باغ میں ملّت کے ہے کوئی گلِ رعنا کھلا انبیاء علیھم السلام گناہوں سے صغیرہ ہوں خواہ کبیرہ خصوصاً کفر اور بےحیائی کاموں سے معصوم ہوتے ہیں۔ ہاں بعض انبیاء سے لغزش اور بھول چوک ہو جاتی ہے جو ان کے عالی مقامات اور روشن حالات کی طرف نظر کرنے سے خطا معلوم ہوتے ہیں براہین احمدیہ پر لکھے جانے والے ریویو زکے سلسلے میں ابوسعید محمدحسین بٹالوی صاحب کا تحریر کردہ ریویو اعتراض دوم کا جواب عصمت انبیاء کا مسئلہ نہایت صحیح و درست اور تسلیم و صحت نبوت کا مناط و مدار ہے مگر وہ انہی امور سے متعلق ہے جو تکلیفی و تبلیغی ہیں (حاشیہ:تکلیفی امور سے وہ احکام شرعیہ مراد ہیں جن کے کرنے یا نہ کرنے پر لوگ مکلف و مامور ہیں تبلیغی امور میں احکام شرعیہ کے علاوہ انبیاء علیہم السلام کے ذاتی افعال (جن کی تبلیغ وہ اپنے فعل سے کرتے ہیں اور اُمّت پر ان افعال کا اقتداء واجب ہے) بھی داخل ہیں اور امور تبلیغی میں وہ اخبار گذشتہ یا آئندہ داخل ہیں جن کے صدق سے صدق انبیاء متصور ہے اور کذب سے کذب) اور ان سے عامہ مکلفین کی ہدایت یا نفع (اگر وہ ٹھیک طور پر ادا ہوں) یا ضلالت و نقصان (اگر ان کے اداصو تبلیغ میں غلطی ہو) متصور ہے۔ زائد امور میں جو ہدایت اور ضلالت کا مدار نہ ہوں اور نہ ان کے وقوع یا عدم وقوع سے صدق یا کذب ملہم ثابت ہوتا ہو۔ غلطی فہم یا تعبیر یا اشتباہ مراد اِس عصمت میں خلل انداز نہیں ہے۔ اِس کی تفصیل اور اس پر دلیل پیش کرنے کا یہ موقع نہیں اِس تفصیل و دلیل کا محل ہمارا مضمون اثبات نبوت ہے جس کا وقت اتمام عنقریب آنے والا ہے۔ (حاشیہ: جو شایقین ہمارے مضمون اثبات نبوت کا انتظار نہ کر سکیں وہ اس تفصیل و دلیل کو کتب تفاسیر (تفسیر کبیر وغیرہ) و کتب عقائد (شرح عقائد شرح فقہ اکبر۔ تحفہ اثنا عشریہ شرح موافق وغیرہ) میں ملاحظہ کریں۔ ہم اِس مقام میں صرف مذاہب اسلامیہ کی تفصیل کرتے ہیں۔ جس سے ناظرین کو معلوم ہو کہ سبھی مذاہب میں محل عصمت وہی امور ہیں جو مدار صدق اور متعلق تبلیغ و شریعت ہیں۔ زائد امور کو جن کو شریعت و تبلیغ سے تعلق نہیں اور نہ وہ گناہ یا طاعت سے تعلق رکھتے ہیں عصمت کا محل کوئی نہیں سمجھتا۔ فقہ اکبر امام ابو حنیفہ علیہ الرحمۃ اور اس کی شرح منح الازہر (تالیف ملا علی قاری) میں ہے۔ کہ والانبیاء علیھم السلام کلھم منزھون عن الصغائر و الکبار و الکفر و القبائح و قد کانت منھم نکات و خطیات ای عشرات بالنسبۃ الی مالھم من علی المقامات و سنی الحالات ذکر القاضی ابو زید فی اصول الفقہ ان افعال النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم عن قصد علی اربعۃ اقسام واجب و مستحب و مباح و زلۃ فاما کان یقع غیر قصد کما یکون من النائم و المخطی و نحوھما فلا عبرۃ بھا لانھا غیر داخلۃ تحت الخطاب ثم الزلۃ لا تخلو عن القرآن ببیان انھا ذلۃٌ اما من الفاعل نفسہ کقول موسی حین قتل القبطی بوکزتہ ھذا من عمل الشیطان واما من اللّٰہ سبحانہ کما قال تعالیٰ فی حق آدم و عصی آدم ربہ فغوی مع انہ قیل ذلتہ کانت قبل نبوّۃ لقولہ تعالیٰ ثم اجتبہ ربہ فتاب علیہ و ھدی و اذا لم یخلو الزلۃ عن البیان لم یشکل علی احدانھا غیر صالح للاقتداء بھا فتبقی العبرۃ للانواع الثلثۃ و قد ذکر شمس الائمۃ ایضا نحوہ و فی شرح العقائد ان الانبیاء معصومون عن الکذب خصوصا فی ما یتعلق بامر الشرع و تبلیغ الاحکام و ارشاد الامۃ اما عمدا فبا لاجماع و اما سھوا فعند الاکثرین و فی عصمتھم عن سائر الذنوب تفصیل و ھوانھم معصومون عن الکفر قبل الوحی و بعدہ بالاجماع و کذا عن تعمد الکبائر عند الجمھور خلافًا للحشویہ و اما سھوا فجوزہ الاکثرون و اما الصغائر فیجوز عمداً وعند الجمھور خلافا للجبائی و اتباعہ و یجوز۔ سھوا بالاتفاق الا ما یدل علی الخسہ کسرقۃ لقمۃ و تطفیف حبہ لکن المحققین اشترطوا ان ینبھوا علیہ فینتھوا عنہ ھذا کلہ بعد الوحی و اما قبلہ فلا دلیل علی امتناع صدور الکبیرۃ خلافا للمعتزلۃ و منع الشیعۃ صدور الصغیرۃ و الکبیرۃ قبل الوحی بعدہ۔(شرح فقہ اکبر صفحہ ۴۴ وغیرہ) ’’انبیاء علیھم السلام گناہوں سے صغیرہ ہوں خواہ کبیرہ خصوصاً کفر اور بےحیائی کاموں سے معصوم ہوتے ہیں۔ ہاں بعض انبیاء سے لغزش اور بھول چوک ہو جاتی ہے جو ان کے عالی مقامات اور روشن حالات کی طرف نظر کرنے سے خطا معلوم ہوتے ہیں قاضی ابو زید نے اصول فقہ میں فرمایا ہے کہ نبی صلعم کے افعال جو قصداً ان سے سرزد ہوئے چار قسم ہیں واجب۔ مستحب۔ مباح اور لغزش اور جو بلا قصد سرزد ہوئے جیسے سوتے ہوئے یا بھولنے والے کا فعل اس کا اعتبار نہیں کیونکہ وہ متعلق حکم الٰہی نہیں اور فعل لغزش کے ساتھ اس کی لغزش ہونے کا بیان ضروری ہے خواہ نبی سے ہو (جیسے حضرت موسیٰ کا اپنے فعل قتل قُبطی کی نسبت یہ کہنا کہ یہ فعل شیطان ہے) خواہ خدا کی طرف سے جیسے خدا کا (حضرت آدم کے ممنوع درخت کا پھل کھانے پر) یہ فرمانا کہ آدم نے اپنے اِس فعل میں اپنے رب کا کہا نہیں مانا اور چونکہ انبیاء کی لغزش اِس بیان سے خالی نہیں ہوتی لہٰذا یہ بات کسی پر مشتبہ نہیں کہ انبیاء کا فعل لغزش لائق اقتداء نہیں۔ پس لائق اعتبار پہلے تین قسم ہوئے۔ ایسا ہی شمس الائمہ نے ذکر کیا ہے۔ اور شرح عقائد میں ہے کہ انبیاء جھوٹ سے خصوصاً اس امر میں جو شرع و تبلیغ احکام اور ہدایت امت کے متعلق ہو معصوم ہوتے ہیں عمداً گناہ کرنے سے تو سب کے نزدیک معصوم ہیں۔ بھولے سے گناہ کرنے سے اکثر کے خیال میں جھوٹ کے سوا اور گناہوں سے معصوم ہونے میں مذاہب کی یہ تفصیل ہے کہ کفر سے تو وہ نبوت سے پہلے اور پیچھے معصوم ہیں ایسا ہی عمداً کبیرہ گناہ کرنے سے اس میں حشویہ کو (جو قرآن و حدیث کے ظاہری الفاظ بے سوچے سمجھے پکڑ لیتے ہیں) خلاف ہے وہ عمداً گناہوں کے سرزد ہونے کے بھی قائل ہیں بھولے سے گناہ سرزد ہونے کو اکثر ممکن سمجھتے ہیں۔ چھوٹے گناہوں کا عمداً سرزد ہونا جمہور کے نزدیک جائز ہے۔ اِس میں جبائی معتزلی اور اس کے اتباع کو خلاف ہے۔ سہواً سرزد ہونا صغائر کا سب کے نزدیک درست ہے۔ بجز ایسے صغیرہ کے جس میں خست پائی جاوے جیسے ایک لقمہ کا چُرا لینا یا ایک دانہ وزن میں کم دینا لیکن محققین کہتے ہیں کہ ایسے صغائر سے بھی ان کا خدا کی طرف سے متنبہ ہو کر باز آ جانا ضروری ہے۔ یہ نبوت سے پچھلے زمانے کاحکم ہے۔ اور نبوت سے پہلے کبیرہ گناہ کے سرزد ہونے کے محال ہونے پر کوئی دلیل نہیں ہے۔ اس میں معتزلہ کو خلاف ہے۔ شیعہ کا یہ قول ہے کہ نبی نبوت سے پہلے اور پیچھے صغیرہ اور کبیرہ سبھی گناہوں سے معصوم ہوتا ہے۔‘‘ اس تفصیل مذاہب سے ثابت ہوا کہ جو امر زائد وغیرمتعلق بہ تکلیف ہو اور اُس کو صغیرہ یا کبیرہ گناہ نہ کہا جا سکے اس میں کسی مذہب کے رو سے نبی کی خطا سے محافظت ضروری نہیں۔ ان مذاہب کے دلائل دیکھنے ہوں تو تفسیر کبیر جلد (۱۱) صفحہ (۴۵۸) اور شرح مواقف صفحہ ۶۸۸ ملاحظہ کریں۔) عنقریب آنے والا ہے۔ اِس مقام میں ا یسی دو تمثیلوں کے ذکر پر اکتفاء کیا جاتا ہے جن میں سید الملہمین خاتم المرسلین کا بعض الہامات (غیر متعلق بہ تکلیف و تبلیغ) کے مراد سمجھتے ہیں۔ اشتباہ و شک پایا جاتا ہے۔ عن عائشہ ان النبی صلعم قال لھا أریتک فی المنام مرتین انک فی سرقۃ من حریر و یقول ھذا امرءتک فاکشف عنھا فاذا ھی انت فاقول ان یک ھذا من عند اللّٰہ یمضہ (صحیح بخاری صفحہ ۵۵۱) قال القسطلانی ناقلا عن شرح المشکوٰۃ وجہ التردد ھل ھی رؤیا وحی علی ظاھرھا و حقیقتھا او رؤیا وحی لھا تعبیر و کلا الامرین جائز فی حق الأنبیاء قال فی الفتح ھو المعتمد و بہ جزم السھیلی عن ابن لعربی(شرح قسطلانی جلد ۶ صفحہ ۲۳۷) (۱)آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو الہام منامی (یعنی خواب میں) حضرت عائشہ صدیقہ کی صورت قبل از نکاح مشاہد کرائی گئی اور کہا گیا کہ یہ تیری زوجہ ہو گی۔ آنحضرت کو (باوجودیکہ آپ کو اصل الہام میں شک نہ تھا اور انبیاء کا الہام منامی کیوں نہ ہو ہمیشہ یقینی ہوا کرتا ہے) اِس الہام کی تعبیر و مراد سمجھنے میں اشتباہ واقع ہوگیا اور آپ نے یہ فرمایا کہ اگر یہ خدا کی طرف سے ہے (یعنی بظاہر معنی کہ اس صورت سے عائشہ صدیقہ ہی مرا د ہو) تو خدا اس کو سچا کرے گا۔ عن ابی موسی عن النبی صلعم رایت فی المنام انی اھاجر من مکۃ الی ارض بھا نخل فذھب وھلی انھا الیمامۃ او ھجر فاذا ھی یثرب۔ (صحیح بخاری صفحہ ۵۵۱) (۲)آنحضرت صلعم کو الہام منا می میں آپ کی ہجرت کی ایسی جگہ دکھائی گئی جس میں درخت خرما تھے ۔اِس کی تعبیر آپ کے خیال میں یہ آئی کہ وہ یمامہ ہے یا موضع ہجر۔ مگر یہ خیال واقع کے مخالف نکلا وہ ہجرت کی جگہ مدینہ طیبہ تھا۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اس امر کا اظہار فرمایا۔ جب ان دونوں الہاموں کے (جو متعلق بہ تبلیغ و تکلیف نہیں) معنی سمجھنے میں سید الملہمین و خاتم المرسلین کو شک و اشتباہ واقع ہوا اور الہام دوم کے معنی سمجھنے میں تو آپ کا خیال واقع کے بھی مخالف نکلا تو پھر مؤلف براہین احمدیہ کا (جو نبی نہیں ہے صرف نبی آخر الزمان کے خادموں اور امتیوں سے ہے) ایک لفظ الہامی غیر زبان کے سمجھنے میں غلطی کرنا (جس سے نہ کوئی گمراہی مخلوق متصور ہے نہ اس سے الہام یا ملہم کی کسی خبر کی نسبت خلاف گوئی ثابت ہوتی ہے) کون سا محل تعجب و انکار ہے۔ یہ جواب اور اس کی مؤید مثالیں ان انگریزی خوان معترضین کے (جو اہل اسلام ہیں اور وہ انبیاء کے ان حالات کو مانتے ہیں) خطاب میں پیش کی گئی ہیں اور اگر معترضین اقوام غیر سے ہیں (جو نبیوں اور اُن کے حالات و مقالات مندرجہ کتب حدیث کو نہیں مانتے) تو ان کا جواب یہی بس ہے کہ ایسے امور زائد میں (جو صدق و ہدایت کا مدار نہ ہوں) ملہم کے خطا سے حفاظت کے ضروری ہونے پر کوئی دلیل نہیں اور یہ خطا ان کے فرض منصبی میں خلل انداز نہیں کیونکہ ان امور زائد کو ان کے فرض منصبی سے کچھ تعلق نہیں۔ ان امور میں ان کا غلطی کرنا ایسا ہے جیسا کہ انکا راستے میں چلتے ہوئے پھسل جانا یا چھت پر سے گر پڑنا یا کسی کے ہاتھ سے مارے جانا یا چوٹ کھانا یا کپڑا سینے یا کھیتی کرنے میں کوئی غلطی کرنا جس کو کوئی بھی ان کے فرض منصبی کے مخالف نہیں سمجھتا۔ ٭…٭…٭ گزشتہ قسط: احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح