اگر ہم سوشل میڈیا پر جوابوں کے بجائے اللہ تعالیٰ کے حضور جھکیں۔ اپنی نمازوں کو سنوار کر ادا کریں۔ اپنے سجدوں میں وہ درد پیدا کریں کہ جس سے اللہ تعالیٰ کی غیرت جلد جوش میں آئے تو ہم بہت جلد اس سے بہت بہتر نتائج حاصل کر سکتے ہیں جو نتائج یہ لوگ اپنے جواب دینے سے حاصل کرنا چاہتے ہیں ہمارا کام یہ نہیں کہ غلط زبان استعمال کریں یا اس رنگ میں جواب دیں جس سے نادانستگی میں ہمارے منہ سے ایسے الفاظ نکل جائیں جو کسی بھی رنگ میں کسی کی بھی ہتک کا موجب بنیں اور اس سے فائدہ اٹھا کر مخالفین یہ کہتے رہیں کہ ہم نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین یا صحابہ رضوان اللہ علیہم کی توہین کرنے والے ہیں ہمارا تو سب کچھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان ہے۔ آپؐ ہی وہ خاتم الانبیاء ہیں جو اللہ تعالیٰ کے پیارے اور آخری نبی ہیں اور آپ کے ساتھی جو ہیں، صحابہؓ جو ہیں ان کے بارے میں تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے بےشمار جگہ وہ کلمات فرمائے ہیں، وہ باتیں کی ہیں کہ جو ہمارے مخالفین کی سوچ سے بھی بالا ہیں جو بات وہ کرتے ہیں ’’میں اپنی جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ ان کو مناسب ہے کہ ان کی گالیاں سن کر برداشت کریں اور ہرگز ہرگز گالی کا جواب گالی سے نہ دیں کیونکہ اس طرح پر برکت جاتی رہتی ہے۔‘‘ (حضرت مسیح موعودؑ) ہمارے اخلاق بہت بلند اور بہت بالا ہونے چاہئیں اور جس کے اخلاق بلند نہیں اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی بیعت کا حق ادا نہیں کیا۔ سوشل میڈیا کے درست استعمال کے حوالے سے زرّیں نصائح خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 6؍ جون 2025ء بمطابق6؍ احسان 1404 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)،یوکے أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔ أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾ اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾ اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾ آج کل جہاں سوشل میڈیا کا فائدہ ہے اور اس سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے وہاں بعض ایسی باتیں بھی ہوتی ہیں جو تکلیف دہ ہوتی ہیں اور اسی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آج کل مخالفین جماعت احمدیہ کے خلاف انتہائی بیہودہ گوئی بھی کرتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے خلاف وہ جھوٹ اور غلاظت بکتے ہیں کہ احمدی کا دل چھلنی ہوتا ہے۔ جنہیں سن کے اور پھر ردعمل میں بعض احمدی بھی ان کے جواب غلط رنگ میں دے دیتے ہیں۔ نیت چاہے ان کی صاف بھی ہو تب بھی بعض دفعہ ایسے الفاظ نکل جاتے ہیں جن کو غلط معنی پہنائے جا سکتے ہیں۔ یہ ہمارا طریق نہیں ہے۔ اس سے ایک احمدی کو بچنا چاہیے۔ ہمارا کام یہ نہیں کہ غلط زبان استعمال کریں یا اسے اس رنگ میں جواب دیں جس سے نادانستگی میں ہمارے منہ سے ایسے الفاظ نکل جائیں جو کسی بھی رنگ میں کسی کی بھی ہتک کا موجب بنیں اور اس سے فائدہ اٹھا کر مخالفین یہ کہتے رہیں کہ ہم نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین یا صحابہ رضوان اللہ علیہم کی توہین کرنے والے ہیں جبکہ ہمارے دلوں میں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اور صحابہؓ کا جو مقام ہے اس کا تو کروڑواں حصہ بھی ان لوگوں کو فہم و ادراک نہیں ہے۔ ہمارا تو سب کچھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان ہے۔ آپؐ ہی وہ خاتم الانبیاء ہیں جو اللہ تعالیٰ کے پیارے اور آخری نبی ہیں اور آپؐ کے ساتھی جو ہیں صحابہؓ جو ہیں ان کے بارے میں تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے بےشمار جگہ وہ کلمات فرمائے ہیں، وہ باتیں کی ہیں کہ جو ہمارے مخالفین کی سوچ سے بھی بالا ہیں جو بات وہ کرتے ہیں۔ پس ہمارے دلوں میں صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام ہی نہیں۔ یہ تو ہے ہی۔ اس تک تو کوئی پہنچ ہی نہیں سکتا، آپؐ کے صحابہؓ کا بھی ہمارے دل میں بڑا مقام ہے۔ اور اس بات کو ہراحمدی کو سامنے رکھنا چاہیے اور ایسی باتیں کرنے سے ہر احمدی کو بچنا چاہیے جس سے غلط تاثر پیدا ہو یا غلط تاثر پیدا ہونے کا کسی بھی رنگ میں اندیشہ ہو۔ بعض احمدی سمجھتے ہیں کہ ہم نے یہ جواب دےکے بڑی غیرت کا مظاہرہ کیا ہے۔ جب ان سے پوچھو تو یہی ان کا جواب ہوتا ہے جبکہ یہ نام نہاد غیرت جہالت ہے اور اگر کوئی احمدی ہو کر ایسی باتیں کرتا ہے جس سے کسی بھی طرح غلط مطلب نکلتا ہو تو وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور جماعت کو بدنام کرنے والا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہیں کہ تم نے صبر کرنا ہے اور ہمیشہ صبر دکھانا ہے۔ ایک جگہ آپؑ نے فرمایا: ’’یہ مجھے گالیاں دیتے ہیں لیکن میں ان کی گالیوں کی پروا نہیں کرتا اور نہ ان پر افسوس کرتا ہوں کیونکہ وہ اس مقابلہ سے عاجز آ گئے ہیں اور اپنی عاجزی اور فرومائیگی کو بجز اس کے نہیں چھپا سکتے کہ گالیاں دیں۔‘‘ یہ کمینہ پن اور اوچھے ہتھیار استعمال کر رہے ہیں اس لیے کہ ان کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے۔ کوئی جواب نہیں ہے تو یہ لوگ صرف گالیاں دینا چاہتے ہیں۔ آپؑ فرماتے ہیں: ’’کفر کے فتوے لگائیں، جھوٹے مقدمات بنائیں اور قسم قسم کے افتراء اور بہتان لگائیں۔ وہ اپنی ساری طاقتوں کو کام میں لا کر میرا مقابلہ کر لیں اور دیکھ لیں کہ آخری فیصلہ کس کے حق میں ہوتا ہے۔‘‘ جو کوشش کرنی ہے تم نے کر لو لیکن اللہ تعالیٰ میرے ساتھ ہے آخری فیصلہ تو نظر آ جائے گا کس کے ساتھ ہے۔ فرمایا کہ ’’میں ان کی گالیوں کی اگر پرواہ کروں تو وہ اصل کام جو خدا تعالیٰ نے مجھے سپرد کیا ہے رہ جاتا ہے۔ اس لئے جہاں میں ان کی گالیوں کی پرواہ نہیں کرتا۔ میں اپنی جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ ان کو مناسب ہے کہ ان کی گالیاں سن کر برداشت کریں اور ہرگز ہرگز گالی کا جواب گالی سے نہ دیں کیونکہ اس طرح پر برکت جاتی رہتی ہے۔ وہ صبر اور برداشت کا نمونہ ظاہر کریں اور اپنے اخلاق دکھائیں۔ یقینا ًیاد رکھو کہ عقل اور جوش میں خطرناک دشمنی ہے۔ جب جوش اور غصہ آتا ہے تو عقل قائم نہیں رہ سکتی۔ لیکن جو صبر کرتا ہے اور بردباری کا نمونہ دکھاتا ہے اس کو ایک نور دیا جاتا ہے جس سے اس کی عقل و فکر کی قوتوں میں ایک نئی روشنی پیدا ہو جاتی ہے اور پھر نور سے نور پیدا ہوتا ہے۔ غصّہ اور جوش کی حالت میں چونکہ دل و دماغ تاریک ہوتے ہیں اس لئے پھر تاریکی سے تاریکی پیدا ہوتی ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد3صفحہ180ایڈیشن1984ء) پس یہ وہ سبق ہے جسے ہمیشہ ہمیں یاد رکھنا چاہیے اور یہ جو خود ساختہ بعض لوگ عالم بن جاتے ہیں اور سوشل میڈیا پر غیراحمدیوں کے جو نام نہاد مُلّاں ہیں جواب دینا شروع کر دیتے ہیں، جو جو لوگ اعتراض کرتے ہیں ان کے اعتراضوں کے جواب دینے لگتے ہیں ان کو اس چیز سے بچنا چاہیے اور اگر جواب تلاش کرنے ہیں تو علماء سے جماعت کے، گہرا علم رکھنے والے جماعتی لٹریچر سے ان سے پوچھا جائے اور ان کے جواب ایسے دیے جائیں جو واقعی ٹھوس ہوں اور ان کی دلیلوں کو ان کے الزاموں کو ردّ کرنے والے ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی جو تعلیم ہے جو حقیقت میں صحیح اسلامی تعلیم ہے اس پر عمل کریں ورنہ آپ لوگ جماعت میں رہ کر پھر جماعت کو بدنام کرنے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں شریروں کے شر سے بچائے اور ان لوگوں کو بھی عقل دے جو جھوٹی غیرت دکھانے والے ہیں اور بعض دفعہ بلا وجہ بعض الفاظ استعمال کر کے فتنہ و فساد کو پھیلانے کا موجب بن جاتے ہیں۔ اگر ہم سوشل میڈیا پر ان جوابوں کے بجائے اللہ تعالیٰ کے حضور جھکیں۔ اپنی نمازوں کو سنوار کر ادا کریں۔ اپنے سجدوں میں وہ درد پیدا کریں کہ جس سے اللہ تعالیٰ کی غیرت جلد جوش میں آئے تو ہم بہت جلد اس سے بہت بہتر نتائج حاصل کر سکتے ہیں جو نتائج یہ لوگ اپنے جواب دینے سے حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اس لیے ہر احمدی کو اس چیز سے بچنا چاہیے کہ کبھی ایسی باتیں نہ کریں جو دشمن کو بلا وجہ یہ موقع دے کہ احمدی نے یہ کہہ دیا اور وہ کہہ دیا۔ ہمارے اخلاق بہت بلند اور بہت بالا ہونے چاہئیں اور جس کے اخلاق بلند نہیں اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی بیعت کا حق ادا نہیں کیا۔ پس ہمیں اپنے جائزے لینے چاہئیں ۔ہر ایک اپنا جائزہ لے ۔سوچیں اور بجائے غلط قسم کے جوابوں کے دعاؤں کی طرف توجہ دیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے اور مخالفین کے شر ان پر الٹائے اور ان سے بچائے۔ ٭٭٭ (الفضل انٹرنیشنل۲۷؍جون۲۰۲۵ءصفحہ۲تا۳) مزید پڑھیں: خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ30؍ مئی 2025ء