https://youtu.be/HWR2FLX3xOo جو اقوام نزول قرآن کے وقت وحشی سمجھی جاتی تھیں وہ ابھار دی جائیں گی اور دنیا میں پھیل جائیں گی یعنی یورپ اور امریکہ کا غلبہ ہو گا۔ (تفسیر کبیر) وحشی اکٹھے کیے جائیں گے سورۃ التکویر کی آیت نمبر ۶ ہے:وَإِذَا الْوُحُوْشُ حُشِرَتْ۔ (اور جب وحشی اکٹھے کئے جائیں گے )یہ آیت بھی کئی پیشگوئیوں پر مشتمل ہے۔ ۱۔ اورجس وقت وحشی آدمیوں کے ساتھ اکٹھے کیے جائیں گے مطلب یہ ہے کہ وحشی قومیں تہذیب کی طرف رجوع کریں گی اور اُن میں انسانیت اور تمیز آئے گی اور اراذل دنیوی مراتب اورعزّت سے ممتاز ہو جائیں گے اور بباعث دنیوی علوم و فنون پھیلنے کے شریفوں اوررذیلوں میں کچھ فرق نہیں رہے گا بلکہ رذیل غالب آجائیں گے یہاں تک کہ کلیددولت اور عنانِ حکومت ان کے ہاتھ میں ہو گی اورمضمون اس آیت کا ایک حدیث کے مضمون سے بھی ملتا ہے۔(شہادۃ القرآن، روحانی خزائن جلد ۶ صفحہ ۳۱۸) ۲۔وحشی جانور جمع کیے جائیں گے اور چڑیا گھر بنائے جائیں گے۔اگر اس سے وحشی جانور مراد لیے جائیں تو جدید ذرائع نقل وحمل کے ساتھ اس کا واضح تعلق ہے کیونکہ ان کے بغیر عظیم الجثہ جانوروں کو ایک جگہ اکٹھا کرنا ممکن نہیں(الہام، عقل، علم اور سچائی از حضرت مرزا طاہر احمد خلیفۃ المسیح الرابعؒ) تاریخ کے مطابق دنیا میں عوام الناس کے لیے پہلا جدید چڑیا گھر ۱۷۹۳ء میں پیرس میں کھولا گیا برطانیہ میں زوالوجیکل سوسائٹی کے تحت ۱۸۱۹ء میں ریجنٹ پارک میں سائنسی تحقیق کے نام پر پہلا زوالوجیکل گارڈن بنایاگیا۔ ۱۸۴۷ء میں اسے عوام کے لیے بھی کھول دیا گیا۔ امریکہ میں پہلا چڑیا گھر ۱۸۷۴ء میں فلاڈلفیا میں کھلا۔ عربوں نے مال کی فراوانی میں جہاں ایک پالتو جانور یعنی اونٹ کو متروک کر دیا ہے وہاں جنگلی اور وحشی جانوروں کو اکٹھا کرنے اور پالنے کا شوق پیدا کر لیا ہے یعنی پہلے اونٹ عرب میں مالدار شخص کا status symbol تھا لیکن آج وہ متروک ہوکر وحشی جانور کے جمع کرنے نے اس کی جگہ لے لی ہے۔ مشہور عربی میڈیا چینل العربیہ (Al Arabiya) اپنی انگریزی ویب سائٹ پر عرب ممالک میں جنگلی جانوروں کے بطور pet رکھنے کے رجحان کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے: The trend of owning lions, chimps, cheetahs, and other endangered primates and showcasing them on social media as a “status symbol” is fueling a growth in the GCC’s illegal animal trafficking trade, according to experts. (https://english.alarabiya.net/News/gulf/2022/08/23/Cheetahs-to-chimps-Trafficked-wildlife-a-growing-status-symbol-in-GCC-experts-say) اسی طرح CNN اپنی ایک رپورٹ میں لکھتا ہے: Ownership of exotic pets has long been considered a status symbol across the Gulf country. Wealthy owners… often post pictures on social media flaunting their exotic animal collection. https://www.cnn.com/2017/01/10/middleeast/exotic-pets-uae-ban/index.html پس ایک پالتو جانور کو گھر سے نکالنا اور وحشی جانور کو گھر میں پالنا زمانہ ٔجدید کی ایک تعجب انگیز حقیقت ہے لیکن اس سے بھی تعجب انگیز حقیقت یہ ہے کہ یہ سب باتیں بطور پیشگوئی ایک عرصہ سے قرآن کریم میں موجود ہیں جب کہ ان باتوں کا گمان بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ یقیناً عقل رکھنے والوں کے لیے صداقتِ رسول ﷺ اور حقانیتِ قرآن کی یہ ایک بھاری دلیل ہے۔حضرت مصلح موعود ؓنے مزید تراجم یہ بھی کیے ہیں ۲۔عجائب گھروں میں مردہ جانوروں کی کھالوں میں بھوسہ بھر کے رکھا جاتا ہے تاکہ لوگ معلومات میں اضافہ کریں۔ ۳۔ مردہ جانوروں کے لاشے اور ڈھانچے لا کر سائنسی تحقیقات کے لیے جمع کیے جائیں گے۔ ۴۔وحوش سے وحشی اور جنگلی انسان بھی مراد لیے جاسکتے ہیں یعنی ان کا تعلق متمدن انسانوں سے ہو جائے گا، ان میں بیداری پیدا ہو جائے گی اور عالمگیر سیاسی نظام شروع ہوجائے گا۔ ۵۔جو اقوام نزول قرآن کے وقت وحشی سمجھی جاتی تھیں وہ ابھار دی جائیں گی اور دنیا میں پھیل جائیں گی یعنی یورپ اور امریکہ کا غلبہ ہو گا۔(تفسیر کبیر جلد ۱۱ صفحہ ۳۰۹۔ ایڈیشن۲۰۲۳ء)حضرت خلیفہ اولؓ نے یہ ترجمہ کیا ہے جو رسول اللہ ﷺ کے وقت میں وحشی سمجھے گئے تھے وہ جمعیت حاصل کریں گے پھیل جائیں گے۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا تھا کہ قسطنطنیہ کی فتح کے سات برس بعد دجال کا خروج شروع ہوگا۔ محمد ثانی فاتح قسطنطنیہ کے سات سال بعد دجال نکلنا شروع ہو گیا یعنی یورپ کی سلطنتیں ہوشیار ہو گئیں سنبھل گئیں کیونکہ مسلمانوں کا ڈر پیدا ہو گیا تھا ۔(ترجمہ قرآن) ترک سلطان محمد فاتح نے ۱۴۵۳ء میں قسطنطنیہ فتح کیا اور ۱۴۸۱ء میں وفات پا گئے اس کے بعد آہستہ آہستہ یورپ میں بیداری شروع ہوئی اور انہوں نے نئے ممالک کی دریافت کے لیے سمندری سفر شروع کیے۔۳؍اگست۱۴۹۲ء کو، اطالوی کرسٹوفر کولمبس نے بحری جہاز سےامریکہ دریافت کیا۔ کولمبس نے اس خطے کو ۱۴۹۲ء اور ۱۵۰۲ء کے دوران کیے گئے اپنے چار سمندری اسفار کے ذریعے مغربی یورپ میں متعارف کرایا۔ کولمبس نے مغربی یورپ سے بڑے پیمانے پر لوگوں کی اس نئے دریافت شدہ خطے میں آمد کی راہ ہموار کی۔ مغربی لوگوں کی اسی منتقلی کے نتیجے میں امریکہ، کینیڈا اور میکسیکو سمیت کئی نئی قوموں کی داغ بیل ڈالی۔ براعظم آسٹریلیا پر سب سے پہلے ولندیزی مہم جُو ۱۶۰۶ء میں پہنچے اور انہوں نے اسے ’’نیو ہالینڈ‘‘ کا نام دیا۔ آسٹریلیا کے جنوبی نصف پر برطانیہ نے ۱۷۷۰ء میں ملکیت کا دعویٰ کیا اور سزاؤں کے طور پر یہاں لوگوں کو بھیجنا شروع کیا۔آبادی کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ نئے علاقے دریافت ہوتے گئے، ۱۹ویں صدی تک مزید پانچ نوآبادیاں بنا دی گئیں۔یکم جنوری ۱۹۰۱ء کو ان چھ نو آبادیوں نے مل کر ایک فیڈریشن بنائی اور اس طرح دولت مشترکہ آسٹریلیا وجود میں آیا۔ ہندوستان میں انگریزوں کے قدم جمے۱۶۱۱ء میں مغلیہ سلطنت نے ان کو خلیج بنگال میں کام کرنے کی اجازت دی اور ۱۶۱۲ء میں ان کو پہلا کارخانہ کھولنے کی اجازت ملی۔اور یہ یورپ کی ترقی کی پہلی بنیاد تھی ہندوستان کے بعد یورپ نے دوسرے ایشیائی ممالک اور افریقہ پر قبضہ کیا۔ (تفسیر کبیرجلد۴صفحہ۴۳۴۔ ایڈیشن۲۰۲۳ء) ۶۔ایسی قوموں کی حکومت ہو جائے گی جو بے دین ہوں گی گویا دہریہ قومیں حکمران ہوں گی جیسے روس اور دیگر ممالک میں ہیں۔ ۷۔بد اخلاقی عام پھیل جائے گی اور دیندار لوگ دب جائیں گے۔(تفسیر کبیرجلد ۱۱ صفحہ ۳۰۹۔ ایڈیشن۲۰۲۳ء) مولوی شکیل احمد سہسوانی نے ۱۸۹۲ء میں کہا: ہیں شکل میں نصاریٰ تو کردار میں یہود کس دل سے پیا رکرتے ہیں خیر البشر سے ہم (الحق الصریح فی حیات المسیح صفحہ ۱۳۳) اور کچھ عرصہ بعد اقبال نے مسلمانوں کو کہا: وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود (بانگ درا ) ان بیانات کی تائید میں لوگ مسلسل لکھ رہے ہیں۔ ۸۔وحشی اقوام کو ان کے علاقوں سے نکال دیا جائے گا جیسے افریقہ اور امریکہ کے مقامی باشندوں کے ساتھ ہؤا۔ (تفسیر کبیرجلد ۱۱ صفحہ ۳۰۹۔ایڈیشن۲۰۲۳ء) ریڈ انڈینز امریکہ کے اصل باشندے تھے، جو ہزاروں سال پہلے ایشیا سے یہاں آئے۔ وہ شمالی اور جنوبی امریکہ کے مختلف علاقوں میں آباد تھے۔ریڈ انڈینز کی اپنی منفرد زبانیں، مذاہب، روایات اور رہن سہن تھے۔ وہ زراعت، شکار اور دستکاری میں ماہر تھے۔یورپی نوآبادکاروں نے ۱۵ویں صدی سے ان پر قبضہ کیا۔ لاکھوں ریڈ انڈینز قتل کر دیے گئے، ان کی زمینیں چھینی گئیں اور انہیں چھوٹے چھوٹے محفوظ علاقوں (reservations) تک محدود کر دیا گیا۔ افریقی غلاموں کو ۱۷ویں سے ۱۹ویں صدی تک افریقہ سے زبردستی امریکہ اور یورپ لایا گیا۔ انہیں نوآبادیاتی معیشت کے لیے غلام بنایا گیا۔افریقی غلاموں کو بےحد ظلم و ستم سہنا پڑا۔ انہیں جائیداد سمجھا جاتا تھا اور ان کے ساتھ غیرانسانی سلوک کیا جاتا تھا۔ ۱۹ویں صدی میں غلامی کے خاتمے کی تحریک چلی اور امریکی خانہ جنگی کے بعد ۱۸۶۵ء میں غلامی ختم ہوئی لیکن نسلی امتیاز پھر بھی جاری رہا۔ ۹۔ حُشِرَت کے معنی ہلاک کرنے کے بھی ہیں مراد یہ کہ انہیں قسما قسم کی تدابیر سے مار دیا جائے گا جیسا کہ آسٹریلیا کے قدیم باشندوں کے ساتھ کیا گیا۔(تفسیر کبیرجلد ۱۱ صفحہ ۳۱۰۔ ایڈیشن۲۰۲۳ء) ان علاقوں کے اصل باشندوں کو ان کی ملکیت سے محروم کر دیا جائے گا۔ بہتوں کو ہلاک کر دیا جائے گا۔ وکی پیڈیا لکھتا ہے۔ آسٹریلیا کے قدیم باشندوں (ابوریجین) کو استعماری نظام کے آغاز نے تباہ کر دیا۔ آسٹریلیا میں برطانوی استعمار کا آغاز ۱۷۸۸ء میں ہوا۔ اس کا سب سے پہلا اثر تو یہ تھا کہ انگریز اپنے ساتھ ایسی بیماریاں لے گئے جن کے خلاف آسٹریلیا کے قدیم باشندوں میں مدافعت نہیں تھی۔ نتیجۃً ان قدیم باشندوں کی نصف کے قریب آبادی خسرہ اور دیگر بیماریوں کی نذر ہو گئی۔ دوسرا بڑا کام جو برطانوی استعمار نے کیا وہ پانی کے وسائل اور زرخیز زمین پر قبضہ تھا جس کی وجہ سے آسٹریلیا کے قدیم باشندے ننگ اور بھوک کا شکار ہو گئے۔ تیسرا طریقہ جو اختیار کیا گیا وہ یہ تھا کہ انگریز کہتے تھے کہ ہم کنگرو کی جگہ انسانی شکار کرتے ہیں یعنی قدیم باشندوں کو جانوروں کی طرح شکار کیا گیا جس میں مرد، عورتیں اور بچے شامل تھے۔ان کے علاوہ قدیم باشندوں کا اس قدر قتلِ عام کیا گیا کہ بیسویں صدی کے آغاز تک ان کی کل تعداد دو لاکھ سے کم رہ گئی۔ حضرت خلیفہ اولؓ کا ترجمہ کہ جو رسول اللہ ﷺ کے وقت میں وحشی سمجھے گئے تھے وہ جمعیت حاصل کریں گے پھیل جائیں گے۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا تھا کہ قسطنطنیہ کی فتح کے سات برس بعد دجال کا خروج شروع ہو گا۔ محمد ثانی فاتح قسطنطنیہ کے سات سال بعد دجال نکلنا شروع ہو گیا یعنی یورپ کی سلطنتیں ہوشیار ہوگئیں سنبھل گئیں کیونکہ مسلمانوں کا ڈر پیدا ہو گیا تھا اور یہ معنے بھی ہیں کہ تمام یورپ وغیرہ میں عجائب خانہ، چڑی خانہ وغیرہ سجائے جائیں گے۔(ترجمہ قرآن ) سمندر پھاڑے جائیں گے سورۃ التکویر کی آیت نمبر ۷ ہے:وَإِذَا الْبِحَارُ سُجِّرَتْ (اور جب سمندر پھاڑے جائیں گے)سجر کے کئی معانی ہیں اور اس لحاظ سے کئی پیشگوئیاں ہیں۔ ۱۔ سَجَّرَ کے پہلے معنی پھاڑنے کے ہیں۔یہ پیشگوئی قرآن کریم نے دہرائی ہے۔ چنانچہ سورۃ الانفطار آیت ۴ میں ہے: وَإِذَا الْبِحَارُ فُجِّرَتْ۔یعنی جب سمندر پھاڑے جائیں گے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:’’اور جس وقت دریا چیرے جاویں گے یعنی زمین پر نہریں پھیل جائیں گی اور کاشتکاری کثرت سے ہوگی۔‘‘(شہادۃ القرآن، روحانی خزائن جلد ۶ صفحہ ۳۱۸) پچھلی دو صدیوں میں پانی نے ملکوں کی ترقی میں انقلابی کردار ادا کیا ہے۔ یہ انقلابی کردار سمندروں اور دریاؤں کو پھاڑنے اور اُن سے نہریں نکالنے کی صورت میں رونما ہوا ہے اور یہ انتظام Canal System کے نام سے جانا جاتا ہے۔ نہروں کے نکالنے کے تین بڑے مقاصد ہیں: آبپاشی کی نہریں یعنی فصلوں کو پانی فراہم کرنا، انسانی آبادی تک پینے کا پانی پہنچانا اور آبی گزرگاہوں کے طور پر یعنی سفراور تجارتی سامان کی نقل و حمل کے لیے۔ پچھلی دو صدیوں میں ان تینوں اغراض کی خاطر دنیا بھر میں نہروں اور نہر (canal) سے نکلنے والی چھوٹی نہر) اور نالیوں کا جال بچھایا گیاسمندروں، جھیلوں اور دریاؤں کو نہروں کے ذریعے آپس میں ملایا گیا ہے۔ نہر سویز (Suez Canal) اور نہر پانامہ (Panama Canal) جیسی ناقابل یقین نہروں سمیت دیگر کئی بڑی بڑی نہریں قرآنی صداقت کا عظیم الشان نشان ہیں۔دنیا میں بنائی جانے والی نہروں میں ہزاروں نام ہیں جن میں سے چند بڑی نہروں کے نام ذیل میں درج کیے جاتے ہیں: ۱۔ نہر سویز (Suez Canal) بحیرہ روم کو بحیرہ قلزم سے ملاتی ہے۔ ۲۔ نہر پانامہ (Panama Canal) جو بحرالکاہل اور بحر اوقیانوس کو آپس میں ملاتی ہے۔ ۳۔ کورنتھ نہر (Corinth Canal) یونان ۴۔ نہر مٹل لینڈ (Mittelland Canal) جرمنی ۵۔ وولگا ڈون کینال ( Volga-Don Canal) روس حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:’’یہ بھی ہو رہا ہے کہ دریاؤں میں سے نہریں نکالی جاتی ہیں بلکہ بعض جگہ وسیع نہریں نکالنے کے لیے ایک دریا کا پانی دوسرے دریا کے پانی میں ملا دیتے ہیں۔ … اور چونکہ بحر کے معنے اَلْمَاءُ الْمِلْحُ کے بھی ہیں یعنی صرف دریا مراد نہیں بلکہ اس کے معنے سمندر کے بھی ہیں اس لیے اس آیت کے یہ معنے بھی ہو سکتے ہیں کہ سمندر آپس میں ملا دیے جائیں گے جیسے نہر سویز کے ذریعہ سے قلزم اور روم کو یا نہر پانامہ کے ذریعہ سے دو امریکن سمندروں کو آپس میں ملا دیا گیا۔‘‘(تفسیر کبیر جلد ۱۱صفحہ ۳۱۱۔ ایڈیشن۲۰۲۳ء) ۲۔ سَجَّرَ بمعنی بھرنا، سمندر کا چڑھنا اور موجوں میں تلاطم آنا۔ ان معنوں کا ظہور بھی موجودہ زمانے میں حیرت انگیز طور پر ہوا ہے۔ فی زمانہ Global Warming کا بہت شور ہےاور ماہرین موسمیات نے اس کو انتہائی قابل فکر بتایا ہے۔ اسی گلوبل وارمنگ یا عالمی حرارت کا اثر سمندروں کو بھرنے اور اس کی موجوں میں تلاطم کا باعث بن رہا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ۱۸۸۰ء سے لے کر اب تک سمندری پانی کی سطح میں ۸، ۹ انچ اضافہ ہوا ہے اور پچھلی کچھ دہائیوں میں یہ اضافہ فکر انگیز حد تک بڑھا ہے یہاں تک کہ بعض چھوٹے غیر آباد جزیرے صفحہ ہستی سے مٹ گئے ہیں اور بعض آباد جزیروں کے معدوم ہونے کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔ دنیا کی مشہور خبر رساں ایجنسی Reuters بحر الکاہل میں واقع جزیرہ طوالو [Tuvalu] کے بارے میں رپورٹ کرتے ہوئے لکھتی ہے کہ صدی کے آخر تک اس چھوٹے سے ملک کے ڈوب جانے کی پیشگوئی کی گئی ہے۔ یہی صورتحال جزیرہ کری باتی (Kiribati) کی ہے جسے بھی drowning paradise کے الفاظ سے بیان کیا گیا ہے۔ اس موسمیاتی تبدیلی کے ساتھ ساتھ سمندری ساحلوں پر واقع دنیا کے بڑے شہروں میں بڑھتی ہوئی آبادی بھی ان شہروں کی غرقابی کا خطرہ بنی ہوئی ہے۔ میڈیا میں Sinking Cities کے تحت دنیا کے کئی اہم شہروں کو اس فہرست میں دکھایا گیا ہے۔ بہر کیف یہ سب تغیرات وَإِذَا الْبِحَارُ سُجِّرَتْ کے معنی ’’جب سمندر پانی سے بھر جائیں گے اور ان کی موجوں میں طغیانی آجائے گی‘‘ کے الفاظ میں صدیوں سے قرآن کریم میں مذکور ہیں۔ ۳۔الْمَسْجُوْر بمعنی خالی ہونا۔ لسان العرب میں ہے کہ مسجور بھری ہوئی چیز کو بھی کہتے ہیں اور اس کو بھی جو خالی ہو۔ بعض مفسرین نے بھی یہ معنی بیان کیے ہیں۔ چنانچہ علامہ الطبری اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ بعض نے اس کا مطلب لیا ہے کہ جب دریاؤں کا پانی ختم ہوجائے گا۔ ان معنوں کے لحاظ سے یہ پیشگوئی سمندروں کی نسبت جھیلوں اور دریاؤں کے ساتھ زیادہ تعلق رکھتی ہے۔ دریاؤں اور جھیلوں کو پھاڑ کر نہریں نکالنے کے نتیجے میں اور پانی کی ضرورت کی وجہ سے دریاؤں کا رخ موڑنے کی وجہ سےدریاؤں اور جھیلوں کے پانی میں کمی واقع ہوئی ہے۔ پھر دریاؤں پر ڈیم بنانے کی وجہ سے بھی پانی کی ترسیل میں کمی واقع ہوئی ہے۔ اس میں بہت سی مثالیں ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں واقع مشہور بحیرہ مردار Dead Sea۔ ۱۹۰۳ء میں ایک ہزار پچاس سکوائر کلومیٹر تک پھیلا ہوا تھا جو اب سکڑ کر ۶۰۰؍سکوائر کلو میٹر رہ گیا ہے۔ ماہرین نے اس کے مزید سکڑنے کا خدشہ بھی ظاہر کیا ہے۔ پھر وسط ایشیا میں واقع بحیرہ ارال (Aral Sea) بھی اس کی بڑی مثال ہے۔ اس کے علاوہ Lake Poopo بولیویا، Lop Nurچین، Lake Faguibineمالی، Lake Amik ترکی، Owens Lakeکیلیفورنیا، امریکہ، Lake Hula اسرائیل وغیرہ اس قرآنی بیان کی صداقت کی زندہ مثالیں ہیں۔ حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ بیان فرماتے ہیں: ’’حضرت قتادہؓ سے سُجِّرَتْ کےمعنے منقول ہیں کہ دریاؤں کا پانی خشک ہو جائے گا۔ کینال ڈیپارٹمنٹ نے بڑے بڑے دریاؤں سے نہریں نکال کر ان کو تقریباً ایسا ہی کردیا۔گویا کہ (دریا) سوکھ گئے ہیں۔‘‘(حقائق الفرقان جلد چہارم صفحہ ۳۳۲) ۴۔ بھرنا اور گرم کرنا۔لفظ تسجیر کے ان معنوں کے لحاظ سے آیت کا ترجمہ بنتا ہے۔۱۔ کثرت سے سمندروں میں جہازوں کی آمد و رفت ہوگی۔ ۲۔جب سمندروں کو ایندھن سے بھر دیا جائے گا اور گرم کیا جائے گا ان معنوں کا ایک ظہور تو بحری جنگوں کی صورت میں ہوا ہے۔ گو کہ بحری جنگوں کی تاریخ کافی پرانی ہے لیکن پچھلی تین صدیوں سے دھماکا خیز اور بارودی مواد سے بھرے ہتھیاروں نے سمندر کو ایک قسم کی آگ کی لپیٹ میں لیا ہے۔ آبدوزوں اور آبی گولوں (torpedo)سمیت انتہائی تباہ کن بارودی اور آتش گیر مواد سے بھرے ہتھیار سمندر کو ایندھن سے بھرنے کا ہی ایک نقشہ ہیں۔ دوسرا ان معنوں کا وقوع میں آنا موجودہ زمانے میں تیل یا خام تیل (petroleum) اور قدرتی گیس (natural gas) کی دریافت کے لحاظ سے بھی ہے جس کا ایک خاطر خواہ حصہ سمندر سے نکلتا ہے جسے عرف عام میں offshore drilling کے نام سے جانا جاتا ہے۔ دنیا میں تیل یا گیس کے ستّر فی صد کنویں زمین پر اور تیس فی صد کنویں سمندر میں ہیں۔پس پٹرولیم اور قدرتی گیس (سی این جی، ایل پی جی) جیسا آتشگیر قدرتی مادہ بھی تسجیر بحار کی ہی ایک صورت ہے۔ پھر اس کی ترسیل یعنی دوسرے ملکوں کو برآمدکرنے کا بڑا ذریعہ بھی سمندری راستے ہیں جہاں ٹینکر جہازوں (tanker ships) سے تیل یا خام تیل کے حادثاتی طور پر بہ جانے کی وجہ سے بھی کئی مرتبہ سمندری حصوں میں ان آتشگیر مادوں کی آمیزش ہوئی ہے جو کئی آبی مخلوقات کی ہلاکت کا باعث ہوئی ہے۔ جولائی ۲۰۲۱ء میں Gulf of Mexico میں تیل کی پائپ لائن پھٹنے کی وجہ سے حقیقی طور پر سطح سمندر پر آگ لگ گئی جس پر پانچ گھنٹوں کی بڑی تگ و دو کے بعدقابو پایا گیا۔ علامہ القرطبی نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے ويحتمل أن تكون تحت البحر نار (تفسیر جامع البیان للقرطبی) یعنی سمندر کے نیچے آگ ہونے کا احتمال موجود ہے۔ اُس زمانے میں تو اِس کی حقیقت سمجھ نہیں آ سکتی تھی لیکن موجودہ دور میں اس حقیقت سے پردہ اٹھ چکا ہے اور یہ معنی بھی آشکار ہوچکے ہیں۔