https://youtu.be/-O9XzmTlgtA خدا تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِيْنَ حَتّٰى نَبْعَثَ رَسُولًا(بنی اسرائیل : ۱۶) ہم اُس وقت تک لوگوں پر عذاب نازل نہیں کرتے جب تک اپنا رسول بھیج کر اُن پر حجت تمام نہ کر لیں۔ پس اس آیت میں ایک لطیف اشارہ اس امر کی طرف بھی ہے کہ اُس وقت خدا تعالیٰ کا ایک مامور آئے گا کیونکہ جب اس کی طرف سے کوئی مامور آتا ہے تو اس کے آنے کے ساتھ جہاں مومنوں کے لیے رحمت کے دروازے کھلتے ہیں وہاں کفار کے لیے عذاب کے دروازے بھی کھول دیے جاتے ہیں۔ (تفسیر کبیر) آسمان کی کھال کھینچی جائے گی سورۃالتکویر کی آیت نمبر۱۲ ہے وَإِذَا السَّمَآءُ كُشِطَتْ (اور جب آسمان کی کھال کھینچی جائے گی ) یہی مضمون المرسلات کی آیت نمبر۱۰ میں بھی ہے۔ وَإِذَا السَّمَآءُ فُرِجَتْ (اور جب آسمان میں سوراخ ہو جائیں گے) یعنی علم ہیئت میں حیرت انگیز ترقی ہوگی۔ مادہ پرست دنیا خلاکے راز کو معلوم کرنے کے لیے آسمان کی بلندیوں اور دوسرے سیاروں تک جا پہنچے گی۔ چنانچہ پچھلے سو سال میں فزکس اور اس سے متعلقہ علوم نے جتنی ترقی کی ہے وہ گذشتہ ہزار سال میں بھی نہیں ہوئی تھی انسان خلا کو عبور کر کے سیاروں پر کمندیں ڈال رہا ہے اور بستیاں بسانے کی کوشش کر رہا ہے۔ انیسویں صدی میں فلکیات میں نمایاں ترقی ہوئی، جس نے اس علم کو ایک جدید سائنسی شعبے میں تبدیل کر دیا۔ اس دور میں دوربینوں کی ایجاد اور ان کے استعمال میں بہتری آئی، جس سے فلکیاتی مشاہدات زیادہ دقیق اور وسیع ہو گئے۔ دوربین کی ترقی سائنس کے لیے ایک شاندار سنگ میل ہے، پہلی بار دوربین ۱۶۰۸ء میں ایجاد ہوئی ۱۶۰۹ء میں گلیلیو گلیلی نے اس کو بہتر بنایا اور خلا میں چاند اور سیاروں کا مشاہدہ کیا، جس نے فلکیات میں انقلاب برپا کر دیا۔۱۶۶۸ء میں آئزک نیوٹن نے ایک نئی قسم کی دوربین متعارف کروائی جس میں آئینے کا استعمال کیا گیا۔اس نے تصویروں کو زیادہ واضح اور شفاف بنایا۔ ۱۸ویں اور ۱۹ویں صدی میں مزید ترقی ہوئی جہاں بڑے عدسے اور بہتر میکانزم شامل کیے گئے۔۲۰ویں صدی میں دوربینوں میں زبردست جدت آئی ہبل اسپیس ٹیلی اسکوپ (۱۹۹۰ء) میں لانچ کی اس جیسے جدید آلات نے خلا میں گہری تحقیق کو ممکن بنایا۔ آج کی دوربینیں نہ صرف زمین سے بلکہ خلا میں بھی کام کرتی ہیں بلکہ دور دراز کہکشاؤں کا مشاہدہ کرنے میں مدد دیتی ہیں۔ نیوٹن کے قوانین اور کشش ثقل کے نظریے نے فلکیات کو ایک مضبوط سائنسی بنیاد فراہم کی۔اس صدی میں ستاروں کی حرکت، کہکشاؤں کی ساخت اور اجرام فلکی کی خصوصیات کے بارے میں اہم دریافتیں ہوئیں۔ اس دور میں فلکیات دانوں نے سورج کے نظام کے علاوہ دیگر کہکشاؤں کا مطالعہ شروع کیا، اور کائنات کے بارے میں نئے نظریات پیش کیے۔ سما سے مراد سماوی علوم لیے جائیں تو مطلب یہ ہے کہ لوگ دین کو پھاڑ کر رکھ دیں گے۔ چنانچہ اس زمانہ میں دین کے متعلق ایسی ایسی بحثیں ہوئی ہیں کہ ان کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ مذہبی کتب کی ایک ایک سطر اور لفظ کی کھال ادھیڑ کر تحقیق کی گئی ہے۔ اس زمانہ میں دین کے متعلق ایسی ایسی بحثیں ہوئی ہیں جو پہلے کبھی نہیں ہوئی تھیں۔ پھر ہر مذہب والے نے اپنے اپنے مذہب کا ایسا تجزیہ کیا ہے کہ جس کی کوئی حد ہی نہیں رہی۔ مثلاً بائبل ہے، عیسائیوں نے اس کی کھال ادھیڑ کر رکھ دی ہے اور ثابت کیا ہے کہ فلاں بات موسیٰ کی نہیں بلکہ ہارون کی ہے۔ یا یہ لفظ فلاں زبان کا ہے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں فلاں زبان تھی اس لیے معلوم ہوا کہ یہ لفظ بعد میں ملایا گیا ہے۔ غرض ایسا تجزیہ کیا ہے کہ ایک ایک بات کو خود عیسائیوں نے کھول کر رکھ دیا ہے۔ اس چیر پھاڑ میں اگر کوئی زندہ وجود بچا ہے تو وہ صرف قرآن ہے۔ ویدوں کے متعلق بھی خود ہند و محققین نے بہت بڑی تحقیقا ت کی ہیں اور انہوں نے ثابت کیا ہے کہ ویدوں میں فلاں فلاں زبان شامل ہے اور یہ زبان فلاں فلاں سنہ میں بولی جاتی تھی۔ اسی طرح ویدوں کی تاریخ اور اُن کی ترتیب کے متعلق ایسا تجزیہ کیا ہے کہ اُن کی کھال اُدھیڑ دی ہے۔ اس چیر پھاڑ سے صرف قرآن ہی محفوظ رہا ہے اور کوئی کتاب محفوظ نہیں رہی۔ مگر چونکہ پیشگوئی تھی کہ بہر حال آسمانی علوم کی کھال اتاری جائے گی اور اُن کے اسرار کو منکشف کیا جائے گا اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت کا ملہ کے ماتحت اور کتابوں کی چیر پھاڑ کا کام تو یورپ والوں کے سپر د کر دیا اور قرآنی علوم کے انکشاف کا کام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے سپرد کر دیا۔ کیونکہ وَإِذَا السَّمَآءُ كُشِطَتْکی پیشگوئی نے سب پر چسپاں ہونا تھا مگر باقی کتب کا چونکہ اعزاز مد نظر نہیں تھا اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کو قصابوں کے سپرد کر دیا کہ تم اُن کی کھالیں اُدھیڑو۔ اور قرآن کا چونکہ اعزاز مد نظر تھا اس لیے اُسے بجائے غیروں کے ہاتھوں میں دینے کے اپنے ایک برگزیدہ کے ہاتھ میں دے دیا کہ تم اس کے معارف ظاہر کرو اور اس کے حقائق دنیا پر روشن کرو۔(تفسیر کبیر جلد۱۱ صفحہ ۳۳۵۔ایڈیشن۲۰۲۳ء) آسمانی علوم سے پردے ہٹا دیے جائیں گے اور مسیح موعود کے ذریعہ قرآنی علوم عام کر دیے جائیں گے۔(تفسیر کبیر جلد۱۱ صفحہ ۳۳۵۔ ایڈیشن۲۰۲۳ء)چنانچہ مسیح موعودؑ اور ان کے خلفاء نے واقعتاً قرآنی علوم کے چشمے بہا دیے ہیں۔ اس بارہ میں جو خدمات کا طویل سلسلہ ہے اس کا خلاصہ یوں ہے۔ ۱۔قرآن میں قطعاً کوئی نسخ نہیں، کوئی تضاد نہیں ۲۔ اس کا ہر حرف، نقطہ اور شعشہ خدا کی طرف سے ہے اور ابد تک محفوظ رہے گا۔ ۳۔اللہ تعالیٰ نے قرآن کی صرف ظاہری حفاظت کا نہیں بلکہ معنوی حفاظت کا بھی ذمہ لیا ہے اور اس کے لیے اس نے خلفاء، مجددین، مفسرین، محدثین، متکلمین، فقہاء، صوفیاء اور دیگر بزرگوں کا ایک بہت بڑا سلسلہ جاری کر دیا۔ ۴۔قرآن بے شمار بطون پر مشتمل ہے تمام کتب سماوی کی ابدی تعلیمات کا جامع اور تمام علوم کا سرچشمہ اور ہر زمانے میں اس کے نئے نئے علوم ظاہر ہوتے رہیں گے۔ ۵۔حضرت مسیح موعودؑ نے اصول تفسیر بھی بیان کر دیے (برکات الدعا،روحانی خزائن جلد ۶ صفحہ ۱۷ )۔ پہلا اصول یہ ہے کہ تفسیر القرآن بالقرآ ن۔آپ نے اس کے عملی نمونے بھی دکھائے۔ انہی اصولوں پر چل کر آج جماعت احمدیہ دنیا بھر میں غالب آ رہی ہے۔ ۶۔قرآن اور سچی سائنس میں کوئی اختلاف نہیں کیونکہ قرآن خدا کا قول ہے اور سائنس اس کا فعل۔قرآن خدا کی ہستی کی دریافت کا نام ہے اور سائنس خدا کی کا ئنات کی دریافت کا۔ ۷۔ حروف مقطعات کے متعلق سمجھا جاتا تھا کہ ان کا علم صرف خدا یا چند لوگوں کو ہے۔جماعت احمدیہ کا موقف یہ ہے کہ ان میں صفات الٰہیہ کا تذکرہ ہے اور پیشگوئیاں ہیں جن کا اس سورت کے ساتھ خاص تعلق ہے۔ ۸۔اسی طرح قرآنی استعارات کو بھی حل کر کے دکھایا۔ ۹۔ قرآن علم غیب کا سمندر ہے اور قیامت تک کے لیے اس میں پیشگوئیاں ہیں جو ہر زمانہ میں پوری ہوتی رہتی ہیں جن کا نمونہ یہ سورۃ التکویر ہے۔ ۱۰۔قرآن میں نبیوں یا دوسری قوموں کے واقعات محض قصے نہیں بلکہ پیشگوئیاں ہیں۔ ۱۱۔ قرآن میں بعض نبیوں اور افراد کے لیے عزت کے غیر معمولی کلمات اس لیے ہیں کہ ان پر لگے ہوئے الزامات کو دور کیا جائے جیسے حضرت مسیح اور حضرت مریم۔ ۱۲۔قرآن کے ترجمہ کو بھی حرام سمجھا جاتا تھا۔ جماعت ساری دنیا کی زبانوں میں ترجمے کرکے پھیلا رہی ہے تاکہ ہر فرد بشر قرآن کو سمجھ سکے۔ ۱۳۔حضرت مسیح موعودؑ علوم قرآنی کے مقابلہ کا تمام مذاہب کو مسلسل چیلنج دیتے رہے اور اس طرح مسیح موعودؑ اور مصلح موعودؓ کے تفسیر نویسی کے چیلنجز کا بھی کوئی جواب نہیں آیا۔ جہنم بھڑکائی جائے گی آیت نمبر۱۳ہے وَإِذَا الْجَحِيْمُ سُعِّرَتْ (اور جب جہنم بھڑکائی جائے گی)یعنی۱۔ ایسی عظیم جنگیں ہوں گی گویا جہنم کے دروازے کھول دیے گئے ہو ں۔(حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ)قرآن کریم میں متعدد مقامات پر آخری زمانہ میں آنے والی عالمگیر جنگوں اور تباہیوں کا ذکر ہے۔ سورۃ القارعہ کی آیات نمبر ۲ تا۶ ہیں۔ اَلۡقَارِعَۃُ۔ مَا الۡقَارِعَۃُ ۔ وَمَاۤ اَدۡرٰٮکَ مَا الۡقَارِعَۃُ ۔ یَوۡمَ یَکُوۡنُ النَّاسُ کَالۡفَرَاشِ الۡمَبۡثُوۡثِ ۔ وَتَکُوۡنُ الۡجِبَالُ کَالۡعِہۡنِ الۡمَنۡفُوۡشِ۔ جب ہولناک جنگوں کی تباہ کاری کے نتیجہ میں انسان ٹڈی دل کی طرح پراگندہ ہوجائے گا اور گویا پہاڑ بھی دُھنی ہوئی اون کی طرح ریزہ ریزہ کردیے جائیں گے۔ یہاں پہاڑوں سے مراد بڑی بڑی دنیاوی طاقتیں ہیں اور یقیناً کوئی اُخروی قیامت کا ذکر نہیں کیونکہ اس میں تو کوئی پہاڑ ریزہ ریزہ نہیں کیے جائیں گے۔فَاَمَّا مَنۡ ثَقُلَتۡ مَوَازِیۡنُہٗ۔ فَہُوَ فِیۡ عِیۡشَۃٍ رَّاضِیَۃٍ۔ وَاَمَّا مَنۡ خَفَّتۡ مَوَازِیۡنُہٗ۔ فَاُمُّہٗ ہَاوِیَۃٌ۔ وَمَاۤ اَدۡرٰٮکَ مَاہِیَہۡ۔ نَارٌ حَامِیَۃٌ۔ اس وقت جن قوموں کے پاس زیادہ بھاری جنگی سامان ہوں گے وہ فتحیاب ہوں گی اور جن کے جنگی سامان نسبتاً ہلکے ہوں گے وہ جنگ کی ہاویہ میں گرائی جائیں گی۔ یہ ایک بھڑکتی ہوئی آگ ہے۔ ’’یہاں AtomicWarfareکا ذکر ہے۔ رسول اللہ ؐکے زمانے کے انسان کو اس قارعۃ کا کوئی تصور بھی نہیں تھا۔ جس قارعۃکی طرف یہ سورت اشارہ کر رہی ہے۔ یہی وہ وقت ہو گا جب بڑی بڑی طاقتور حکومتیں اور طاقت کے پہاڑ دھنی ہوئی روئی کی طرح ہو جائیں گے۔‘‘(ترجمۃ القرآن کلاس نمبر ۳۰۵) سورة المرسلات میں آئندہ جنگوں کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ آیات نمبر ۳۰تا ۳۴ ہیں اِنۡطَلِقُوۡۤا اِلٰی مَا کُنۡتُمۡ بِہٖ تُکَذِّبُوۡنَ۔ اِنۡطَلِقُوۡۤا اِلٰی ظِلٍّ ذِیۡ ثَلٰثِ شُعَبٍ۔ لَّا ظَلِیۡلٍ وَّلَا یُغۡنِیۡ مِنَ اللَّہَبِِ۔ان جنگوں کی ایک علامت یہ ہے کہ وہ تین شعبوں والی ہوں گی یعنی بّری بھی، بحری بھی اور فضائی بھی۔ ان آیات نے قطعی طور پر ثابت کر دیا کہ یہ باتیں تمثیلی رنگ میں ہو رہی ہیں۔ کیونکہ رسول اللہ ﷺکے زمانہ میں کسی ایسی جنگ کا تصور موجود نہیں تھا جس میں آسمان سے شعلے برسیں۔ اس لیے لازماً یہ اس علیم و خبیر ہستی کی طرف سے ایک پیشگوئی ہے جو مستقبل کے حالات بھی جانتا ہے۔ آسمان سے قیامت کے دن تو شعلے نہیں برسائے جائیں گے۔ اس لیے یہاں ایک ایٹمی جنگ کی پیشگوئی معلوم ہوتی ہے جس کا ذکر سورة الدخان میں بھی ملتا ہے کہ اس دن آسمان ان پر ایسی ریڈیائی لہریں برسائے گا کہ اس کے سائے تلے وہ ہر امن سے محروم ہو جائیں گے۔(ترجمہ قرآن۔حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ) سورۃ النازعات کی آیات ۲ تا ۶ ہیں۔ وَالنّٰزِعٰتِ غَرۡقًا۔ وَّالنّٰشِطٰتِ نَشۡطًا ۔ وَّالسّٰبِحٰتِ سَبۡحًا۔ فَالسّٰبِقٰتِ سَبۡقًا۔ فَالۡمُدَبِّرٰتِ اَمۡرًا۔ ان میں دنیاوی عذابوں اور جنگ و جدال کا تذکرہ ہے اور بڑی وضاحت کے ساتھ ایسی جنگوں کا ذکر ہے جن میں آبدوز کشتیاں استعمال ہوں گی۔ اس کا ایک معنی یہ ہے کہ وہ لڑائی کرنے والیاں اس غرض سے ڈوب کر حملہ کرتی ہیں کہ دشمن کو غرق کردیں اور پھر اپنی ہر کامیابی پر خوشی محسوس کرتی ہیں اور اسی طرح جنگ و جدال کی یہ دوڑ ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوششوں میں صرف ہوجاتی ہے اور دونوں طرف سے دشمن بہت بڑی بڑی تدبیریں کرتا ہے۔ وَّالسّٰبِحٰتِ سَبۡحًا سے تیرنے والیاں مراد ہیں خواہ وہ سمندر کے اندر غرق ہوکر تیریں یا سطح سمندر پر اور بسااوقات آبدوز کشتیاں اپنی فتح کے بعد سطح سمندر پر اُبھر آتی ہیں۔(ترجمہ قرآن۔حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ) سورۃ الھمزہ کی آیات ۲ تا ۱۰ ہیں:وَیۡلٌ لِّکُلِّ ہُمَزَۃٍ لُّمَزَۃِ۔ ۣالَّذِیۡ جَمَعَ مَالًا وَّعَدَّدَہٗ۔ یَحۡسَبُ اَنَّ مَالَہٗۤ اَخۡلَدَہٗ۔ کَلَّا لَیُنۡۢبَذَنَّ فِی الۡحُطَمَۃِ۔ وَمَاۤ اَدۡرٰٮکَ مَا الۡحُطَمَۃُ۔ نَارُ اللّٰہِ الۡمُوۡقَدَۃُ۔ الَّتِیۡ تَطَّلِعُ عَلَی الۡاَفۡـِٕدَۃِ۔ اِنَّہَا عَلَیۡہِمۡ مُّؤۡصَدَۃٌ۔ فِیۡ عَمَدٍ مُّمَدَّدَۃٍ۔ ہلاکت ہو ہر غیبت کرنے والے سخت عیب جُو کےلئے۔ جس نے مال جمع کیا اور اس کا شمار کرتا رہا۔ وہ گمان کیا کرتا تھا کہ اُس کا مال اُسے دوام بخش دے گا۔ خبردار! وہ ضرور حُطَمَہ میں گرایا جائے گا۔ اور تجھے کیا بتائے کہ حُطَمَہ کیا ہے۔ وہ اللہ کی آگ ہے بھڑکائی ہوئی۔ جو دلوں پر لپکے گی۔ یقیناً وہ اُن کے خلاف بند رکھی گئی ہے۔ ایسے ستونوں میں جو کھینچ کر لمبے کئے گئے ہیں۔ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے فرمایا: کیا اس زمانہ کا بڑا انسان یہ گمان کرے گا کہ اس کے پاس اس کثرت سے دولت اکٹھی ہوچکی ہے اور وہ اسے بےدریغ اپنے دفاع میں خرچ کر رہا ہے گویا اب اسے اس دنیا میں ابدی برتری حاصل ہوگئی ہے؟ خبردار وہ ایک ایسی آگ میں جھونکا جائے گا جو چھوٹے سے چھوٹے ذرّوں میں بند کی گئی ہے اور تجھے کیا پتا کہ وہ کون سی آگ ہے؟ یہ سوال طبعی طور پر اٹھتا ہے کہ چھوٹے سے ذرّہ میں آگ کیسے بند کی جاسکتی ہے؟ لازماً اس میں اس آگ کا ذکر ہے جو ایٹم میں بند ہوتی ہے اور لفظ حُطَمۃ اور ایٹم (ATOM) میں صوتی مشابہت ہے۔ یہ وہ آگ ہے جو دلوں پر لپکے گی اور ان پر لپکنے کے لیے ایسے ستونوں میں بند کی گئی ہے جو کھنچ کر لمبے ہوجائیں گے۔ وہ ایٹمی مادہ جس میں یہ آگ بند ہے وہ پھٹنے سے پہلے عَمَدٍ مُّمَدَّدَۃ کی شکل اختیار کرتا ہے یعنی بڑھتے ہوئے اندرونی دباؤ کی وجہ سے پھیلنے لگتا ہے اور اس کی آگ انسانوں کے بدن جلانے سے پہلے ان کے دلوں پر لپکتی ہے اور انسانوں کی حرکتِ قلب بند ہوجاتی ہے۔ تمام سائنسدان گواہ ہیں کہ بالکل یہی واقعہ ایٹم بم پھٹنے سے رونما ہوتا ہے۔ اس کے آتش گیر مادہ کے پہنچنے سے پہلے پہلے نہایت طاقتور ریڈیائی لہریں دلوں کی حرکت بند کردیتی ہیں۔اس کا ایک اور معنی یہ بھی ہے کہ انسانی جسم کے ذرّات میں بھی ایک آگ مخفی ہے۔ جب وہ ظاہر ہوگی تو پھر انسانی دل پر لپکے گی اور اسے ناکارہ بنا دے گی۔ (ترجمۃ القرآن کلاس نمبر ۳۰۵) اب یہ سوال رہ جاتا ہے کہ ان شعاعوں کا دل سے کیا تعلق ہوتا ہے؟ سائنسی تحقیق سے یہ حقائق سامنے آئے ہیں کہ ایٹم بم سے جو تابکاری کی شعاعیں خارج ہوتی ہیں وہ دل پر اثرانداز ہو کر دل کی بیماریوں کا باعث بنتی ہیں۔جو لوگ ہیروشیما اور ناگاساکی کے بموں کی فوری تباہ کاری سے زندہ بچ گئے تھے بعد میں عام آبادی کی نسبت ان لوگوں میں دل کی بیماریوں سے شرح اموات خاظر خواہ زیادہ تھی۔ان کو زیادہ بلڈ پریشر کی بیماری ہونے کے علاوہ ایسے بہت سے متاثرین کی دل سے نکلنے والی بڑی رگ Aortaمیں کیلشیم جمع ہونے کا عارضہ بھی زیادہ تعداد میں ہوا۔یہ موضوع کہ تابکاری شعاعوں کے اثرات سے دل کے امراض جنم لیتے ہیں، بہت سی سائنسی تحقیقات کا موضوع بنا۔ برٹش میڈیکل جرنل نے ۹۳ ایسی تحقیقات کا مجموعی تجزیہ شائع کیا جن میں دل کے امراض اور تابکاری شعاعوں کے اثرات کے باہمی تعلق کا جائزہ لیا گیا تھا۔ (Ozasa K, Takahashi I, Grant EJ, Kodama K. Cardiovascular disease among atomic bomb survivors. Int J Radiat Biol. 2017 Oct;93(10):1145-1150. BMJ 2023;380:e072924 ) اس کے علاوہ اب ایسی تحقیقات بھی سامنے آئی ہیں کہ تابکاری کے اثرات سے دل کی دھڑکن تیز آہستہ اور بےترتیب ہو سکتی ہے۔ (https://www.aerjournal.com/editions/aer-volume-12-2023) ایٹم کی دریافت سے ایٹمی ہتھیاروں تک: ایٹم کی دریافت، اس کی تقسیم اور بالآخر ایٹمی ہتھیاروں تک کا سفر ایک صدی سے بھی طویل ہے اور اس سارے پیچیدہ سلسلہ میں دریافت اور ایجادات کی ایک طویل فہرست ہے۔چنانچہ کسی ایک سائنسدان کو ایٹم بم کا موجد نہیں کہا جاسکتا۔البتہ قرعہ فال اگر ایک شخص کے نام نکالنا ہو تو وہ جے رابرٹ ہیں۔ اب تک ۱۱۸ عناصر دریافت کیے جا چکے ہیں۔جرمن سائنسدان مارٹن کیلپروتھ نے ۱۷۸۹ء میں یورینیم دریافت کیا تھا جو بعد ازاں ایٹمی ہتھیاروں کی تخلیق میں کلیدی کردار کا باعث بنا تھا۔لیکن لاشعوری طور پر ایٹم بم کی بنیاد ۱۸۹۶ء میں پڑی۔جے جے تھامس نے کیتھوڈ شعاعوں کی ایسی خصوصیات دریافت کیں جن سے معلوم ہوا کہ ایٹم اپنے اجزاء یعنی الیکٹرانوں اور مثبت آئن میں توڑا جا سکتا ہے۔ اس کامیابی پر انہیں ۱۹۰۶ء میں فزکس کا نوبیل انعام دیا گیا۔۱۸۹۸ء میں میری کیوری نے یورینیم اور تھورییم کی تابکاری کے مشاہدات کیے اور ایٹم کے اس طرح خودبخود ٹوٹنے کے عمل کو تابکاری کا نام دیا۔توانائی بھی ذرات پر مشتمل ہو سکتی ہے، یہ دریافت میکس پلانک نامی سائنسدان نے ۱۹۰۰ء میں کی۔ ۱۹۰۵ء میں آئن سٹائن نے یہ بتایا کہ مادہ اور توانائی ایک دوسرے میں تبدیل ہو سکتے ہیں۔ انریکو فرمی نے دنیا کا پہلا ایٹمی ری ایکٹر بنایا جسے شکاگو پائیل کا نام دیا گیا۔ اگست ۱۹۳۹ء کو آئن سٹائن نے اس وقت کے امریکی صدر فرینکلن روزویلٹ کو ایک خط لکھ کر آگاہ کیا کہ نازی سائنسدان ایک نیا اور طاقتور ہتھیار بنانے پر کام کر رہے ہیں۔ آئن سٹائن کے ساتھی طبیعیات دان لیوسزلارڈ اور دو اور ساتھیوں نے آئن سٹائن پر امریکی صدر کو نہ صرف خط بھیجنے پر زور دیا بلکہ آئن سٹائن کے ساتھ مل کر خط کا مسودہ تیار کرنے میں بھی معاونت کی۔یہ خط مین ہیٹن پراجیکٹ کی وجہ بنا جہاں ایٹم بم کی پیدائش ہوئی۔۱۶؍جولائی ۱۹۴۵ء کو میکسیکو کے علاقےٹرینیٹی میں صبح ساڑھے پانچ بجے دنیا کے پہلے ایٹم بم کاکا میاب تجربہ کر لیاگیا۔ ہیروشیما، ناگاساکی پر ایٹمی حملہ: ۶ اور ۹؍اگست ۱۹۴۵ء کولٹل بوائے(Little Boy)اور فیٹ بوائے(Fat Boy)نامی بم بالترتیب ہیروشیما اور ناگاساکی پر گرائے گئے جس سے مجموعی طور پر دو لاکھ ۱۴ ہزار افراد ہلاک اور لاکھوں زخمی ہوئے اور عمر بھر کے لیے معذور ہو گئے۔ پلک جھپکتے دونوں شہر راکھ کا ڈھیر بن گئے۔ اس تباہی نے جاپان کو ہلا کر رکھ دیا اور چند روز بعد ہی جاپانی فوج نے ہتھیار ڈال دیے۔ دوسری عالمی جنگ کا اختتام ہوا تو ۹۰؍ملین افراد اس جنگ میں ہلاک ہوئے۔ کروڑوں افراد زخمی اور عمر بھر کے لیے معذور ہو گئے اورلاکھوں افراد کو ہجرت کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں اور یہ جنگ معلوم انسانی تاریخ کی خونریز ترین جنگ ثابت ہوئی۔قید میں مرنے والوں اور جنگ کے نتیجے میں جنم لینے والی مہلک بیماریوں اور علاج معالجہ کے تباہ حال نظام کی بدولت سسک سسک کر مرنے والوں کی تعداد اس کے علاوہ ہے۔ جہنم قریب ہے: ایٹمی ہتھیارانسانیت کی موت ہے جس کے استعمال سے ہونے والی تباہی نے دنیا کو دو ادوار میں تقسیم کر دیا۔