خدا تعالیٰ بےشمار صفات کا مالک ہے۔ وہ ایک مخفی خزانہ تھا اس نے چاہا کہ وہ پہچانا جائے سو اس نے اس مقصد کے لیے انسان کو پیدا کیا اور اپنی ذات کا عرفان اُسے بخشا۔ اللہ تعالیٰ کی تمام صفات میں سے نہایت اہم صفت جس کے جلوے وہ اپنے مقرب بندوں کو دکھاتا رہتا ہے اور وہ صفت جو ہستی باری تعالیٰ پر زبردست گواہ ہے وہ خدا تعالیٰ کا مجیب الدعوات ہونا ہے۔اُس کی اِس صفت کو ’’المجیب‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے یعنی دعا کو سننے والا اور قبول کرنے والا۔ سوال کرنے والے کو عطا کرتا ہے۔اور اپنے وجود کا ثبوت دیتا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ اَمَّنۡ یُّجِیۡبُ الۡمُضۡطَرَّ اِذَا دَعَاہُ وَیَکۡشِفُ السُّوۡٓءَ وَیَجۡعَلُکُمۡ خُلَفَآءَ الۡاَرۡضِ ؕ ءَاِلٰہٌ مَّعَ اللّٰہِ ؕ قَلِیۡلًا مَّا تَذَکَّرُوۡنَ (النمل: ۶۳)یا (پھر) وہ کون ہے جو بے قرار کی دعا قبول کرتا ہے جب وہ اسے پکارے اور تکلیف دور کر دیتا ہے اور تمہیں زمین کے وارث بناتا ہے۔ کیا اللہ کے ساتھ کوئی (اور) معبود ہے؟ بہت کم ہے جو تم نصیحت پکڑتے ہو۔قرآن مجید نے جس خالق کائنات اور قادر مطلق ہستی کا ہمیں پتا دیا ہے وہ بادشاہ بھی ہے، غنی بھی ہے اور متکبر(کمال بزرگی والا) بھی۔ اُس کے سامنے انسان وہ عاجز مخلوق ہے جو ہر لحظہ اس کا محتاج ہے۔ ہم خوش قسمت ہیں کہ ہم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ماننے والے ہیں جنہوں نے ہمیں اس زندہ خدا کی پہچان کروائی اور پھر آپؐ کے غلام صادق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں اللہ تعالیٰ کی صفات کا صحیح فہم وادراک حاصل کرنے والا بنایا اور ہمیں بتایا کہ اسلام کا خدا وہ خدا ہے جو سنتا بھی ہے اور بولتا بھی ہے۔ دعا مانگو تو وہ المجیب خدا جواب دیتا ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:’’ ہمارا زندہ حیّ وقیوم خدا ہم سے انسان کی طرح باتیں کرتا ہے۔ ہم ایک بات پوچھتے اور دعا کرتے ہیں۔ تو وہ قدرت کے بھرے ہوئے الفاظ کے ساتھ جواب دیتا ہے…دعائیں قبول کرتا ہے۔ اور قبول کرنے کی اطلاع دیتا ہے۔ ‘‘ ( نسیم دعوت،روحانی خزائن جلد ۱۹،صفحہ ۴۴۸ )اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے محبوب و عالی مرتبہ کے نبی حضرت محمد مصطفیٰ ﷺکے ساتھ مختلف مواقع پر آپؐ کی باتوں اور دعاؤں کو قبولیت کا درجہ دے کر اپنا پیارا ہونے کا اظہار فرمایا۔ آنحضورﷺ کی دعاؤں میں خشوع و خضوع اور عاجزی ہوتی۔ وہ اپنے المجیب خدا کے حضور خوف و ابتہال اور خشیّت سے بھری دعائیں کرتے جن کو شرف قبولیت بخشا جاتا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی ٰبنصرہ العزیز اللہ تعالی ٰکی صفت المجیب پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’ دیکھیں ایک وقت تھا جب دشمن آپﷺ کو مکہ میں ختم کرنے کے درپے تھا۔ اس کے ظلم سے تنگ آکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں نے مکّہ سے ہجرت کی لیکن پھر مدینہ میں بھی دشمن حملہ آور ہوتے رہے۔ جنگ بدر ہوئی،احد ہوئی، احزاب ہوئی۔ لیکن پھر مدینہ میں جنگ بدر میں بھی یہ لوگ جس طرح حملہ آور ہوئے۔ اس میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے دن دعا کی کہ اگر آج مسلمان شکست کھا گئے تو کفار نے ان میں سے پھر کسی ایک کو بھی زندہ نہیں چھوڑنا اور پھر اے خدا! تیرا نام لیوا دنیا میں کوئی نہیں رہے گا۔ اللہ تعالیٰ نے دعا قبول کرتے ہوئے تسلی دی کہ فکر نہ کرو فتح تمہاری ہے اور غلبہ اسلام کا ہے انشاءاللہ تعالیٰ۔ اور تاریخ شاہد ہے کہ دشمن نے عبرت ناک شکست کھائی۔ ( خطبہ جمعہ ۱۸؍ اگست ۲۰۰۶ء خطباتِ مسرور،جلد چہارم صفحہ ۴۱۰)اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو راستے دکھائے ہیں کہ ان پر چل کر میرے پاس آؤ، مجھے پکارو۔ میں سنوں گا تم میری بات مان لیا کرو اور جو حکم ہم نے تمہارے لیے بھیجے ہیں ان پر عمل کرو پھر تمہاری دعائیں قبولیت میں بڑھ جائیں گی۔ دعا کرنے والے کو چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی حمد کرے۔ اور اس کی صفت” المجیب “کو بیان کر کے دعا مانگے۔ جب اس طرح وہ دعا مانگے گا تو دعا قبول ہوگی۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’ اور سچ تو یہ ہے کہ ہمارا خدا تو دعاؤں ہی سے پہچانا جاتا ہے دنیا میں جس قدر قومیں ہیں کسی قوم نے ایسا خدا نہیں مانا جو جواب دیتا ہو اور دعاؤں کو سنتا ہو۔ کیا ایک ہندو ایک پتھر کے سامنے بیٹھ کر یا درخت کے آگے کھڑا ہو کر یا بیل کے روبرو ہاتھ جوڑ کر کہہ سکتا ہے کہ میرا خدا ایسا ہے کہ میں اس سے دُعا کروں تو یہ مجھے جواب دیتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ کیا ایک عیسائی کہہ سکتا ہے کہ میں نے یسوع کو خدا مانا ہے۔ وہ میری دعا کو سنتا ہے اور اس کا جواب دیتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ بولنے والا صرف ایک ہی ہے جو اسلام کا خدا ہے جو قرآن نے پیش کیا ہے جس نے کہا ’’ اُدْعُوْنِی اَسْتَجِبْ لَکُمْ ‘‘۔ تم مجھے پکارو میں تم کو جواب دوں گا۔ (المومن: ۶۱) اور یہ بالکل سچی بات ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد دوم صفحہ۱۴۷-۱۴۸، ایڈیشن ۱۹۸۸ء)حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں : ’’ اسی طرح پر دعا کرتے وقت بے دلی اور گھبراہٹ سے کام نہیں لینا چاہیے اور جلدی ہی تھک کر نہیں بیٹھنا چاہیے بلکہ اس وقت تک ہٹنا نہیں چاہیے جب تک دعا اپنا پورا اثر نہ دکھائے۔ جو لوگ تھک جاتے ہیں اور گھبرا جاتے ہیں وہ غلطی کرتے ہیں کیونکہ یہ محروم رہ جانے کی نشانی ہے۔ ‘‘ (ملفوظات جلد چہارم صفحہ ۲۰۵، ایڈیشن۱۹۸۸ء)ہم خوش قسمت ہیں کہ زمانے کے امام نے دعا کی فلاسفی کو کھول کر ہمارے سامنے رکھا اور واضح فرمایا۔ نیز اللہ تعالی کی صفت ’’المجیب ‘‘ کا صحیح فہم و ادراک عطا فرمایا۔ جس کی آج بہت ضرورت ہے۔اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو خدا تعالی کی صفت ’’المجیب‘‘ کا عرفان بخشے اور دوسروں کو بھی اُس خدا کی پہچان کرانے والا بنائے۔ آمین مزید پڑھیں:حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے کس طرح اپنے بچوں کو ہستیٔ باری تعالیٰ سے متعارف فرمایا