امام الزماں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مقربین الٰہی کی علامات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: اور وہ ان لوگوں کو زندہ کرنے کے لئے جو موت کے کنارے پر کھڑے ہیں خود موت قبول کر لیتے ہیں۔ پس وہ تقدیر بدل دیتے ہیں اور موت کو اختیار کر کے شفاعت کرتے ہیں اور مشقت برداشت کر کے راحت پہنچاتے ہیں اور تکلیف اٹھا کر موانست و ملاطفت کرتے ہیں۔ وہ خلق اللہ سے ہمدردی کرتے ہیں اور مصائب کے وقت میں ان کا خیال رکھتے ہیں اور ایسا کام کرتے ہیں جو آسمانوں میں فرشتوں کو بھی حیران کر دیتا ہے اور نیکیوں میں سبقت لے جاتے ہیں۔ ان کے دلوں میں شجاعت رکھی جاتی ہے پس وہ ان شدائد میں بھی جن کا سلسلہ روز مکافات (قیامت) تک طویل ہو ہمیشہ رواں دواں رہتے ہیں اور وہ خوفزدہ نہیں ہوتے اور نہ ہی منہ پھٹ ہو کر کسی سے بدکلامی کرتے ہیں بلکہ لوگوں کی بدگوئی پر سکوت اختیار کرتے اور اپنا غصہ پی جاتے ہیں وہ دنیا کے مُردار کی طرف مائل نہیں ہوتے اور اسے کتوں کے لئے چھوڑ دیتے ہیںاور اسے محض ہڈیوں کی ایک مٹھی بلکہ مکھیوں کا فضلہ تصور کرتے ہیں ان کی نگاہ اس طرف نہیں اٹھتی اور نہ ہی وہ اس کی جانب کوئی توجہ کرتے ہیں۔ وہ اپنے تئیں ایسا بنالیتے ہیں جیسے شاخدار درخت ہو کہ ہر طرف سے آنے والا بھوکا شخص ان کے پھل کھاتا ہے۔ کیا ہی اچھے مہمان اور کیا ہی اچھے میزبان ہیں۔ یہ لوگ حسن تام کے مالک ہیں اور بدی کو نیکی سے دور کرتے ہیں اور مخلوق کی خدمت کرتے ہیں اور جو انہیں ایذاء پہنچائے وہ اسے ایذاء نہیں پہنچاتے اور معذرت خواہ کی معذرت قبول کرتے ہیںاور جب کمینہ دشمنوں کی طرف سے ان پر سختیاں کی جائیں تو اس کے جواب میں وہ ان پر احسان کرتے ہیں اور وہ گالی کے جواب میں گالی دینے سے اجتناب کرتے ہیں اور اس کی کوشش بھی نہیں کرتے۔ اور وہ اپنے دشمنوں کے لئے اللہ کی طرف سے خیر، سلامتی، صحت و عافیت اور ہدایت کی دعا کرتے ہیں اور وہ اپنے سینوں میں کسی کے لئے بھی ذرّہ برابر کینہ نہیں رکھتے اور وہ ان کے لئے بھی دعا کرتے ہیں جو ان پر گندے الزام لگاتے اور حقیر جانتے ہیں۔ اور عاصی تک کو اپنی جماعت میں پناہ دیتے ہیں۔ پس اللہ ان پر ظاہر ہو جاتا ہے کیونکہ وہ اسے مقدم کرتے ہیںاور اس کے بندوں پر رحم کرتے ہیں اور اس وجہ سے کہ وہ اخلاص رکھتے ہیں حقیقتاً یہی لوگ ابدال اور اولیاء اللہ ہیں اور یہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں۔ (علامات المقربین مترجم اردو صفحہ ۸۸-۸۹)