https://youtu.be/os3tDfQXGC0 ٭…حضرت موسیٰؑ اور حضرت خضرؑ کی کہانی کی حقیقت کیا ہے؟ ٭…قرآن مجید میں بہت سی جگہوں پر لوگوں سے ہونے والی غلطیوں کی وجہ اور ذمہ داری لوگوں پر ڈالنے کی بجائے شیطان پر ڈال دی جاتی ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ ٭…ایک دہریہ دوست نے پوچھا ہے کہ کہا جاتا ہے کہ ہم خدا پر ایمان رکھتے ہیں لیکن یہ نہیں کہا جاتا کہ ہمیں خدا کا علم ہے۔اس کا کیا جواب ہے؟ ٭…کیا بینک سے قرض لے کر گاڑی خریدی جا سکتی ہے؟ سوال: ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ میں جاننا چاہتا ہوں کہ حضرت موسیٰؑ اور حضرت خضرؑ کی کہانی کی حقیقت کیا ہے، کیا واقعی ایسا ہوا تھا یا یہ ایک روحانی سفر کا ذکر ہے۔ جماعتی لٹریچر میں اس واقعہ کے ظاہری اور کشفی ہونے کےبارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔اصل بات کیا ہے؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ ۱۶؍ستمبر ۲۰۲۳ء میں اس بارے میں درج ذیل ہدایات عطا فرمائیں۔ حضور انور نے فرمایا: جواب: پہلی بات یہ کہ قرآن کریم جو خدا تعالیٰ کی آخری شرعی کتاب ہے اور جس کے علم ومعرفت قیامت تک ممتد ہیں۔ اور حسب قرآنی تعلیم وَإِنْ مِّنْ شَيْءٍ إِلَّا عِنْدَنَا خَزَآئِنُهُ وَمَا نُنَزِّلُهٗٓ إِلَّا بِقَدَرٍ مَّعْلُومٍ۔ (الحجر:۲۲) یعنی کوئی چیز ایسی نہیں جس کے (غیر محدود) خزانے ہمارے پاس نہ ہوں۔ لیکن ہم اسے ایک معین اندازے سے ہی اتارا کرتے ہیں۔اللہ تعالیٰ ہر زمانہ کی ضرورت کے مطابق اپنے انبیاء، اولیاء اور فرستادوں کو قرآنی علوم کی معرفت عطا فرماتا ہے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: اس آیت سے صاف طور پر ثابت ہواکہ ہر یک چیز جو دنیا میں پائی جاتی ہے وہ آسمان سے ہی اُتری ہے۔ اس طرح پر کہ اِن چیزوں کے علل موجبہ اُسی خالق حقیقی کی طرف سے ہیں اورنیز اس طرح پر کہ اُسی کے الہام اورالقاء اورسمجھانے اورعقل اورفہم بخشنے سے ہر یک صنعت ظہورمیں آتی ہے لیکن زمانہ کی ضرورت سے زیادہ ظہور میں نہیں آتی اور ہریک مامور من اللہ کو وسعت معلومات بھی زمانہ کی ضرورت کے موافق دی جاتی ہے۔ علیٰ ہذا القیاس قرآن کریم کے دقائق و معارف و حقائق بھی زمانہ کی ضرورت کے موافق ہی کھلتے ہیں۔ (ازالۂ اوہام حصہ دوم، روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۴۵۱،۴۵۰) دوسری بات یہ ہے کہ آنحضور ﷺ جن کے قلب مطہر پر اس شریعت کا نزول ہوا، آپؐ نے قرآن کریم کے علم و معرفت کی وسعت اور اس کے غیر محدود معانی کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا أنزل القرآن على سبعة أحرف لكل آية منها ظهر وبطن ولكل حد مطلع۔(مشکوٰۃ المصابیح کتاب العلم، الفصل الثانی حدیث نمبر۲۳۸)یعنی قرآن کریم سات پہلوؤں پر اتارا گیا ہے اور اس کی ہر آیت کا ایک ظاہری پہلو ہے اور ایک باطنی پہلو ہے۔ پس قرآن کریم اور آنحضور ﷺ کی بیان فرمودہ ان صداقتوں کی بنیاد پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرآن کریم میں بیان حضرت موسیٰ علیہ السلام اور اللہ تعالیٰ کے ایک عبد صالح کے واقعہ کو بیان کرتے ہوئے اس آیت کا ظاہری مفہوم بیان فرمایا ہے، کیونکہ اس زمانہ میں عام مسلمانوں میں یہی تشریح رائج تھی۔ علاوہ ازیں اس وقت زمانہ کی یہی ضرورت تھی کہ ان آیات کے ظاہری معانی بیان کر کے لوگوں کو ان کے اس غلط تصور کہ اللہ تعالیٰ نبیوں کے علاوہ کسی اور کی طرف وحی نازل نہیں کر سکتا ہے کو بدلائل ردّ کر کے اس غلطی کی اصلاح کی جائے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے عوام الناس اور خاص طور پر علماء امت پر ان آیات کے ظاہری مطالب سے استدلال کر کے یہ بات واضح فرمائی کہ اللہ تعالیٰ کسی غیر نبی کی طرف بھی وحی و الہام نازل کر سکتا ہے۔ آپ نے اپنی اس بات کی تائید کے لیے قرآن کریم سے چار مثالیں بیان فرمائیں جن میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ حضرت مریم، حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے واقعات میں اس مرد خدا کا ذکر کر کے ان تمام لوگوں کی طرف وحی کے نزول کا قرآن کریم سے ثبوت بیان فرمایا۔ نیز حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اُمّ موسیٰؑ اور حضرت موسیٰ ؑکے ساتھ اس مرد خدا کے واقعات سے یہ بھی استدلال فرمایا کہ نبی کے علاوہ ایک ولی کا الہام بھی یقینی ہی ہوتا ہے۔ اسی لیے ام موسیٰ نے اپنے الہام کو برحق اور یقینی خیال کر کے اپنے نوزائیدہ بچہ کو دریا میں ڈال کر اسے ہلاکت کی حد تک پہنچا دیا اور اس عبدصالح نے اپنے الہام کو برحق اور یقینی خیال کر کے ایک بچہ کو قتل کر دیا۔ اگر یہ لوگ اپنے الہام کو برحق اور یقینی خیال نہ کرتے تو ہر گز ایسا نہ کرتے۔ پھر حضور علیہ السلام نے حضرت موسیٰ اور اس عبدصالح کے واقعہ سے تیسرا استدلال یہ فرمایا کہ ایسے اولیاء اللہ جو اعلیٰ درجہ کے مقام ولایت پر فائز ہوں اور جن کا دیگر دلائل اور آسمانی نشانات کے ذریعہ ملہم من اللہ ہونا یقینی طور پر ثابت ہو ان کا قول و فعل اگر ہماری سمجھ میں نہ آئے تو ہمیں ان پر اعتراض نہیں کرنا چاہیے کیونکہ ہم ان کی کنہ تک نہیں پہنچ سکتے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بیان فرمودہ یہ تمام استدلال ان آیات کے ظاہری مفہوم کو بیان کرنے سے ہی ہوسکتے تھے، نہ کہ ان کے باطنی معانی بیان کر کے۔ اس لیے آپ نے ان آیات کے ظاہری مطلب پر ہی اکتفا فرمایا۔ پھر خلافت احمدیہ کے عہد مبارک میں جب ان قرآنی آیات کے باطنی معانی بیان کرنے کا وقت آیا تو آنحضورﷺ کی پیشگوئیوں کے عین مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ قائم ہونے والی خلافت حقہ اسلامیہ احمدیہ کے مظاہر نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہونے والے علم لدنی کے ذریعہ اپنے اپنے وقت میں ان آیات کے باطنی مطالب بھی بیان کرتے ہوئے ان کی نہایت بصیرت افروز تفاسیر بیان فرمائیں۔چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ نے اس واقعہ کو کشفی قرار دیتے ہوئے اسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا معراج قرار دیا۔ اور جس شخص کی ملاقات کے لیے حضرت موسیٰؑ اس روحانی سفر پر روانہ ہوئے تھے اسے فرشتہ سے تعبیر فرمایا اور فرمایا کہ اس واقعہ کے معراج ہونے کی اس بات سے بھی تائید ہوتی ہے کہ یہودیوں میں اب تک ایک پرانی کتاب چلی آتی ہے جس کا نام معراج موسیٰ ہے۔ اس میں جس فرشتہ کو حضرت موسیٰ ؑکا رہبر بتلایاجاتا ہے اس کا نام خضر لکھا ہے۔ اس روحانی سفر کے قرآن کریم میں بیان کا مقصد حضرت نبی کریم ﷺ کو آئندہ کے واقعات کی خبر دینا تھا۔دیوار والے معاملہ کی حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ نے یہ تعبیر بیان فرمائی کہ حضرت ابراہیم ؑکے دین کو جب لوگوں نے خراب کر دیا تو ان کی وہ دیوار گرنے والی ہو گئی، جس کی حفاظت کے لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰؑ اور ہمارے نبی کریم ﷺ کو بھیجا۔ جنہوں نے اس گرتی ہوئی دیوار کو دوبارہ اٹھایا اور اس طرح وہ پاک تعلیمات کا خزانہ محفوظ رہا۔ (ملخص از حقائق الفرقان جلد سوم صفحہ ۲۶ تا ۳۲) اسی طرح حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے سورۃالکہف کی تفسیر میں اس واقعہ کی مفصل تفسیر بیان کرتے ہوئے اس واقعہ کو حضرت موسیٰ ؑکا معراج قرار دیا ہے اور اسے مختلف اندرونی اور بیرونی شہادتوں اور دلائل کے ذریعہ کشفی واقعہ ثابت کیا ہے اور اس میں مذکور عبد صالح کو ہمارے آقا و مولیٰ سیدنا حضرت اقدس محمد مصطفیٰ ﷺ کے وجود باجود سے تعبیر فرمایا۔ نیز بتایا ہے کہ یہ روحانی سفر امت محمدیہ کے حالات کے بارے میں آئندہ کی خبروں پر مشتمل تھا جو کشفی رنگ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ظاہر کی گئی تھیں اور اس واقعہ میں امت محمدیہ اور امت موسویہ کے حالات کا مقابلہ کر کے دکھایا گیا ہے۔علاوہ ازیں حضرت مصلح موعودؓ نے اس واقعہ میں مذکور مختلف چیزوں اور باتوں کی بھی نہایت بصیرت افروز اور مدلل تعبیر بیان فرمائی ہے۔ (تفسیر کبیر جلد چہارم صفحہ ۴۶۵ تا ۴۹۰، مطبوعہ قادیان ۲۰۰۴ء) پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپؑ کے خلفاء کے بیان فرمودہ دونوں مطالب اور دونوں تفاسیرقرآن کریم اور آنحضور ﷺ کے ارشادات کی روشنی میں اپنی اپنی جگہ بالکل درست اور وقت کی ضرورت کے عین مطابق ہیں۔اور ان میں کسی قسم کا کوئی تضاد نہیں ہے۔ باقی اس واقعہ کے حوالے سے آپ نےجو سوال اٹھائے ہیں، ان تمام سوالات کا جواب بھی حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی بیان فرمودہ تفسیر میں تفصیل کے ساتھ موجود ہے۔ جیساکہ میں نے آپ کو پہلے بھی لکھا تھا کہ آپ کو صرف Five Volume Commentary پڑھنے کا موقع ملا ہے، جو جماعت احمدیہ نے اپنے وسائل کے مطابق حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی معرکہ آراء تفسیر القرآن (تفسیر کبیر) کے خلاصہ نیز حضور ؓ کے تفسیر کبیر کے لیے تیار کردہ نوٹس کی مدد سے انگریزی زبان سمجھنے والوں کے لیے انگریزی میں ایک مختصر سی تفسیر تیار کی ہے تا کہ انگریزی پڑھنے والے احباب اس کے ذریعہ قرآن کریم کے مضامین کو کسی حد تک سمجھ سکیں۔