میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کے ملک کو بھی اور افریقہ کے sub-continentکویہ توفیق دے کہ وہ ترقی کرتے رہیں اور ایک وقت آئے کہ دنیا میں حکمرانی کرنے والے ہوں مورخہ۱۴؍جون ۲۰۲۵ء بروزہفتہ امام جماعتِ احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ سینیگال کے Thiès صوبے کے گورنر Mr Ndao کو بالمشافہ شرفِ ملاقات حاصل ہوا۔ یہ ملاقات اسلام آباد(ٹِلفورڈ) یو کے میں واقع حضورِانور کے دفتر میں منعقد ہوئی ۔موصوف نے خصوصی طور پر اس ملاقات میں شرکت کی غرض سےسینیگال سے برطانیہ کا سفر اختیار کیا۔ قارئین کی معلومات کے لیے عرض ہے کہ Thiès، سینیگال کا ایک اہم صوبہ ہے، جو دارالحکومت ڈاکار کے مشرق میں تقریباً ۷۰؍کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے ۔ یہ علاقہ تعلیمی، زرعی اور معدنی لحاظ سے نمایاں اہمیت رکھتا ہے۔ صوبے کا صدر مقام Thiès شہرہے، جو سینیگال کا تیسرا بڑا شہر بھی ہے۔ دورانِ ملاقات موصوف نے حضورِانور سے راہنمائی طلب کی کہ وہ سینیگال کے عوام کی خدمت کس طرح منصفانہ انداز میں بہتر طور پر سرانجام دے سکتے ہیں؟ جس پر حضورِ انور کی زبانِ مبارک سے انہیں انتہائی بصیرت افروز اور قیمتی نصائح پر مشتمل راہنمائی حاصل کرنے کی سعادت میسر آئی۔ حضورِانور نے فرمایا کہ آپ کو لوگوں نے اس لیے منتخب کیا ہے کہ ان کے بہتری کے سامان کیے جائیں اور وہ اسی وقت ہو سکتے ہیں کہ جب کوئی بھی حکومت انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے ایمانداری سے اپنے فرائض انجام دے اور اس کے لیے یہی ہے کہ جو قانون ہے اس کی بالا دستی ہمیشہ ملک میں ہونی چاہیے۔جو ملک کا آئین ہے اس کی بالادستی ہونی چاہیے،نہ کہ favouritism ہو اور خاص لوگوں کو رعایت ملے۔ اور انصاف قائم کیا جائے۔ بس constitution جو ہے، اس کی بالا دستی قائم رکھیں گے، انصاف قائم رکھیں گے، عوام کا خیال رکھیں گے اور ان میں یہ احساس پیدا کریں گے کہ ہم تمہارے ہمدرد ہیں اور تمہاری خاطر کام کرنے والے ہیں تو عوام بھی آپ کے ساتھ ہوں گے۔ حضورِانور نے عوامی شمولیت کو ملکی ترقی کا کلیدی عنصر قرار دیتے ہوئے اس پہلو پر توجہ دلائی کہ عام طور پر تیسری دنیا کے ملکوں میں رواج ہوتا ہے کہ ٹیکس چوری ہوتا ہے یا لوگ کام نہیں کرتے یا محنت نہیں کرتے۔اس سب سے عوام بچیں گے تو حکومت کا ساتھ دیں گے۔ ٹیکس بھی ادا کریں گے، محنت بھی کریں گے اور ملک کی ترقی میں اپنا کردار بھی ادا کریں گے۔ حضورِانور نے قیادت کے حقیقی مفہوم پر روشنی ڈالتے ہوئے توجہ دلائی کہ جو electedممبر اسمبلیوں اورحکومت میں آتے ہیں ، چاہے وہ صدر ہو یا باقی جو حکومت بنتی ہے، ان کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ وہ حکمرانی کرنے نہیں آئے، بلکہ قوم کے خادم ہو کے آئے ہیں۔ اور آپ مسلمان ہیں ، آپ کو تو پتا ہی ہو گا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ قوم کا سردار اس کا خادم ہوتا ہے۔ اس لیےقوم کے خادم بن کے رہیں، خدمت کریں تو ملک ترقی بھی کرے گااور عوام بھی آپ کے ساتھ ہو گی اور آپ کو مستقبل میں کامیابیاں بھی ملتی رہیں گی۔ جب عوام آپ کے ساتھ ہوں گے اور آپ انصاف سے حکومت کر رہے ہوں گے توآپ کا ملک بھی ترقی کرے گا۔ حضورِانور نے سینیگال کی جغرافیائی وسعت، قدرتی وسائل اور محنتی عوام کا ذکر کرتے ہوئے اس اُمید کا اظہار فرمایا کہ آپ کا ملک اتنا وسیع ہے ، آپ کے پاس وسائل بھی کافی ہیں اور جہاں تک میرا علم ہے ، محنت کرنے والے بھی ہیں اور افریقہ کے ترقی کرنے والے ملکوں میں بھی شمار ہوتے ہیں، اس لیےاتنی ترقی کریں کہ سارے افریقہ میں آپ کی مثال قائم ہو اور سینیگال ایک ایسا ملک بن جائے جو پورے افریقہ کو لیڈ کرنے والا ہو۔ حضورِانور نے تعلیم کو ملکی ترقی کی بنیاد قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ ایک بنیادی چیز ملک کی ترقی کے لیے عوام کا تعلیمی معیار ہے۔ اس میں یہ کوشش کریں کہ اپنے لوگوں میں، اپنے عوام میں کہ ان کا تعلیمی معیار کس طرح بلند کرنا ہے اور آئندہ آنے والی نسلوں اور بچوں کو کس طرح سنبھالنا ہے۔ ان کو صرف پرائمری سکول یا سیکنڈری سکول کی تعلیم نہیں دینی بلکہ اعلیٰ اور بہتر تعلیم دلوائیں تا کہ وہ آگے پھر آپ کے ملک کو serveکرنے والے بنیں۔ حضورِانور نے موجودہ عالمی حالات، بالخصوص یورپ میں بڑھتے ہوئے جنگی رجحانات کے تناظر میں، برّاعظم افریقہ کے دنیا کو لیڈ کرنے کے ایک سنہری اور نمایاں موقع کی جانب توجہ دلائی کہ اب دنیا کے جو حالات ہو رہے ہیں، خاص طور پر یورپ میں اور یہ ترقی یافتہ ملک جو اپنے آپ کوکہلاتے ہیں، یہ تو جنگوں میں involveہو گئے، کوئی پتا نہیں کہ ان کی تباہی کس رنگ میں ہونی ہے۔ان کے تباہ ہونے کے بعد دوسرے ممالک ، جو غریب ممالک ہیں، جو اب ترقی کر رہے ہیںان کو کوشش کرنی چاہیے کہ وہ بہتر طور پر ترقی کریں اور افریقہ کا اس وقت ایسا chanceہے کہ وہ ترقی کر کے دنیا کو leadکرنے والا بن سکے۔ اس لیے ابھی سے اس کے لیے تیاری کریں۔ اپنے عوام کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کریں۔انصاف قائم کریں اور ایمانداری سے حکومت چلائیں اور عوام کی بہتری کے لیے یا ان کے حالات کے لیےجو کچھ بھی کر سکتے ہیں وہ کریں اور اسی سے آپ لوگ پھر دنیا کو leadکرنے والے بن سکیں گے۔ یورپ کے لوگوں کا کوئی خاص دماغ نہیں ہے کہ جو افریقہ کے لوگوں میں نہیں ہے یا ایشیا کے لوگوں میں نہیں ہے۔ ان کا صرف یہ ہے کہ ان میں ایسے لوگ پیدا ہوئے کہ جو محنت کرنے کے عادی ہیں اور حکومتوں میں ایک حدّ تک انصاف قائم کرنے کا رواج ہے۔ یہ چیزیں ان کو ترقی دے رہی ہیں ۔یہ چیزیں آپ اپنا لیں گے تو ان سے آپ بہت آگے بڑھ جائیں گے۔ حضورِانور نے فرمایا کہ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کے ملک کو بھی اور افریقہ کے sub-continentکویہ توفیق دے کہ وہ ترقی کرتے رہیں اور ایک وقت آئے کہ دنیا میں حکمرانی کرنے والے ہوں۔ آخر میں حضورِانور نے قرآن و سنّت کی روشنی میں اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے دنیا اور خاص طور پر اسلامی ممالک کے لیے ایک روشن مثال بننے کی ضرورت کو اُجاگر فرمایا کہ آپ کے ملک میں اکثریت تو مسلمانوں کی ہے اور مسلمان اگر اسلامی تعلیم پر عمل کریں اور راہنما اصول ہمیں قرآن کریم میں مل گیا۔ اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنّت اور آپؐ کے عمل سے مل گیا ہے۔اس پر عمل کرنےو الے ہوں تو مسلمان ملکوں میں ترقی کا معیارکہیں سے کہیں چلا جائے۔ لیکن بدقسمتی سے مسلمان اس تعلیم پر عمل نہیں کر رہے جس کی وجہ سے ان کے لیےزوال کی صورتحال پیدا ہوتی ہے، پس اپنے وسائل کو ،اپنے ذرائع کو، اپنے علم کو اور اپنی اسلامی تعلیم کو ملک کی ترقی اور عوام کی بہتری کےلیے استعمال کریں تو آپ لوگ مسلمان ملکوں کےلیے بھی اور دنیا کےلیے بھی ایک مثال بن سکتے ہیں ۔ جیسا کہ پہلے مَیں نے کہا کہ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی توفیق دے۔ یہ جامع اور پُر اثر نصائح سماعت کرنے کے بعد گورنر صاحب نے اپنے قلبی جذبات کا اظہار یوں کیا کہ یہ تیسری مرتبہ ہے کہ مجھے حضورِانور سے ملاقات کی سعادت حاصل ہورہی ہےاور ہر بار پہلے سے بڑھ کر حضور کی محبّت اور برکات حاصل ہوتی ہیں۔ حضور کے قیمتی نصائح کو مَیں نے بغور سنا ہے، اور مَیں حکومت میں بھی ہوں تو میری خواہش ہے کہ ہمارا ملک ایک ایسا ملک بنے جہاں آئین کی بالا دستی ہواور جو ہر فرد کا خیرمقدم کرنے والا ہو یعنی ایک ایسا معاشرہ جو ہر انسان کو کشادہ دلی سے قبول کرے، چاہے وہ کسی بھی پس ِمنظر سے تعلق رکھتا ہو۔ اس پر حضورِانور نے آزادیٔ اظہار اور آزادیٔ مذہب کے حوالے سےقیمتی نصائح عطا فرمائیں کہ آزادیٔ اظہار اور آزادیٔ مذہب انسان کا بنیادی حق ہے۔ یہ ملنا چاہیےاور قرآنِ شریف میں بھی اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہےکہ دین میں کوئی جبر نہیں ہے۔اس لیے اس بات کو یاد رکھیں کہ مذہبی طور پر بھی ہر ایک کو آزادی دیں اور اظہار کی بھی ہر ایک کو آزادی دیں تو عوام میں کوئی بے سکونی کی کیفیت نہیں رہتی اور وہ حکومت کا ساتھ دینے والے ہوتے ہیں۔ جتنا عرصہ یہ آزادی ملتی رہے گی آپ کی حکومت بھی لمبا چلتی رہے گی اور ملک ترقی بھی کرتا رہے گا۔ اسی سلسلے میں مزید توجہ دلائی کہ ویسے بھی شدت پسندہر جگہ موجود ہیں۔آپ کے ملک میں بھی موجود ہوں گے، اس کو روکنے کی کوشش کریں اور اگر عوام کی معاشی حالت اچھی ہے تو جتنی یہ تحریکیں شروع ہوئی ہیں، بوکو حرام اور القاعدہ اور جو برکینا فاسو اور مالی وغیرہ میں ہیں، وہ اس طرف نہیں آئیں گی۔جب تک کہ عوام میں معاشی بہتری رہے گی اور عوام کا حکومت پر اعتماد رہے گا۔ یہ جتنی تنظیمیں ہیں،یہ لوگ اسی وقت فائدہ اُٹھاتے ہیں جب حکومت سے عوام کا اعتماد ختم ہو جاتا ہے۔ اس لیے اگر حکومت عوام کے لیےہر کام کرے، عوام کی حکومت عوام کی خاطر عوام کے لیے فیصلوں پر چلے تو کامیابیاں ہی کامیابیاں ہیں اور کوئی بھی دہشت گرد آپ کے ملک نہیں آئے گا ، نہیں توکیونکہ ارد گرد ہمسایوں میں دہشت گردی پھیل رہی ہے، تو اس لیےہو سکتا ہے کہ آپ کے بھی بارڈر ٹاؤن اس سے متاثر ہوں ۔ اس سے بچنے کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ ہمیشہ انصاف کو قائم رکھیں، عوام کی بہتری کےلیے کام کریں اور ان کا معیارِ زندگی بلند کرنے کی کوشش کریں۔ آخر میں حضورِانور نے اس بات پر زور دیا کہ اپنے لیڈروں کو اور اپنے سیاستدانوں کو یہ بھی پیغام پہنچائیں، اس کو ان کے دماغوں میں بھی ڈالیں کہ ہمارے ہر عمل کو اللہ تعالیٰ دیکھ رہا ہے۔ اس لیے ہمیں جو کچھ کرنا چاہیے انصاف سے کرنا چاہیے۔ یہ نہ سمجھیں کہ ہمیں کوئی دیکھ نہیں رہا اور ہماری بچت ہو جائے گی۔ اس دنیا میں رہنے کا فائدہ تبھی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کے جو مخلوق ہے، اس کی خدمت کی جائے اور اس کے لیےجس کو لیڈرشپ ملی ہے اس کی شکرگزاری یہی ہے کہ ان کی زیادہ سے زیادہ خدمت کی جائے اور ان کی بہتری کے سامان کیے جائیں۔ ملاقات کا اختتام حضورِانور نے ان دعائیہ الفاظ سے فرمایا کہ الله حافظ ہو۔ ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ نیشنل مجلس عاملہ جماعت احمدیہ جرمنی کی ملاقات