https://youtu.be/uyKI7cshmvY اللہ تعالیٰ نے فَصُرْھُنَّ کا سبق دیا ہے ۔ جب ٹریننگ کرو اور پھر ان کو اپنی طرف بلاؤ گے تو صُرْھُنَّ وہ دوڑتے ہوئے آئیں گے۔ تربیت کریں تو پھر وہ آپ کی طرف آئیں گے، یہ نہیں کہ صرف چندہ لینے کےلیے چلے گئے یا سال میں ایک دفعہ ویسے چلے گئے مورخہ۱۵؍جون ۲۰۲۵ء بروزاتوار امام جماعت احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ مجلس انصار اللہ ہالینڈ کی نیشنل مجلس عاملہ اور زعمائے مجالس کےایک وفدکو بالمشافہ شرفِ ملاقات حاصل ہوا۔ یہ ملاقات اسلام آباد(ٹِلفورڈ) یو کے میں واقع ایم ٹی اے سٹوڈیوز میں منعقد ہوئی ۔مذکورہ وفد نے خصوصی طور پر اس ملاقات میں شرکت کی غرض سےہالینڈسے برطانیہ کا سفر اختیار کیا۔ جب حضورِ انور مجلس میں رونق افروز ہوئے تو آپ نے السلام علیکم کا تحفہ عنایت فرمایا۔دورانِ ملاقات تمام شاملینِ مجلس کو حضورِانور کی خدمت میں اپنا اور اپنے متعلقہ شعبہ جات کا تعارف پیش کرنے اور اپنی مفوضہ ذمہ داریوں کی بابت حضورانور کی زبانِ مبارک سے نہایت پُرمعارف، بصیرت افروز اور قیمتی نصائح پر مشتمل راہنمائی حاصل کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ ایک شریکِ مجلس نے حضورِانور کی خدمتِ اقدس میں عرض کیا کہ کچھ انصار تو ایسے ہیں کہ جو تجنید میں تو شامل ہیں، مگر بجٹ میں صفر ہیں۔ ان میں نہ تعاون کرنے والے انصار اور ایسے انصار جو رابطے میں نہیں رہنا چاہتے وہ بھی شامل ہیں۔علاوہ ازیں ان میں ایسے انصار بھی شامل ہیں جو اسائلم کیمپ میں رہتے ہیں ، جن کی کوئی incomeنہیں ہے۔ ایسے انصار کے حوالے سے حضورِانور کی خدمت میں راہنمائی کی درخواست ہے۔ اس کے جواب میں حضورِانور نے فرمایا کہ جو شخص اپنے آپ کو احمدی کہتا ہے وہ آپ کی تجنید میں شامل ہو گا۔مجلس انصار اللہ اس لیے بنی ہے کہ ان کی تربیت کریں، ان کو بتائیں کہ مالی قربانی کی کیا اہمیت ہے؟ اگر ان کی آمد ہے تو وہ چندہ دیں۔ اگر آمد نہیں ہے تو وہ رخصت لے لیں، بتا دیں کہ ہماری آمد نہیں ہے یا اتنی تھوڑی آمد ہے کہ ہمارا اپنا گزارہ نہیں ہوتا اور ہم چندہ نہیں دے سکتے۔بہرحال تجنید میں تو وہ شامل رہیں گے۔ وہ آپ کے ناصر ہیں۔ ہاں! مگروہ عہدیدار نہیں بن سکتے، کیونکہ وہ چندہ نہیں دیتے۔ حضورِانور نے تربیتی مقاصد کو ذیلی تنظیموں کا اصل ہدف قرار دیتے ہوئے توجہ دلائی کہ باقی تربیت کریں۔ اسی لیے تو ذیلی تنظیمیں بنائی گئی تھیں کہ تربیت کر کے ساروں کے روحانی، علمی اور اخلاقی معیار بلند کریں ۔ اسی لیے تنظیمیں قائم ہیں۔ اوریہ تو نہیں کہ فلاں شامل نہیں ہوتا ، تو اس کو جس طرح چاہونکالتے جاؤ۔ہم یہاں کوئی ڈکٹیٹر تو نہیں بنے ہوئے ۔ تربیت کرنی ہے، تربیت کر کے شامل کریں۔قریب لائیں ، پیار سے قریب لائیں، ان کواحساس دلائیں۔ حضورِانور نےایسے افراد کے حوالے سے کہ جو شدید غربت کے باعث نہ کھانا کھا سکتے ہیں اور نہ ہی چندہ ادا کرنے کی استطاعت رکھتے ہیںتوجہ دلائی کہ اگر ان کی کوئی ضروریات ہیں، اگر آپ کو پوری کرنی پڑتی ہیں اور واقعی اتنی غربت کی حالت ہے کہ وہ چندہ بھی نہیں دے سکتے اور کھانا بھی نہیں کھا سکتے تو پھر ان کو روٹی کھلائیں۔آپ کا کام ہے۔ایثار کا کام کیاہے؟ بایں ہمہ حضورِانور نے اسائلم کیمپ میں مقیم انصار سے رابطے اور نمازِجمعہ کی ادائیگی کی اہمیت اُجاگر کرتے ہوئے فرمایا کہ دوسری بات یہ ہے کہ اسائلم کیمپ میں جو رہتے ہیں، ان کو کہیں کہ عام طور پر اگر انتظامیہ سے کہا جائے، تو کم از کم جمعہ والے دن، وہ ایک رخصت دے دیتے ہیں کہ ایک یادو گھنٹے کےلیے چلے جاؤاور جو تمہارا سینٹر ہے، وہاں جا کے جمعہ پڑھ لو۔ تو ان کی کم از کم اتنی تربیت ہو، اتنا ان کواپنے ساتھ attachکریں کہ وہ جمعہ پڑھنے آئیں۔ جمعہ پڑھنے آئیں گے تو آہستہ آہستہ تعلق پیدا ہوتا چلا جائے گا۔ حضورِانور نے فرمایا کہ پہلے ہی مَیں نے بتا دیا ہے کہ اگر تو ان کی incomeکم ہے اور چندہ نہیں دے سکتے تو پھر وہ رخصت لے لیں۔ ایک اور شریکِ مجلس نے حضورِانور سے راہنمائی کی درخواست کی کہ بعض انصار سے جب ہم رابطہ کرتے ہیں تو وہ تعاون نہیں کرتے۔ اس پر حضورِانور نے توجہ دلائی کہ بات یہ ہے کہ آپ چندہ لینے کےلیے رابطہ کرتے ہیں۔کبھی آپ نے رابطہ کیا ہے کہ ہم آپ کا حال پوچھنے آئے ہیں ؟ حضورِانور نے کمزور افراد کی فہرست مرتّب کر کے ان سے رابطے کو منظم کرنے کی بابت ہدایت فرمائی کہ کیاایثارنے ایسی ٹیم بنائی ہوئی ہے کہ جو ایسے لوگ ہیں ان کی فہرست بنائیں کہ کون سے ایسے لوگ ہیں جو کمزور ہیں، جن کو کسی بھی لحاظ سے مدد کی ضرورت ہے یا دینی لحاظ سے کمزور ہیںلیکن ویسے ان کے حالات اچھے ہیں ۔ ان کے پاس جائیں، حالات پوچھیں، ان سے کہیں کہ ہم تمہارے سے چندہ لینے نہیں آئے، صرف یہ ہے کہ احمدی اور مسلمان ہونے کی حیثیت سے تمہارا یہ کام ہے کہ جمعہ پر آؤ، نمازوں پر آؤ، تم نمازوں پر آ جایا کرو۔ حضورِانور نے مسجد میں آنے والوں کو خوش آمدید کہنے اور شرمندہ نہ کرنے کی بابت تاکید کرتے ہوئے توجہ دلائی کہ وہاں آ کے پھر ہر ایک کو یوں غور غورسے دیکھا نہ کریں کہ اچھا! تم آج نماز پرآ گئے ہو ! خیر ہے؟ پھر اگلا جو ہے وہ embarrassہوتا ہے۔ welcomeکریں۔چاہے دس سال بعد آپ کی مسجد میں کوئی نماز پڑھنے آیا ہے اس کو welcomeکریں۔ بجائے اس کے کہ یہ احساس دلائیں کہ اج چن چڑھیا اَے کس طرح! پنجابی والے کہتے ہیں۔