https://youtu.be/UeEtT3ZFm3A ٭… آنحضرتﷺ کی بہترین فوجی حکمتِ عملی اور دعاؤں کے سبب اتنا بڑا معجزہ رونما ہوتا ہے کہ مدینے سے چلنے والا دس ہزار کا لشکر تقریباً چار سَو کلومیٹر کا سفر کرتا ہوا مکےسے عین پانچ میل کے فاصلے پر ڈیرے لگا چکا ہے لیکن ابھی تک مکے والوں کو خبر نہیں پہنچی ٭…احزاب میں دس بارہ ہزار آدمی تھا۔ گویا عرب کی تاریخ میں اتنے بڑے لشکر کی یہ دوسری مثال تھی۔ لیکن مدینے سے اتنا بڑا لشکر نکلتا ہے اور کسی کو اس کی خبر تک نہیں ہوتی اور پھر اللہ تعالیٰ معجزانہ طور پر دکھاتا ہے کہ مَیں اس نوبت خانے کو بجاتا ہوں جو میرا ہے اور اُس نوبت خانےکو توڑ رہا ہوں جو اُن کا ہے (حضرت مصلح موعودؓ)٭… عالمی حالات کے تناظر میں دعاؤں کی تحریک خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲۰؍جون ۲۰۲۵ء بمطابق ۲۰؍احسان ۱۴۰۴؍ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے اميرالمومنين حضرت خليفة المسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے مورخہ ۲۰؍جون ۲۰۲۵ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت مولانا فیروز عالم صاحب کے حصے ميں آئي۔ تشہد،تعوذاور سورة الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنےفرمایا: غزوہ مکّہ کا ذکر ہورہاتھا۔ اس کےلیے روانہ ہونےسے پہلے ذکرملتا ہے کہ ایک صحابی نے اپنی ناسمجھی میں آنحضورﷺکے اِس سفر کی اطلاع مکّہ والوں کو دینےکی کوشش کی تھی۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو اس کی اطلاع دے دی اور یوں آنحضورﷺ کے اس منصوبے کی اطلاع کافروں کو نہ پہنچ سکی۔ مدینے میں جب مکے جانےکی تیاریاں شروع ہوئیں تو ایک بدوی صحابی حاطب بن ابی بلتعہ نے قریش کی طرف ایک خط لکھ کر اطلاع دینےکی کوشش کی کہ رسول اللہﷺ تمہاری طرف روانگی کا پروگرام بنا چکے ہیں۔ آپؓ نے یہ خط ایک عورت کو دیا کہ وہ اس خط کو مخفی رکھتے ہوئے مکہ والوں کو پہنچا دے۔ اس عورت نے خط کو اپنے سر کی چوٹی میں رکھ لیا اور عام راستے سے ہٹ کر مکّہ کی طرف روانہ ہوگئی۔ اللہ تعالیٰ نے اس خط کے متعلق آپؐ کو اطلاع دے دی۔ آپؐ نے حضرت علیؓ کو بلایا اور ایک دوسرے صحابی کے ساتھ انہیں روانہ کیا تاکہ وہ یہ خط لا سکیں۔ اِن صحابہ نے اُس عورت کو جالیا اور خط کا تقاضا کیا، ابتداءًاُس عورت نے انکار کیا تاہم سختی سے پوچھنے پر خط نکال کر پیش کردیا۔ حضرت علیؓ وغیرہ اُس عورت کو لے کررسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضرت حاطب بن ابی بلتعہ نے کہا کہ مَیں غدار نہیں ہوں، بس مَیں نے چاہا کہ اہلِ مکّہ پر میرا کوئی احسان ہو جس کے بدلے میں میری جائیداد اور بال بچے محفوظ رہیں۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ اس نے سچ کہا ہے پس تم بھی اس کے متعلق بھلی بات کے سِوا کچھ نہ کہو۔ پھر آپؐ نے حضرت عمر ؓسے پوچھا کہ کیا یہ غزوہ بدر میں شامل نہیں تھا۔ یہ سُن کرحضرت عمرؓ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور آپؓ نے عرض کیا کہ اللہ اور اُس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔ اس کے بعد آنحضورﷺ نے سفر شروع کیا۔ آپؐ مہاجرین، انصار اور عرب کے دوسرے لوگوں کے ساتھ روانہ ہوئے جبکہ رمضان کے دس روز گزر چکےتھے۔ مسند احمد کی روایت کے مطابق آپؐ ۲؍رمضان کو مدینے سے روانہ ہوئے، شارح بخاری علامہ ابن حجر نے بھی ۲؍رمضان والی روایت کو ترجیح دی ہے۔ مدینے سے روانگی کے وقت اس سفر میں تقریباً سات ہزار چار سَو جاںباز شامل تھے ۔رستے میں اِس تعداد میں اضافہ ہوتا گیا۔ بعض کتب میں اس لشکر کی تعداد بارہ ہزار بھی بیان ہوئی ہے لیکن زیادہ تر کتب میں یہ تعداد دس ہزار بیان ہوئی ہے اور یہی زیادہ درست معلوم ہوتی ہے۔ اس سفر میں آپؐ کے ساتھ ازواجِ مطہرات میں سے حضرت ام سلمہ ؓتھیں۔ بعض روایات کے مطابق حضرت میمونہؓ بھی آپؐ کے ساتھ تھیں۔ بعض روایات میں ذکر ملتا ہے کہ صاحبزادی حضرت فاطمہؓ بھی آپؐ کے ساتھ تھیں۔ یہ سفر رمضان کے مہینے میں ہوا تھا۔ سفر کے ابتدائی چند دن آپؐ نے روزہ رکھا اور پھر آپؐ نے روزہ نہیں رکھا، بلکہ باقی صحابہ ؓکو بھی روزہ رکھنے سے منع فرمایا۔ اس سفر کے دوران جانوروں سے ہمدردی کا ایک واقعہ یوں ملتا ہے کہ راستے میں آنحضورﷺ نے ایک کتیا دیکھی جس کے بچے اس کا دودھ پی رہے تھے۔ آپؐ نے ایک صحابی کو حکم دیا کہ وہ اُس کتیا کے سامنے کھڑے ہوجائیں تاکہ لشکر میں سے کوئی اس کتیا یا اس کے بچوں سے تعارض نہ کرے۔ آپؐ نے جاسوسوں کو پکڑنےکےلیے ایک گھڑ سوار دستہ آگے روانہ کیا ہواتھا۔ یہ دستہ بنوہوازن کا ایک جاسوس گرفتار کرکے لے آیا۔آنحضورﷺ نے اس سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ ہوازن آپ کے لیے جمع ہورہے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا کہ اللہ ہمارے لیے کافی ہے اور وہ بہترین مددگار ہے۔ آپؐ نے حضرت خالد بن ولید ؓکو حکم دیا کہ اس جاسوس کو روکے رکھیں تاکہ وہ آگے جاکر لوگوں کو اطلاع نہ کردے۔ آنحضرتﷺ نے مسلمانوں کو قبائل میں تقسیم کرکے اُن کی لشکر بندی کی۔ ہر قبیلے کی فوج پر ان ہی میں سے ایک افسر مقرر کیا گیا۔ انصار کو خاندانی بنیاد پر بارہ دستوں میں تقسیم کیا۔ چھ دستے اوس کے اور چھ دستے خزرج کے مقرر فرمائے۔ مہاجرین کے تین جھنڈے حضرت علی بن ابی طالبؓ، حضرت زبیر بن العوامؓ اور حضرت سعد بن ابی وقاص ؓکے پاس تھے۔ اسی سفر کے دوران آنحضرتﷺ کے چچازاد اور رضاعی بھائی حضرت ابوسفیان بن حارث ان کے بیٹے جعفر اور عبداللہ بن ابی امیہ بن مغیرہ کے ایمان لانے کا ذکر ملتا ہے۔ یہ اسلام کے شدید معاند تھےاس لیے آپؐ کے سامنے آنے سے ڈرتے تھے۔ ام المومنین حضرت اُمِ سلمہ جو عبداللہ بن ابی امیہ کی بہن تھیں انہوں نے آپؐ سے عرض کیا کہ آپؐ کے چچازاد ابوسفیان اور پھوپھی زادعبداللہ آپؐ سے ملنے کے خواہش مند ہیں۔ آنحضورﷺ نے فرمایا مجھے اِن کی ضرورت نہیں مَیں ان سے ملنا نہیں چاہتا۔ میرے چچازاد نے تو میری ہتک کی ہے۔ یہ شاعر تھے اور آپؐ کی ہجو کیا کرتے تھے اور عبداللہ نے تو مکے میں کیا کیا ظالم نہیں کیے۔ یہ بات ابو سفیان بن حارث کو پہنچی تو انہوں نے جذبات سے مغلوب ہوکر کہا کہ اگر محمدﷺ مجھ سے راضی نہیں ہوتے اور ملنے کی اجازت نہیں دیتے تو مَیں اپنے بیٹے کو لے کر صحراؤں کی طرف نکل جاؤں گا یہاں تک کہ بھوک اور پیاس سے مر جاؤں۔ نبی کریم ﷺ کو یہ بات معلوم ہوئی تو آپؐ کا دل فوراً نرم ہوگیا۔ آپؐ نے دونوں کو بلایا اور انہیں شرفِ ملاقات بخشا۔ حضرت ابو سفیان بن حارث ؓکی وفات پندرہ یا بیس ہجری میں ہوئی تھی اور حضرت عمرؓ نے آپؓ کی نمازِ جنازہ پڑھائی تھی۔ حضرت عبداللہ بن ابی امیہ بن مغیرہؓ کا نام حذیفہ تھا اور آپؓ حضورﷺ کی پھوپھی عاتکہ کے بیٹے تھے۔ آپؓ ام المومنین حضرت ام سلمہؓ کے بھائی بھی تھے۔ آپؓ نے اسلام قبول کرنے کے بعد بڑی جانفشانی سے جنگِ حنین میں حصّہ لیا اور غزوہ طائف میں ایک تیر لگنے سے شہادت پائی۔ اس مہم میں حضرت عباس کی لشکرِ اسلام میں شمولیت کے متعلق لکھا ہے کہ جب آنحضورﷺ نے مدینے سے مکے کی طرف سفر شروع کیا تو حضرت عباسؓ نے مدینے کی طرف ہجرت کے لیے رختِ سفر باندھا۔ حضرت عباسؓ جحفہ میں آنحضرتﷺ سے آملے، آپؓ نے اپنا سامان مدینے بھیج دیا اور خود آنحضورﷺ کے ساتھ مکے کی جانب چل پڑے۔ آپؓ آنحضورﷺ کے چچا تھے اور عمر میں حضورﷺ سے دو یا تین سال بڑے تھے۔ اپنے بیٹے فضل بن عباس کی وجہ سے ابو الفضل کی کنیت سے معروف تھے۔ حضرت ابو طالب کے بعد سقایہ یعنی حاجیوں کو پانی پلانا آپؓ کے ذمہ تھا۔ آپؓ جنگِ حنین میں آنحضرتﷺ کے ساتھ ثابت قدم رہے، بتیس یا تینتیس ہجری میں آپؓ کی وفات ہوئی۔ آنحضرتﷺ کی بہترین فوجی حکمتِ عملی اور دعاؤں کے سبب اتنا بڑا معجزہ رونما ہوتا ہے کہ مدینے سے چلنے والا دس ہزار کا لشکر تقریباً چار سَو کلومیٹر کا سفر کرتا ہوا مکےسے عین پانچ میل کے فاصلے پر ڈیرے لگا چکا ہے لیکن ابھی تک مکے والوں کو خبر نہیں پہنچی۔ آنحضرتﷺ نے عشاء کے وقت مکہ سے پانچ میل کے فاصلے پر مرالظہران میں پڑاؤ کیا اور صحابہ ؓکو حکم دیا تو انہوں نے دس ہزار آگیں روشن کیں۔ آنحضورﷺ نے حضرت عمرؓ کو لشکر کی نگہداشت کے لیے مقرر کیا۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ احزاب کی تاریخ کے سوا اتنا بڑا لشکر عرب کی تاریخ میں تیار نہیں ہوا۔ احزاب میں دس بارہ ہزار آدمی تھا۔ گویا عرب کی تاریخ میں اتنے بڑے لشکر کی یہ دوسری مثال تھی۔ لیکن مدینے سے اتنا بڑا لشکر نکلتا ہے اور کسی کو اس کی خبر تک نہیں ہوتی اور پھر اللہ تعالیٰ معجزانہ طور پر دکھاتا ہے کہ مَیں اس نوبت خانے کو بجاتا ہوں جو میرا ہے اور اُس نوبت خانےکو توڑ رہا ہوں جو اُن کا ہے۔ چنانچہ جب رسول کریمﷺ نکلے تو آپ نے فرمایا کہ اے میرے خدا! مَیں تجھ سے دعا کرتا ہوں کہ تُو مکّے والوں کے کانوں کو بہرا کردے اور ان کے جاسوسوں کو اندھا کردے، نہ وہ ہمیں دیکھیں اور نہ اُن کے کانوں تک ہماری کوئی بات پہنچے۔ مدینے میں سینکڑوں منافق موجود تھے، مگر دس ہزار کا لشکر مدینے سے نکلتا ہے اور مکے والوں کو کوئی خبر نہیں پہنچتی۔ مکہ والے فکرمند ضرور تھے کہ آپؐ ان پر حملہ آور ہوسکتے ہیں مگر انہیں اندازہ نہیں تھا کہ آپؐ اتنا بڑا لشکر لےکر اُن کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ مکہ والے خطرے کے پیشِ نظر راتوں کو اردگرد گشت کیا کرتے تھے۔ ایسی ہی ایک رات ابو سفیان اپنے دو ساتھیوں حکیم بن حزام اور ایک اور سردار کے ساتھ گشت کر رہے تھے کہ انہوں نے اتنی بڑی تعدا میں آگیں دیکھیں تو اندازے لگانے لگے۔ ان آگوں نے ابوسفیان اور اس کے ساتھیوں کو خوف زدہ کردیا۔ ابھی وہ یہ باتیں کر رہے تھے کہ آنحضرتﷺ کے جاسوسوں نے انہیں پکڑ لیا اور آنحضورﷺ کی خدمت میں پیش کرنے کے لیے لے گئے۔ حضورِانور نے فرمایا کہ اس کی کافی لمبی تفصیل ہے جو ان شاء اللہ آئندہ بیان ہوگی۔ خطبے کے آخری حصّے میں حضورانور نے دعاؤں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کہ جیسا کہ مَیں ہمیشہ کہتا ہوں دعاؤں کی طرف توجہ دیتے رہیں۔اللہ تعالیٰ دنیا کو فسادوں سے بچائے۔ اور ابھی جو صورتحال اوپر نیچے ہورہی ہے، اللہ تعالیٰ کرے کہ یہ بہتری کی طرف چلی جائے، مزید تباہی کی طرف نہ جائے۔ ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: غزوہ فتح مکہ کےتناظر میں سیرت نبوی ﷺ کا بیان نیز عالمی حالات کے پیش نظر دعاؤں کی تحریک۔ خلاصہ خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۰؍جون ۲۰۲۵ء