اس کی ہولناک تباہی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایٹمی دھماکے کے مرکز کے پانچ کلومیٹر کے اندر اندر تین سیکنڈ میں انسانی جسم سمیت ہر زندہ چیز بھاپ بن کر ہوا میں تحلیل ہو جائے گی۔دھماکے کے فوری بعد آنکھوں کو چندھیا دینے والی نہایت تیز روشنی خارج ہوگی اور ۸۰ کلومیٹر دُور موجود لوگ بھی عارضی طور پر بینائی سے محروم ہو جائیں گے۔اس کے بعد ایک Heat waveآئے گی جس کا دائرہ آٹھ کلومیٹر تک ہوگا اور انسانی جسم جھلس کر رہ جائے گا۔یعنی اس کی زد میں آنے والے کی موت سو فیصد یقینی ہے۔تیسرے درجے پر ایٹمی تابکاری کا اخراج ہوگا اور چوتھے درجے پر ایک آگ کا گولہ فضا میں بلند ہوگا۔دھماکے کی آواز سنائی دے گی اور پھر ایٹمی دھماکے کا سب سے خطرناک مرحلہ ہوگا جب Radioactive Fallout ہوگا۔اس میں کچھ منٹ اور کچھ گھنٹے بھی لگ سکتے ہیں۔اس میں مہلک تابکاری ذرات فضا سے زمین پر برسیں گے جو جان لیوا ثابت ہوں گے۔ہیروشیما اور ناگاساکی پر گرائے جانے والے ایٹم بم بہت ابتدائی نوعیت کے تھے اس کے باوجود انہوں نے ناقابل تلافی جانی و مالی نقصان پہنچایا تھا اور اس تباہی کو دیکھتے ہوئے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ آج اتنی جدت آجانے کے بعد یہ کتنا مہلک ثابت ہوگا۔ ماضی کے مقابلہ میں ایٹمی ہتھیاروں کی ٹیکنالوجی اور ان کی ممکنہ تباہ کاری کا موازنہ کیا جائے تو کوئی موازنہ بنتا ہی نہیں۔جدید ایٹمی ہتھیار ماضی کے مقابلے میں بہت زیادہ طاقتور ہو چکے ہیں اور ماضی کے ہتھیاروں کی حیثیت آج کے جدید ہتھیاروں کے سامنے ایک بچے کی سی ہے۔ ڈومز ڈے کلاک (قیامت کی گھڑی) کیا ہے؟: ڈومز ڈے کلاک پہلی بار ۱۹۴۷ء میں دنیا کے خاتمے تک ایک الٹی گنتی کے طور پر بنائی گئی تھی۔یہ انسانی ہاتھوں کی وجہ سے آنے والی عالمی تباہی کا حوالہ دیتی ہے اور اسے بلیٹن کے ایٹمی سائنسدانوں کے جائزے کے بعد ہر جنوری میں ایڈجسٹ کیا جاتا ہے۔۱۹۴۷ء میں اس کی نقاب کشائی کے وقت، گھڑی آدھی رات سے سات منٹ پر تھی۔ اس وقت سے یہ کل ۲۴ مختلف اوقات میں آگے پیچھے کی گئی ہے۔یہ گھڑی اصل میں اس بات کا اندازہ کرنے کے لیے بنائی گئی تھی کہ انسانیت نیوکلیئر تباہی کے کتنے قریب ہے۔ یہ قابلِ سمجھ بھی ہے کہ ایٹم بم دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے فوراً بعد اور سرد جنگ کے ہتھیاروں کی دوڑ شروع ہونے سے ٹھیک پہلے تشکیل دیا گیا تھا۔درحقیقت، ڈومز ڈے کلاک کا قریب ترین آفتی ریکارڈ ۱۹۵۳ء میں تھا، جو آدھی رات سے دو منٹ پہلے مقرر کیا گیا تھا، جب امریکہ اور سوویت یونین دونوں نے ہائیڈروجن بموں کا تجربہ کرنا شروع کیا تھا۔یہ ۲۰۱۸ء میں ایک بار پھر دیکھا گیا جب امریکہ اور شمالی کوریا کے درمیان اشتعال انگیزی کی صورت میں گھڑی ایک بار پھر آدھی رات سے دو منٹ پیچھے کردی گئی، جس سے ایٹمی جنگ کے امکانات کو مزید آگے بڑھایا گیا۔ اب یہ ۹۰ سیکنڈ پر سیٹ کر دی گئی ہے۔ ۲۔آخری زمانہ میں دنیا میں بداخلاقی عام پھیل جائے گی اور گناہ کی کثرت ہو گی اور دوزخیوں کی تعداد بڑھ جائے گی۔(تفسیر کبیر۔سورۃ التکویر ) ۳۔