وہ نہیں ہونا چاہیے۔ مولوی صاحب کہہ دیں گے کہ ہاں جی! کہاں سے آگئے؟ تو welcomeکیا کریں اور اس طرح قریب لانے کی کوشش کریں۔ اللہ تعالیٰ نے فَصُرْھُنَّکا سبق دیا ہے ۔ جب ٹریننگ کرو اور پھر ان کو اپنی طرف بلاؤ گے تو صُرْھُنَّ وہ دوڑتے ہوئے آئیں گے۔تو تربیت کریں تو پھر وہ آپ کی طرف آئیں گے، یہ نہیں کہ صرف چندہ لینے کےلیے چلے گئے یا سال میں ایک دفعہ ویسے چلے گئے۔ حضورِانور نے دُور ہو جانے والوں کو دوبارہ قریب لانے کے عملی طریق کے ضمن میں مثال دیتے ہوئے فرمایا کہ اب مَیں، ابھی تو عرصہ ہو گیا ہے کہ مَیں وہاں [ہالینڈ]نہیں گیا، جب بھی وہاں گیا ہوں تو بہت سارے لوگ ملاقات کرنے آ جاتے ہیں جو ویسے نمازوں پر نہیں آتے اور اس بہانے وہ نمازیں بھی پڑھ لیتے تھے۔ اس کا مطلب ہے کہ آپ کو پتا ہے کہ وہ احمدی ہیں اور ان کا تعلق ہے تبھی تو آپ کی انتظامیہ ملاقات رکھواتی تھی۔ تو اس طرح جو ہٹے ہوئے ہیں آپ کاان کو قریب لانا مقصد ہے تا کہ اگلی نسلیں سنبھال سکیں۔ ایک شریکِ مجلس نے عرض کیا کہ جماعتی سطح پر محترم امیر صاحب کی ہدایت پر ایک نیشنل رشتہ ناطہ کمیٹی بنائی گئی ہے جس میں ذیلی تنظیموں کے صدران کو بھی بلایا جاتا ہے۔پیارے حضور سے راہنمائی کی درخواست ہے کہ شعبہ رشتہ ناطہ میں تنظیمی سطح پر انصار اللہ اپنا کیا کردار ادا کر سکتی ہے؟ اس پر حضورِانور نے فرمایا کہ کمیٹی اس لیےبنائی گئی ہے کہ جس طرح آپ لوگوں نے فکر سے اپنے بچوں کی شادیاں کی ہیں اور ان کے رشتے تلاش کیےہیں، اسی فکر سے کمیٹی غور کرے اور احمدی بچوں بچیوں کی شادیوں کی طرف توجہ دے۔ اس لیے لجنہ کی صدر بھی اس کی ممبر ہے، خدام الاحمدیہ کا صدر بھی ممبر ہے، انصار اللہ کا صدر بھی ممبر ہے، امیر صاحب بھی، سیکرٹری رشتہ ناطہ بھی۔ تو سارے مل کے کام کریں۔ حضورِانور نے ذیلی تنظیموں کے شعبہ تربیت اور مربیان کو تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ شعبہ تربیت جو ہے، انصاراللہ کا بھی، خدام کا بھی، جماعت کا بھی اور مربیان کا کام بھی ہے کہ یہ دیکھیں کہ لوگوں کی ایسی تربیت ہو کہ وہ احمدیوں میں رشتے کریں اور احمدیوں میں بھی کوشش یہ کریں کہ نیک رشتے تلاش کریں۔ اور جب یہ ہو تو ان کی پھر آپ لوگ مدد کریں ، جب نیک رشتے لوگ تلاش کر رہے ہیں تو ان کی تربیت کریں، ان کے لیے دعا کریں، وہ فکر رکھیں جو اپنے بچوں کے لیےفکر رکھتے تھے۔ تو اسی طرح کام ہوتے ہیں۔اسی لیے کمیٹی بنائی گئی تھی ۔ سیکرٹری رشتہ ناطہ جماعت میں ایک سے زیادہ مختلف علاقوں میں رکھے گئے ہیں۔ اس لیے اجازت دی گئی ہے کہ امیر جماعت ایک سے زیادہ سیکرٹری رشتہ ناطہ مقرر کر سکتا ہے۔ بات تو یہی ہے کہ کوشش کریں۔ رشتوں کے تعارف، کونسلنگ اور میٹنگز پر مبنی عملی اقدامات تجویز فرماتے ہوئے حضورِانور نے ہدایت دی کہ اور پھر یہ ہےکہ آپس میں جو رشتے ہیں ان کے لیے بعض دفعہ ایک دوسرے کے ساتھ تعارف نہیں ہوتا ، تو جو رشتے آپ تجویز کرتے ہیں، ان کے ملانے کا کوئی موقع پیدا کریں، ان کی میٹنگ کریں۔ کوئی ویسے کونسلنگ کرنی ہو کہ کس قسم کے رشتے چاہئیں، تو سال میں ایک دو دفعہ کونسلنگ بھی جماعتی نظام کے تحت ہونی چاہیے اور یا انصار اللہ اپنے طور پر بھی کرسکتی ہے۔ پہلے آپ کے پاس پورا ڈیٹا ہونا چاہیے کہ کون کون لوگ ہیں، کن کن عمروں کے ہیں، کتنے لڑکے ہیں، کتنی لڑکیاں ہیں، کتنے تعلیم یافتہ ہیں، کتنے کم عمر کے ہیں، کتنے عرب ممالک کے ہیں، کتنے یورپ کے مقامی ہیں، کتنے پاکستانی اوریجن کے ہیں، مختلف قوموں کے ہیں، ان کی اپنی اپنی ترجیحات کیا ہیں؟ یہ ساری باتیں سامنے رکھیں اور پھر اس کے مطابق اپنا پلان بنائیں۔ ایک سائل نے دریافت کیا کہ کیا اختلافِ رائے رکھنے والا جو فرد ہے، وہ اطاعت کے دائرے سے خارج سمجھا جا سکتا ہے اور کیا محض ہر بات پر بلا تردّد اتفاق کر لینا بھی حقیقی اطاعت کے زمرے میں آتا ہے؟ اس پر حضورِانور نے یاد دلایا کہ ابھی مَیں نے شوریٰ یوکے پر تقریر کی تھی ، اس میں مَیں نے بہت سی باتیں بتائی تھیں۔ حضورانور نے اختلافِ رائے اور اطاعت سے متعلق نہایت بصیرت افروز اور اصولی راہنمائی عطا فرمائی کہ اختلاف ِرائے ترقی کی علامت ہے، ہونا چاہیے، لیکن ضد نہیں ہونی چاہیےکہ جو مَیں کہہ رہا ہوں وہی صحیح ہے اورتم غلط کہہ رہے ہو۔ جہاں اکثریت نے فیصلہ کر دیاتو وہاں مان لو، اکثریت کے مفاد میں یہ ہے اور اگر پھر سمجھتے ہیں کہ جماعتی مفاد میں یہ نہیں ہے کہ اکثریتی فیصلہ اس طرح لاگوہو اور میری اختلافِ رائے ہے تو وہاں اپنی میٹنگ میں نوٹ دے دیں کہ میرا یہ نوٹ مرکز میں پہنچایا جائے یا خودمرکز کو لکھ دیں کہ یہ یہ وجوہات ہیں کہ جس کی وجہ سے میں اختلاف کرنا چاہتا ہوں۔ یہ نہ کوئی منافقت ہے اور نہ بغاوت ہے۔ اگر کوئی رائے رکھتا ہے اور ایمانداری سے سمجھتا ہے کہ میری رائے میں جماعتی مفاد زیادہ ہے تو اس کو بیان کرنا چاہیے۔ اسی سائل نے اس حوالے سے راہنمائی طلب کی کہ جب کوئی فیصلہ کیاجا رہا ہوتا ہے اور لوگوں کو رائے دینے کا موقع ملتا ہے تو بعض افراد اس وقت اپنی رائے کا اظہار نہیں کرتے لیکن جب فیصلہ ہو جاتا ہے تو پھر وہ کہتے ہیں کہ ایسا نہیں بلکہ ویسا ہونا چاہیے تھا۔ اس پر حضورِانور نے واضح اور دو ٹوک انداز میں فرمایا کہ یہ تو پھر منافقت ہے۔ اگر کوئی رائے رکھتا ہے تو پھرایمانداری کا تقاضا یہ ہے کہ کھل کے اپنی رائے دے۔ اور سننے والی جو انتظامیہ ہے، ان کا بھی کام ہے کہ وہ جو اختلافِ رائے ہے اس کو تحمل اور برداشت سے سنیں اور وسعتِ حوصلہ دکھائیں۔ حضورِانور نے اس بات پر زور دیا کہ میرا شوریٰ کا جو خطاب ہےوہ سن لیں۔ اس کے بعد کی باتیں بھی سن لیں۔ کئی دفعہ مَیں کہہ چکا ہوں ،عہدیداروں کو بھی کہہ چکا ہوں اور باقیوں کو بھی کہہ چکا ہوں۔ سوال یہ ہے کہ اختلافِ رائے میں کوئی ہرج نہیں ہے ، لیکن اس پر ضد کرنا کہ مَیں ہی ٹھیک ہوں، یہ غلط ہے۔ اگر آپ کو اتنی ہی ضد ہے تو پھر مرکز کو لکھیں، پھر مرکز جو فیصلہ کرے یا خلیفہ ٔوقت کو لکھیں ۔پھروہ جو بھی فیصلہ کرے ۔ قارئین کی معلومات کے لیے عرض ہے کہ حضورانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا نمائندگانِ مجلس شوریٰ یوکے،کینیڈا اور بیلجیم سے فرمودہ مذکورہ خطاب کا خلاصہ روزنامہ الفضل انٹرنیشنل کے شمارہ ۲۴؍ مئی ۲۰۲۵ء میں شائع ہو چکا ہے جس سے احباب استفادہ کر سکتے ہیں۔ مزید برآں مکمل خطاب کو سماعت کرنے کے لیے درج ذیل لنک سے بھی استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ https://www.alislam.org/video/majlis-e-shura-2025-uk-canada ایک ناصر نے اس حوالے سےراہنمائی کی درخواست کی کہ نوجوان انصار کے لیے مجلس انصار اللہ میں مکمل طور پر انصاراللہ کا حصّہ بننے کا بہترین طریقہ کیا ہے؟ اس پر حضورِانور نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ انصار بھی اور نوجوان بھی ! یہ دو چیزیں ہیں۔ جس پر تمام شاملینِ مجلس نے بھی خوب حظّ اُٹھایا اور کھل کر مسکرائے۔ نیز حضرت خلیفۃالمسیح الثالث رحمہ الله کی اصطلاح جوانوں کے جوان انصار کا حوالہ دیتے ہوئے حضورِانور نے فرمایا کہ ہاں !آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ خلیفة المسیح الثالث ؒنے جو لفظ صفِ دوم کے انصار کے لیے ‘جوانوں کے جوان انصار’ استعمال کیا تھا وہ لفظ اپنے لیےاستعمال کرنا ہے تو کریں۔ حضورِانور نے صفِ دوم کے انصار کو اپنے ساتھ منسلک کرنے کی بابت ہدایت دیتے ہوئے فرمایاکہ انصار الله کا حصّہ بننا ہے، تو ان کےلیے ایک پروگرام ہے، ایک پلان ہے، نائب صدر انصاراللہ جو صفِ دوم کا ہے اس کوایک پلان دیا گیا ہے کہ ان کی exercise، سائیکلنگ اور دوسرے پروگرام ہیں، ان کوactivitiesمیں شامل کرنا ہے۔ جو باقی انصار اللہ کے مجموعی پروگرام ہیںاس میں بھی وہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ان کے اپنے پروگرام ہیں اس میں بھی وہ شامل ہیں۔ تو ان کو اپنے ساتھattachکریں اور بتائیں کہ تم چالیس سال کے ہو گئے ہو تو ایک تو یہ ہے کہ تم نے انصاراللہ میں قدم رکھ لیا ۔ یہاں آ کے اب تم یہ نہ سمجھنا کہ اب تم سست ہو جاؤ بلکہ تم نے اسی طرحactive رہنا ہے جس طرح تم خدام الاحمدیہ میں تھے۔ حضورِ انور نے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ایک ارشاد کی روشنی میں توجہ دلائی کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک دفعہ بیان کیا کہ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ ایک شخص جب خدام الاحمدیہ میں ہوتا ہے ، خادم ہوتا ہے تو بڑاactive ہوتاہے اور انصار اللہ میں قدم رکھتے ہی سست ہوجاتا ہے ، اس کی کیا وجہ ہے؟ حضورِانور نے اس بات پر زور دیا کہ اس کو بتائیں کہ تم نے سست نہیں ہونا، تمہاری ذمہ داریاں ہیں۔ دوسرا اب تم کیونکہ چالیس سال سے اوپر ہو گئے ہواس لیے تعلق باللہ میں تم نے زیادہ بڑھنا ہے ، اپنی روحانی حالت کو بھی تم نے بہتر کرنا ہے، اس طرف بھی توجہ دو۔ تو یہ تربیت جب آپ لوگ صحیح طرح کریں گے تو وہ لوگ آپ کے ساتھattachرہیں گے ۔ آخر پر حضورِانور نے پھر مسکراتے ہوئے فرمایا کہ اور نوجوان نے کیا کرنا ہے، انصار الله تو انصار الله ہے۔ اگلا سوال پیش کرنے کی سعادت بھی مؤخر الذکر ناصر بھائی کو ہی حاصل ہوئی کہ مجلس خدام الاحمدیہ ملک میں عہدیداران کو مہتمم جبکہ مجلس انصار اللہ ملک میں عہدیداران کو قائد کہا جاتا ہے، پیارے حضور! ان ناموں میں فرق کا کیا مطلب ہے؟ اس پر حضورانور نے نہایت حکیمانہ انداز میں راہنمائی عطا فرماتے ہوئے سمجھایا کہ جنہوں نے نظام بنایا توانہوں نے یہ نظام فرق کرنے کے لیے رکھا۔ آپ یہ کیوں نہیں کہتے کہ جماعت میں جو عاملہ کے ممبران ہیں، ان کو سیکرٹری کہا جاتا ہے اور لجنہ میں بھی سیکرٹری کہا جاتا ہے ، ہمیں قائد کہا جاتا ہے، ان کو مہتمم کہا جاتا ہے ۔اس لیےفرق ہے کہ ہر ایک کے نظام کو واضح کرنے کےلیے ایک علیحدہ علیحدہ نظام حضرت مصلح موعود ؓنے دے دیا ۔ تمہارا نام قائد ہے۔ قائد ایک عمر کو پہنچ کے قیادت زیادہ اچھی کر سکتا ہے، اس لیے شاید آپ کا نام قائد رکھ دیا ہو۔ تو قائد بن کے بتائیں۔ خدمت کا اہتمام کرنے والے، اس کو صحیح طرح انجام دینے والے ، وہ مہتمم کہلاتے ہیں۔ اور جو اس کی صحیح طرح قیادت کر سکتے ہیں ، وہ قائد ہیں ۔ آخر میں حضورِانور نے مسکراتے ہوئے استفہامیہ انداز میں پُرمعنی تبصرہ فرمایا کہ اب سفید داڑھیاں رکھ کے بھی آپ نے قائد نہیں بننا تو پھر کب بننا ہے؟ ملاقات کے اختتام پر تمام شاملینِ مجلس کو حضورِانور کے ہمراہ گروپ تصویربنوانے کا شرف بھی حاصل ہوا اور یوں یہ ملاقات بخیر و خوبی انجام پذیر ہوئی۔ مزید پڑھیں: امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ مجلس خدام الاحمدیہ امریکہ کےنارتھ ایسٹ ریجن کے ایک وفدکی ملاقات