اسی طرح جب آئل ٹینکرز سے تیل سمندر میں بہ جاتا ہے تو اسے آگ لگا دی جاتی ہے۔ حدیث کی مشہور کتاب مشکوٰ ۃ کی شرح میں لکھا ہے حدیث میں وارد ہوا ہے کہ سمندر آگ بن جائے گا اور اسی کو قرآن کریم کی اس آیت مذکورہ میں بیان کیا گیا ہے (مرقاۃ المفاتیح۔ علی بن سلطان القاری متوفیٰ ۱۰۱۴ھ) ۵۔ سَاجُوْربمعنی طوق، قید،پابند کرنا۔حضرت ابن عباسؓ سے وَالْبَحْرِ الْمَسْجُورِ کے معنی یہ بھی مروی ہوئے ہیں کہ دریا قید یا قابو میں کر لیے جائیں گے۔ (تفسیر الطبری۔ سورۃ الطور آیت نمبر ۶) علامہ ابن عطیہ تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں یعنی یہ بھی احتمال موجود ہے کہ وَإِذَا الْبِحَارُ سُجِّرَتْ کےمعنی ہیں کہ سمندروں یا دریاؤں کو ملکیت یا غلام بنا لیا جائے گا اور اس کے تلاطم کو قید کر لیا جائے گا۔(تفسير المحرر الوجيز في تفسير الكتاب العزيز؍ ابن عطية) سمندروں کو ملکیت بنانے کا رجحان بھی موجودہ زمانے میں رونما ہوا ہے۔ عالمی قانون کے مطابق کسی بھی ملک کی سمندری حد اس کے ساحل سے ۱۲بحری میل (nautical miles) سمندر کے اندر تک ہوتی ہے جہاں ماہی گیری، قدرتی وسائل کی دریافت اور حصول وغیرہ صرف اسی کا حق ہوتا ہے۔ دوسرے ملکوں کے بحری جہازوں کو باجازت وہاں سے گزرنا ہوتا ہے، اس نظام کو بہتر طور پر چلانے کے لیے United Nations Convention on the Law of the Sea جیسا عالمی معاہدہ وضع کیا گیا ہے۔ اس UNCLOS معاہدہ کے باوجود ۳۹؍ فی صد سمندری حدود ابھی تک غیر حل شدہ ہیں اور جن کی ملکیت کے دعویدار ایک سے زیادہ ممالک ہیں جس کی ایک مثال The South China Sea ہے جہاں چین، تائیوان اور فلپائنز میں آئے دن جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں۔ حضرت ابن عباسؓ کے بیان کردہ معنی المحبوس (یعنی قید کیا ہوا یا روکا گیا) دریاؤں پر ڈیم (Dam) بنانے کے ذریعہ بھی پورے ہوئے ہیں جس کے ذریعے پانی کو روک لیا جاتا ہے یا بالفاظ دیگر پانی کو محبوس کر لیا جاتا ہے۔ جس سے نیچے پانی چھوڑنا ڈیم والے ملک یا صوبے یا علاقے کی صوابدید پر منحصر ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے پانی کو محبوس کرنے والے یہ ڈیم ملکوں میں وجہ نزاع بنے ہوئے ہیں۔ موجودہ دور میں اس کی بڑی مثال ایتھوپیا کا دریائے نیل پر Grand Ethiopian Renaissance Dam بنانا ہے۔ جس کی وجہ سے مصر اور سوڈان کے ایتھوپیا کے ساتھ تعلقات نہایت کشیدہ ہیں۔ چین نے The Mekong River پر۲۰۲۰ء تک گیارہ ڈیمز تعمیر کیے جن سے میانمار، لاؤس، تھائی لینڈ، کمبوڈیا اور ویتنام جیسے ملک متاثر ہوئے ہیں۔ نہ صرف یہ کہ پانی کا اس طرح روکا جانا ملکوں کے درمیان کشیدگی کا باعث بن رہا ہے بلکہ ایک ہی ملک میں صوبوں کے درمیان بھی الجھاؤ پیدا کر رہا ہے۔ پاکستان میں کالاباغ ڈیم کا منصوبہ اس کی مثال ہے۔ اسی طرح بھارت کے دریائے کاویری Cauvery River کی وجہ سے بھارتی صوبہ تامل ناڈو اور کرناٹکا کے تعلقات شدید تناؤ کا شکار ہیں۔(مزید تفصیل کے لیے دیکھیں الفضل انٹرنیشنل ۷؍دسمبر۲۰۲۳ء) ۶۔حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا ہے کہ بحر عالم کو بھی کہتے ہیں یعنی عالم جاہل ہو جائیں اور ان کا علم مفقود ہو جائے گا۔ (تفسیر کبیر جلد۱۱ صفحہ ۳۱۱۔ ایڈیشن۲۰۲۳ء)اس کی تفصیل حدیث میں ملتی ہے، حضرت عمرو بن عاصؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایاکہ عالموں کی وفات کے ذریعے علم دین ختم ہو جائے گا اور لوگ انتہائی جاہل اشخاص کو اپنا سردار بنا لیں گے اور ان سے جاکر مسائل پوچھیں گے۔ وہ جاہل بغیر علم کے فتویٰ دیں گے۔ خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔(بخاری کتاب العلم باب کیف یقبض العلم حدیث نمبر ۱۰۰) فرمایا کہ ایسا زمانہ آئے گا کہ نام کے سوا اسلام کا کچھ باقی نہیں رہے گا۔ الفاظ کے سوا قرآن کا کچھ باقی نہیں رہے گا۔ اس زمانہ کے لوگوں کی مسجدیں بظاہر تو آباد نظر آئیں گی لیکن ہدایت سے خالی ہوں گی۔ ان کے علماء آسمان کے نیچے بسنے والی مخلوق میں سے بدترین مخلوق ہوں گے۔ ان میں سے ہی فتنے اٹھیں گے اور ان میں ہی لوٹ جائیں گے یعنی تمام خرابیوں کا وہی سرچشمہ ہوں گے۔ (شعب الایمان بیہقی جلد۳ صفحہ ۳۱۷ حدیث نمبر ۱۷۶۳ باب ینبغی لطالب العلم) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری امت پر ایک زمانہ اضطراب اور انتشار کا آئے گا لوگ اپنے علماء کے پاس راہنمائی کی امید سے جائیں گے تو وہ انہیں بندروں اور سؤروں کی طرح پائیں گے۔