اس کے ایک معنی یہ بھی ہیں کہ اُس وقت خدا تعالیٰ کا ایک نبی آئے گا جس کی مخالفت کی وجہ سے خدا تعالیٰ کا غضب بھڑک اُٹھے گا کیونکہ خدا تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِيْنَ حَتّٰى نَبْعَثَ رَسُوْلًا(بنی اسرائیل : ۱۶) ہم اُس وقت تک لوگوں پر عذاب نازل نہیں کرتے جب تک اپنا رسول بھیج کر اُن پر حجت تمام نہ کر لیں۔ پس اس آیت میں ایک لطیف اشارہ اس امر کی طرف بھی ہے کہ اُس وقت خدا تعالیٰ کا ایک مامور آئے گا کیونکہ جب اس کی طرف سے کوئی مامور آتا ہے تو اس کے آنے کے ساتھ جہاں مومنوں کے لئے رحمت کے دروازے کھلتے ہیں وہاں کفار کے لئے عذاب کے دروازے بھی کھول دیے جاتے ہیں۔(تفسیر کبیر۔سورۃ التکویر ) حضرت مسیح موعودؑ کو اللہ تعالیٰ نے کثرت سے عالمی زلزلوں اور دیگر آفات کی خبر دی ہے۔ فرماتے ہیں: ’’یاد رہے کہ خدا نے مجھے عام طور پر زلزلوں کی خبر دی ہے پس یقیناًسمجھو کہ جیسا کہ پیشگوئی کے مطابق امریکہ میں زلزلے آئے ایسا ہی یورپ میں بھی آئے اور نیز ایشیا کے مختلف مقامات میں آئیں گے اور بعض اُن میں قیامت کا نمونہ ہوں گے اور اس قدر موت ہوگی کہ خون کی نہریں چلیں گی۔ اس موت سے پرند چرند بھی باہر نہیں ہوں گے اور زمین پر اس قدر سخت تباہی آئے گی کہ اس روز سے کہ انسان پیدا ہوا ایسی تباہی کبھی نہیں آئی ہوگی اور اکثر مقامات زیر و زبر ہو جائیں گے کہ گویا اُن میں کبھی آبادی نہ تھی اور اس کے ساتھ اور بھی آفات زمین اور آسمان میں ہولناک صورت میں پیدا ہوں گی یہاں تک کہ ہر ایک عقلمند کی نظر میں وہ باتیں غیر معمولی ہو جائیں گی اور ہیئت اور فلسفہ کی کتابوں کے کسی صفحہ میں اُن کا پتہ نہیں ملے گاتب انسانوں میں اضطراب پیدا ہوگا کہ یہ کیا ہونے والا ہے۔ اور بہتیرے نجات پائیں گے اور بہتیرے ہلاک ہو جائیں گے۔ وہ دن نزدیک ہیں بلکہ میں دیکھتا ہوں کہ دروازے پر ہیں کہ دنیا ایک قیامت کا نظارہ دیکھے گی اور نہ صرف زلزلے بلکہ اور بھی ڈرانے والی آفتیں ظاہر ہوں گی کچھ آسمان سے اور کچھ زمین سے یہ اس لئے کہ نوع انسان نے اپنے خدا کی پرستش چھوڑ دی ہے اور تمام دل اور تمام ہمت اور تمام خیالات سے دنیا پر ہی گر گئے ہیں اگر میں نہ آیا ہوتا تو اِن بلاؤں میں کچھ تاخیر ہو جاتی پر میرے آنے کے ساتھ خدا کے غضب کے وہ مخفی ارادے جو ایک بڑی مدت سے مخفی تھے ظاہر ہو گئے جیسا کہ خدا نے فرمایا۔ وَمَا کُنَّا مُعَذِّبِیْنَ حَتّٰی نَبْعَثَ رَسُوْلًا۔ (بنی اسرا ئیل:۱۶) اور توبہ کرنے والے امان پائیں گے اور وہ جو بلا سے پہلے ڈرتے ہیں اُن پر رحم کیا جائے گا۔‘‘(حقیقة الوحی، روحانی خزائن جلد۲۲صفحہ۲۶۸تا۲۶۹) چنانچہ حضرت مسیح موعودؑ کے زمانہ میں طاعون شدت سے آئی۔زلزلوں اور دیگر آفات سماوی اور بیماریوں کا ایساسلسلہ جاری ہوا جو خود اس علم کے ماہرین کے لیے حیران کن ہے۔ (مزید تفصیل کے لیے خطبہ جمعہ ۲۷؍جنوری ۲۰۰۶ء۔ خطبات مسرور جلد ۴ صفحہ ۵۱) (باقی آئندہ ان شاءاللہ) ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: سورۃ التکویر کی واقعاتی تفسیر۔قرآن کریم کا معجزہ(قسط دوم)