سچ میں ایک جرأت اور دلیری ہوتی ہے۔ جھوٹا انسان بزدل ہوتا ہے۔ وہ جس کی زندگی ناپاکی اور گندہ گناہوں سے ملوّث ہے وہ ہمیشہ خوفزدہ رہتا ہے اور مقابلہ نہیں کرسکتا۔ ایک صادق انسان کی طرح دلیری اور جرأت سے اپنی صداقت کا اظہار نہیں کرسکتا اور اپنی پاکدامنی کاثبوت نہیں دے سکتا۔ دنیوی معاملات میں ہی غور کرکے دیکھ لو کہ کون ہے جس کو ذرا سی بھی خدانے خوش حیثیتی عطاکی ہو اور اس کے حاسدنہ ہوں۔ ہر خوش حیثیت کے حاسد ضرور ہوجاتے ہیں اور ساتھ ہی لگے رہتے ہیں۔ یہی حال دینی امور کا ہے۔ شیطان بھی اصلاح کا دشمن ہے۔ پس انسان کو چاہیے کہ اپنا حساب صاف رکھے اور خدا سے معاملہ درست رکھے۔ خداکو راضی کرے۔ پھر کسی سے نہ خوف کھائے اور کسی کی پروا نہ کرے۔ ایسے معاملات سے پرہیز کرے جن سے خود ہی مورد عتاب ہوجاوے مگر یہ سب کچھ بھی تائید ِغیبی اور توفیق الٰہی کے سوانہیں ہوسکتا۔ صرف انسانی کوشش کچھ بنا نہیں سکتی جب تک خداکا فضل بھی شامل حال نہ ہو۔ خُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِیْفًا (النسآء: ۲۹)۔ انسان ناتواں ہے۔ غلطیوں سے پُرہے۔ مشکلات چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہیں۔ پس دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نیکی کی توفیق عطا کرے اور تائیدات غیبی اور فضل کے فیضان کا وارث بنادے۔ (ملفوظات جلد۱۰ صفحہ ۲۱۲، ایڈیشن ۲۰۲۲ء) یقیناً یاد رکھو جھوٹ جیسی کوئی منحوس چیز نہیں۔ عام طور پر دنیادار کہتے ہیں کہ سچ بولنے والے گرفتار ہو جاتے ہیں مگر میں کیونکر اس کو باور کروں مجھ پر سات مقدمے ہوئے ہیں اور خدا تعالیٰ کے فضل سے کسی ایک میں ایک لفظ بھی مجھے جھوٹ لکھنے کی ضرورت نہیں پڑی۔ کوئی بتائے کہ کسی ایک میں بھی خدا تعالیٰ نے مجھے شکست دی ہو۔ اللہ تعالیٰ تو آپ سچائی کا حامی اور مددگار ہے۔ (ملفو ظات جلد۸ صفحہ ۱۸۳، ایڈیشن ۲۰۲۲ء) مزید پڑھیں: غیبت کرنے والا اپنے مُردہ بھائی کا گوشت کھاتا ہے