی تعلیم پر عمل پیرا ہوں گے اور اس پر ثابت قدم رہیں گے ان کے لئے جنت نزدیک کر دی جائے گی۔ ہر شخص کو علم ہو جائے گا کہ اس نے اپنے لئے آگے کیا بھیجا ہے۔(ترجمہ قرآن۔حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ) ہرجان معلوم کرلے گی جو وہ لائی ہوگی آیت ۱۵ ہے: عَلِمَتْ نَفْسٌ مَّآ أَحْضَرَتْ ( ہر جان معلوم کرلے گی جو وہ لائی ہوگی) اس میں اعداد و شمار کے نظام اور ہر چیز کی ڈاکومنٹیشن documentationیعنی دستاویزی ریکارڈ تیار کیے جانے کا ذکر ہے جو ہر انسان کے شناختی کارڈ اور لمحہ لمحہ کے ریکارڈ سے پورا ہو رہا ہے۔ ۲۔نیک اور بد ہر ایک کو خبر ہو جائے گی یعنی علوم عام ہو جائیں گے۔(حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ) اس کے بعد کی دو آیات میں ان تبدیلیوں اور نشانات کا ذکر ہے جو آسمان پر محض خدا کے دست قدرت سے ظہورپذیر ہونی تھیں اور ان کے بعداسلام کی رات کے ڈھلنے اور نئی صبح یعنی نشأۃ ثانیہ کے آغاز اور اس کے مقاصد کا ذکر ہے جو آخر سورت تک چلتا ہے۔ اجرام فلکی کی گواہی یہ مضمون آیت نمبر ۱۷،۱۶ سے شروع ہوتا ہے: فَلَاۤ اُقۡسِمُ بِالۡخُنَّسِ۔ الۡجَوَارِ الۡکُنَّسِ۔ یعنی الخُنَّس اور الۡجَوَارِ الۡکُنَّسِکی قسم کھانے سے آغاز ہوتا ہے۔ ان کے بہت سے معنی ہوسکتے ہیں مگر مندرجہ بالا تسلسل میں ان سے مراد اجرام فلکی اور بعض ستارے اور سیارے ہیں جن کا آخری زمانہ میں خصوصی ظہور مقدر تھا اور جس کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بڑے زور سے دعویٰ فرمایا ہے۔ مفردات راغب میں ہے کہ الخُنَّس سے مراد وہ ستارے ہیں جو دن کو نظر نہیں آتے مثلاً زحل، مشتری اور مریخ۔القاموس الوحید میں ہے کہ الکُنَّس کانس کی جمع ہے اور اس کے بنیادی معنی پیچھے رہ جانے اور چھپ جانے کے ہیں اور خنس سے مراد متحرک اور روشن ستارے ہیں مثلاً مشتری، زہرہ، عطارد۔ الکُنَّس کانس کی جمع ہے اور اس کے بنیادی معنی بھی چھپنے اور ستاروں کے اپنے مقامات پر ٹھہر کر واپس آنے کے ہیں۔ الۡجَوَارِ الکُنَّس کے معنی ہیں تمام ستارے یا چلنے والے ستارے یا چُھپ جانے والے ستارے۔حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ فرماتے ہیں:سورج کی روشنی سے ستاروںکا ماند پڑ جانا بھی خنس ہے اور کنس کے معنی ڈوب جانے اور غروب ہو جانے کے ہیں۔(حقائق الفرقان جلد ۴ صفحہ۳۳۵) شیعہ کتب میں ہے: میں شہادت کے طور پر پیش کرتا ہوں ان ستاروں کو جو افق سے پیچھے ہٹے اور کسی مطلع میں جاچھپے۔ امام باقر کہتے ہیں کہ امام قائم شہاب ثاقب کی طرح رات کی تاریکی میں نمودار ہوں گے۔ (بحار الانوار الجامعۃ لدرراخبارالائمۃ الاطھار از ملا محمد باقر مجلسی۔۱۰۳۷ھ تا ۱۱۱۱ھ۔اردو ترجمہ جلد ۱۳) مفسرین نے ان کے معانی عام طور پر ستاروں کے کیے ہیں۔تمام ستارے اور خاص طور پر پانچ بڑے ستارے۔ زحل،مشتری،مریخ،عطارد اور زہرہ۔حضرت علی ؓسے بھی یہی معنی مروی ہیں۔الجوار کے معنے چلنے والے کے ہیں۔ یہ ترجمہ بھی ہے کہ طلوع کے وقت انہیں خنس، فلک پر موجودگی کے وقت جوار اور غیبوبت کے وقت کنس کہا جاتا ہے۔ پس الخُنَّس الۡجَوَارِ الۡکُنَّسِ کو اگر وسیع معنوں میں لیا جائے تو اس سے مراد ستاروں اور سیاروں میں ظاہر ہونے والے نشانات ہیں جن کی قسم کھائی گئی ہے۔جن کا تعلق ماضی سے بھی ہے اور قرآن و حدیث سے بھی۔ بائبل کی پیشگوئیاں: عہدنامہ قدیم میں یوئیل نبی کی پیشگوئی ہے: میں آسمان میں اور زمین پر عجائبات دکھاؤں گا۔یعنی خون اور آگ اور دھوئیں کا غبار۔(یوئیل باب۲ آیت ۳۰) یوئیل نبی کا زمانہ قریباً تین ہزار سال پہلے کا ہے۔ انجیل میں حضرت مسیح ؑنے اپنی آمد ثانی کے فلکیاتی نشانات کا واضح لفظوں میں ذکر فرمایا ہے ۔مسیح کی دوبارہ آمد کے متعلق لکھا ہے کہ آسمان پر بڑی دہشتناک باتیں اور نشانیاں ظاہر ہوں گی۔…سورج اور چاند اور ستاروں میں نشانات ظاہر ہوں گے۔…آسمان کی قوتیں ہلائی جائیں گی (لوقا باب ۲۱آیات ۱۱۔۲۵۔۲۶ ) جیسے بجلی پورب سے کوند کر پچھم تک جاتی ہے ویسے ہی ابن آدم کا آناہو گا۔…اور فوراً ان دنوں کی مصیبت کے بعد سورج تاریک ہو جائے گا اور چاند اپنی روشنی نہ دے گا اور ستارے آسمان سے گریں گے اور آسمانوں کی قوتیں ہلائی جائیں گی (متی، باب ۲۴آیات ۲۷۔۲۹) انجیل مرقس میں ہے آسمان کے ستارے گریں گے۔(مرقس باب ۱۳ آیت ۲۵) چار قسم کے نشانات: پس سابقہ پیشگویوں کے مطابق قرآن میں الخُنَّس اور الۡجَوَارِ الۡکُنَّسکی قسم کھا کر اعلان کیا گیا ہے کہ مسیح موعود کے وقت میں اجرام فلکی میں بھی نشان ظاہر ہوں گے۔ اس نقطہ نگاہ سے دیکھیں تو صداقت حضرت مسیح موعودؑ کا نشان ایک نئے زاویے سے ابھرتا ہے جو کئی شقوں میں منقسم ہے۔ ۱۔ حضرت مسیح موعود ؑکی پیدائش کے وقت مشتری اور زحل ستاروں کی تاثیرات۔ ۲۔حضرت مسیح موعودؑ کے زمانہ میں سورج اور چاند کا غیرمعمولی اجتماع یعنی سورج اور چاند گرہن۔ ۳۔حضرت اقدس ؑکی پیدائش کے سال۔دعویٰ کے سال اور مختلف اہم سالوں میں بعض ستاروں کا نایاب طور پر طلوع ہونا جو سائنس کی دنیا میں معمول نہیں ہے۔ ۴۔حضورؑ کی زندگی میں ستاروں کا گرنا اور ٹوٹنا۔ آئیے!ان چاروں پہلوؤں سے اس عظیم الشان مضمون کو سمجھیں۔ مسیح موعودؑ کی پیدائش اور ستاروں کی تاثیرات: یہ ایک نہایت لطیف مضمون ہے جو حضرت مسیح موعود ؑنے تحفہ گولڑویہ میں بیان فرمایا ہے اور سورۃ حٰم السجدہ کی آیت نمبر ۱۳ وَزَيَّنَّا السَّمَآءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيْحَ وَحِفْظًا کے لفظ سے استدلال کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ نظام دنیا کی محافظت میں ان ستاروں کو دخل ہے اسی قسم کا دخل جیسا کہ صحت میں غذا اور دوا کو ہوتا ہے۔… یہ چیزیں بجز اذن الٰہی کچھ نہیں کرسکتیں ان کی تاثیرات خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں پس واقعی اور صحیح امر یہی ہے کہ ستاروں میں تاثیرات ہیں جن کا زمین پر اثر ہوتا ہے۔ (تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۲۸۶) حضورؑ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ علمی سلسلہ کو ضائع کرنا نہیں چاہتا۔اس لیے اس نے آدم ؑکی پیدائش کے وقت ان ستاروں کی تاثیرات سے بھی کام لیا ہے۔ فرمایا:جیسا کہ پہلا آدم جمالی اور جلالی رنگ میں مشتری اور زحل کی دونوں تاثیریں لے کر پیدا ہوا اسی طرح وہ آدم جو ہزار ششم کے آخر میں پیدا ہوا وہ بھی یہ دونوں تاثیریں اپنے اندر رکھتا ہے۔ پھر آپؑ نے خُنَّس کُنَّس کا باقاعدہ ذکر کرکے مشتری اور زحل کی تاثیروں کا ذکر کیا ہے، فرمایا :یہ ایک باریک بھید یاد رکھنے کے لائق ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعث دوم میں تجلی اعظم جو اکمل اور اتم ہے وہ صرف اسم احمد کی تجلی ہے کیونکہ بعث دوم آخر ہزار ششم میں ہے اور ہزار ششم کا تعلق ستارہ مشتری کے ساتھ ہے جو کوکب ششم منجملہ خنس کنس ہے اور اس ستارہ کی یہ تاثیر ہے کہ مامورین کو خونریزی سے منع کرتا اور عقل اور دانش اور مواد استدلال کو بڑھاتا ہے (تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۶۳ )پھرفرماتے ہیں: اس وقت جلالی تجلی کی تاثیر قہرسیفی نہیں بلکہ قہراستدلالی ہے۔وجہ یہ کہ اس وقت کےمبعوث پر پَرتو ستارہ مشتری ہے نہ پَر تو مریخ۔اسی وجہ سے بار بار اس کتاب میں کہا گیا ہے کہ ہزار ششم فقط اسم احمد کا مظہر اتم ہے جو جمالی تجلی کو چاہتا ہے۔(تحفہ گولڑویہ ، روحانی خزائن جلد۱۷صفحہ۲۵۳) کسوف و خسوف اور ستارے ٹوٹنے کا نشان: دوسرا پہلو حضور ؑکی زندگی میں سورج اور چاند گرہن کا غیر معمولی واقعہ ہے جو ٫۱۸۹۴میں مقررہ شرائط پر ماہ رمضان میں ظاہر ہوا۔اس کی تفصیل آیت نمبر۲ کے تحت اور ستارے ٹوٹنے کے نشان کی تفصیل آیت نمبر۳ کے تحت بیان ہو چکی ہے ۔ دم دار ستاروں کا ظہور: حضرت مسیح موعودؑ کی زندگی میں ایسے کئی دم دار ستارے ظاہر ہوئے جو ایک لمبے عرصہ کے بعد منظر عام پر آئے اور یہ بھی اتفاق نہیں کہ یہ ستارے ایسے سالوں اور حالات میں ظاہر ہوئے جب حضورؑ کی طرف سے غیرمعمولی اعلان اور دعاوی ہو رہے تھے۔ دم دار ستارے بہت بڑی تعداد میں نظام شمسی میں پائے جاتے ہیں اور سورج کے گرد گھومتے ہیں۔ زیادہ وقت سورج سے دور ہوتے ہیں اور نظر نہیں آتے۔ جب سورج کے قریب ہوتے ہیں تو دم دار ستارے کی شکل میں نظر آتے ہیں۔ ان میں سے بعض ایسے ہیں جو سورج کے گرد اپنا چکر ۲۰۰؍سال میں اور بعض ہزاروں سال میں مکمل کرتے ہیں اور بہت کم ایسے ہوتے ہیں جنہیں ہم زمین سے بغیر دوربین کے دیکھ سکتے ہیں۔ مسیح موعودؑ کے زمانہ میں ستارہ ذوالسنین یا دم دار ستاروں کے نکلنے کی پیشگوئی احادیث اور اسلامی لٹریچر میں موجود ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ امام مہدی کے ظہور کی ۱۰؍علامات ہیں اور پہلی علامت دم دار ستارے کا طلوع ہونا ہے۔ (بحار الانوار جلد ۵۲ صفحہ ۲۶۸ از علامہ باقر مجلسی دار احیاء التراث العربی بیروت لبنان) مشہور محدث نعیم بن حماد نے اپنی کتاب الفتن میں کئی روایات صحابہ اور دوسرے راویوں سے جمع کر دی ہیں جن کو متعدد کتب میں نقل کیا گیا ہے ۔مثلاً حضرت ابن مسعودؓ اورحضرت کعبؓ سے روایت ہے کہ مشرق سے ایک ستارہ نکلے گا وہ زمین پر اس طرح روشن ہوگا جس طرح ۱۴ ویں کا چاند۔ پھر لکھا ہے ایک ستارہ ظاہر ہو گا جس کی کئی دمیں ہوں گی۔(کتاب الفتن نعیم بن حماد جلد ۱صفحہ ۲۲۵۔۲۲۹ باب علامات من السماءحدیث نمبر۶۲۵۔۶۴۲) حضرت ابو جعفرؓ محمد بن علی سے روایت ہے کہ امام مہدی سے قبل مشرق میں ستارہ ذوالسنین طلوع ہو گا یہ وہ ستارہ ہے جو طوفان نوحؑ کے وقت ابراھیم ؑکے آگ میں ڈالے جانے کے وقت فرعون کی غرقابی اور یحیٰ ؑکی شہادت کے وقت نکلا تھا اور یہ طلوع کسوف شمس و قمر کے بعد ہو گا۔(کتاب الفتن نعیم بن حماد جلد ۱صفحہ ۲۲۴ حدیث نمبر ۶۲۳) خالد بن معدان سے روایت ہے کہ مشرق میں نور کا ایک ستون طلوع ہو گا جسے تمام اہل زمین دیکھیں گے۔(کتاب الفتن جلد ۱ صفحہ۲۲۷۔۲۳۱ حدیث نمبر ۶۳۳۔۶۴۷) حضرت مجدد الف ثانی نے بھی اس کا ذکر کیا ہے(مکتوبات امام ربانی صفحہ ۲۲۶ مکتوب نمبر ۶۸ بنام خواجہ شریف الدین حسین)نیز حجج الکرامہ میں نواب صدیق حسن خان اور اقتراب الساعہ میں نور الحسن خان نے بھی اس کا ذکر کیاہے۔ ۱۸۳۵ء میں حضرت مسیح موعودؑ کی پیدائش ہوئی اسی سال ہیلی کا دم دار ستارہHalley’s comet ظاہر ہوا جو دنیا کے مشہور ترین دم دار ستاروں میں سے ہے۔ ۱۸۸۲ء میں حضرت مسیح موعودؑ کو ماموریت کا پہلا الہام ہوا۔ اس لیے یہ سال اس دور کی تاریخ میں نہایت اہم ہے۔ اسی سال ٫۱۸۸۲میں ذوالسنین ستارہ طلوع ہوا جسے دم دار ستارہ بھی کہتے ہیں سائنسی اصطلاح میں اسے Great Comet کہا جاتا ہے۔ Great Comet ہر ایسے دم دار ستارے کو کہتے ہیں جو غیر معمولی روشن ہو جائے اور ماہرین فلکیات کے حلقے سے نکل کر عوام الناس میں بھی پذیرائی حاصل کرلے۔ یہ ستارہ ۱۸۸۲ء میں نظر آنا شروع ہوا۔ پہلے تو صرف طلوع آفتاب سے قبل نظر آتا تھا اور دن کی روشنی میں غائب ہوجاتا تھا مگر بعد میں اتنا نمایاں ہوگیا کہ سورج کی موجودگی میں بھی زمین سے بآسانی دیکھا جا سکتا تھا۔ ایک بار سورج کی روشنی میں بادلوں کے پیچھے سے دکھائی دے رہا تھا اس لیے اسے پچھلے ایک ہزار سال میں سب سے زیادہ روشن اور غیر معمولی ستارہ قرار دیا گیا۔ یہ ستارہ فروری ٫۱۸۸۳ تک بغیر کسی آلہ کے نظر آتا رہا۔ آخری مرتبہ اسپین میں جون٫۱۹۸۳ میں دیکھا گیا۔ متفرق دم دار ستارے: ان کے علاوہ بھی حضرت مسیح موعودؑ کی زندگی کے مختلف اہم برسوں میں یہ ستارے ظاہر ہوتے رہے۔ مثلاً ٫۱۸۷۴میں جون سے اگست تک دم دار ستارہ ظاہر ہوا۔ اسی سال میں حضور کوخواب میں ایک فرشتہ نے نان دیتے ہوئے ایک جماعت کی بشارت دی۔۱۸۶۰ء سے لے کر۱۸۷۹ء تک ۲۰؍سال کے دوران تین غیر معمولی چمک رکھنے والے comet ظاہر ہوئے۔ لیکن ۱۸۸۰ء سے ان کا ایک سلسلہ شروع ہوا اور تین سال کے دوران بڑی چمک والے چار دم دار ستارے دکھائی دیے۔ ۳۱؍جنوری ۱۸۸۰ء کو ایک اور دم دار ستارہ دکھائی دیا جو ۱۵؍فروری تک آلات کی مدد کے بغیر نظر آتا رہا۔ ۲۲؍ مئی ۱۸۸۱ء کوجنوبی اُفق پر ایک نیا دم دار ستارہ نظر آیا جوجولائی تک نظر آتا رہا۔ مئی ۱۸۸۲ء تا جولائی ٫۱۸۸۲ ایک اور دم دار ستارہ نظر آتا رہا۔ اس کےبعد ۱۸۸۲ء والا عظیم ستارہ دکھائی دیا۔اس کے بعد ٫۱۸۸۷ میں ۱۸؍جنوری سے ۳۰؍جنوری تک ایک ستارہ جنوبی کرہ ارض میں دکھائی دیا۔ ۱۸۷۹ء جو براہین احمدیہ کی تصنیف کے آخر ی مراحل کا سال ہے اور ٫۱۸۹۶ میں جو جلسہ مذاہب عالم میں اسلام کی فتح کا سال ہے ستارےنظر آئے۔ پھر ۱۹۰۱ء میں ۱۲؍اپریل تا ۴؍مئی ایک comet دکھائی دیا۔(دم دار ستاروں کے متعلق کئی تفاصیل الفضل ربوہ ۳؍ستمبر ۲۰۱۰ء اور الفضل انٹرنیشنل ۲۲؍مارچ ۲۰۱۹ءسے لی گئی ہیں ۔) حضرت مسیح موعود ؑنے ان ستاروں کو اپنی صداقت کے طور پر پیش کیا ہے فرمایا:تیسرانشان ذوالسنین ستارہ کا نکلنا ہے جس کے طلوع ہونے کا زمانہ مسیح موعود کا وقت مقررتھا اور مدت ہوئی کہ وہ طلوع ہو چکا ہے اسی کو دیکھ کر بعض عیسائیوں کے بعض انگریزی اخبارات میں شائع ہوا تھا کہ اب مسیح کے آنے کا وقت آ گیا ہے۔ (حقیقة الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲صفحہ ۲۰۵) پھر فرمایا: نواب صدیق حسن خان صاحب حجج الکرامہ میں اور حضرت مجدد الف ثانی صاحب نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ احادیث صحیحہ میں لکھا ہے کہ ستارہ دُنبالہ دار یعنی ذوالسنین مہدی موعود کے ظہور کے وقت میں نکلے گاچنانچہ وہ ستارہ ۱۸۸۲ءمیں نکلا اور انگریزی اخباروں نےاس کی نسبت یہ بھی بیان کیا کہ یہی وہ ستارہ ہے کہ جو حضرت مسیح علیہ السلام کے وقت میں نکلا تھا۔ (چشمہ معرفت، روحانی خزائن جلد۲۳ صفحہ ۳۳۰) ۲۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ فرماتے ہیں: تو میں قسم کھاتا ہوں دن میں چھپنے والے پیچھے ہٹنے والے تاروں کی۔ اور اپنی جگہ نظر آنے والے، سیدھے چلنے والے، آگے چلنے والوں، ڈوب جانے والے تاروں کی۔ یہ فرمایا: یہ کلام بھی کلام ذوالمعارف کے طور پر ہے۔ منجملہ اس کے یہ ہے کہ قسمیہ طور پر فرمایا کہ کفر اب تین طرح سے ٹوٹے گا۔ اول ترقی کفر کی تھم جائے گی۔ دب جائے گی۔ پسپا ہو جائے گی۔ دوم کچھ لوگ رو براہ ہو کراسلام میں داخل ہو جائیں گے۔ باقی رہے سہے پر جھاڑو پھیر دی جائے گی۔ آسمانی بلاؤں سے، زمینی بلاؤں سے، جنگوں سے کفر کا صفایا ہو جائے گا۔ یہی اس کے لئے تَكَنُّسْ ہے۔ سورج کی روشنی سے ستاروں کا ماند پڑ جانا بھی خُنَّس ہے اور خُنَّسدجال کے گروہ کو بھی کہتے ہیں۔(ترجمہ قرآن ) ۳۔حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں: اس میں گواہ کے طور پر ان ہستیوں کو پیش کیا گیا ہے جن کی تین صفات ہیں۔ وہ خنس ہیں یعنی پیچھے ہٹ جاتی ہیں۔ آگے کو چلتی ہیں۔ اور چھپ جاتی ہیں۔ ان صفات والی ہستیوں سے مراد اس زمانہ کے مسلمان ہیں۔ یہ تین صفات وہ ہیں جو قوم کی تباہی کا موجب ہوتی ہیں۔ (۱) خطرہ کے وقت پیچھے ہٹ جانا (۲) بلاغور وفکر آگے بڑھتے چلے جانا (۳) سب کام چھوڑ چھاڑ کر گھروں میں نکمے بیٹھ جانا۔(تفسیر کبیر سورۃ التکویر ) ۴۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ فرماتے ہیں: اس میں خفیہ کارروائیاں کر کے پلٹ جانے والی ان کشتیوں کو گواہ ٹھہرایا گیا ہے جو کارروائیوں کے بعد اپنے مقررہ اڈوں میں جا چھپتی ہیں۔ اس کی تکرار اس لئے ہے کہ یہاں اب روحانی طور پر انسانی نفس پر حل کرنے والے ایسے شیطانی خیالات کا ذکر ہے جو حملہ کر کے پھر غائب ہو جاتے ہیں۔ اور اس رات کو گواہ ٹھہرایا گیا ہے کہ جب وہ آخر دم تو ڑ رہی ہوگی اور طلوع فجر کے آثار ظاہر ہو جائیں گے۔ اور بالآخر یہ اندھیری رات اسلام کی فتح پر منتج ہو گی۔(ترجمہ قرآن ) رات اور صبح کی گواہی آیت نمبر ۱۸ و ۱۹ ہے:وَاللَّيْلِ إِذَا عَسْعَسَ۔ وَالصُّبْحِ إِذَا تَنَفَّسَ۔۱ور اس رات کی جب وہ جاتی ہے اور صبح کی جب وہ سانس لے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ فرماتے ہیں: عَسْعَسَ اضداد سے ہے جس کے معنے آنے اور جانے کے ہیں یعنی کفر گیا اور اس کی جگہ اسلام نے لے لی۔ عَسْعَسَ کے لفظ سے زمین کا گول ہونا بھی ثابت ہوتا ہے کہ ایک نور سے ظلمت روشنی پر چڑھی چلی آتی ہے تو ساتھ ہی دوسری طرف سے پیچھے سے روشنی ظلمت پر سوار ہورہی ہے اور یہ ہو نہیں سکتا جب تک کہ زمین گول نہ مانی جاوے۔عسعس کے لفظ سے زمین کا گول ہونایوں سمجھ لیجئے کہ جب رات ہماری طرف سے گئی اور ہم پر دن آیا تو زمین کے دوسری طرف والوں پر رات آئی۔(ترجمہ قرآن ) پیشگوئیوں کے اعلیٰ مقاصد اس کے بعد کی آیات ۲۰ تا ۳۰ میں ان عظیم پیشگوئیوں کا مقصد بیان کیا گیا ہے اور یہ مقصد رسول کریم ﷺ اور ان کے خدا کی حقانیت ثابت کرنا ہے اسلام کے تنزل اور عالم اسلام کی بے حسی کے زمانہ میں پوری ہونے والی یہ پیشگوئیاں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی سچائی ظاہر کریں گی۔یہی خدا چاہتا ہے اورخدا کا اگلا کلام یہی بتاتا ہے۔ یقیناًً یہ ایک ایسےمعزز رسول کا قول ہے۔ جو قوت والا ہے۔ صاحبِ عرش کے حضور بہت مرتبہ والا ہے۔بہت واجب الاطاعت جوصاحبِ عرش کے حضورامین بھی ہے۔ اوریقیناًتمہارا ساتھی مجنون نہیں۔ اور وہ ضرور اسے روشن اُفق پر دیکھ چکا ہے۔ اور وہ غیب کے بیان پر بخیل نہیں۔ اور وہ کسی دھتکارے ہوئے شیطان کا کلام نہیں۔پس تم کدھر جا رہے ہو؟ وہ تو تمام جہانوں کے لئے ایک بڑی نصیحت کے سوا کچھ نہیں۔ اُس کے لئے جو تم میں سے چاہے کہ استقامت دکھائے۔اور تم کچھ بھی نہیں چاہ سکتے مگر وہ جو اللہ چاہے، تمام جہانوں کا ربّ۔ منفرد شان: پس یہ سورۃ التکویر اس لحاظ سے ایک منفرد شان رکھتی ہے کہ اس کا بیشتر حصہ پیشگوئیوں پر مشتمل ہے جو ایک ہی زمانہ میں وقوع پذیر ہو رہی ہیں اور محض فلسفے اور استدلال کے طور پر نہیں بلکہ واقعاتی، تاریخی اور سائنسی شہادتیں اپنے ساتھ رکھتی ہیں۔ ایک مدعی یعنی اِس دور کا مسیح و موعودؑ موجود ہے جو اپنی صداقت کی دیگر علامات کے ساتھ ان پیشگوئیوں کو اپنے حق میں پیش کر رہا ہے اور ہر نیا دن ان پیشگوئیوں کو مزید چمکا رہا ہے۔فتدبروا یا اولی الابصار ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: سورۃ التکویر کی واقعاتی تفسیر۔قرآن کریم کا معجزہ(قسط سوم)