https://youtu.be/7aipMddY8PE سورۃ التکویر کا مطالعہ بہت ایمان افروز ہے اور عالم الغیب خدا پراور اس کے مامور پر سچا یقین عطا کرتا ہے۔ یہ ہرگز اتفاق نہیں کہ اکثر پیشگوئیاں مسیح موعود ؑکی زندگی (۱۸۳۵ء۔۱۹۰۸ء)سےتعلق رکھتی ہیں یا تھوڑا عرصہ پہلے ان کا آغاز ہو چکا تھا اور وہ مسلسل اپنے عروج کی طرف رواں دواں ہیں قرآن کریم میں کثرت کے ساتھ پیشگوئیاں بیان کی گئی ہیں جو رسول اللہﷺ کے زمانے سے لے کر قیامت تک پھیلی ہوئی ہیں اور جب کوئی پیشگوئی پوری ہوتی ہے تو وہ منہ سے بولتی ہے اور فطرت صحیحہ گواہی دیتی ہے۔گذشتہ مفسرین جن امور کا قیامت کبریٰ پر اطلاق کرتے رہے ا نہوں نے مختلف زمانوں میں پورا ہو کر اپنی گواہی حاصل کر لی۔انہی عظیم پیشگوئیوں کے ایک سلسلہ کا تعلق سورۃ التکویر سے بھی ہے جو مکی سورۃ ہے۔ ترتیب میں اس کا نمبر ۸۱؍ ہے اس کی ۳۰؍آیات ہیں اور ۳۰ ویں پارہ کی زینت ہے۔حضرت مسیح موعودؑ نے خاص طور پر اس سورۃ کو اپنی صداقت کے طور پر پیش فرمایا ہے۔ بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ ان آیات میں جن علامات کا ذکر ہے وہ صرف قیامت کو ہی ظاہر ہوں گی، لیکن یہ بات درست نہیں ہے۔خلاصۃً اس کے دلائل درج ذیل ہیں ۱۔ الہامی پیشگوئیاں ہمیشہ استعاروں اور تمثیلات کی شکل میں ہوتی ہیں اور واقعات سے ہی انہیں پہچانا جا تا ہے ۲۔اس سورۃ کے آخر پر خدا نے خود یہ ذکر فرمایا ہے کہ وَمَا صَاحِبُكُمْ بِمَجْنُونٍ۔ وَلَقَدۡ رَاٰہُ بِالۡاُفُقِ الۡمُبِیۡنِ۔ وَمَا هُوَ عَلَى الْغَيْبِ بِضَنِينٍ (التکویر ۲۳تا۲۵) اور تمہارا ساتھی مجنون نہیں۔اور وہ ضرور اسے روشن اُفق پر دیکھ چکا ہے۔اور وہ غیب کے بیان پر بخیل نہیں۔پس آیات کے تسلسل میں اس کا اسی دنیا میں وقوع ممکن ہے ۳۔بعض پیشگوئیوں کی تفصیل رسول کریم ﷺ کی احادیث میں آخری زمانہ اور مسیح موعودؑ کے حوالے سے ملتی ہے مثلاًکسوف و خسوف اور اونٹنیوں کا بیکار چھوڑ دیا جا نا۔(اس کی تفصیل آگے درج ہے)پس بعض امور کا اس دنیا پر اطلاق باقی امور کے لیے بھی راہنمائی ہے۔ ۴۔ عقل عامہ بھی یہی تقاضا کرتی ہے۔مثلاً اگر قیامت کے دن سورج اور ستارے تاریک و برباد ہو جا ئیں گےتو اس کے بعد پہاڑوں کا چلایا جانا اور گابھن اونٹنیوں کو چھوڑ دینا اور جانوروں کا اکٹھا کرنا کیا معنی رکھتا ہے؟ ۵۔بعض بزرگ صحابہ جیسے حضرت ابن عباسؓ،اُبی بن کعبؓ،اور پرانے مفسرین جیسے ابو العالیہ وغیرہ نے ان آیات کو قیامت کے قریب اسی دنیا میں واقع ہونا بتلایا ہے اور ان علامات کو اشراط الساعۃ یعنی قیامت کی نشانیاں قرار دیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ سورۃ التکویر میں ۱۲ باتوں کا ذکر ہے جن میں سے چھ اس دنیا سے تعلق رکھتی ہیں اور چھ آخرت کے ساتھ۔(تفسير لباب التأويل في معاني التنزيل۔ الخازن۔المتوفّی ۷۲۵ھ) (تفسير الجامع لاحكام القرآن۔ القرطبي۔المتوفّی ھ۶۷۱) (تفسير الدر المنثور في التفسير بالمأثور۔ السيوطي۔ المتوفّی ۹۱۱ھ) ۶۔جو پیشگوئی اس دنیا میں ظاہر ہو کر اپنی چمک دکھلا دے اس کو زبردستی آخرت پر اطلاق کرنا غیر معقو ل ہے ہاں اگر وہ خالق و مالک اگلی دنیا میں کسی اور طرح ظاہر کرنا چاہے تو اس کی مرضی ہے۔ ان پہلوؤں سے سورۃ التکویر کا مطالعہ بہت ایمان افروز ہے اور عالم الغیب خدا پراور اس کے مامور پر سچا یقین عطا کرتا ہے۔ہر آیت کے کئی کئی معانی ہیں ان کے اثبات کے لیے اول قرآن اور پھر احادیث رسولﷺ،حضرت مسیح موعودؑ اور ان کے خلفاءکی تفاسیر کو بنیاد بنایا گیا ہے اور پھر تاریخ و سائنس کی روشنی میں اسے ثابت کیا گیا ہے اور غیروں کی گواہی بھی درج کی گئی ہے ۔ یہ ہرگز اتفاق نہیں کہ اکثر پیشگوئیاں مسیح موعود ؑکی زندگی (۱۸۳۵ء۔۱۹۰۸ء)سےتعلق رکھتی ہیں یا تھوڑا عرصہ پہلے ان کا آغاز ہو چکا تھا اور وہ مسلسل اپنے عروج کی طرف رواں دواں ہیں۔سب تاریخی اور سائنسی حوالے انٹر نیٹ پر مہیا ہیں۔آیئے باری باری سب علامتوں پر نظر ڈالیں۔ سورج لپیٹ دیا جائے گا بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ِ کے بعد التکویر کی آیت نمبر ۲ ہے: إِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ۔ ( جب سورج لپیٹ دیا جا ئے گا ) ۱۔ حضرت مسیح موعودؑ نے ترجمہ کیا ہے سخت قسم کا سورج گرہن جس سے تاریکی پھیل جائے (تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد ۷ صفحہ ۲۴۸) عربی اور قرآن کا قاعدہ ہے کہ جب دو چیزیں لازم و ملزوم ہوں تو صرف ایک کا ذکر کیا جاتا ہے۔دوسری جگہ سورۃ القیامہ میں چاند اور سورج دونوں کا ذکر ہے اس لیے یہاں ایک کا ذکر ہی کافی ہے (تفسیر کبیر جلد۸ صفحہ ۱۹۹) سورۃ القیامہ کی آیات ۷ تا ۱۰ مزید وضاحت کرتی ہیں: یَسۡـَٔلُ اَیَّانَ یَوۡمُ الۡقِیٰمَۃِ۔ فَاِذَا بَرِقَ الۡبَصَرُ۔ وَخَسَفَ الۡقَمَرُ۔ وَجُمِعَ الشَّمۡسُ وَالۡقَمَرُ۔( انسان پوچھتا ہے قیامت کا دن کب ہوگا؟جب نظر برق رفتار ہو جائے گی۔اور چاند گرہن ہو گا۔اور سورج اور چاند اکٹھے کئے جائیں گے) عام طور پر قیامت سے مراد اُخروی قیامت لی جاتی ہے مگر جب یہ کائنات تمام ستاروں اور سیاروں سمیت فنا ہو جائے گی تو سورج اورچاند کے گرہن کا کیا مطلب ہے؟ دراصل قرآنی اور روحانی اسلوب کے مطابق قیامت اور ساعت سے مراد عظیم روحانی یا سیاسی انقلابات ہوتے ہیں اس لحاظ سے اور دوسری پیشگوئیوں کے حوالے سے یہاں قیامت سے مراد مسیح موعودؑ کا زمانہ ہے اور بَرِقَ الْبَصَرُ سے مراد یہ ہے کہ انسان کی ظاہری آنکھ بہت ترقی کرے گی اور دُور تک دیکھنے لگے گی۔ سائنسی ترقی کی وجہ سے انسان کی نظر تیز ہو جائے گی گویا برق رفتار ہوجائے گی یہ وہی محاورہ ہے جسے سائنسی زبان میں روشنی کی رفتار یا light speed کہتے ہیں دیگر سائنسی ترقیات کے ساتھ ساتھ انسان نے دُور بین کو بھی نئی بلندیوں تک پہنچا دیا اور نئی نئی کہکشاؤں کو دریافت کیا۔(اس کی مزید تفصیل آیت نمبر ۱۲ کے تحت آئے گی )یہ دنیا کی وہی آنکھ ہے جس کے متعلق رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ دجال کی بائیں آنکھ بہت روشن ہو گی۔(کنزالعمال جلد ۱۴ صفحہ۱۳۷ خروج الدجال حدیث ۳۸۷۸۴) اس کسوف کی تفصیل دار قطنی کی حدیث میں ہے: إِنَّ لَمَهْدِيِّنَا آيَتَيْنِ لَمْ تَكُونَا مُنْذُ خَلَقَ اللّٰهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ، يَنْخَسِفُ الْقَمَرُ لَأَوَّلِ لَيْلَةٍ مِنْ رَمَضَان،َ وَتَنْكَسِفُ الشَّمْسُ فِي النِّصْفِ مِنْهُ، وَلَمْ تَكُونَا مُنْذُ خَلَقَ اللّٰهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ۔ (سنن دار قطنی کتا ب العیدین باب صفة صلوٰة الخسوف حدیث نمبر ۱۷۹۵)یعنی ہمارے مہدی کے لیے دو نشان ہیں اور جب سے کہ زمین وآسمان پیدا کیے گئے کبھی ظہور میں نہیں آئے یعنی یہ کہ قمر کو ماہ رمضان میں پہلی تاریخ کو اور سورج کو درمیان والے دن گرہن ہو گا۔ اور جب سے اللہ نے آسمانوں اور زمین کو پیداکیا یہ دو نشان کبھی ظاہر نہیں ہوئے یہ پیشگوئی تین ہزار سال پرانی ہے صحف سابقہ میں بھی ملتی ہے اسلامی کتب کے علاوہ عہد نامہ قدیم اور عہد نامہ جدید میں بھی یہ پیش گوئی موجود ہے اس کے علاوہ ہندو اور سکھ مت کی کتب میں بھی یہ پیشگوئیاں موجود ہیں۔ حضرت مسیح موعود و مہدی موعود مرزا غلام احمد قادیانیؑ نے ۱۸۸۲ء میں ماموریت کا دعویٰ فرمایا اور ۱۸۸۹ء (۱۳۰۶ھ) میں جماعت کی بنیاد رکھی اس کے پانچ سال بعد یہ نشان ظاہر ہوا اس کی تفصیل یہ ہے۔ ۱۔ ۲۱؍مارچ ۱۸۹۴ء بمطابق ۱۳؍رمضان ۱۳۱۱ھ چاند گرہن ہوا۔ ۲۔اور ۶؍اپریل ۱۸۹۴ء بمطابق ۲۸؍رمضان ۱۳۱۱ھ سورج گرہن واقع ہوا۔ ۳۔یہ نشان اس طرح بھی پوری ہوا کہ چاند کو رات کے اول حصہ میں گرہن لگا اور سورج کو دن چڑھے۔ ۴۔ قادیان جغرافیائی طور پر اس خطہ میں تھا جہاں سے یہ گرہن مکمل اور صاف نظر آ سکتا تھا۔ مدعی مہدویت حضرت مرزا غلام احمد قادیانیؑ اس جگہ موجود تھے انہوں نے خود یہ نشان دیکھا اور ایک جماعت کے ساتھ نماز کسوف پڑھی۔ ۵۔ ٫۱۸۹۴ کا گرہن ۳۵؍سے زائد ممالک میں دیکھا گیا اور اخبارات و رسائل میں کثرت سے ذکر ہوا۔۸؍لاکھ افراد نے تھانیسر (بھارت ) میں اکٹھے ہو کر دیکھاتھا۔انٹرنیٹ پر اس نادر گرہن کی ساری تفاصیل موجود ہیں۔ ۸۔اس علم کے ماہرین کہتے ہیں کہ گرہنوں کی چار قسمیں ہوتی ہیں۔اور یہ گرہن سب سے نایاب قسم کے تھے۔(الفضل انٹر نیشنل ۳؍جولائی ۲۰۲۰ء) ۹۔اگلے سال ٫۱۸۹۵ میں مغربی کرہ میں یہ دونوں گرہن پھر واقع ہوئے چاند گرہن ۱۱؍مارچ۱۸۹۵ء اور سورج گرہن ۲۶؍مار چ ۱۸۹۵ء کو۹؍ممالک میں دیکھا گیا۔اور یہ قادیان میں رمضان کی ۱۳ اور ۲۸ تاریخیں تھیں ۔(مزید تفصیل کے لئے الفضل انٹر نیشنل ۲۰؍اپریل ۲۰۲۳) ۲۔ حضرت مصلح موعودؓ نے یہ ترجمہ کیا ہے۔رسو ل کریمؐ روحانی دنیا کے سورج ہیں اس لیے مراد یہ ہے کہ اتباع رسول کو ترک کر دیا جائے گا۔ ایک مستشرق لاتھورپ سٹوڈرڈ(Lothrop Stoddard)۔(۱۸۸۳ء۔۱۹۵۰ء) ۱۸ویں صدی عیسوی میں دنیائے اسلام کا نقشہ کھینچتے ہوئے لکھتا ہے کہ قرآن مجید کی تعلیم نہ صرف پس پشت ڈال دی گئی تھی بلکہ اس کی خلاف ورزی بھی کی جاتی تھی یہاں تک کہ مقامات مقدسہ بد اعمالیوں کے مرکز بن گئے تھے فی الجملہ اسلام کی جان نکل چکی تھی۔…اگر حضرت محمد ﷺ پھر دنیا میں آتے تو وہ اپنے پیروؤں کے ارتداد اور بت پرستی سے بیزاری کا اظہار فرماتے۔ (The New World of Islam Page 25-26 .New York Charlas Scribne’r Sons 1921) ۳۔انوار محمدیہؐ کا نزول بند ہو جائے گا۔ نواب نور الحسن خان نے ۱۳۰۱ھ میں لکھا اب اسلام کا صرف نام اور قرآن کا فقط نقش باقی رہ گیا ہے۔ مسجدیں ظاہر میں تو آباد ہیں لیکن ہدایت سے بالکل ویران ہیں علماء اس امت کے بد تر ان کے ہیں (اقتراب الساعہ صفحہ۱۲) یاد رہے کہ مسیح موعود کا دعویٰ ۱۳۰۰ھ ( ۱۸۸۲ء) کا ہے۔ایک اور عالم نے لکھا کہ سچی بات تو یہ ہے کہ ہم میں سے قرآن مجید بالکل اٹھ چکا ہے فرضی طور پر ہم قرآن مجید پر ایمان رکھتے ہیں مگر واللہ دل سے معمولی اور بہت معمولی اور بیکار کتاب جانتے ہیں۔ (اہل حدیث امرتسر ۱۴؍جون ۱۹۱۲ء) ۴۔جس وقت سورج لپیٹاجاویگا یعنی سخت ظلمت جہالت اور معصیت کی دنیا پر طاری ہو جائے گی(شہادۃ القرآن۔روحانی خزائن جلد ۶ صفحہ ۳۱۹ ) ابو الکلام آزاد لکھتے ہیںکہ آج دنیا پھر تاریک ہے اور روشنی کے لیے تشنہ ہے…شیطان اس وقت سے موجود ہے جس وقت سے کہ انسان ہے تاہم معصیت کی حکومت اتنی جابر و قاہر کبھی بھی نہ ہوئی تھی اور شیطان کا تخت اس عظمت اور دبدبہ سے کبھی بھی زمین کی سطح پر نہ بچھایا گیا تھا جیسا کہ اب قائم و مسلط ہے۔ (الہلال جلد ۴ صفحہ ۱۰۳)مولوی ظفر علی خان نے رسول اللہ ﷺ کی طرف سے امت محمدیہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تم کہلاتے تو میری امت ہو۔ مگر کام یہودیوں او ربت پرستوں کے کرتے ہو۔ تمہار ا شیوہ وہی ہورہا ہے جو عاد و ثمود کا تھاکہ رب العالمین کو چھوڑ کر بعل یغوث نسر اور یعوق کی پرستش کر رہے ہو۔ تم میں سے اکثر ایسے ہیں جو میری توہین کرتے ہیں۔ میرا مرتبہ خدا سے بڑھا دیتے ہیں۔ (اخبار زمیندار ۱۸ ستمبر ۱۹۲۵ء بحوالہ الفضل یکم اکتوبر ۱۹۲۵ء) ۵۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے سورج کو لپیٹنے سے عالم اسلام کا زوال مراد لیا ہے گو اہل اسلام کا روحانی اور اخلاقی زوال ایک عرصے سے جاری تھا لیکن حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے نزدیک ۱۴۹۲ء کا سال انسانی تاریخ میں اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے جب اسلام کا مادی زوال بھی اپنی انتہا کو پہنچ گیا۔ یہ وہ سال تھا جس میں سپین کے مسلمانوں کے سیاسی غلبہ کا سورج غروب ہوگیا اور ایسی تاریکی چھوڑ گیا جس نے اسلام کی روشنی کو اگلی دو صدیوں میں بالکل ختم کر کے اسے اندھیروں میں دھکیل دیا حضور ؒ فرماتے ہیں: ’’۱۴۹۲ءکے سال نے بیک وقت دو دروازے کھولے ایک دروازہ سے دنیا میں عیسائیت کا مستقبل بڑی شان و شوکت سے داخل ہوا اور دوسرے دروازہ سے اسلام کا تابناک ماضی سرنگوں ہو کر رخصت ہوا۔‘‘(الہام، عقل، علم اور سچائی حضرت مرزا طاہر احمد خلیفۃ المسیح الرابعؒ صفحہ ۵۱۸، ۵۱۹)حضورؒنے اپنی اس کتاب میں غیر مسلم مورخین کے کئی ایسے حوالے پیش کیے ہیں جو اس بات کی تائید کرتے ہیں۔(الہام، عقل، علم اور سچائی حضرت مرزا طاہر احمد خلیفۃ المسیح الرابعؒ صفحہ ۵۱۵ تا۵۱۸) ستارے ماند پڑ جائیں گے سورۃ التکویر کی آیت نمبر ۳ ہے:وَإِذَا النُّجُومُ انْكَدَرَتْ۔(اور جب ستارے ماند پڑ جائیں گے )۔تارے گدلے ہو جاویں گے یعنی علماء کا نور اخلاص جاتا رہے گا۔ (شہادۃالقرآن۔روحانی خزائن جلد ۶ صفحہ ۳۱۹ ) یہی مضمون سورۃ انفطار کی آیت نمبر ۳ میں ہے: وَإِذَا الْكَوَاكِبُ انْتَثَرَتْ۔(اور جس وقت تارے جھڑ جائیں گے) یعنی ربانی علماء فوت ہو جائیں گے (شہادۃ القرآن۔روحانی خزائن جلد ۶ صفحہ ۳۱۹ ) یہی مضمون سورۃ المرسلات کی آیت نمبر۹ میں ہے۔فَإِذَا النُّجُومُ طُمِسَتْ۔(جب ستارے بے نور ہوجائیں گے۔) حضرت مصلح موعودؓ نے مندرجہ ذیل معانی کیے ہیں۔ ۱۔ رسول اللہﷺ عالم روحانی کےسورج ہیں تو آپؐ کے صحابہؓ ستارے ہیں مراد یہ ہے کہ صحابہ ؓکی اتباع بھی جاتی رہے گی۔(تفسیر کبیر سورۃ التکویر ) چنانچہ مشہور صوفی خواجہ محمد سلیمان تونسوی لکھتے ہیں اگر بالفرض اس زمانے میں اصحاب نبی ﷺ موجود ہوتے تو اس زمانے کے لوگوں کو کافر کہتے اس لیے کہ اس زمانے کے لوگوں نے شریعت کی پیروی چھوڑ دی ہے (نافع السالکین صفحہ ۵۷) ۲۔نجم کے معنی اصل اور جڑ کے ہیں یعنی نسلی برتری کے اصول اور خاندانی تفاخر ختم ہو جائے گا۔(تفسیر کبیر سورۃ التکویر ) برطانیہ میں ۱۷۸۰ء میں ووٹنگ کا نظام متعارف کرایا گیا جب صرف تین فیصد آبادی کو ووٹ کا حق دیا گیا انقلاب فرانس کے بعد اس میں اصلاحات کی گئیں امریکہ میں ۱۷۸۹ء سے صدارتی انتخابات منعقد ہو رہے ہیں برطانیہ میں خواتین کو ووٹ کا حق ۱۹۱۸ء میں اور امریکہ میں ۱۹۲۰ء میں دیا گیا۔انڈیا میں انگریزوں نے مقامی آبادی کو محدود پیمانے پر نامزدگی کی بنیاد پر کونسلز میں نمائندگی دی مگر ووٹ کا حق ۱۹۰۹ء میں دیا گیا۔ ۳۔علماء اور امراء دونوں کا اثر جاتا رہےگا۔(تفسیر کبیر سورۃ التکویر ) جمہوریت اور قومی حکومتوں اور تعلیم کی کثرت کی وجہ سے لوگ اپنی مرضی سے کام کرتے ہیں ۴۔