اور چونکہ یہ خلاصہ کی صورت میں ہے اس لیے اس میں تفصیل درج نہیں کی جا سکی۔ اس لیے اگر آپ اپنے علم کو وسیع کرنا چاہتے ہیں اور قرآن کریم کی مفصل تفسیر پڑھنا چاہتے ہیں تو آپ کو تفسیر کبیر کا بھی مطالعہ کرنا چاہیے۔ سوال: ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں لکھا کہ قرآن مجید میں بہت سی جگہوں پر لوگوں سے ہونے والی غلطیوں کی وجہ اور ذمہ داری لوگوں پر ڈالنے کی بجائے شیطان پر ڈال دی جاتی ہے مثلاً حضرت موسیٰ ؑ کے ساتھی کے ہاتھ سے مچھلی نکل گئی تو اس کو شیطان پر ڈال دیا گیا۔ حضرت یوسف ؑکے قیدی ساتھی کے بادشاہ کو حضرت یوسفؑ کی اطلاع نہ کرنے کے عمل کو بھی شیطان پر ڈال دیا گیا ہے، اس کی کیا وجہ ہے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ ۲۶؍ستمبر ۲۰۲۳ء میں اس سوال کے بارے میں درج ذیل راہنمائی فرمائی۔ حضور انور نے فرمایا: جواب: اصل بات یہ ہے کہ شیطان نے تخلیق آدم کے وقت ہی اللہ تعالیٰ سے کہا تھا کہ وہ قیامت تک آدم کی اولاد کو بہکانے اور اسے راہ راست سے برگشتہ کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتا رہے گا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے اس چیلنج کو قبول کرتے ہوئے فرمایا کہ جو میرے بندے ہوں گے ان پر تیرا تصرف نہیں ہو گا۔(الحجر:۴۰ تا ۴۳) پس ہر غلطی اور برائی کا منبع چونکہ شیطان یا اس کی طرف سے پیدا کیے جانے والے شیطانی خیالات ہوتے ہیں اس لیے جب کسی انسان سے کوئی غلطی سر زد ہوتی ہے تو اس کو شیطان کی طرف منسوب کیا جاتا ہے کیونکہ یہ شیطان اور اس کا قبیلہ ہی ہے جو ہر وقت انسان کو راہ راست سے بھٹکانے کی ٹوہ میں لگا رہتا ہے اور کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا جس میں کہ وہ انسانوں کو خدا تعالیٰ کے راستہ سے برگشتہ نہ کرے۔ لیکن اس کے ساتھ یہ حقیقت بھی ہے کہ جہاں شیطان انسان کو بہکانے کی کوشش کرتا ہے وہاں اللہ تعالیٰ بھی اپنے فرشتوں اور ان کے ذریعہ پیدا ہونے والی نیکی کی تحریکات کے ذریعہ اپنے نیک بندوں کی راہنمائی کرتا ہے۔اس لیے اگر کبھی نیک بندوں سے کوئی غلطی سرزد ہو جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے ان نیک بندوں کو اس غلطی پر قائم نہیں رکھتا بلکہ ان کی اصلاح فرما دیتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ یہ بھی بات یاد رکھنی چاہیے کہ دونوں معاملات میں ہی چاہے وہ گمراہی کا معاملہ ہو یا ہدایت کا کسی انسان پر جبر نہیں کیا گیا۔ بلکہ ہدایت اور گمراہی کے راستوں کو واضح کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کے چننے کا اختیار انسان ہی کو دیا ہے۔ چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ اس مضمون کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:باری تعالیٰ کی مقدس بابرکت ذات پاک نے انسان کو استطاعت، نیک و بد کی تمیز۔ عقل اور فطرت مرحمت فرما کر ہزاروں ہزار انبیاء اور رسول اور کتابیں اور اپنی رضامندی کے اسباب بتا کر دنیا میں ہدایت کو پھیلایا ہے اور انبیاء اور ان کے سچے اتباع اور فرمانبرداروں کی ہمیشہ نصرت اور اعانت فرمائی ہے۔ ہاں! بااستطاعت انسان پر جبر نہیں فرمایا کہ اس کی گردن پکڑ کر اس سے نیک اعمال کرائے۔ شیطان اور اس کے ذرّیات کے وجود سے یہ فائدہ ہے کہ انسانوں میں فرمانبرداروں کو فرماں برداری کی خلعت و عزت عطا فرماوے مگر پھر بھی شیطان کو یہ اختیار نہیں دیا کہ لوگوں کو بجبر گمراہ کرے۔ (نورالدین بجواب ترک اسلام صفحہ ۱۰۷ ) سوال: جرمنی سے ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں لکھا کہ ایک دہریہ دوست نے پوچھا ہے کہ کہا جاتا ہے کہ ہم خدا پر ایمان رکھتے ہیں لیکن یہ نہیں کہا جاتا کہ ہمیں خدا کا علم ہے۔ اس کا کیا جواب ہے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ ۲۷؍ستمبر ۲۰۲۳ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا۔ حضور انور نے فرمایا: جواب:خدا تعالیٰ کی ذات ازلی و ابدی اور غیر محدود ہے، جس کا احاطہ انسانی عقل ہر گز نہیں کر سکتی، کیونکہ انسان عقلی طور پر کسی محدود چیز کا ہی علم و ادراک کر سکتا ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے: لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ۔(الانعام:۱۰۴)کہ آنکھیں اس کو نہیں پا سکتیں ہاں وہ خود آنکھوں تک پہنچتا ہے اور وہ بہت باریک بین اور ہمیشہ باخبر رہنے والا ہے۔ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے علم کے زور سے اللہ تعالیٰ کو نہیں دیکھ سکتا۔ مگر خداتعالیٰ اپنے فضل سے اس کے پاس آکر جلوہ گر ہوتا ہے اور اس طرح انسان کو اس کی رؤیت ہوتی ہے۔چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ گذشتہ زمانوں میں بھی ہزاروں لاکھوں انسان ایسے گزرے ہیں اور اب بھی دنیا میں ایسے لوگ موجود ہیں، جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے ہونے کی اس طرح خبر دی کہ ان کی دعاؤں کو سنا، ان کے ذریعہ خارق عادت معجزات دنیا میں ظاہر فرمائے، مستقبل میں ہونے والے واقعات کے بارے میں انہیں پیشگی اطلاع دی اور پھر ان پیش خبریوں کے عین مطابق ان واقعات کو دنیا میں رونما فرمایا۔ نیز اپنے ان پیاروں کے لیے اس نے اپنی قدرت سے ایسے ایسے خارق عادت عجائبات دکھائے جن کا انسانی ہاتھ سے ظہور محال تھا۔ اس مضمون کو بیان کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے ایک شعر میں فرماتے ہیں: قدرت سے اپنی ذات کا دیتا ہے حق ثبوت اس بے نشاں کی چہرہ نمائی یہی تو ہے اسی طرح ایک اَور جگہ حضور علیہ السلام فرماتے ہیں: لَاتُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ کے یہی معنی ہیں کہ وہ صرف عقلوں کے ذریعہ سے شناخت نہیں کیا جاسکتا بلکہ خود جوذریعے اس نے بتلائے ہیں ان سے ہی اپنے وجود کو شناخت کرواتا ہے۔(ملفوظات جلد۳صفحہ ۵۹۰۔ ایڈیشن ۲۰۰۳ء) پس انسان اپنے طور پر تو اس لا محدود ہستی کا علم حاصل نہیں کر سکتا لیکن وہ اپنے بارے میں جس قدر اور جب ضروری سمجھے اپنے پیاروں کو اپنی ہستی کا ثبوت بھی دیتا ہےا ور اپنے بارہ میں علم بھی عطا فرماتا ہے۔ سوال: فلسطین سے ایک خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں لکھا کہ بہت سی احمدی بہنوں کی طرف سے یہ سوال ہے کہ کیا بینک سے قرض لے کر گاڑی خریدی جا سکتی ہے؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ ۲۷؍ستمبر ۲۰۲۳ء میں اس مسئلہ کے بارے میں درج ذیل راہنمائی عطا فرمائی۔ حضور انور نے فرمایا: جواب: کوئی بھی خرید و فروخت یا مالی لین دین جس میں سود کی ملونی ہو وہ تو بہرحال حرام ہے۔ البتہ دنیا میں Hire Purchase اور Personal Contract Purchase وغیرہ کے نام سے اقساط میں اشیاء کی خرید و فروخت کے طریق رائج ہیں، جن میں یکمشت قیمت کی ادائیگی کے مقابلہ پر اقساط میں کچھ زائد رقم ادا کر کے اشیاء خریدی جا سکتی ہیں۔ یہ طریق کار سود کے زمرہ میں نہیں آتا۔ چنانچہ اخبار بدرقادیان میں اسی قسم کے ایک مسئلہ کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں پیش ہونے والا سوال اور اس کا جواب درج ذیل الفاظ میں شائع ہوا:اخبار کی قیمت اگر پیشگی وصول کی جاوے تواخبار کے چلانے میں سہولت ہوتی ہے۔جو لوگ پیشگی قیمت نہیں دیتے اور بعد کے وعدے کرتے ہیں ان میں سے بعض توصرف وعدوں پر ہی ٹال دیتے ہیں اوربعض کی قیمتوں کی وصولی کے لیے بار بار کی خط و کتابت میں اوران سے قیمتیں لینے کے واسطے یادداشتوں کے رکھنے میں اس قدر دقت ہوتی ہے کہ اس زائد محنت اور نقصان کو کسی حد تک کم کرنے کے واسطے اورنیزاس کا معاوضہ وصول کرنے کے واسطے اخبار بدر کی قیمت ما بعد کے نرخ میں ایک روپیہ زائد کیا گیا ہے۔ یعنی مابعد دینے والوں سے قیمت اخبار بجائے تین روپے کے چار روپے وصول کئے جائیں گے۔اس پر ایک دوست لائل پور نے دریافت کیا ہے کہ کیا یہ صورت سود کی تو نہیں ہے؟ چونکہ یہ مسئلہ شرعی تھا۔ اس واسطے مندرجہ بالا وجوہات کے ساتھ حضرت اقدسؑ کی خدمت میں پیش کیا گیا۔ اس کا جواب جو حضرت نے لکھا وہ درج ذیل کیا جاتا ہے۔ ’’السلام علیکم۔میرے نزدیک اس سے سودکو کچھ تعلق نہیں۔ مالک کا اختیار ہے کہ جو چاہے قیمت طلب کرے خاص کر بعد کی وصولی میں ہرج بھی ہوتا ہے۔ اگر کوئی شخص اخبار لینا چاہتا ہے۔ تو وہ پہلے بھی دے سکتا ہے۔ یہ امر خود اس کے اختیار میں ہے۔ والسلام مرزا غلام احمدؐ‘‘ (اخباربدرقادیان نمبر۷ جلد۶، مورخہ ۱۴فروری ۱۹۰۷ء صفحہ۴) پس اگر اس طریق پر اقساط میں آپ گاڑی خریدنا چاہتی ہیں، جس میں آپ کو یکمشت قیمت سے کچھ زائد رقم دینی پڑے تو یہ سود میں شامل نہیں اور یہ جائز ہے۔ سوائے اس کے کہ زائد رقم لینے والے نے اس کا نام سود رکھا ہو، ایسی صورت میں اس قسم کے سودی لین دین کی اجازت نہیں ہے۔ ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: بنیادی مسائل کے جوابات(قسط۹۷)