https://youtu.be/a0KXUoxo5e0 اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔ حضرت مرزا عظیم بیگ صاحبؓ اور حضرت مرزا یوسف بیگ صاحبؓ ۳۱۳؍اصحاب میں شامل دو خوش نصیب بھائیوں کا تذکرہ روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ ۱۳؍فروری۲۰۱۴ء میں مکرم غلام مصباح بلوچ صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔ حضرت مرزا عظیم بیگ صاحب آف سامانہ (پٹیالہ) ولد مکرم مرزا رستم بیگ صاحب کے خاندان کے بعض افراد نے ۲۳؍مارچ۱۸۸۹ء کو یعنی پہلے ہی دن بیعت کی توفیق پائی۔ اس کے بعد بہت جلد یعنی ۱۸۹۰ء میں آپؓ کی وفات ہوگئی جس کے قریباً چھ سال بعد حضورعلیہ السلام نے آپؓ کا نام اپنے ۳۱۳؍صحابہ کی فہرست میں شامل فرمایا۔ آپؓ کی وفات کے وقت حضورعلیہ السلام کتاب ’’فتح اسلام‘‘ تصنیف فرمارہے تھے۔ اس کتاب میں حضورؑ نے اپنے بعض محبّین کا ذکر بھی فرمایا۔ اسی ضمن میں آپؓ کے بارے میں تحریر فرمایا: میرے نہایت پیارے بھائی اپنی جدائی سے ہمارے دل پر داغ ڈالنے والے میرزا عظیم بیگ صاحب مرحوم و مغفور رئیس سامانہ علاقہ پٹیالہ جس قدر مجھ سے محض للہ محبت رکھتے اور جس قدر مجھ میں فنا ہو رہے تھے مَیں کہاں سے ایسے الفاظ لاؤں تا اُس عشقی مرتبہ کو بیان کرسکوں اور جس قدر اُن کی بےوقت مفارقت سے مجھے غم اور اندوہ پہنچا ہے مَیں اپنے گذشتہ زمانہ میں اس کی نظیر بہت ہی کم دیکھتا ہوں۔ وہ ہمارے فرط اور ہمارے میر منزل ہیں جو ہمارے دیکھتے دیکھتے ہم سے رخصت ہوگئے۔ جب تک ہم زندہ رہیں گے اُن کی مفارقت کا غم ہمیں کبھی نہیں بھولے گا۔ ان کی مفارقت کی یاد سے طبیعت میں اداسی اور سینہ میں قلق کے غلبہ سے کچھ خلش اور دل میں غم اور آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے ہیں۔ ان کا تمام وجود محبت سے بھر گیا تھا۔ وہ محبّانہ جوشوں کے ظاہر کرنے کے لیے بڑے بہادر تھے اور اپنی تمام زندگی اسی راہ میں وقف کر رکھی تھی۔ اگرچہ بہت قلیل البضاعت آدمی تھے مگر ان کی نگاہ میں دینی خدمت کے لیے مال خاک سے زیادہ بےقدر تھا۔ اسرارِ معرفت کے سمجھنے کے لیے نہایت درجہ کا فہم سلیم رکھتے تھے۔ معرفت سے بھرا ہوا یقین جو اس عاجز کی نسبت وہ رکھتے تھے خدا تعالیٰ کے تصرف تام کا ایک معجزہ تھا۔ اُن کے دیکھنے سے طبیعت ایسی خوش ہوجاتی تھی جیسے ایک پھولوں اور پھلوں سے بھرے ہوئے باغ کو دیکھ کر طبیعت خوش ہوتی ہے۔ اے خدا اے چارہ سازِ ہر دل اندوہگیں اے پناہ عاجزان آمرزگارِ مذنبین از کرم آں بندۂ خود را بہ بخشش ہا نواز ایں جدا افتادگاں را از ترحم ہا بہ بین (ترجمہ:اے خدا، اے غمگین دل کے چارہ گر، اے عاجزوں کی پناہ اور اے گنہ گاروں کو بخشنے والے! مہربانی سے اپنے اس بندے پر بخشش فرما اور ان علیحدہ رہنے والوں پر نظرِ رحمت کر۔) حضرت مرزا عظیم بیگ صاحبؓ کی وفات کے قریباً چھ سال بعد جب حضورؑ نے اپنے ۳۱۳؍اصحاب کی فہرست تیار فرمائی تو۱۴۷ ویں نمبر پر آپؓ کا نام درج فرمایا: ’’میرزا عظیم بیگ صاحب مرحوم۔ سامانہ پٹیالہ‘‘۔ اسی طرح کتاب ’’انجام آتھم‘‘ میں ۳۱۳؍اصحاب کی فہرست میں آپؓ کے بھائی کا نام ۴۵ ویں نمبر پر درج فرمایا: ’’میرزا محمد یوسف بیگ صاحب سامانہ پٹیالہ۔‘‘ حضرت مرزا محمد یوسف بیگ صاحبؓ بھی دعویٰ بیعت سے بہت عرصہ قبل سے حضورعلیہ السلام سے تعلق رکھتے تھے۔ چنانچہ حضورؑ فرماتے ہیں: ’’… میرزا صاحب اُس وقت سے میرے ساتھ تعلق رکھتے ہیں جبکہ مَیں گوشہ نشینی کی زندگی بسر کر رہا تھا۔‘‘ (ملفوظات جلداوّل صفحہ۲۲۶) جنوری۱۸۸۸ء میں حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ کے نام محررہ ایک مکتوب میں بھی حضورؑ نے تحریر فرمایا: ’’ایک میرے دوست سامانہ علاقہ پٹیالہ میں ہیں جن کا نام مرزا محمد یوسف بیگ ہے …۔‘‘ (مکتوبات احمد جلددوم) آپؓ نے بھی یوم تاسیس پر بیعت کی توفیق پائی۔ حضورؑ نے ’’ازالہ اوہام‘‘ میں اپنے بعض مخلص احباب میں آپؓ کا یوں ذکر فرمایا: ’’حبّی فی اللہ مرزا محمد یوسف بیگ صاحب سامانوی۔ … اور وہ تمام الفاظ جو مَیں نے اخویم مرزا عظیم بیگ صاحب مغفورومرحوم کےبارے میں فتح اسلام میں لکھے ہیں ان سب کا مصداق میرزا محمد یوسف بیگ صاحب بھی ہیں۔ ان دونوں بزرگوار بھائیوں کی نسبت مَیں ہمیشہ حیران رہا کہ اخلاق اور محبت کے میدانوں میں زیادہ کس کو قرار دوں۔ میرزا صاحب موصوف ایک اعلیٰ درجہ کی محبت اور اعلیٰ درجہ کا اخلاص اور اعلیٰ درجہ کا حُسنِ ظن اس عاجز سے رکھتے ہیں اور میرے پاس وہ الفاظ نہیں جن کے ذریعہ سے مَیں اُن کے خلوص کے مراتب بیان کرسکوں۔ یہ کافی ہے کہ اشارہ کے طور پر مَیں اسی قدر کہوں کہ ھُوَ رَجُلٌ یُحِبُّنَا وَ نُحِبُّہٗ وَ نَسْئَلُ اللّٰہَ خَیْرَہٗ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃ۔ مرزا صاحب نے اپنی زبان اپنا مال اپنی عزت اس للّہی محبت میں وقف کر رکھی ہے اور ان کا مریدانہ و محبّانہ اعتقاد اس حد تک بڑھا ہوا ہے کہ اب ترقی کے لئے کوئی مرتبہ باقی نہیں معلوم ہوتا۔ …‘‘ ۱۸۹۹ء میں منعقد ہونے والے جلسہ الوداع کے موقع پر حضورؑ نے اپنی تقریر میں اپنے فدائی اصحاب کا ذکر کرتے ہوئے آپؓ کا ذکر یوں فرمایا: ’’میرزا یوسف بیگ صاحب میرے بہت ہی مخلص اور صادق دوست ہیں۔ … اُس وقت سے میرے ساتھ تعلق رکھتے ہیں جبکہ مَیں گوشہ نشینی کی زندگی بسر کر رہا تھا۔ مَیں دیکھتا ہوں کہ ان کا دل محبت اور اخلاص سے بھرا ہوا ہے اور وہ ہر وقت سلسلہ کی خدمت کے لئے اپنے اندر جوش رکھتے ہیں۔‘‘ (ملفوظات جلد اوّل صفحہ۲۲۵) آپؓ کے ایک بیٹے حضرت مرزا محمد ابراہیم بیگ صاحبؓ نے بھی پہلے روز ہی بیعت کی توفیق پائی تھی اور رجسٹر بیعت اولیٰ کے ریکارڈ میں چالیسویں نمبر پر اُن کا نام درج ہے۔ نیز ۳۱۳؍اصحاب کی فہرست میں بھی اُن کا نام ۱۴۸ویں نمبر پر درج ہے: ’’میرزا ابراہیم بیگ صاحب مرحوم سامانہ پٹیالہ‘‘۔ اُن کی بیماری کی اطلاع ملنے پر دعا کے نتیجے میں حضورؑ کو کشفًا اُن کی وفات اور انجام بخیر کی خبر اللہ تعالیٰ کی طرف سے پہلے ہی دے دی گئی تھی۔ جس کی اطلاع حضورؑ نے حضرت مرزا یوسف بیگ صاحب کو بذریعہ خط دے دی تھی اور اس الہامی خبر کی صداقت کو ’’تریاق القلوب‘‘ میں ۶۹ویں نشان کے طور پر بھی پیش فرمایا۔ حضورؑ نے اس کے گواہان میں حضرت مرزا یوسف بیگ صاحبؓ کا نام بھی رقم فرمایا ہے۔ حضرت مرزا یوسف بیگ صاحبؓ کی وفات بھی حضورعلیہ السلام کی زندگی میں ہی ہوگئی تھی تاہم اُن کی تاریخِ وفات کا علم نہیں ہے۔ ………٭………٭………٭……… محترم ڈاکٹر خالد یوسف صاحب روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ۱۳؍فروری۲۰۱۴ءمیں محترم ڈاکٹر خالدیوسف صاحب کی وفات کی خبر شائع ہوئی ہے جو ۷؍فروری ۲۰۱۴ء کو فضل عمر ہسپتال ربوہ میں ۴۷؍سال کی عمر میں انتقال کرگئے اور بوجہ موصی ہونے کے بہشتی مقبرہ ربوہ میں مدفون ہوئے۔ مکرم ڈاکٹر صاحب ۱۹۶۷ء میں نوابشاہ سندھ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم بھی وہیں سے حاصل کی اور پھر لیاقت میڈیکل کالج جام شورو حیدرآباد سے ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کی۔ پولی کلینک ہسپتال اسلام آباد میں ہاؤس جاب کرنے کے بعد اپنے آبائی شہر میں پرائیویٹ کلینک شروع کیا۔ ۲۰۰۸ء میں آپ کے والد محترم محمد یوسف صاحب کو مخالفین احمدیت نے شہید کردیا تو مارچ ۲۰۰۹ء میں آپ ہجرت کرکے ربوہ آگئے اور ۲۴؍مارچ سے فضل عمر ہسپتال ربوہ کے شعبہ ENT میں تعینات ہوئے۔ آپ بہت ملنسار، ہمدرد اور سادہ مزاج انسان تھے۔ خدمت خلق کا شوق تھا۔ ہسپتال کے اوقات کے بعد بھی ضرورت ہوتی تو بہت شوق اور توجہ سے مشورہ دیتے۔ دو سال جلسہ سالانہ قادیان میں شعبہ طبّی امداد میں مہمانوں کی خدمت کی توفیق بھی پائی۔ آپ کے لواحقین میں آپ کی بوڑھی والدہ، اہلیہ اور چار بچے شامل ہیں۔ ………٭………٭………٭……… حاصل مطالعہ روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ۱۳؍فروری۲۰۱۴ءمیں (مرسلہ:مکرم علیم احمد نعیم صاحب) قومی اخبارات سے تین اقتباسات منقول ہیں جن کا خلاصہ ہدیۂ قارئین ہے۔ ٭…محترم ڈاکٹر صفدر محمود لکھتے ہیں کہ کئی دانشور زندگی کی بےثباتی کا تمسخر اُڑاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ تصوّر ہماری پسماندگی کا ذمہ دار ہے کیونکہ زندگی کو اہمیت دیے بغیر ہم ترقی نہیں کرسکتے۔ جبکہ مجھے ڈاکٹر عبدالسلام صاحب سے ملنے کا دو تین بار اتفاق ہوا۔ وہ یقین رکھتے تھے کہ زندگی اذان سے نماز تک کا وقفہ ہی ہے۔ اس کے باوجود انہوں نے اس محدود وقفے میں اعلیٰ درجے کی تحقیق کی اور اعلیٰ ترین اعزاز حاصل کیا۔ ہم جانتے ہیں کہ دنیا میں نبیوں اور اولیائے کرام سے لے کر سائنس دانوں، مفکروں اور عظیم سیاسی راہنماؤں تک نے بنی نوع انسان کی زندگیوں کے نقشے بدل دینے کے کارنامے بھی اسی مختصر زندگی میں سرانجام دیے ہیں۔ ٭… محترمہ کشور ناہید لکھتی ہیں کہ ہر نئی دریافت پر مذہبی علماء کا ردّعمل نہایت مخالفانہ ہوتا ہے لیکن پھر وہ اُس کو اپنی زندگی کا حصہ بنالیتے ہیں۔ خواہ یہ لاؤڈسپیکر اور ٹیلی ویژن کی ایجاد ہو، چاند پر پہنچنے کا اعلان ہو۔ کچھ ایسا ہی حال آجکل پاکستان کے ایک حصے میں پولیو کے قطرے پلانے سے متعلق ہے کیونکہ ان قطروں کو حرام اور مردانہ جرثوموں کے لیے خطرناک قرار دیا جاچکا ہے۔ چنانچہ بعض تو پولیو قطرے پلانے والی خواتین کا قتل بھی ثواب سمجھ کر کرتے ہیں۔ ٭…جناب جاویدچودھری اپنے کالم میں لکھتے ہیں کہ ایک روز افلاطون نے اپنے استاد سقراط کو بتانا چاہا کہ اُن کا نوکر بازار میں اُن کے بارے میں ہرزہ سرائی کر رہا تھا۔ سقراط نے افلاطون کو ہاتھ کے اشارے سے روکا اور پھر کہا کہ کسی کو ایسی بات بتانے سے پہلے تین باتیں خود سوچو۔ پہلی یہ کہ جو بتانے جارہے ہو کیا وہ سچ ہے؟ دوسری یہ کہ کیا یہ بات احسن یعنی اچھی ہے؟ اور تیسری یہ کہ اُس بات سے سننے والے کو کوئی فائدہ حاصل ہوگا؟ اگر ان تینوں سوالوں کا جواب ہاں میں ہو تو وہ بات بتادو ورنہ اسے نہ بتانا ہی بہتر ہے۔ ………٭………٭………٭……… سی لینڈ (Sea Land) بحری جہاز کے برابر دنیا کے آزاد ملک ’سی لینڈ‘ کے بارے میں ایک مختصر معلوماتی مضمون روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ ۸؍جولائی ۲۰۱۴ء میں روزنامہ ’’پاکستان‘‘ سے منقول ہے۔ سی لینڈ کی آبادی صرف بائیس افراد پر مشتمل ہے۔ اس ملک کی اپنی کرنسی، ڈاک ٹکٹ اور قومی ترانہ بھی ہے جبکہ ایک شہزادہ اور شہزادی بھی ہے۔ اس نے ۱۹۶۷ء میں اپنی آزادی کا اعلان کیا تھا۔ دراصل یہ ایک پرانا قلعہ تھا جس پر دوسری جنگ عظیم کے دوران برطانیہ کے ایک سابق میجر رائے بیٹس نے قبضہ کرلیا تھا۔ ۱س قلعے کو ۱۹۵۰ء کی دہائی میں خالی چھوڑ دیا گیا اور میجر رائے نے ماہی گیری اور براڈکاسٹنگ کے مشاغل اختیار کرلیے لیکن پھر برطانوی حکومت کی پابندیوں سے تنگ آکر اُس نے بالآخر اس قلعے میں اپنی بیوی ہوان کے ساتھ رہائش اختیار کرلی اور اسے برطانیہ سے آزاد ریاست قرار دے کر دونوں میاں بیوی یہاں کے بادشاہ اور ملکہ بن گئے۔ یہاں کے لوگ سمندر کے پانی کو خود ہی قابل استعمال بناتے ہیں اور اپنی آمدنی کے لیے ایک آن لائن دکان چلاتے ہیں جس کے ذریعے اپنی ریاست کی یادگاری اشیاء اور قومی القابات بیچتے ہیں۔ اس ریاست کا دعویٰ ہے کہ جرمنی اور فرانس نے اس کی آزاد حیثیت کو تسلیم کرلیا ہے۔ اس وقت میجر رائے کا بیٹا مائیکل سلطنت کا حکمران ہے۔ ………٭………٭………٭……… مزید پڑھیں: الفضل ڈائجسٹ