۲۱؍جون سال کا وہ دن ہے جب شمالی نصف کرہ کا سورج کی طرف سب سے زیادہ جھکائو ہوتا ہے۔ اس دن سورج آسمان میں بلند ترین مقام پر ہوتا ہے اور دن کا دورانیہ پورے سال میں سب سے زیادہ ہوتا ہے۔ اسے سائنسی اصطلاح میں ’’گرمیوں کی انقلابِ شمس‘‘(Summer Solstice) کہا جاتا ہے۔ زمین اپنے محور پر ۲۳.۵ درجے کے جھکاؤ کے ساتھ گردش کرتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ موسم بدلتے ہیں اور دن رات کے دورانیے میں فرق آتا ہے۔ Stonehenge شمالی نصف کرہ میں ۲۱؍جون کو سورج کی شعاعیں براہِ راست خط سرطان (Tropic of Cancer) پر پڑتی ہیں، جس کے باعث روشنی کا دورانیہ زیادہ ہو جاتا ہے اور دن طویل ترین ہوتا ہے۔ بعض علاقوں میں سورج ۱۴؍گھنٹے سے بھی زائد وقت تک نظر آتا ہے، جبکہ رات بہت مختصر ہو جاتی ہے۔ قطب شمالی کے قریب واقع علاقوں میں تو سورج غروب ہی نہیں ہوتا اور مسلسل دن کا سماں رہتا ہے، جسے ’’آفتابِ نصف شب ‘‘(Midnight Sun) کہا جاتا ہے۔ سائنس دانوں کے مطابق، اگرچہ ۲۱؍جون سال کا سب سے طویل دن ہوتا ہے، لیکن گرم ترین دن نہیں ہوتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین اور سمندر کو حرارت جذب کرنے اور پھر خارج کرنے میں وقت لگتا ہے، جسے ’’موسمی تاخیر‘‘ (Seasonal Lag) کہا جاتا ہے۔ اسی لیے شدید گرمی عموماً جولائی کے وسط یا آخر میں محسوس ہوتی ہے، جب زمین اور سمندر مکمل طور پر گرم ہو چکے ہوتے ہیں۔ پاکستان سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں جون کے اختتام یا جولائی کے آغاز میں گرمی کی لہر کا سامنا ہوتا ہے۔ ثقافتی اہمیت: دنیا کی مختلف تہذیبوں اور اقوام میں ۲۱؍جون کو مختلف طریقوں سے منایا جاتا ہے۔ قدیم یورپی تہذیبوں میں اس دن سورج کو خراج تحسین پیش کیا جاتا تھا۔ برطانیہ میں واقع اسٹون ہینج (Stonehenge) ایک قدیم پتھریلا ڈھانچہ ہے جہاں لوگ ۲۱؍جون کو جمع ہو کر طلوعِ آفتاب کا نظارہ کرتے ہیں۔ سویڈن میں ’’مڈ سمر‘‘ (Midsummer) فیسٹیول منایا جاتا ہے جہاں لوگ روایتی گیت گاتے ہیں، رقص کرتے ہیں اور کھانے پکاتے ہیں۔ ہندوستان میں ۲۱؍جون کو ’’عالمی یومِ یوگا‘‘ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ لاکھوں افراد اجتماعی طور پر یوگا کی مشقیں کرتے ہیں تاکہ جسمانی اور روحانی صحت کو فروغ دیا جا سکے۔ کئی دیگر ممالک میں بھی اس دن مختلف فطری اور روحانی تقریبات منعقد ہوتی ہیں جن کا مقصد سورج کی روشنی اور موسم گرما کی آمد کا جشن منانا ہوتا ہے۔ اس دن کی اہمیت زرعی اعتبار سے بھی بہت زیادہ ہے۔ طویل دن اور تیز دھوپ فصلوں کی نشوونما کے لیے مفید ہوتی ہے۔ کسان اس موسم کو اپنی محنت اور منصوبہ بندی کے لیے موزوں تصور کرتے ہیں۔ زمین کی سطح پر موجود توانائی اور سورج کی روشنی فصلوں کو طاقت فراہم کرتی ہے، جس کا اثر خوراک کی پیداوار پر بھی ہوتا ہے۔ ماحولیاتی ماہرین کے مطابق طویل دن کی روشنی توانائی کے استعمال کو بھی متاثر کرتی ہے۔ دن کے اوقات زیادہ ہونے کی وجہ سے مصنوعی روشنی کی ضرورت کم پڑتی ہے، جس سے بجلی کی بچت ممکن ہوجاتی ہے۔ تاہم بڑھتی ہوئی گرمی کی شدت بعض اوقات توانائی کے نظام پر دباؤ بھی ڈال سکتی ہے، خاص طور پر ایئر کنڈیشنرز اور کولنگ سسٹمز کے زیادہ استعمال کی صورت میں۔ ۲۱؍جون کے بعد دنوں کی طوالت میں کمی آنا شروع ہو جاتی ہے۔ یعنی سورج کا جھکاؤ رفتہ رفتہ جنوبی نصف کرہ کی طرف ہونا شروع ہو جاتا ہے، جس کے نتیجے میں دن چھوٹے اور راتیں لمبی ہونے لگتی ہیں۔ فلکیاتی اعتبار سے یہی دن موسم گرما کی ابتدا بھی تصور کیا جاتا ہے، اگرچہ موسمیاتی ماہرین کے مطابق موسم گرما یکم جون سے ہی شروع ہو چکا ہوتا ہے۔ ۲۱؍جون کا دن ہمیں نہ صرف قدرتی نظام کی حکمت سے آشنا کرتا ہے بلکہ انسانی تاریخ، ثقافت اور فطرت کے ساتھ تعلق کو بھی اجاگر کرتا ہے۔ سورج، جو زندگی کی بقا کا ضامن ہے، اس دن اپنی توانائی، روشنی اور حرارت کے ساتھ اپنی موجودگی کو نمایاں کرتا ہے۔ یہ دن ہمیں دعوت دیتا ہے کہ ہم فطرت کا مشاہدہ کریں، اس سے ہم آہنگی پیدا کریں اور اس سے سیکھنے کی کوشش کریں۔ (مرسلہ: ذیشان محمود۔ مربی سلسلہ سیرالیون) مزید پڑھیں: تربیتِ اولاد