سچائی ایک ایسا وصف ہے کہ جس کے اپنانے کے بارے میں صرف مذہب ہی نے نہیں کہا بلکہ ہر شخص جس کا کوئی مذہب ہے یا نہیں اس اعلیٰ خُلق کے اپنانے کا پُر زور اظہار کرتا ہے۔ لیکن اگر ہم جائزہ لیں تو اس اظہار کے باوجود سچائی کے اظہار کا حق نہیں ادا کیا جاتا۔ جس کو جب موقع ملتا ہے اپنے مفاد کے حصول کے لئے جھوٹ کا سہارا لیتا ہے۔ انسان کی ذاتی زندگی سے لے کر بین الاقوامی تعلقات تک میں سچائی کا خُلق اپنانے کا جس شدت سے اظہار کیا جاتا ہے اُسی شدت سے وقت آنے پر اُس کی نفی کی جاتی ہے۔ اپنے مفاد حاصل کرنے کے لئے روزمرہ کے معمولی معاملات میں بھی جھوٹ کا سہارا لیا جاتا ہے اور وہ حقیقی سچائی جسے قولِ سدید کہتے ہیں اُس کی نفی ہو رہی ہوتی ہے۔ کاروباری معاملات ہیں تو دنیا کا ایک بہت بڑا طبقہ اِن میں جھوٹ کا سہارا لیتا ہے۔ معاشرتی تعلقات ہیں تو ان میں بسا اوقات جھوٹ کا سہارا لیا جاتا ہے۔ ملکی سیاست ہے تو اس میں سچ کا خون کیا جاتا ہے۔ بین الاقوامی سیاست اور تعلقات ہیں تو اِس کی بنیاد بھی جھوٹ پر ہے۔ اکثر دفعہ تو یہی دیکھنے میں آیا ہے۔ حتی کہ مذہب جو خالصتاً سچائی کو لانے والا اور پھیلانے والا ہے اس میں بھی مفاد پرستوں نے جھوٹ کو شامل کر کے سچ کی دھجیاں بکھیر دی ہیں یا کوشش کرتے ہیں کہ سچ کو اس طرح چھپا دیں کہ سچ کا نشان نظر نہ آئے۔ بعض لوگ تو اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اتنا جھوٹ بولو کہ سچ جو ہے وہ جھوٹ بن جائے اور جھوٹ جو ہے وہ سچ بن جائے۔ یہ بے خوفی اور بیباکی سچائی کو ہر سطح پر پامال کرنے کی اس لئے پیدا ہو گئی ہے کہ خدا تعالیٰ پر یقین نہیں رہا۔ اگر خدا تعالیٰ پر یقین ہو تو ہر سطح پر جھوٹ کا سہارا اس طرح نہ لیا جائے جس طرح اس زمانے میں لیا جاتا ہے یا اکثر لیا جاتا ہے۔ ذاتی زندگی میں گھروں میں ناچاقیاں اس لئے بڑھتی ہیں کہ سچائی سے کام نہیں لیا جاتا اور اس سچائی سے کام نہ لینے کی وجہ سے میاں بیوی پر اعتمادنہیں کرتا اور بیوی میاں پر اعتمادنہیں کرتی اور جب بچے دیکھتے ہیں کہ ماں باپ بہت سے موقعوں پر جھوٹ بول رہے ہیں تو بچوں میں بھی جھوٹ بولنے کی عادت ہو جاتی ہے۔ نئی نسل جب بعض غلط کاموں میں پڑ جاتی ہے وہ اس لئے کہ گھروں کے جھوٹ اُنہیں برائیوں پر اُبھارتے ہیں۔ یوں لاشعوری طور پر یا شعوری طور پر اگلی نسلوں میں بجائے سچائی کی قدریں پیدا کرنے کے اُسے بعض گھر زائل کررہے ہوتے ہیں۔ اپنے بچوں کو برباد کر رہے ہوتے ہیں۔ پھر باقی معاشرے سے تعلقات کا بھی یہی حال ہے۔ اسی طرح کاروباری جھوٹ ہیں۔ جیسا کہ مَیں نے کہا بدقسمتی سے مسلمان ممالک میں یہ زیادہ عام بیماری ہے۔ سچائی اور صداقت کا جتنا شور مچایا جاتا ہے اتنا ہی عملاً اس کی نفی کی جاتی ہے۔ اسی طرح ملکی سیاست ہے اس میں عموماً جھوٹ کا سہارا لیا جاتا ہے لیکن مسلمان کہلانے والے ممالک جن کو اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سچائی پر قائم رہنے اور جھوٹ سے نفرت کرنے کی تلقین کی ہے، بڑی شدت سے ہدایت دی ہے وہ اُتنا ہی جھوٹ کا سہارا لیتے ہیں۔ … اس کے باوجود یہ لوگ پکے مسلمان ہیں اور احمدی غیر مسلم ہیں جو سچائی کی خاطر اپنے کاروباروں، منفعتوں اور جانوں کو داؤ پر لگائے ہوئے ہیں اس لئے کہ وہ ایک خدا کی عبادت کرنے والے ہیں جس نے کہا ہے کہ جھوٹ شرک ہے اور اُس نبی کو ماننے والے ہیں جس پر آخری شرعی کتاب قرآنِ کریم نازل ہوئی اور جن کا فرمان ہے کہ تمام برائیوں کی اور گناہوں کی جڑ جھوٹ ہے۔ (خطبہ جمعہ فرمودہ ۹؍ستمبر ۲۰۱۱ء، مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۳۰؍ستمبر ۲۰۱۱ء) مزید پڑھیں: غیبت کی بیماری سے بچنا چاہئے