اعمالِ صالحہ اور عبادت میں ذوق شوق اپنی طرف سے نہیں ہو سکتا۔یہ خدا کے فضل اور توفیق پر ملتا ہے۔اس کے لیے ضروری ہے کہ انسان گھبرائے نہیں اور خدا تعالیٰ سے اس توفیق اور فضل کے واسطے دعائیں کرتا رہے۔اور ان دعاؤں میں تھک نہ جاوے۔جب انسان اس طرح پر مستقل مزاج ہو کر لگا رہتا ہے تو آخر خدا تعالیٰ اپنے فضل سے وہ بات پیدا کر دیتا ہے جس کے لیے اس کے دل میں تڑپ اور بے قراری ہوتی ہے۔یعنی عبادت کےلیے ایک ذوق و شوق اور حلاوت پیدا ہونے لگتی ہے۔لیکن اگر کوئی شخص مجاہدہ اور سعی نہ کرے۔اور یہ سمجھے کہ پھونک مار کر کوئی کر دے یہ اللہ تعالیٰ کا قاعدہ اور سنت نہیں۔اس طریق پر جو شخص اللہ تعالیٰ کو آزماتا ہے وہ خدا سے ہنسی کرتا ہے اور مارا جاتا ہے۔خوب یاد رکھو کہ دل اللہ تعالیٰ ہی کے ہاتھ میں ہے۔اس کا فضل نہ ہو تو دوسرے دن جا کر عیسائی ہو جاوے یا کسی اور بے دینی میں مبتلا ہو جاوے۔اس لیے ہر وقت اس کے فضل کے لیے دعا کرتے رہو اور اس کی استعانت چاہو تاکہ صراط مستقیم پر تمہیں قائم رکھے۔جو شخص خدا تعالیٰ سے بےنیاز ہوتا ہے وہ شیطان ہوجاتا ہے۔اس کے لیے ضروری ہے کہ انسان استغفار کرتا رہے تاکہ وہ زہر اور جوش پیدا نہ ہو جو انسان کو ہلاک کر دیتا ہے۔ (ملفوظات جلد۸ صفحہ ۵ و ۶، ایڈیشن ۲۰۲۲ء) اگرمیرے بندے میر ی نسبت سوال کریں کہ وہ کہاں ہے؟ تو ان کو کہہ کہ وہ تم سے بہت ہی قریب ہے۔ مَیں دعا کرنے والے کی دعا سنتاہوں۔ پس چاہئے کہ وہ دعاؤں سے میرا وصل ڈھونڈیں اور مجھ ہی پر ایمان لاویں تا کامیاب ہوویں۔ (اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحہ۳۹۶) مزید پڑھیں: سچ میں ایک جرأت اور دلیری ہوتی ہے