https://youtu.be/TPX7hqp6_uk (انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲۸؍نومبر۲۰۰۳ء) اس زمانہ میں اگر فتح ملنی ہے، اسلام کا غلبہ ہوناہے تودلائل کے ساتھ ساتھ صرف دعا سے ہی یہ سب کچھ ملناہے۔ اور یہ وہ ہتھیار ہے جو اس زمانہ میں سوائے جماعت احمدیہ کے نہ کسی مذہب کے پاس ہے، نہ کسی فرقے کے پاس ہے۔ پس ہم خوش قسمت ہیں کہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ سے وہ ہتھیار دے دیاہے جو کسی اور کے پاس اس وقت نہیں۔ پس جب یہ ایک ہتھیار ہے اور واحد ہتھیار ہے جو کسی اور کے پاس ہے ہی نہیں تو پھر ہم اپنے غلبہ کے دن دیکھنے کے لئے کس طرح اس کو کم اہمیت دے سکتے ہیں، کس طرح دعاؤں کی طرف کم توجہ دی جاسکتی ہے۔ ہم ان لامذہبوں کی طرح نہیں ہیں، یہ تو نہیں کہہ سکتے ہم کہ دعاؤں سے بھی کبھی دنیا فتح کی گئی ہے، کبھی ہونٹ ہلانے سے بھی فوائد حاصل ہوئے ہیں۔ ہم تو یہ کہتے ہیں، بلکہ ہمارا جواب یہی ہونا چاہئے کہ ہاں جب ہونٹ اللہ کا نام لینے کے لئے ہلائے جائیں، جب دل کی آواز ہونٹوں کے ذریعہ سے باہر نکلے اور اللہ سے مدد مانگی جا رہی ہو تو نہ صرف عام فوائد دینی و دنیاوی حاصل ہوتے ہیں بلکہ ایسے لوگوں سے ٹکرانے والے، ایسے اللہ والوں کو تنگ کرنے والے، چاہے وہ لوگ ہوں یا حکومتیں ہوں وہ بھی ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتی ہیں، پاش پاش ہوجاتی ہیں۔ ہمارا خدا تو وہ خداہے جو صمد ہے، بہت اونچی شان والاہے، بہت طاقتوں کا مالک خداہے، وہ مضبوط سہاراہے جس کے ساتھ جب کو ئی چمٹ جائے تووہ اس کی پناہ بن جاتاہے۔ وہ ایسا سہاراہے جو اپنے ساتھ چمٹانے کے لئے، ہمیں محفوظ کرنے کے لئے ہمیں آوازیں دے رہاہے کہ میرے بندو خالص ہو کر میرے پاس آؤ، میری پناہ گاہ میں پناہ لو، دشمن تمہارا بال بھی بیکا نہیں کرسکتا۔ تو جب ہمارا خدا، ہمارا پیاراخدا، ہمیں اتنی یقین دہانیاں کروارہاہے تو پھر ہم کس طرح اس سے مانگنے، اس کی طرف جھکنے، اس سے دعا کرنے کے مضمون کو چھوڑ سکتے ہیں۔ جماعت احمدیہ کو تو جماعتی اور دنیا کے حالات کو دیکھتے ہوئے پہلے سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی طرف جھکنے کی ضرورت ہے۔ اس آیت [النمل:۶۳]میں جو مَیں نے پڑھی ہے، اللہ تعالیٰ نے تو کہہ دیاہے کہ مَیں مضطرکی دعا کو سنتاہوں، بےقرار دل کی دعا کو قبول کرتاہوں۔ اس لحاظ سے بہت دعاؤں کی ضرورت ہے اور یہ ہمارے لئے ہی ہے کہ مضطر کا مطلب صرف بے قرار ہی نہیں ہے بلکہ ایسا شخص ہے جس کے سب راستے کٹ گئے ہوں۔ تو اس وقت صرف جماعت احمدیہ ہی ہے جس کے کوئی دنیاوی واسطے اور راستے نہیں ہیں۔ اس معاشرہ میں رہتے ہیں اس لئے جب تنگیاں آتی ہیں تو جو بھی متعلقہ حکام ہوتے ہیں اور مختلف ذرائع ہیں ان کو آگاہ ہم ضرور کرتے ہیں لیکن کبھی ان کو خدا نہیں بناتے۔ کیونکہ ہمیں تو ہمارے خدا نے، ہمارے زندہ خدا نے یہ بتا دیاہے کہ جب بھی تمہیں میری ضرورت ہو بلکہ ہر وقت، جب تم امن کی حالت میں ہو، بظاہر امن کی حالت میں بھی ہو، اس یقین کے ساتھ مجھے پکارو کہ مَیں بے سہاروں کا سہارا ہوں، ان کی دعائیں سنتاہو ں تو تم مجھے ہمیشہ اپنی مدد کے لئے اپنے سامنے پاؤ گے۔ لیکن یہ ذہن میں ہونا چاہئے کہ اس اضطرار کے ساتھ دعائیں ہو رہی ہیں کہ زبان حال بھی کہہ رہی ہو کہ ’حیلے سب جاتے رہے حضرت توّاب ہے‘۔ پھر دیکھو اللہ تعالیٰ تمہاری تکلیفیں کس طرح دور کرتاہے۔ ظالم افسروں سے بھی تمہاری نجات ہوگی، ظالم مولویوں سے بھی تمہاری نجات ہوگی، ظالم حکومت سے بھی تمہاری نجات ہوگی۔ لیکن صرف رونا یا گڑگڑانا ہی کافی نہیں بلکہ جیساکہ فرمایا ایک اضطراب اور اضطرار ہونا چاہئے، یہ یقین ہونا چاہئے کہ سب طاقتوں کا سرچشمہ صرف خدا کی ذات ہے۔ اور زمینی حملے ہمارا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے اگر ہمارا خدا ہمارے ساتھ ہے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں: ’’خداتعالیٰ نے قرآن شریف میں ایک جگہ پر اپنی شناخت کی یہ علامت ٹھہرائی ہے کہ تمہارا خدا وہ خدا ہے جو بیقرار وں کی دعا سنتاہے جیساکہ وہ فرماتاہے أَمَّنْ یُّجِیْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاہُ پھر جب کہ خداتعالیٰ نے دعا کی قبولیت کو اپنی ہستی کی علامت ٹھہرائی ہے تو پھر کس طرح کوئی عقل اور حیاوالا گمان کرسکتاہے کہ دعا کرنے پر کوئی آثار صریحہ اجابت کے مترتب نہیں ہوتے اور محض ایک رسمی امر ہے جس میں کچھ بھی روحانیت نہیں۔ میرے خیال میں ہے کہ ایسی بے ادبی کوئی سچے ایمان والا ہرگزنہیں کر ے گا جبکہ اللہ جل شانہ فرماتاہے کہ جس طرح زمین وآسمان کی صفت پر غورکرنے سے سچا خدا پہچانا جاتاہے اسی طرح دعا کی قبولیت کو دیکھنے سے خداتعالیٰ پر یقین آتا ہے۔‘‘ (ایام الصلح ، روحانی خزائن جلد۱۴ صفحہ۲۵۹، ۲۶۰) پھر آپؑ نے فرمایا: ’’کلام الٰہی میں لفظ مُضطر سے وہ ضرریافتہ مراد ہیں جو محض ابتلا کے طور پر ضرریافتہ ہوں، نہ سزا کے طور پر۔ لیکن جو لوگ سزا کے طور پر کسی ضرر کے تختہ مشق ہوں، وہ اس آیت کے مصداق نہیں ہیں۔ ورنہ لازم آتا ہے کہ قوم نوح اور قوم لوط اور قوم فرعون وغیرہ کی دعائیں اس اضطرار کے وقت میں قبول کی جاتیں مگر ایسا نہیں ہوا اور خدا کے ہاتھ نے اُن قوموں کو ہلاک کردیا۔‘‘ (دافع البلاء، روحانی خزائن جلد۱۸ صفحہ ۲۳۱) تو اس وقت جماعت احمدیہ میں ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس تعریف کے لحاظ سے مضطر ہیں۔ بعض ملکوں میں جتنا نقصان جماعت کو یاجماعت کے افراد کو پہنچایا جاتاہے، یعنی کھل کر اپنے مذہب کا اظہار نہیں کرسکتے۔ ہم کہتے ہیں کہ ہم ایک خدا کو مانتے ہیں، ہم ایک خدا کو ماننے والے ہیں، ہم حضرت خاتم الانبیاءﷺ کے دین پر قائم ہیں۔ مخالفین کہتے ہیں کہ نہیں تم جھوٹ بول رہے ہو۔ آنحضرتﷺ کو تو کسی کے دل کے حال کا پتہ نہ چل سکا، معلوم نہ ہوسکا۔ ان مولویوں کو، ان حکومتوں کو دلوں کے حال پتہ لگنے لگ گئے۔ تو ختم نبوت کا منکرکون ہوگیا؟ پھر تو ختم نبوت کے منکر یہ لوگ ہیں جو اپنے منہ نہیں کہہ رہے بلکہ اپنے عمل سے کہہ رہے ہیں کہ آنحضرتﷺ کو تو دلوں کا حال نہیں پتہ لگا لیکن نعوذباللہ ہم آپؐ سے اوپر ہیں، ہمیں سب کے دلوں کا حال پتہ لگ گیاہے۔ اور یہ اپنے ساتھیوں کے عبرتناک انجام دیکھتے بھی ہیں لیکن پھر بھی بےحیائی اور ڈھٹائی کی انتہا ہے، کوئی اثر نہیں ہوتا۔ تو جیساکہ مَیں نے شروع میں دعا کے بارے میں کہاتھا، دعا ہی ہے جو ہمارا اوڑھناہو، ہمارا بچھوناہو۔ دعا ہی ہے جس پر ہمیں مکمل طورپر یقین ہونا چاہئے، اس کے بغیرہماری زندگی کچھ نہیں۔ ربوہ سے بھی اور پاکستان سے مختلف جگہوں سے بھی بڑے جذباتی خط آتے ہیں کہ پتہ نہیں ہم خلافت سے براہ راست، ان معنوں میں براہ راست کہ بغیر کسی واسطہ کے کیونکہ ایم ٹی کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے براہ راست دیکھنے اور سننے کے سامان تو ہو گئے ہیں لیکن یہ سب کچھ یکطرفہ ہے کہ کب ہماری آزادی کے حالات پیدا ہوتے ہیں جب دونوں طرف سے ملنے کے سامان ہوں، کب ہم آزادی سے اللہ اور اس کے رسولﷺ سے محبت کا اظہار بازار میں کھڑے ہوکرکرسکتے ہیں۔ تاکہ لوگوں کو پتہ لگے کہ اصل محبت کرنے والے تو ہم لوگ ہیں۔ کب قانون میں انصاف کے تقاضے پورے کرنے کی صلاحیت پیدا ہوگی۔ تو میرا جواب تو یہی ہوتاہے کہ ان کو جیساکہ گزشتہ سو سال سے زائد عرصہ سے ہمیشہ اللہ تعالیٰ ہی ہمیں سنبھالتا رہاہے، ہماری مشکلیں آسان کرتا رہاہے، آج بھی وہی خدا ہے جو ان دکھوں کو دور کر ے گا ا ن شاء اللہ۔ بظاہر ناممکن نظر آنے والی چیز، ناممکن نظر آنے والی بات محض اور محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے ممکن بن جایاکرتی ہے اور ان شاء اللہ بن جائے گی۔ بڑے بڑے فرعون آئے اور گزر گئے لیکن الٰہی جماعتیں ترقی کرتی ہی چلی گئیں۔ لیکن شرط یہ ہے کہ مضطر بن کر اللہ تعالیٰ کے سامنے جھکیں۔ اس لئے رمضان میں جس طرح دعاؤں کی توفیق ملی اس معیارکو قائم رکھیں گے تو کوئی چیز سامنے نہیں ٹھہر سکے گی۔… حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں: ’’یاد رکھوکہ خداتعالیٰ بڑے بے نیاز ہے۔ جب تک کثرت سے اور باربار اضطراب سے دعا نہیں کی جاتی وہ پرواہ نہیں کرتا۔ دیکھو کسی کی بیوی یا بچہ بیمار ہو یا کسی پرسخت مقدمہ آجاوے تو ان باتوں کے واسطے اس کو کیسا اضطراب ہوتاہے۔ پس دعامیں بھی جب تک سچی تڑپ اور حالت اضطراب پیدا نہ ہوتب تک وہ بالکل بے اثر اور بیہودہ کام ہے۔ قبولیت کے واسطے اضطراب شرط ہے جیساکہ فرمایا أَمَّنْ یُّجِیْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاہُ و یَکْشِفُ السُّوْٓءََ۔‘‘ (الحکم جلد ۱۲ نمبر ۱۶ مورخہ ۲؍مارچ ۱۹۰۸ ء صفحہ ۵) پھر فرمایا: ’’دوسری شرط قبولیت دعا کے واسطے یہ ہے کہ جس کے واسطے انسان دعا کرتاہو اس کے لئے دل میں درد ہو أَمَّنْ یُّجِیْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاہُ۔ (الحکم جلد ۵ نمبر ۳۲ مورخہ ۳۱؍اگست ۱۹۰۱ ء صفحہ ۱۳) مزید پڑھیں: خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ30؍ مئی 2025ء