کثرت سے شہب کی بارش ہو گی۔(تفسیر کبیر سورۃ التکویر ) شہب ثاقب اور ستارے ٹوٹنے کے نشان کا اشارہ سورۃ الانفطار آیت۳ سے بھی ملتا ہے:وَإِذَا الْكَوَاكِبُ انْتَثَرَتْ (اور جب ستارے جھڑ جائیں گے )حضرت مسیح موعودؑنے اس کا ترجمہ کیا ہے ستاروں کا متواتر ٹوٹنا۔(تحفہ گولڑویہ۔روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۲۴۲) ۱۸۸۵ء میں حضرت مسیح موعود ؑنے اپنے دعویٰ ماموریت کا اعلان عام فرمایا کثرت سے اشتہارات اور خطوط کے ذریعہ عام دنیا کو بھی اور عالمی لیڈروں اور مذہبی رہنماؤں کو نشان نمائی کی دعوت دی اسی سال ٫۱۸۸۵ میں شہب ثاقبہ کا نشان ظاہر ہوا۔ حضرت مسیح ناصریؑ نے اپنی آمد ثانی کے متعلق ایک یہ بھی پیشگوئی کی تھی کہ ’’اس وقت آسمان سے ستارے گریں گے اور جو قوتیں آسمان میں ہیں وہ ہلائی جائیں گی۔(مرقس باب ۱۳ آیت ۲۵ ) چنانچہ۲۸؍نومبر ۱۸۸۵ء کی شب کو آسمان پر شہب ثاقبہ کا یہ غیر معمولی نظاره نمودار ہوا۔ اس وقت آسمان کی فضا میں ہر طرف اس درجہ بے شمار شعلے چل رہے تھے کہ گویا ان کی بارش ہو رہی تھی۔ یورپ، امریکہ اور ایشیا میں اس سے حیرت کی زبردست لہر دوڑ گئی اور اخباروں میں ان کی خبر نمایاں رنگ میں شائع ہوئی جیسا کہ حضرت مسیح نے اشارہ بتایا تھا۔ اس موقع پر حضرت مسیح موعودؑ پر بار بار وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَكِنَّ اللّٰهَ رَمَىکا الہام ہوا۔ فرماتے ہیں: ’’سلسلہ رمی شہب کا شام سے ہی شروع ہو گیا تھا۔ جس کو میں صرف الہامی بشارتوں کی وجہ سے بڑے سرور کے ساتھ دیکھتا رہا کیونکہ میرے دل میں الہاما ڈالا گیا تھا کہ یہ تیرے لئے نشان ظاہر ہوا ہے۔اس آسمانی نظارہ کے بعد یورپ کے لوگوں کو وہ ستارہ دکھائی دیا جو حضرت مسیح کے ظہور کے وقت میں نکلا تھا۔ اور میرے دل میں ڈالا گیا کہ یہ ستارہ بھی تیری صداقت کے لئے ایک دو سرا نشان ہے‘‘(آئینہ کمالات اسلام۔روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۱۱۱) اسی طرح شہاب ثاقب گرنے کا ایک اور اہم واقعہ ۱۹۰۷ء کا ہے ۳۱؍مارچ ۱۹۰۷ء کو ہندوستان میں آگ کا ایک بڑا شعلہ آسمان پر ظاہر ہوا اور ۷۰۰؍میل تک جابجا زمین پر گرتا ہوا دیکھا گیا اخبارات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک شہاب ثاقب تھا جس کے پیچھے ایک لمبی دوہری دھار ایسی تھی جیسا کہ دھواں ہوتا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کے متعلق اخبارات کی اور ہندوستان کے مختلف علاقوں سے انفرادی گواہیاں جو خطوط کی شکل میں حضور کو موصول ہوئی تھیں اپنی کتاب حقیقۃالوحی میں اکٹھی کر دی ہیں۔ (حقیقۃالوحی۔روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۵۱۷ تا۵۳۲) حضرت مسیح موعودؑ کی وفات ۱۹۰۸ء میں ہوئی حضرت مسیح موعودؑ کی وفات کے ایک ماہ بعد ہی دم دار ستارے، سے ہونے والا معلوم انسانی تاریخ کا سب سے بڑا impact event پیش آیا جسےTunguska event کہا جاتا ہے ۳۰؍جون ۱۹۰۸ء کو روس میں ایک دریا کے کنارے ایک زور دار دھماکہ سنا گیا جو دراصل دمدار ستارے کے پھٹنے سے ہوا تھا جو زمین سے ۵ سے۱۰ کلومیٹر بلندی پر پھٹ گیا مگر کئی سو کلومیٹر دور کھڑکیوں کے شیشے ٹوٹ گئے اس کی شدت ہیروشیما پر گرائے جانے والے بم سے ایک ہزار گنازیادہ تھی اور ۲۱۵۰ مربع کلومیٹر رقبہ سے درختوں کا صفایا ہوگیا یہ واقعہ اگر انسانی آبادی میں پیش آتا تو ایک بڑا شہر تباہ ہو سکتا تھا۔ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں: مفسروں نے لکھا ہے کہ آنحضرتﷺ کے وقت میں جب بہت ستارے ٹوٹے تھے تو اس سے کچھ عرصہ بعد آنحضرتﷺ نے نبوت کا دعویٰ کیا تھا۔ یہ جو ستارے وغیرہ ہوتے ہیں ان کا اثر زمین پر ضرور ہوتا ہے۔ میرے دعوے سے پہلے اس قدر ستارے ٹوٹے تھے کہ ایسی کثرت آگےکبھی نہیں ہوتی تھی۔ میں اس وقت دیکھ رہا تھا کہ ستاروں کی آپس میں ایک قسم کی لڑائی ہوتی تھی۔ کوئی سو دو سو ایک طرف تھے اور سو دو سو ایک طرف تھے۔ ہمارے لیے گویا وہ ایک پیش خیمہ تھے۔ اس طرف سے اُس طرف نکل جاتے تھے اور اُس طرف سے اِس طرف نکل جاتے تھے۔ میرے خیال میں تو کسوف و خسوف کا بھی خاص اثر زمین پر ہوتا ہے دمدار ستارے کا پیدا ہونا ایک خارق عادت امر ہے۔ آسمان پر اس کا ظاہر ہونا ظاہر کرتا ہے کہ زمین پر بھی ضرور کوئی خارق عادت امر ظاہر ہوگا۔ آئندہ زمین پر جو خارق عادت نشان ظاہر ہونے والے ہوتے ہیں ان کے لئے یہ پیش خیمہ ہوتے ہیں۔ اس طرف ہمیں الہام بھی ہو رہے ہیں کہ آئندہ خارق عادت نشان ظاہر ہونے والے ہیں۔ (ملفوظات جلد ۵ صفحہ ۲۶۰) جب پہاڑ چلائے جائیں گے سورۃ التکویر کی آیت نمبر۴ ہے وَإِذَا الْجِبَالُ سُيِّرَتْ (اور جب پہاڑ چلائے جائیں گے) ایک مطلب یہ ہے کہ ۱۔