حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ فرماتے ہیں: حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت میں شامل ہو کر بہت بڑی تعداد عورتوں کی اس بیماری سے پاک ہو گئی ہے اور اپنے آپ کو دین کی خدمت کے لئے پیش کرتی ہیں اور بعض تودین کی خدمت کے معاملے میں اور اس جذبے میں مردوں سے بھی آگے ہیں۔ لیکن ابھی بھی بعض دیہاتوں میں، بعض شہروں میں بھی جہاں عورتیں نہ دین کی خدمت کر رہی ہیں، نہ کوئی اور ان کو کام ہے، اس غیبت کی بیماری میں مبتلا ہیں۔ اسی طرح مردوں کی بھی شکایات آتی ہیں۔ مجلسو ں میں بیٹھ کر لوگوں کے متعلق بات کررہے ہوتے ہیں۔ توایسے بھی مرد ہیں۔ یہ وہی ہیں جن کو نکمے بیٹھنے کی عادت ہوتی ہے۔ ایسے لوگوں کے بیوی بچے بے چارے کما کر گھر کا خرچ چلا رہے ہوتے ہیں۔ اور ایسے لوگوں کو شرم بھی نہیں آ رہی ہوتی۔ بہرحال یہ بیماری چاہے عورتوں میں ہو یا مردوں میں اس سے بچنا چاہئے۔ نظام جماعت کوبھی چاہئے خدام، لجنہ وغیرہ، اس بارہ میں فعال ہونا چاہئے۔ کیونکہ یہ بیماری دیہاتی، ان پڑھ اور فارغ عورتوں میں زیادہ ہے اس لئے لجنہ کوخاص طورپر، دنیا میں ہرجگہ، مؤثر لائحہ عمل اس کے لئے تجویز کرنا چاہئے۔ پھر ان باتوں کے علاوہ جن کی نشاندہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمائی ہے یہ بھی بیماری پیدا ہو گئی ہے کہ فارغ وقت میں اسی طرح لوگوں کے گھروں میں بے وقت چلی جاتی ہیں۔ اور اگر کسی غریب نے اپنی سفید پوشی کا بھرم قائم رکھا ہواہے کہ اس طرح اندر گھستی ہیں گھروں میں کہ ان کے کچن تک میں چلی جاتی ہیں۔ کھانوں کی ٹو ہ لگاتی ہیں کہ کیا پکا ہے کیانہیں پکا۔ اور پھر بجائے ہمدردی کے یا ان کی مدد کرنے کے، یا کم ازکم ان کے لئے دعا کرنے کے، مجلسوں میں باتیں کی جاتی ہیں کہ پیسے بچاتی ہے، سالن کی جگہ چٹنی بنائی ہوئی ہے یا پھراتنا تھوڑا سالن تھا، یا فلاں تھا، یہ تھا، وہ تھا، کنجوس ہے۔ و ہ کنجوس ہے یا جو بھی ہے وہ اپنا گھرچلا رہی ہے جس طرح بھی چلا رہی ہے تمہارا کیا کام ہے کہ کسی کے گھر کے اندر گھس کر اس کے عیب تلاش کرو۔ اور پھرجب ایسے سفید پوش لوگوں کے گھروں میں بچیوں کے رشتے آتے ہیں تو پھرایسی عورتیں Active ہو جاتی ہیں، بڑی فعال ہو جاتی ہیں اور جہاں سے کسی کا رشتہ یا پیغام آیاہو وہاں پہنچ کر کہتی ہیں کہ ان کے گھرمیں تو کچھ بھی نہیں ہے۔ وہاں سے تمہیں جہیز بھی نہیں مل سکتا۔ اس لڑکی میں فلاں نقص ہے۔ تو مَیں تمہیں بتاتی ہوں فلاں جگہ ایک اچھا رشتہ ہے، یہاں نہ کرو وہاں کرو۔ گو جماعت میں ایسے لوگوں کی تعداد انتہائی کم ہے، معمولی ہے، پھر بھی فکر کی بات ہے کیونکہ جس معاشرہ میں ہم رہ رہے ہیں وہ ایسا ہی ہے اور یہ معاشرہ بہرحال اثرانداز ہوتاہے اور یہ باتیں بڑھنے کا خطرہ ہوتاہے۔ (خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۶؍دسمبر۲۰۰۳ء، مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۲۰؍فروری ۲۰۰۴ء) مزید پڑھیں: ہمارے نوجوانوں کوچاہئے کہ سگریٹ نوشی کو ترک کریں