تكون في أمتي قزعة فيصير الناس إلى علمائهم فإذا هم قردة وخنازير(نوادر الاصول فی احادیث الرسول۔محمد بن علی الحکیم الترمذی جلد ۲ صفحہ ۱۹۶۔دار الجبل بیروت ) علماء کے کردار کے متعلق کچھ حوالے پہلے بیان ہو چکے ہیں۔نواب نور الحسن خان لکھتے ہیں کہ مولویوں میں رات دن بکھیڑا رہتا ہے ایک دوسرے کو کافر بتاتا ہے۔حق کو باطل،باطل کو حق ٹھہراتاہے یہی فتنہ سبب اعظم ہے غربت اسلام اور قرب قیامت کا۔ (اقترا ب الساعۃ صفحہ۸ مطبوعہ بنارسی ۱۲۷۹) علامہ اقبال کے ایک شعر کا ترجمہ ہے۔علماء علم قرآن سے بے بہرہ ہیں اور صوفیاء پھاڑنے والے بھیڑیے ہیں۔ یہ سب کے سب دین کے اسرار سے بے خبر ہیں اور بڑے ہی کینہ پرور ہیں۔(جاوید نامہ صفحہ۲۴۳ ) نفوس ملائے جائیں گے سورۃ التکویر کی آیت نمبر ۸ ہے:وَإِذَا النُّفُوْسُ زُوِّجَتْ (اور جب جانیں ملا دی جائیں گی) اس کے تین معنی ہیں۔ ۱۔جب لوگ باہمی تعلقات کے ذریعہ اکٹھے کر دیے جائیں گے یہ تعلقات اقوام کی طرف اشارہ ہے۔ ۲۔جب ساری دنیا کے لوگ ملا دیے جائیں گے یعنی بین الاقوامی معاہدات اور اقوام متحدہ اور دیگر تنظیموں کے ذریعہ اکٹھے کیے جائیں گے۔۳۔ جب لوگوں کے ملاپ کو تیز رفتار ذرائع نقل و حمل کے باعث آسان کر دیا جائے گا۔ (تفسیر کبیر سورۃ التکویر ) اس میں رسل و رسائل اور سفر کی آسانیوں اور دنیا کے گلوبل ولیج بننے کی پیشگوئی ہےیہ سفر ڈاک خانہ،تار،ریڈیو، ٹیلی فون، ٹیلی ویژن اور سمارٹ فون سے جاری ہے اور دوسری طرف کار،ریل اور ہوائی جہاز سے آگے بڑھ رہا ہے۔ ریل گاڑی اور جہاز کا ذکر گزر چکا ہے اور کتب کا ذکر اگلی آیات میں ہو گا۔ یہاں انسان کو اکٹھا کرنے والی چند اور ایجادات کاذکر ضروری ہے جو ۱۹ویں اور ۲۰ویں صدی میں ہوئیں اور مسلسل ترقی پذیر ہیں۔ ڈایملر نے مشہور زمانہ کار مرسڈیز ۳۱؍مارچ ۱۹۰۱ء کو مکمل کی۔اس نے کار کا نام اپنی بیٹی مرسڈیز کے نام پر رکھا۔ مارکونی نے ۱۱؍دسمبر ۱۹۰۱ءکو وائرلیس ایجاد کیا۔ اس ایجاد سے نشریات کی دنیا میں انقلاب آگیا۔ امریکہ کے مشہور موجد ایڈیسن نے ۲۸؍مئی ۱۹۰۲ء کو ایک نئی بیٹری ایجاد کی۔ کیمرا اور تصویر: ۱۸۲۶ء۔فرانس کے جو زف نیپس نے دنیا کی پہلی تصویر کھینچی۔ ۱۸۸۸ء۔امریکی جارج ایسٹ مین نے کوڈک نامی کیمرا عوام کے لیے متعارف کروایا۔ ۱۸۹۹ء۔میں حضرت مسیح موعود ؑکا پہلا فوٹو لیا گیا۔ ۱۹۰۱ء۔کوڈک کیمرا کے موجد جارج ایسٹ مین نے ایک بین الاقوامی ادارے کی داغ بیل ڈالی، جس نے کیمرے کو دنیا کے طول و عرض میں پہنچانے کے لیے کیمرے کو بہت بڑے پیمانے پر تیار کرنا شروع کیا۔ ۱۹۰۷ء۔متحرک فلموں کے موجد فرانسیسی بھائیوں آکسٹن اور لوئی لیو میرے نے رنگین فوٹو گرافی کی ایجاد کا اعلان کیا۔ فونوگراف: تھامس ایلوا ایڈیسن نے ۱۸۷۷ء میں ایجاد کیا۔Emile Berliner نے اسے مزید بہتر بنایا اور اسے گراموفون کا نام دیا گیا۔ ۱۹۶۰ء کی دہائی تک فونوگراف اور گراموفون ہی استعمال ہوتے تھے۔ اس کے بعد ۱۹۶۳ء میں آڈیو کیسٹ ریکارڈر کا نظام متعارف ہوا بعد میں واک مین کے نام سے ان کیسٹس کے عام استعمال کے لیےدستی مشینیں بنائی گئیں جو سفر میں بھی کام کرتی تھیں۔ ۱۹۸۲ء میں آوازوں کو محفوظ کرنے کے لیے ڈیجیٹل تکنیک متعارف کرائی گئی جو سی ڈی کہلاتی تھی۔ مارکونی نے ۱۱؍دسمبر ۱۹۰۱ءکو وائرلیس ایجاد کیا۔ اس ایجاد سے نشریات کی دنیا میں انقلاب آگیا،اگلے قدم پر لاؤڈ سپیکر ایجاد ہوا۔ لاؤڈسپیکر، رائسن کیلاگ نے ۱۹۲۴ء میں ایجاد کیا۔ اہم ایجادات کا زمانہ: کمپیوٹربنانے کی ۱۸۳۰ء میں پہلی کامیاب کوشش ہوئی اور ۱۹۳۰ء میں پہلا اینا لاگ کمپیوٹر ایجاد ہوا۔تار برقی ٫۱۸۳۸ میں۔ ٹیلی فون ٫۱۸۴۶۔ بلب ۱۸۷۹ء۔ روشنی کی رفتار ٫۱۹۰۷ میں معلوم کی گئی۔ ہیلی کاپٹر ٫۱۹۰۷۔ پہلا ریڈیو سگنل ۱۸۹۵ء، ریڈیو ۱۹۰۹ء۔ پہلا ریڈیو سٹیشن ۱۹۲۰ء۔ ٹیلی ویژن ۱۹۲۶ء۔ پہلی بولتی فلم ٫۱۹۲۷ اور برصغیر میں پہلا ریڈیو سٹیشن ۱۹۲۷ء میں ممبئی میں قائم ہؤا ۴۔ إِذَا النُّفُوسُ زُوِّجَتْ میں اس طرف بھی اشارہ کیا گیا تھا کہ اس زمانہ میں جدید قسم کے علوم پھیل جائیں گے چنانچہ دنیا میں مغربی علوم کا اب اس قدرغلبہ ہو گیا ہے کہ نفوس انسانی کا آپس میں جوڑ اور اتحاد پیدا ہونا بالکل آسان ہو گیا ہے۔ بالخصوص یورو پین فلسفہ نے انسانی دماغ کو ایک خاص رنگ میں ڈھال دیا ہے اب اگر ایک چینی سو چتا ہے تو مغربی رنگ میں سوچتا ہے، جاپانی سوچتا ہے تو مغربی رنگ میں سوچتا ہے، عرب سوچتا ہے تو مغربی رنگ میں اور پٹھان سوچتا ہے تو وہ بھی مغربی رنگ میں۔پس مغربی فلسفہ اور مغربی تہذیب سب پر چھا گئی ہے۔ اور مختلف اقوام کے افراد علمی طور پر آپس میں ملا دیے گئے ہیں۔ (تفسیر کبیر جلد ۱۱ صفحہ۳۱۲۔ ایڈیشن۲۰۲۳ء) مختلف اقوام کے افراد کا آپس میں شادی بیاہ کرنے کا رواج ہو جائے گا۔ چنانچہ حبشی عورتیں انگریزوں اور فرانسیسیوں کے ساتھ بیاہی جاتی ہیں اور انگریز عورتیں دوسری اقوام کے مردوں سے شادی کر لیتی ہیں پہلے اس قسم کی شادیاں لوگ بہت رک رک کر کرتے تھے مگر اب زور دے کر انٹر میرج بلز پاس کرائے جاتے ہیں۔ (تفسیر کبیر جلد ۱۱ صفحہ۳۱۲۔ ایڈیشن۲۰۲۳ء) ایک یہ بھی معنے ہیں کہ مختلف قسم کے نفوس مل جائیں گے اور وہ اپنی اپنی الگ سوسائٹیاں بنائیں گے۔ چند ہم خیال لوگ اکٹھے ہو جاتے ہیں اور پھر وہ اپنی اپنی پارٹیاں بنا لیتے ہیں۔ مزدور اپنے حق کے لیے لڑتا ہے۔ صناع اپنے حقوق کے لیے جدو جہد کرتا ہے اور مدرس اور تاجر اپنے اپنے رنگ میں کوشش کرتا ہے۔ غرض قومی سوسائٹیاں اور سیاسی پارٹیاں بڑی کثرت سے بن گئی ہیں اور ہر ایک کوشش کرتی ہے کہ اس کے ہم پیشہ اور ہم خیال افراد کے حقوق پامال نہ ہوں۔ حضرت عمرؓنے ایک دفعہ خطبہ میں پڑھا وَإِذَا النُفُوْسُ زوِّجَتْ پھر آپ نے فرمایا تَزَوَّجُهَا أَن تُؤَلِّفَ كُلُّ شِيْعَةٍ إِلىٰ شِيْعَتِهِمْ (ابن کثیر جلد ۸ صفحہ ۳۳۲ ) یعنی اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ ایک ایک خیال یا پیشہ کے لوگ آپس میں سوسائٹیاں بنالیں گے۔ (تفسیر کبیر جلد ۱۱ صفحہ۳۱۲۔ ایڈیشن۲۰۲۳ء) زندہ درگور کی جانے والی پوچھی جائے گی سورۃ التکویر کی آیت نمبر۹ و ۱۰ ہیں:وَاِذَا الۡمَوۡءٗدَۃُ سُئِلَتۡ۔بِاَیِّ ذَنۡۢبٍ قُتِلَتۡ۔(اور جب زندہ درگور کی جانے والی پوچھی جائے گی کہ آخر کس گناہ کی پاداش میں قتل کی گئی ہے) ۱۔ اس میں یہ پیشگوئی ہے کہ ایک وقت آئے گا کہ جب لڑکیوں کو زندہ درگور کرنے کی قانوناً ممانعت کردی جائے گی۔اور مجرم کو سزا دی جائے گی۔چنانچہ ۱۸۷۲ء میں انگریزی حکومت نے ایسا قانون جاری کردیا۔(تفسیر کبیر سورۃ التکویر) اس کی تفصیل یہ ہے کہ ہندوستان میں انگریزوں کی حکومت سے قبل بیٹیوں کو مار دینے کا رواج عام تھا ۔چنانچہ کئی برطانوی سرکاری نمائندوں نے اپنی رپورٹوں میں حکومت کو اس سے مطلع کیا۔ ایک نے لکھا کہ پیدا ہونے والی بچیوں میں سے ایک تہائی کو مار دیا جاتا ہےہندوؤں کی بعض ذاتوں اور برادریوں میں یہ عمل عمومی تھا کیونکہ بیٹیوں کی پیدائش کو ذلت آمیز سمجھا جاتا تھا نوزائیدہ بچیوں کا گلا گھونٹنا اور زندہ دفن کرنا عام رواج تھا۔بیمار بچیوں کا علاج بھی نہیں کراتے تھے۔جس کی وجہ سے ۱۸۶۵ء میں پہلی مردم شماری کے لیے جمع کردہ اعداد و شمار میں ۱۰۰۰؍لڑکوں کے مقابل پر ۶۹۰؍لڑکیاں تھیں برطانوی مؤرخ اور منتظم جیمز کیئرڈ کے توجہ دلانے پر پریس اور پارلیمنٹ میں شدید رد عمل ہوا اور ۱۸۷۰ء اور ۱۸۸۳ء میں ایسے قانون پاس کیے گئےجن کے تحت بچیوں کو قتل کرنا جرم قرار پایا اور دس سال کے عرصہ میں ۳۳۳؍مقدمات چلائے گئے جن میں ۱۶؍افراد کو موت،۱۳۳؍کو عمر قید کی سزا دی گئی۔انڈیا میں ایسے جرم کی کثرت اور پھر اس کے استیصال کا قانون بننا بھی مسیح موعودؑ کے زمانہ کی علامت اس کی سچائی کا ثبوت ہے۔ ۲۔اس میں قانون کی حکمرانی اور جمہوری نظام کی خبر ہے اور یہ بھی ہے کہ مرد حقوق نسواں کو تخفیف کی نظر سے نہیں دیکھ سکیں گے اور عورتوں کو بے مثال آزادی حاصل ہوگی۔(ترجمہ قرآن حضرت خلیفہ اولؓ )اس ضمن میں خواتین کے عالمی دن کا ذکر بھی ضروری ہے جو ہر سال ۸؍مارچ کو دنیا بھر میں منایا جاتا ہے اس کا مقصد خواتین کے حقوق کو تسلیم کروانے اور صنفی مساوات کو فروغ دینے کی کوشش ہے۔ اس تحریک کا آغاز۱۹۰۸ء میں ہوا جب نیویارک میں کام کرنے والی خواتین نے بہتر کام کے حالات، کم اوقاتِ کار اور ووٹ کے حق کے لیے ایک بڑی ہڑتال کی۔ اس کے بعد ۱۹۰۹ء میں امریکہ کی سوشلسٹ پارٹی نے پہلا ’’قومی یومِ نسواں‘‘ منایا۔ ۱۹۱۰ء میں ڈنمارک کے شہر کوپن ہیگن میں ’’انٹرنیشنل کانفرنس آف ورکنگ ویمن‘‘ منعقد ہوئی جہاں پر خواتین کے لیے ایک عالمی دن مخصوص کرنے کی تجویز دی گئی۔ ۱۹۱۱ء میں یہ دن پہلی بار آسٹریا، ڈنمارک، جرمنی اور سوئٹزرلینڈ میں منایا گیا، جہاں لاکھوں افراد نے خواتین کے حقوق کے لیے ریلیاں نکالیں۔ بالآخر ۱۹۷۷ء میں اقوامِ متحدہ نے اسے باضابطہ طور پر عالمی یومِ خواتین کے طور پر تسلیم کر لیا۔ ۳۔ ان آیات میں آئندہ زمانہ کی متمدن حکومتوں کا ذکر ہے جو اپنے بچوں پر بھی والدین کے اقتدار کا انکار کریں گی۔ اپنے وسیع تر معنوں میں یہ آیت اس شان سے پوری ہوئی ہے کہ قتل تو در کنار اگر یہ ثابت ہو جائے کہ ماں باپ اپنے بچوں پر کسی قسم کی زیادتی کرتے ہیں تو حکومتیں ان کے بچوں کو اپنی تحویل میں لے لیتی ہیں۔(ترجمہ قرآن۔حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ) ۴۔علم تشریح و تحقیق اسباب اموات پیدا ہو جائے۔(ترجمہ قرآن۔حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ )یعنی ایسے علوم ایجاد ہو جائیں گے جو موت کے اسباب کی تحقیق کریں گے اس کے نتیجہ میں انسان کی طبعی عمر بڑھ جائے گی۔ ۱۸۰۰ء میں انسان کی طبعی عمر تقریباً ۳۰ سے ۴۰ سال کے درمیان تھی، جو کہ بیماریوں، غذائی قلت، اور طبی سہولیات کی کمی کی وجہ سے محدود تھی۔ ۲۰۲۵ء میں طبی ترقی، بہتر غذائیت اور صحت کی دیکھ بھال کی سہولیات کی بدولت، انسان کی طبعی عمر بڑھ کر تقریباً ۷۰ سے ۸۰ سال تک پہنچ چکی ہے۔ صحیفے پھیلائے جائیں گے سورۃ التکویر کی آیت نمبر۱۱ہے:وَإِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتْ اس کے تین معنی ہیں ۱۔ صحیفے پھیلائے جائیں گے۔کتابوں اور اخبارات کی اشاعت کے لیے پریس ایجاد ہوئے پھر ان کتب وغیرہ کو تیز رفتار سواریوں کے ذریعہ دنیا بھر میں پھیلانے کا اہتمام کیا گیا۔ ۲۔ صحیفے کھولے جائیں گے۔یہ پیشگوئی پہلے لائبریریوں اور پھر ریڈیو ٹیلیویژن کے ذریعہ پوری ہوئی۔۳۔ مردہ صحیفے زندہ کیے جائیں گے۔یہ پیشگوئی علم آثار قدیمہ کی ترقی سے پوری ہوئی۔بخت نصر کی اینٹوں پر لکھی گئی لائبریری نکال لی گئی، پرانی زبانوں کو پڑھ لیا گیا (تفسیر کبیر۔سورۃ التکویر ) ۱۹۰۰ء میں تاؤ مذہب کے پیروکار ایک راہب کو ترکستان میں تان ہانگ (Tanhaung) کے مقام پر ایک غار سے ایک کتاب ملی جس کا نام The Dimond Sutraتھا۔ یہ کتاب گوتم بدھ کی تصاویر اور ان کی تعلیمات پر مشتمل تھی اور ٹھپےکی مدد سے طبع ہوئی تھی۔یہ کتاب ۷ اوراق پر مشتمل ہے جو آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔ ہر ورق کی لمبائی ڈھائی فٹ اور چوڑائی ایک فٹ ہے۔ جب ان سات اوراق کو مکمل طور پر کھولا جاتا ہے تو ۱۶ فٹ لمبا اسکرول بن جاتا ہے۔ کتاب کے آخر میں تحریر ہے ’’یہ کتاب ۱۱؍مئی ۸۶۸ء کو وانگ چیہہ (Wang Chieh)نے مفت تقسیم کرنے کے لیے چھاپی تاکہ اس کے والدین کی یاد کو دوام حاصل ہو۔‘‘ اس کتاب کے ایک ورق پر عبارت اور چھ اوراق پر گوتم بدھ کی تصویریں چھپی ہوئی تھیں جن میں گوتم بدھ کو ان کے مرد اورخواتین پیروکاروں کے درمیان بیٹھا ہوا دکھایا گیا تھا۔ تصویر میں دو بلیاں(Cats) بھی دکھائی گئی تھیں۔ پریس کا آغاز: یورپ میں ٹائپ کی چھپائی کا باقاعدہ آغاز تو پندرھویں صدی میں جان گوٹن برگ نے کیا تھا۔ ٫۱۴۳۹۔ جرمنی کے شہر گوٹن برگ میں پہلا پریس قائم ہوا۔۱۸۰۰ء میں پریس میں انقلابی تبدیلی آئی۔ ٫۱۸۷۱۔رچرڈ مارچ نے جدید طرز پر پریس قائم کیا۔ ٫۱۸۲۰ میں پریس کا وسیع استعمال ہوا اور لیتھو پریس بنایا گیا۔ ۲۷؍مارچ ۱۸۲۲ء کو کلکتہ سے نہری ہرونت نے ہفت روزہ اخبار ’’جام جہاں نما‘‘جاری کیا۔ہندوستان میں اسے اردوصحافت کی تاریخ میں پہلا پرنٹڈاخبار ہونے کا امتیاز حاصل ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ کے مطالعہ میں رہنے والا اخبار عام جنوری ۱۸۷۱ء کو لاہور سے جاری ہوا۔ پنڈت گوپی ناتھ پہلے ایڈیٹر تھے۔ پنجاب کی اردو صحافت میں جدید دور کا آغاز اسی اخبار سے ہوا۔ اسی طرح پیسہ اخبار فیروزوالا سے جنوری ۱۸۸۷ء کو منشی محبوب عالم نے جاری کیا۔ اور اب سوشل میڈیا نے تمام خفیہ ترین معلومات کو طشت از بام کر کے رکھ دیا ہے۔ ایک معنی یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ مذہبی صحائف جو صدیوں سے محض اپنی مقامی زبانوں میں تھے اور صرف چند لوگوں کی دسترس میں تھے وہ شائع ہو جائیں گے اور طشت از بام ہو جائیں گے چنانچہ یہ حیرت انگیز بات ہے کہ ایک انگریز مستشرق اور محقق Max Müller(میکس ملر) (۱۸۲۳ءتا ۱۹۰۰ء) نے مذاہب عالم کی مقدس کتابوں کا انگریزی ترجمہ۵۰؍جلدوں میں شائع کیا۔یہ درج ذیل ۷مذاہب ہیں۔ ہندو مت، بدھ مت،کنفیوشس ازم، زرتشت ازم، تاؤ مت، جین مت اور اسلام۔ اس مجموعہ کی پہلی جلد ۱۸۸۷ء میں مسیح موعودؑ کی زندگی میں شائع ہوئی اور آخری جلد ۱۹۱۰ء میں۔اس کا نام Sacred Books Of the East ہے۔ (تفصیل الفضل انٹر نیشنل ۹؍اپریل ۲۰۲۴ء) حضرت خلیفہ اولؓ کا یہ ترجمہ بھی ہے یعنی آسمانی اسرار کھل جائیں الہام جلدی ہوں۔(ترجمہ قرآن )(باقی آئندہ) مزید پڑھیں: سورۃ التکویر کی واقعاتی تفسیر۔قرآن کریم کا معجزہ(قسط اوّل)