پہاڑوں کو ڈائنا مائٹ سے اڑا کر راستے بنائے جائیں گے اس میں بارود کی کثرت اور مشینری کی طرف بھی اشارہ ہے۔ (تفسیر کبیر جلد۱۱ صفحہ ۳۰۰)ڈائنا مائیٹ کاموجد الفریڈ نوبیل(۱۸۳۳ء۔۱۸۹۶ء)سویڈن کا کیمیا دان تھا۔ اسفالٹ سے بنی پہلی سڑک ۱۸۷۰ء میں نیویارک نیوجرسی (امریکہ )میں تعمیر کی گئی تھی۔ اس وقت اسفالٹ کو زیادہ تر فٹ پاتھ کے لیے استعمال کیا جاتا تھا، لیکن بعد میں اسے سڑکوں کے لیے بھی اپنایا گیا۔کنکریٹ سے پہلی سڑک ۱۸۹۱ء میں بیلے فونٹین اوہائیو(امریکہ ) میں تعمیر کی گئی تھی۔ پکی سڑکیں صرف راستے نہیں بلکہ ترقی اور خوشحالی کی علامت ہیں۔ ان سڑکوں کی بدولت اشیاء اور خدمات کی ترسیل تیز ہو گئی، جس سے تجارت کو فائدہ ہوا۔ دیہی علاقوں کے کسان اور صنعت کار اپنی مصنوعات کو شہروں کی منڈیوں تک آسانی سے پہنچا سکتے ہیں۔ بہتر سڑکوں کی وجہ سے سرمایہ کاروں کو نئے کاروبار شروع کرنے میں سہولت ملتی ہے، جس سے معیشت کو فروغ ملتا ہے۔ سڑکوں نے شہروں اور دیہات کو جوڑ کر لوگوں کے درمیان میل جول کو بڑھایا۔ اسکولوں اور اسپتالوں تک رسائی آسان ہوئی، جس سے معیار زندگی بہتر ہوا۔دیہی ترقی دیہی علاقوں میں سڑکوں کی تعمیر سے وہاں کے لوگوں کو روزگار کے مواقع ملے ۲۔جبل کے معنی قوم کے سردار اور عالم کے بھی ہوتے ہیں مطلب یہ ہے کہ علما اور بزرگان کو ملکوں سے نکال دیا جائے گااور ان کا زرو ٹوٹ جائے گا جیسا کہ اس زمانہ میں کئی ملکوں مثلاََ روس نے مذہب پر پابندی عائد کر دی۔جرمنی اور اٹلی نے مذہبی لوگوں کو نکال دیا(تفسیر کبیر جلد۸ صفحہ ۲۰۳) چین میں بھی پابندیاں ہیں۔ یورپ میں مذہب کو ریاست سے جدا کر دیا گیا۔ اس ضمن میں پوپ کی حکومتی اختیارات سے بےدخلی تازہ تاریخ کا نہایت اہم واقعہ ہے۔ماضی میں پاپائے روم کی طاقت قرون وسطی میں بہت زیادہ تھی جب کیتھولک چرچ یورپ میں ایک غالب سیاسی اور سماجی ادارہ تھا۔ پوپ بادشاہوں اور شہنشاہوں کے فیصلوں پر اثر انداز ہوتا تھا، جنگوں میں کردار ادا کرتا تھا اور کبھی کبھار بادشاہوں کی معزولی کے احکامات بھی جاری کرتا تھا۔ پروٹسٹنٹ تحریک ۱۵۱۷ء میں مارٹن لوتھر کے ۹۵؍نکات کی اشاعت سے شروع ہوئی۔ اس تحریک نے کیتھولک چرچ کی طاقت کو چیلنج کیا اور یورپ میں پروٹسٹنٹ چرچ کے قیام کا باعث بنی۔انگلینڈ میں ہنری ہشتم نے ۱۵۳۴ء میں چرچ آف انگلینڈ کو کیتھولک چرچ سے علیحدہ کر دیا ۲۰؍ستمبر ۱۸۷۰ء کو اٹلی نے روم کو اپنی سلطنت میں شامل کر لیا۔ اور روم اٹلی کا دارالحکومت بن گیا۔بادشاہ وکٹر ایمانوئل دوم کی قیادت میں اٹلی نے پوپ کی حکومت ختم کردی۔ پوپ نے اس قبضے کو قبول نہیں کیا اور خود کو ویٹیکن میں قیدی قرار دے دیا۔ یہ مسئلہ ۱۹۲۹ء میں حل ہوا جب ویٹیکن سٹی کو ایک خودمختار ریاست تسلیم کیا گیا یہ دنیا کی سب سے چھوٹی ریاست ہے - آج پوپ کی طاقت صرف مذہبی اور اخلاقی راہنمائی تک محدود ہے ۱۹۱۷ء کے انقلاب کے بعد روس میں کمیونسٹ حکومت نے مذہب کو دبانے کی کوشش کی۔ مساجد گرجا گھر اور دیگر عبادت گاہیں بند کر دی گئیں، اور مذہبی تعلیم پر سخت پابندیاں عائد کی گئیں۔ ۱۹۳۰ء اور ۱۹۴۰ء کی دہائی میں مذہبی آزادی تقریباً ختم ہوگئی تھی اور مذہبی رہنماؤں کو قید یا جلاوطن کر دیا گیا۔۱۹۹۱ء میں سوویت یونین کے خاتمے کے بعد روس میں مذہبی آزادی بحال ہوئی، لیکن احمدیت کو اب بھی مشکلات کا سامنا ہے۔ ۱۹۴۹ء میں عوامی جمہوریہ چین کے قیام کے بعد چینی کمیونسٹ پارٹی نے ریاستی الحاد کو اپنایا. اور پارٹی کے ارکان کو مذہبی رسومات ادا کرنے سے روک دیا گیا تاہم ۱۹۸۰ء کی دہائی میں حکومت نے مذہبی اداروں کو محدود آزادی دی مگرمساجد اور مذہبی سرگرمیوں کی خاص نگرانی کی جاتی ہے ۳۔عظیم مادی طاقتیں ابھریں گی جو اپنی سلطنت کو ایک سے دوسرے علاقہ اور ایک براعظم سے دوسرے براعظم تک وسیع کریں گی۔(الہام، عقل، علم اور سچائی حضرت مرزا طاہر احمد خلیفۃ المسیح الرابعؒ) ۴۔حضرت خلیفۃ المسیح الاول ؓنے یہ مطلب بیان فرمایا ہے سلطنت ہائے عظیمہ تباہ ہو جائیں تمام یورپ جنگ کرے۔(ترجمہ قرآن ) حضور ؓکی وفات کے چار ماہ بعد پہلی جنگ عظیم ۲۸؍جولائی ۱۹۱۴ء سے ۱۱؍نومبر ۱۹۱۸ء تک جاری رہی۔ اس جنگ میں تقریباً ۳۰؍ممالک شریک ہوئے۔ اس جنگ کے دوران تقریباً ۹؍ملین فوجی اور ۷؍ملین شہری ہلاک ہوئے۔ دوسری جنگ عظیم یکم ستمبر ۱۹۳۹ء کو شروع ہوئی اور ۲؍ستمبر ۱۹۴۵ء کو ختم ہوئی۔ اس جنگ میں دنیا کے تقریباً تمام ممالک شامل تھے، جن میں دو بڑے اتحاد تھے: اتحادی طاقتیں اور محور طاقتیں۔ یہ تاریخ کا سب سے مہلک تنازعہ تھاجس میں تقریباً ۷ سے ۸ عشاریہ ۵ کروڑ افراد ہلاک ہوئے۔ اونٹوں کو چھوڑ دیا جائے گا سورۃ التکویر کی آیت نمبر ۵ہے:وَإِذَا الْعِشَارُ عُطِّلَتْ۔ (دس ماہ کی گابھن اونٹنیوں کو یونہی چھوڑ دیا جائے گا) ۱۔عِشَار اُن اونٹنیوں کو کہتے ہیں جن کے حمل پرآٹھ یادس مہینے گذر جائیں۔پس معنے یہ ہوئے کہ خواہ وہ مریں یا جئیں اُن سے کوئی تعلق نہیں رکھا جائے گا (تفسیر کبیر سورہ التکویر) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اسی ضمن میں ایک عقلی نکتہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’عشار حمل دار اُونٹنی کو کہتے ہیں جو عربوں کی نگاہ میں بہت عزیز ہے اور ظاہر ہے کہ قیامت سے اِس آیت کو کچھ بھی تعلق نہیں کیونکہ قیامت ایسی جگہ نہیں جس میں اُونٹ اُونٹنی کو ملے اور حمل ٹھہرے…اور حملدار ہونے کی اِس لئے قید لگا دی کہ تا یہ قید دنیا کے واقعہ پر قرینہ قویہ ہو اور آخرت کی طرف ذرہ بھی وہم نہ جائے۔(شہادۃ القرآن، روحانی خزائن جلد ۶ صفحہ ۳۱۸) نیز یہ علامت حدیث میں قیامت سے پہلے مسیح موعودؑ کی آمد کے طور پر بیان ہوئی ہے۔چنانچہ صحیح مسلم کی مشہور روایت ہے کہ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صلى اللّٰه عليه وسلم وَاللّٰہِ لَيَنْزِلَنَّ ابْنُ مَرْيَمَ حَكَمًا عَادِلاً فَلَيَكْسِرَنَّ الصَّلِيبَ وَلَيَقْتُلَنَّ الْخِنْزِيرَ وَلَيَضَعَنَّ الْجِزْيَةَ وَلَتُتْرَكَنَّ الْقِلاَصُ فَلاَ يُسْعَى عَلَيْهَا۔(صحیح مسلم کتاب الایمان باب نُزُولِ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ حَاكِمًا بِشَرِيعَةِ نَبِيِّنَا مُحَمَّدٍ صلى اللّٰه عليه وسلم) حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اللہ کی قسم! ضرور ابن مریم حکم و عدل کے طور پر نازل ہوں گے، صلیب کو توڑیں گے اور خنزیر کو قتل کریں گے اور جزیہ روک دیں گے۔ اور اونٹنیاں چھوڑ دی جائیں گی اور اُن پر سواری نہیں کی جائے گی۔ پس اس حدیث سے بھی اس بات کی تصدیق ہو جاتی ہے کہ یہ مذکور علامات قیامت سے پہلے اسی دنیا میں ظاہر ہوں گی۔ ابن عربی اس حدیث کے ذکر میں کہتے ہیں اس نشانی میں قرب قیامت کا علم ہے … اور یہ حدیث فرمانِ الٰہی کے بالکل مشابہ ہے جہاں فرمایا وَإِذَا الْعِشَارُ عُطِّلَتْ۔(تفسير القرآن سورۃ تکویر۔ ابن عربي۔المتوفّی ۶۳۸) عرب کا اکثر حصہ صحرا پر مشتمل ہے اور اس صحرائی علاقے میں اونٹ کا متبادل اور کوئی جانور نہیں اسی وجہ سے اس کو ship of the desert کہا جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ عرب لوگ اونٹ کو ایک قیمتی اور باعث عزت مال گردانتے تھے۔ کیونکہ ان کے نزدیک اونٹ سب سے زیادہ قیمتی اور باعث افتخار چیز تھی عرب میں سواری اور خوراک کا بہت اہم ذریعہ اونٹ تھے ان کو معطل کرنے یا چھوڑ دینے سے مراد یہ ہے کہ ۱۔اونٹ کو بیکار کر دینے والی سواریاں نکل آئیں گی جو تیز رفتار ہوں گی۔۲۔تیز رفتار سواریوں کی وجہ سے ہر قسم کی غذائیں عرب میں پہنچنے لگیں گی اور اونٹوں کی غذائی اہمیت جاتی رہے گی (تفسیر کبیر سورۃ تکویر) اسی کی تائید میں سورۃ النحل کی آیت نمبر۹ ہے وَالۡخَیۡلَ وَالۡبِغَالَ وَالۡحَمِیۡرَ لِتَرۡکَبُوۡہَا وَزِیۡنَۃً ؕ وَیَخۡلُقُ مَا لَا تَعۡلَمُوۡنَ۔ اللہ تعالیٰ گھوڑوں اور خچروں اور گدھوں کا ذکر کرکے فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ آئندہ زمانہ میں ایسی سواریاں پیدا کرنے والا ہے جو تمہارے وہم و گمان میں بھی نہیں ہیں۔ (تفسیر کبیر جلد۶ صفحہ۴۳۳) سورۃ يٰس کی آیات نمبر ۴۲، ۴۳ہیں وَاٰیَۃٌ لَّہُمۡ اَنَّا حَمَلۡنَا ذُرِّیَّتَہُمۡ فِی الۡفُلۡکِ الۡمَشۡحُوۡنِ۔ وَخَلَقۡنَا لَہُمۡ مِّنۡ مِّثۡلِہٖ مَا یَرۡکَبُوۡنَ۔ (اور ان کے لیے یہ بھی ایک نشان ہے کہ ہم نے ان کی نسل کو ایک بھری ہوئی کشتی میں سوار کیا۔اور ہم ان کے لیے ویسی ہی اور سواریاں بنائیں گے جن پر وہ سوار ہوا کریں گے۔) یعنی آئندہ زمانہ میں نئی سواریاں نکلیں گی۔سورۃ الشورٰی آیت نمبر ۳۳ ہے وَمِنۡ اٰیٰتِہِ الۡجَوَارِ فِی الۡبَحۡرِ کَالۡاَعۡلَامِِ ( اور اللہ کے نشانات میں سے سمندر میں چلنے والی پہاڑوں جیسی بلندکشتیاں ہیں۔) حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ فرماتے ہیں یہاں اللہ تعالیٰ کے نشانات میں سے ایسے بڑے بڑے سمندری جہازوں کا ذکر ہے جو پہاڑوں کی طرح بلند ہوں گے۔ ظاہر ہے کہ آنحضورﷺ کے زمانے میں تو معمولی بادبانی کشتیاں چلا کرتی تھیں اس لیے لازماً یہ آئندہ زمانہ کی پیشگوئی تھی جو آج کے زمانہ میں پوری ہو چکی ہے۔(ترجمہ قرآن ) ان سب آیات میں سر زمین عرب کے اسی قیمتی اور مفید جانور کے بےکار ہوجانے اور متروک کر دیے جانے کی خبر دی گئی ہے اور یہ خبر موجودہ دور میں بعینہٖ پوری ہو چکی ہے پچھلی چند صدیوں میں نت نئی ایجادات نے دنیا میں ایک عظیم الشان انقلاب پیدا کر دیا ہے انہی ایجادات میں سے ایک اہم ایجاد دخانی انجن (steam engine)بھی ہے جس کے منظر عام پر آنے سے دنیا نے برسوں کا سفر دنوں میں طے کرنا شروع کیا۔ انیسویں صدی میں یورپ میں ریلوے انجن (locomotive) کی آمد کے بعد دیکھتے ہی دیکھتے دنیا میں ریلوے لائنوں کا جال بچھنے لگا اور لوگ رفتہ رفتہ جانوروں کی سواری سے نکل کر اس تیز رفتار سواری کی آسانیوں سے فائدہ اٹھانے لگے۔آسٹریلیا میں انہی اونٹوں کو ریلوے لائن کے نیچے بچھائے جانے والے لکڑی کے گارڈر کی نقل و حمل کے لیے استعمال کیا گیا، ریلوے لائن تیار ہونے پر یہ اونٹ بےکار ہوگئے اور آہستہ آہستہ ان کو بے ضرورت سمجھا جانے لگا نتیجۃً ان کو جنگل میں آوارہ چھوڑ دیا گیا۔ دجال کا گدھا مغربی عیسائی اقوام کو حدیثِ رسولﷺ میں دجال قرار دیا گیا ہے۔ انہوں نے اس زمانے میں تیز رفتار سواریاں ایجاد کیں جن کو دجال کا گدھا کہا گیا۔جو زمین،سمندر اور ہوامیں حیرت انگیز رفتار سے چلتا ہے،(مزید تفصیل کے لیے مسیح اور مہدی محمد رسول اللہ ؐکی نظر میں۔از ایچ ایم طارق۔صفحہ ۳۵۱ )ان ایجادات کا زمانہ درج ذیل ہے۔ جیمزواٹ نے ۱۸۰۴ء میں بھاپ کا انجن ایجاد کیا اور ۱۸۱۲ء میں امریکی انجینئر اولیورایونز نے ایسا انجن متعارف کروایا جو پٹڑیوں پر چلنے کی صلاحیت رکھتا تھا لیکن امریکہ میں خانہ جنگی کی وجہ سے یہ منصوبہ آگے نہ بڑھ سکا۔ریل کے موجد کا خطاب پانے والے جارج سٹیفن نے یہ منصوبہ پورا کیا اور ۱۵؍ستمبر۱۸۳۰ء کو پہلی ریل گاڑی مانچسٹر سے لیورپول روانہ ہوئی۔ اور چند ہی سالوں میں برطانیہ کے تمام بڑے شہر ریل کے ذریعے منسلک ہوگئے۔امریکہ میں پہلی مسافر گاڑی ٫۱۸۳۳، جرمنی میں ۱۸۳۵ء، کینیڈا میں ٫۱۸۳۶، فرانس میں ٫۱۸۳۷، ہالینڈ اور اٹلی میں ٫۱۸۳۹ میں چلائی گئی۔ ہندوستان میں ریلوے متعارف کروانے کا منصوبہ ۱۸۳۲ء میں بنا۔۱۸۴۰ء میں حکومت برطانیہ نے اس پر سروے شروع کیا۔ ۱۸۴۴ء میں اس منصوبے کو نفع بخش قرار دیا گیا۔ ۱۸۵۲ء میں بمبئی سے ۳۵؍کلومیٹر کی پٹڑی تھانہ تک بچھائی گئی جس پر پہلی ریل گاڑی چار سو مسافروں کو لے کر ۱۶؍اپریل ۱۸۵۲ء کو روانہ ہوئی۔ اس ریل گاڑی کو بھاپ سے چلنے والے تین انجن چلارہے تھے۔ اس ریل گاڑی کو اکیس توپوں کی سلامی بھی دی گئی۔۱۸۶۱ء میں کراچی سے کوٹری تک چلائی گئی۔ ۱۰؍اپریل ۱۸۶۲ء کو لاہور امرتسر اور ۱۸۶۵ء میں لاہور ملتان ٹرین چلائی گئی۔ ۱۸۸۰ء میں برصغیر میں ریلوے ٹریک کی لمبائی ساڑھے چودہ ہزار میل سے زیادہ تھی جو اُس وقت دنیا کا سب سے بڑا ریلوے نظام تصور کیا جاتا تھا۔ریلوے ٹریک کو گزارنے کے لیے کئی پُل بھی تعمیر ہوئے جن میں سکھر اور روہڑی کے درمیان تعمیر ہونے والا اُس وقت کا دنیا کا سب سے بڑا پُل بھی شامل تھا۔اس پُل کا افتتاح ۲۵؍مارچ ۱۸۸۹ء کو وائسرائے لارڈ لانس ڈاؤن (Lord Lansdowne)نے کیا۔ برطانیہ میں الیکٹرک ٹرین کا آغاز ۱۹۰۸ء میں ہوا جس نے ٹرین کی رفتار میں ایک انقلاب پیدا کردیا۔ لندن کی زیرزمین (انڈر گراؤنڈٹیوب) ریل بھی دنیابھر میں مقبول ہے۔ نیز برطانوی ریل کی ترقی میں زیرسمندر چینل ٹنل کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔۵۰؍اعشاریہ ۵؍کلومیٹر لمبی یہ سرنگ برطانیہ اور فرانس کے ساحلی شہروں Dover اورCalais کو ملاتی ہے۔ ۱۹۹۴ء میں اس کا افتتاح ملکہ برطانیہ اور فرانسیسی صدر متراں نے مل کر کیا۔ جاپان میں بھی اسی طرز کی ۵۳۔۸۵کلومیٹر لمبی Seikan Tunnel بنائی گئی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں حجاز ریلوے بن رہی تھی جس نے دمشق سے مدینہ تک چلنا تھا۔ اس لیے حضورؑ نے ایک نشان کے طور پر اپنی کتب میں اس کا ذکر فرمایا مگر بعد میں یہ منصوبہ رک گیا اور تقریبا سو سال تک رکا رہا لیکن اب یہ نشان پوراہوچکا ہے اور حرمین ہائی اسپیڈ ریلوے کا افتتاح سعودی عرب کے بادشاہ نے ۲۵؍ستمبر ۲۰۱۸ء کو کیا اور یہ ریلوے ۱۱؍اکتوبر ۲۰۱۸ء سے جدہ، مکہ اور مدینہ کے درمیان چل رہی ہے اور اسلام کی صداقت ایک نئے انداز میں ظاہر کر رہی ہے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’اگر قرآن شریف خدا کا کلام نہ ہوتا تو انسانی طاقت میں یہ بات ہرگز داخل نہ تھی کہ ایسی پیشگوئی کی جاتی کہ جس چیز کا وجود ہی ابھی دنیا میں نہ تھا اُس کے ظہور کا حال بتایا جاتا جبکہ خدا کو منظور تھا کہ اِس پیشگوئی کو ظہور میں لاوے تب اُس نے ایک انسان کے دل میں یہ خیال ڈال دیا کہ وہ ایسی سواری ایجاد کرے کہ جو آگ کے ذریعہ سے ہزاروں کوسوں تک پہنچادے۔‘‘(چشمہ معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحہ ۳۲۲) ہوائی جہاز کی پہلی پرواز ۷؍دسمبر۱۹۰۳ء کو امریکہ میں ہوئی۔ یورپ میں پہلی مرتبہ ہوائی جہاز کی پرواز ۱۳؍ستمبر ۱۹۰۶ء کو ہوئی تھی۔ اس جہاز کو فلائر اول (Flyer First)کا نام دیا گیا۔ اس جہاز نے ۲۷؍میل فی گھنٹہ کی رفتار سے ۱۲؍سیکنڈ تک پرواز کی اور ۱۲۰؍فٹ کا فاصلہ طے کیا۔ دنیا کی قدیم ترین ایئر لائن ہالینڈ کی KLM اکتوبر ۱۹۱۹ء کو قائم ہوئی تھی۔ اس کی پہلی پرواز ۱۷؍مئی ۱۹۲۰ء میں ایمسٹرڈیم سے لندن تک کی تھی۔ فرانسیسی سائیکل ڈیلر ہال کورنو نے ۱۳؍نومبر ۱۹۰۷ء کو ہیلی کاپٹر کی پہلی کامیاب پرواز کی۔ اہل حدیث عالم پروفیسر محمد یحییٰ سلطان محمود جلالپوری حدیث وَلَتُتْرَكَنَّ الْقِلاَصُ فَلاَ يُسْعَى عَلَيْهَا کا ترجمہ کرتے ہیں:’’جوان اونٹنیوں کو چھوڑ دیا جائے گا، اور ان سے محنت و مشقت نہیں لی جائے گی (دوسرے وسائل میسر آنے کی وجہ سے ان کی محنت کی ضرورت نہ ہو گی)‘‘(صحیح مسلم مترجم پروفیسر محمد یحییٰ سلطان محمود جلالپوری۔ کتاب الایمان باب نمبر ۷۱۔ مکتبہ دار السلام سعودی عرب) الفاظ واضح طور پر اس حدیث کے پورا ہونے کا اعلان کر رہے ہیں کیونکہ وہ کام جو اونٹوں سے لیا جاتا تھا وہ اب جدید اور تیز رفتار وسائل کے میسر آ جانے کی وجہ سے ان سےنہیں لیا جا رہا۔ مشہور سعودی عالم محمد بن صالح العُثيمين (المتوفّی ۲۰۰۱ء) بیان کرتے ہیں یہ حدیث بھی آنحضور ﷺ کے معجزات میں سے ہے کیونکہ القلاص اونٹوں کو کہتے ہیں جو کہ چھوڑ دیے جائیں گے اور ان پر سواری نہیں کی جائے گی۔ اگر اس بیان کو ہم اپنے اس زمانے پر منطبق کر کے دیکھیں تو اس کو عین مطابق پائیں گے کیونکہ اونٹ اب ترک کر دیے گئےہیں اور سفر زمینی موٹروں، بحری اور ہوائی (جہازوں) پر ہو رہا ہے۔ (https://alathar.net/home/esound/index.php?op=codevi&coid=105110)(8/11/2023) سعودی آئل کمپنی Saudi Aramco کا ترجمان رسالہ Aramco World اپنے ایک مضمون The Camel in Retrospect میں لکھتا ہے۔ ترجمہ: گوکہ اونٹوں کے گلے ابھی بھی دیکھے جاسکتے ہیں لیکن اونٹوں کے عظیم قافلوں کا دور اب گذر چکا ہےاور دیکھنے والوں کے لیےپورے جزیرہ عرب میں اس کے آثار بغیر دیکھ بھال کے صحرائی کنویں اور کاروانوں کے متروک راستوں کی شکل میں واضح ہوچکے ہیں۔ بہت جلد سینکڑوں صدیوں پرانی روایت ختم ہو جائے گی۔ بےشک آج بھی اونٹ خوراک، دودھ اور گوشت کے لیے اور اونٹوں کی دوڑ کے لیے بھی پالے جاتے ہیں لیکن نقل و حمل کے لیے شاذ و نادر ہی۔ اونٹ جزیرہ پار کرنے والے بوئنگ، تیز مال بردار ٹرینوں اور ٹریلر ٹرکوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ اسی طرح سعودی عرب کا مشہور انگریزی اخبار Arab News لکھتا ہے: “The ship of the desert has been replaced by Cadillacs and Caprices…” (https://www.arabnews.com/node/264875) یعنی صحرائی جہاز کی جگہ اب Cadillacs اور Caprices گاڑیوں نے لے لی ہے۔ ڈاکٹر خواجہ عبدالرشید صاحب اپنے سفر نامہ ’’پاکستانی مسافر یورپ میں‘‘ کے زیر عنوان لکھتے ہیں: ’’غور فرمایئے وَإِذَا الْعِشَارُ عُطِّلَتْ۔ یہ قیمتی اور گا بھن اونٹنی یعنی قیمتی اونٹ جو بہت کار آمد ہے معطّل ہو جائے گی، ہوتی جارہی ہے کہ نہیں۔ اب کہاں وہ حاجیوں کے قافلے جو قطار اندر قطار جدہ سے چل کر کن کٹھن منزلوں کے بعد مکہ اور مدینہ پہنچتے تھے۔ اب تو ریگستانِ عرب میں قیمتی سے قیمتی موٹر چلتا ہے۔ عنقریب آپ دیکھ لیں گے کہ اونٹ کی افادیت ختم ہو جائے گی یہ جانور بھی ریگستانوں میں ناپید ہو جائے گا۔ یہ حالات ہیں جو قیامت کے قریب ظاہر ہو رہے ہیں۔ (صدق جدید لکھنؤ ۱۴؍ستمبر ۱۹۶۲ء بحوالہ تفہیماتِ ربانیہ)گدھے سے مرادریل گاڑی ہے۔(ہدیہ مہدویہ صفحہ ۸۹۔مطبع نظام کانپور ) حضرت مسیح موعود علیہ السلام ماضی کی سواریوں کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں ہم دیکھتے ہیں کہ ریل کی سواری نے ان تمام سواریوں کو مات کر دیا ہے اور اب ان کی بہت ہی کم ضرورت باقی رہی ہے اور شاید تھوڑے ہی عرصہ میں اس قدر ضرورت بھی باقی نہ رہے۔ (شہادۃ القرآن، روحانی خزائن جلد ۶ صفحہ ۳۱۷) سابقہ آیت کے تسلسل میں یہ مطلب ہے کہ بہتر اور طاقتور ذرائع نقل وحمل ایجاد ہو جائیں گے جوپہاڑوں کی نقل و حرکت یعنی عظیم سیاسی قوتو ں کے پھیلاؤ اور بھاری بھرکم سامانوں کی ترسیل کے لیے لازمی ہیں ورنہ ان کی ہوس اقتدار پوری نہیں ہو سکتی تھی (الہام، عقل، علم اور سچائی حضرت مرزا طاہر احمد خلیفۃ المسیح الرابعؒ ) حضرت خلیفہ اولؓ نے لکھا ہے کہ اس کے تین مطلب ہیں۔۱۔ اونٹوں کی زکوٰۃ بند ہو جائے جو بڑی آمدنی ہے۔ ۲۔ریلیں جاری ہو جائیں۔۳۔زمین عرب کا عشر موقوف ہوجائے گا۔(ترجمہ قرآن) (اگلی قسط بدھ ۲۵؍جون ۲۰۲۵ء کے شمارے میں ان شاء اللہ) ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: خلافت کی اطاعت میں احمدی عورت کی ذمہ داریاں