ارشاد حضرت خلیفۃ المسیح ا لثالث رحمہ اللہ تعالیٰ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ فرماتے ہیں:‘‘نکمّے پن کی عادت کی وجہ سے ایک اور بنیادی خرابی جنم لیتی ہے اور وہ سفارش ہے۔ مثلاً ایک طالب علم دورانِ سال محنت نہیں کرتا امتحان قریب آتا ہے تو اسے فکر ہوتی ہے میں پاس نہیں ہوسکوں گا چنانچہ جب وہ امتحان کے ہال میں جاتا ہے تو بعض دفعہ چاقو سے سفارش کرواتا ہے ۔ایک دفعہ پنجاب یو نیورسٹی کے ایک سنٹر میں جو صاحب امتحان لینے گئے انہوں نے پہلے ہی دن یہ نظارہ دیکھا کہ ہرلڑ کے نے ساڑھے پانچ انچ بلیڈ کا سپرنگ والا چاقو کھول کر اپنے اپنے ڈیسک پر رکھ لیا اور آرام سے ایک دوسرے سے پوچھ کر اور کتابیں نکال کر پر چہ حل کرنا شروع کر دیا۔ بیچارے امتحان لینے والے کا بُرا حال ہو گیا وہ ڈر کے مارے کچھ کہہ ہی نہیں سکتا تھا۔ اس نے یونیورسٹی کو رپورٹ کی ،وہ سنٹر بند ہوا ۔پھر یونیورسٹی نے ہمارے کالج کولکھا (جس سے ہمیں اصل واقعہ کا علم ہوا) کہ آپ اپنے کالج کے سٹاف میں سے کوئی ایساممبر دیں جو وہاں جا کر دلیری سے امتحان لے۔ یہ تو چاقو کی سفارش تھی پھر پیسے کی سفارش اور اثر و رسوخ کی سفارش الگ ہے۔آخر سفارش کی ضرورت کیوں پڑی؟ سفارش کی ضرورت اس لیے پڑی کہ سفارش کروانے والے مثلاً طالب علم نے اپنی زندگی کے ایک دور میں ( جو ہماری مثال میں اس کا امتحان سے پہلے سال دوسال کا دور ہے) اپنے اوقات کو صحیح طو پر خرچ کرنے کی بجائے گپیں ہانکنے، یونہی بیکار ہوائی قلعے تعمیر کرنے ، سوئے رہنے اور اسی طرح کی نکمّا پن کی دوسری عادتوں میں اپنا وقت ضائع کر دیا۔’’(خطبہ جمعہ فرمودہ۱۸ جولائی ۱۹۶۹ء/ خطبات ناصر جلددوم صفحہ ۷۵۰) (مرسلہ: وکالت صنعت و تجارت)