https://youtu.be/c2JYXJ4y_ew (انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ۱۷؍اکتوبر ۲۰۰۳ء) حضرت مرزا ایوب بیگ صاحب رضی اللہ عنہ کے نمونہ کے بارے میں ان کے متعلق بیان کرنے والے لکھتے ہیں کہ مرحوم ایک زندہ مثال تھے ایسے شخص کی جو حدیث کے مطابق اپنے بھائی کے لئے وہی چیز پسند کرتا تھا جو اپنے لئے پسند کرتا اور کبھی اپنے بھائی سے ایسا سلوک روا نہ رکھتا جو اس کو اپنے لئے ناگوار ہو۔ وہ ہمیشہ اس جستجو میں رہتاتھاکہ اس کو کوئی ایسی خدمت میسر آئے اور کوئی ایسا موقع ہو جس میں وہ اپنے کسی بھائی اور دوست کی مدد کرے۔ تو ان کے بارے میں آتاہے کہ جب وہ کالج میں پڑھا کرتے تھے اور جب جماعت کا لیکچر ہوتا تو آتے تھے اور وہاں ہر احمدی کو جا کر ملا کرتے تھے اور اگر کوئی بھائی بیمار ہوتا تو ان کے مکان پر جاتے، اُن کی بیمار پرسی کرتے اور بعض دفعہ تقریباً ہر روز ان بیماروں کو دیکھنے جایا کرتے۔ ایک دفعہ مفتی محمد صادق صاحب ؓ سخت بیمار ہوگئے تو مرحوم کئی روز تک مفتی صاحب کے لئے ان کے مکان میں رہے اور رات دن ان کی خدمت کی اور ان کی ساری جوبیماری کی حالت میں بعض دفعہ گند بھی اٹھانا پڑتا تھا تو وہ بھی اٹھا لیا کرتے تھے۔(اصحاب احمد جلد ۱صفحہ ۱۹۹۔ ۲۰۰) پھر حضرت چوہدر ی ظفر اللہ خان صاحبؓ اپنی والدہ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ وہ فرمایا کرتی تھیں کہ اللہ تعالیٰ اگردشمن نہ ہوتو کوئی دشمن کیا بگاڑ سکتاہے۔ اور اس لحاظ سے مَیں تو کسی کو دشمن نہیں سمجھتی اور دشمنوں کے ساتھ حسن سلوک بہت کیا کرتی تھیں۔ فرماتی تھیں کہ جس سے دل خوش ہوتاہے اس کے ساتھ تو حسن سلوک کے لئے خود ہی دل چاہتاہے۔ اس میں ثواب کی کون سی بات ہے۔ اللہ تعالیٰ کو خوش کرنے کے لئے توانسان کوچاہئے کہ ان لوگوں سے بھی احسان اور نیکی سے پیش آوے جن پر دل راضی نہیں ہو تا۔ وہ لکھتے ہیں کہ ڈسکہ میں رہتی تھیں تو وہاں کے لوگوں کے ساتھ بڑا فیاضانہ سلوک تھا اور لوگ بھی بڑی عزت و احترام سے انہیں دیکھتے تھے۔ جب احرارکا جھگڑا شروع ہوا تو اس کا اثر ان کے علاقہ میں بھی پڑا اور وہی لوگ جو مددلیا کرتے تھے دشمنیاں کرنے لگ گئے۔ لیکن اس دشمنی کا بھی ان کی والدہ پر کوئی اثر نہیں پڑا اور اگر ان کے رشتہ داروں میں سے کوئی یہ بھی کہتاکہ آپ فلاں شخص کی مدد کررہی ہیں جبکہ وہ ہماری مخالفت کر رہاہے، احرار میں شامل ہے تو بڑا برا منایا کرتی تھیں کہ تم مجھے اس خدمت سے کیوں روک رہے ہو۔ ایک دفعہ بیان کرنے والے لکھتے ہیں کہ کچھ پارچات، کپڑے وغیرہ تیار کر رہی تھیں تو انہوں نے جاکر ان کو کہا کہ آپ کس کے لئے تیار کررہی ہیں تو چوہدری صاحب کی والدہ نے فرمایاکہ یہ فلاں شخص کے بچوں کے لئے کررہی ہیں۔ تواس شخص نے کہا کہ آپ بھی عجیب ہیں وہ تو احراری ہے اور جماعت کی بڑی مخالفت کرتاہے، اس کے لئے آپ یہ کپڑے تیار کررہی ہیں۔ تو آپ نے فرمایاکہ اگر وہ شرارت کرتے ہیں تو اللہ میاں ہماری حفاظت کرتاہے اور جب تک وہ ہمارے ساتھ ہے مخالف کی شرارتیں ہمیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتیں۔ لیکن یہ شخص مفلس ہے۔ اس کے اپنے بچوں اور پوتوں کے بدن ڈھانکنے کے لئے کپڑے مہیاکرنے کا سامان نہیں ہے تو اس کو ضرورتمند سمجھتے ہوئے مَیں اس کے لئے یہ کپڑے تیار کررہی ہوں اور تم جو یہ اعتراض کررہے ہوتو تمہاری سزا یہ ہے کہ جب مَیں یہ کپڑے تیار کرلوں گی تو تم ہی اس کے گھر جا کر پہنچا کر آؤ گے۔ لیکن ساتھ یہ بھی کہہ دیا کہ یہ احراری ہے اور اس پر تو دوسرے احراریوں کی نظر بھی ہوگی تو رات کے وقت جانا تاکہ اس کو کوئی تنگ نہ کرے کہ تم نے احمدیوں سے کپڑے وصول کئے۔ (اصحاب احمد جلد ۱۱ صفحہ ۱۷۵۔ ۱۷۶) پھرآپ کا نمونہ بیواؤں اور یتامیٰ کی نگہداشت بھی آپ کا دل پسند مشغلہ تھا۔ اور لکھنے والے کہتے ہیں کہ بچیوں کے جہیز تیار کررہی ہوتیں تو بڑے انہماک سے اپنے ہاتھوں سے ساری تیاری کیا کرتی تھیں، کپڑے تیار کیا کرتی تھیں۔(اصحاب احمد جلد ۱۱ صفحہ ۱۸۶) پھر حضرت میر محمد اسحاق صاحبؓ بھی یتیموں کی خبرگیری کی طرف بہت توجہ دیتے تھے اور دارالیتامیٰ میں اتنے یتیم تھے، دارالشیوخ کہلاتا تھا، توان کے بارہ میں روایت آتی ہے کہ ایک دفعہ بخار میں آرام فرما رہے تھے اور شدید بخار تھا۔ نقاہت تھی، کمزور ی تھی۔ کارکن نے آ کر کہا کہ کھانے کے لئے جنس کی کمی ہے اور کہیں سے انتظام نہیں ہو رہا۔ لڑکوں نے صبح سے ناشتہ بھی نہیں کیا ہوا۔ آپ نے فرمایا فوراً تانگہ لے کر آؤ اور تانگے میں بیٹھ کر مخیر حضرات کے گھروں میں گئے اور جنس اکٹھی کی اور پھر ان بچوں کے کھانے کا انتظام ہوا۔ تو یہ جذبے تھے ہمارے بزرگوں کے کہ بخار کی حالت میں بھی اپنے آرام کو قربان کیا اور یتیم بچوں کی خاطر گھر سے نکل کھڑے ہوئے۔ اور یہ ایسا کیوں نہ ہوتا۔ آپ کو تو اپنے آقاﷺ کی یہ خوشخبری نظروں کے سامنے تھی کہ مَیں اور یتیم کی پرورش کرنے والا اس طرح جنت میں ساتھ ساتھ ہوں گے جس طرح یہ دو انگلیاں ہوتی ہیں۔ شہادت کی اور درمیانی انگلی آپ نے اکٹھی کی۔ تو یہ نمونے تھے ہمارے بزرگوں کے۔ پھر حضرت حافظ معین الدین صاحبؓ کے بارہ میں روایت آتی ہے کہ آپ کو نظر نہیں آتا تھا، آنکھوں کی بینائی سے محروم تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک سرد رات میں جب کہ قادیان کی کچی گلیوں میں سخت کیچڑ تھا، بہت مشکل سے گرتے پڑتے کہیں جارہے تھے۔ ایک دوست نے پوچھا تو فرمایابھائی یہاں ایک کُتیا نے بچے دئے ہیں۔ میرے پاس ایک روٹی پڑی تھی۔ مَیں نے کہا کہ جھڑی کے دن ہیں یعنی بارش ہو رہی ہے اس کو ہی ڈال دوں۔ اور یہ بھی سنت کی پیروی تھی جو حافظ صاحب نے کی کہ جانور وں پر بھی رحم کرو اور یاد رکھو وہ واقعہ جب کسی کنویں میں اتر کر، اپنے جوتے میں پانی بھرکر کتے کو پانی پلایا تو آپﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اس نیکی کے عوض اسے بخش دیا۔ اس پرصحابہ بہت حیران ہوئے اور پوچھا کہ کیاجانوروں کی وجہ سے بھی اجر ملے گا۔ تو آپﷺ نے فرمایا تھا کہ ہاں ہر ذی روح اور جاندار کی نیکی اور احسان کا اجر ملتاہے۔ پھر ایک واقعہ ہے ایک احمدی حضرت نور محمد صاحب کا۔ سخت سردی کا موسم تھا۔ اور آپ کے پاس نہ کوٹ تھا نہ کمبل۔ صرف اوپر نیچے دو قمیصیں پہن رکھی تھیں کہ گاڑی میں سوار تھے۔ ایک معذور بوڑھا ننگے بدن کانپتا ہوا نظر آیا۔ اسی وقت اپنی ایک قمیص اتار کر اسے پہنادی۔ ایک سکھ دوست بھی ساتھ سفر کر رہاتھا وہ یہ دیکھ کر کہنے لگا ’’بھائیاجی ہُن تہاڈاتے بیڑا پار ہوجائے گا، آپاں داپتہ نئیں کی بنے؟‘‘ تو یہ نمونے تھے۔ پھر چند دن بعد یوں ہوا کہ یہی نور محمد صاحب ایک نیا کمبل اوڑھ کر بیت الذکر مغلپورہ میں نماز فجر کے لئے آئے تو دیکھا کہ فتح دین نامی ایک شخص جو کسی وقت بہت امیر تھا بیماری اور افلاس کے مارے ہوئے سردی سے کانپ رہے تھے۔ تو نور محمد صاحب نے فوراً اپنا نیا کمبل اتارا اور اسے اوڑھا دیا۔(روح پرور یادیں صفحہ۶۸۷) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام حضرت منشی ظفر احمد صاحبؓ کے بارہ میں فرماتے ہیں کہ ’’حبی فی اللہ منشی ظفر احمد صاحب جو جوان صالح اور کم گو اور خلوص سے بھرادقیق فہم آدمی ہے یعنی بڑی باریک نظر سے دیکھنے والے ہیں۔ استقامت کے آثار و انوار ان میں ظاہر ہیں۔ وفاداری کی علامات وغیرہ میں قسمت زدہ ہیں۔ ثابت شدہ صداقتوں کوخوب سمجھتاہے۔ اور ان سے لذت اٹھاتاہے۔ اللہ اور رسول سے سچی محبت رکھتاہے اور ادب، جس پر تمام مدار حصول فیض کاہے اور حسن ظن جو اس راہ کا مرکب ہے دونوں سیرتیں ان میں پائی جاتی ہیں یعنی فیض اٹھانا اور حسن ظن رکھنا۔ جن کا یہ مجموعہ ہے یہ دونوں صفتیں ان میں پائی جاتی ہیں۔ جزاھم اللہ خیر الجزاء۔ پھر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام حضرت میاں عبداللہ سنوریؓ کے بارہ میں فرماتے ہیں کہ ’’حبی فی اللہ میاں عبداللہ سنوریؓ یہ جوان صالح اپنی فطرتی مناسبت کی وجہ سے میری طرف کھینچا گیا۔ مَیں یقین رکھتاہوں کہ وہ ان وفادار دوستوں میں سے ہے جن پر کوئی ابتلاء جنبش نہیں لا سکتا‘‘ یعنی کوئی ابتلا ان کو اپنی جگہ سے ہلا نہیں سکتا۔ ’’وہ متفرق وقتوں میں دو دو تین تین ماہ تک بلکہ زیادہ بھی میری صحبت میں رہا اور مَیں ہمیشہ بنظر ایمان اس کی اندرونی حالت پر نظر ڈالتارہاہوں‘‘ یعنی مَیں بڑے غور سے دیکھتا رہاہوں۔ ’’تو میری فراست نے اس کی تہ تک پہنچنے سے جو کچھ معلوم کیا وہ یہ ہے کہ یہ نوجوان درحقیقت اللہ اور رسول کی محبت میں ایک خاص جوش رکھتاہے اور میرے ساتھ اس کے اس قدر تعلق محبت کی بجز اس بات کے اور کوئی وجہ نہیں کہ اس کے دل میں یقین ہو گیاہے کہ یہ شخص محبان خدا اور رسول میں سے ہے۔‘‘ (ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد نمبر ۳ صفحہ ۵۳۱) مزید پڑھیں: دعائوں کی اہمیت