میں کرتی ہوں ساری خطاؤں سے توبہ زمیں کے سبھی ناخداؤں سے توبہ مجھے بخش دے میرے مولا تو اب کے میں کرتی ہی جاؤں جفاؤں سے توبہ چراغِ وفا جو بجھا ڈالے ہنس کے مرے پیارے ایسی ہواؤں سے توبہ سہارا جو دے کر سلا دے دلوں کو تو پھر ایسی زہریلی چھاؤں سے توبہ ندامت کی گٹھڑی اٹھا کے کھڑی ہوں تکبّر کر ساری صداؤں سے توبہ عبث اپنا جیون انا میں گزارا سیہ نفس کی سب اناؤں سے توبہ جہاں اڑ نہ پائے تخیّل کا پنچھی گھٹن کی سبھی ان فضاؤں سے توبہ دیا جب عبادت کا ہو جائے روشن تو ہو جائے غم کی گھٹاؤں سے توبہ (دیا جیم۔فجی) مزید پڑھیں: https://www.alfazl.com/2025/06/19/124852/