(خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرموده ۲۱؍مئی ۱۹۱۵ء بمقام قادیان) حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے ۱۹۱۵ء میں یہ معرکہ آرا خطبہ ارشاد فرمایا جس میں آپؓ نے باہمی اتفاق جماعت کی ترقی کا ذریعہ کے فلسفہ کو بیان فرمایا ہے۔قارئین کے استفادے کے لیے یہ خطبہ شائع کیا جاتا ہے۔(ادارہ) حبل اللہ کو ایسا مضبوط پکڑوکہ ایک کے سکھ میں سارے سکھ محسوس کرو۔ اور ایک کے دکھ میں سب کو دکھ پہنچے۔ جب کسی قوم کے لوگ ایسے ہوجائیں۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہےکہ ہم ایسی قوم کی ترقّی کے راستے کھول دیتے ہیں حضورؓ نے تشہّد،تعوّذ اور سورة فاتحہ کی تلاوت کے بعد مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی: یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ حَقَّ تُقٰتِہٖ وَلَا تَمُوۡتُنَّ اِلَّا وَاَنۡتُمۡ مُّسۡلِمُوۡنَ۔ وَاعۡتَصِمُوۡا بِحَبۡلِ اللّٰہِ جَمِیۡعًا وَّلَا تَفَرَّقُوۡا ۪ وَاذۡکُرُوۡا نِعۡمَتَ اللّٰہِ عَلَیۡکُمۡ اِذۡ کُنۡتُمۡ اَعۡدَآءً فَاَلَّفَ بَیۡنَ قُلُوۡبِکُمۡ فَاَصۡبَحۡتُمۡ بِنِعۡمَتِہٖۤ اِخۡوَانًا ۚ وَکُنۡتُمۡ عَلٰی شَفَا حُفۡرَۃٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنۡقَذَکُمۡ مِّنۡہَا ؕ کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمۡ اٰیٰتِہٖ لَعَلَّکُمۡ تَہۡتَدُوۡنَ۔ ( آلِ عمران : ۱۰۳، ۱۰۴ ) پھر فرمایا: کسی جماعت کی ترقی کیلئے اس بات کی بہت ضرورت ہوتی ہے کہ اس کے سب افراد آپس میں ایک ہوجائیں۔ جب تک کوئی جماعت فرد واحد کی طرح نہیں ہو جاتی، ترقی نہیں کرسکتی خواہ وہ جماعت دینی ہو یا دنیوی۔ کیونکہ تمام کامیابیوں اور ترقیوں کیلئے خدا تعالیٰ نے یہ قاعدہ جاری کیا ہوا ہے کہ جب تک ساری جماعت ایک نہ ہو جائے، لڑنا جھگڑنا، دشمنی و نفاق، حسد و کینہ، بغض اور عداوت کو چھوڑ نہ دے، اس وقت تک ترقی نہ کرے۔ جیسے کوئی انسان اس وقت تک کوئی سکھ اور آرام نہیں پاسکتا۔ جب تک کہ اس کے تمام اعضاء میں مناسبت اور درستی نہ ہو اور وہ ایک دوسرے کے ممدّ اور معاون نہ ہوں۔ ایسے ہی کوئی قوم اس وقت تک آرام اور سکھ نہیں پاسکتی جب تک کہ اس کا ہر ایک فرد دوسرے کے دکھ کو اپنا دکھ اور دوسرے کے آرام کو اپنا آرام نہ سمجھے۔ دیکھو کسی طبیب کی طبیعت وہاں علاج کرنے سے گھبراتی ہے جہاں ایک بیماری کا علاج کرے تو دوسری پیدا ہو جائے۔ کیوں؟ اس لئے کہ اگر وہ جگر کا علاج کرتا ہے تو معدہ خراب ہو جاتا ہے اور اگر معدہ کا علاج کرتا ہے تو سینہ خراب ہو جاتا ہے۔ پس جہاں دو چیزیں ایسی مقابلہ میں آجاتی ہیں کہ ایک سے دوسری بیماری اور دوسری سے تیسری بیماری پیدا ہو جاتی ہے اور ایک عضو کے ساتھ دوسرا بیمار ہو جاتا ہے تو اس وقت انسان کو آرام نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح جس قوم کے افراد ایسے ایک دوسرے سے دُور ہوں کہ اگر ایک کو سکھ پہنچے تو دوسرے کو دکھ محسوس ہو اور اگر ایک کو تکلیف پہنچے تو دوسرے کو آرام ہو اس قوم کیلئے کسی قسم کی ترقی کی امید نہیں ہو سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کو خدا تعالیٰ نے بار بار قرآن شریف میں اس طرف متوجہ کیا ہے کہ اگر تم ترقی کرنا چاہتے ہو اورکامیاب قوم بننا چاہتے ہو تو آپس کے لڑائی جھگڑوں کو چھوڑ کر ایک ہو جاؤ۔ فرمایا۔ وَاعۡتَصِمُوۡا بِحَبۡلِ اللّٰہِ جَمِیۡعًا وَّلَا تَفَرَّقُوۡا۔کہ آپس کے اختلافات کو چھوڑ دو اور حبل اللہ کو مضبوط پکڑ لو۔ جب تمام آدمی ایک رسّہ کو پکڑ لیتے ہیں تو میں نے دیکھا ہے ان میں سے اگر ایک کو جھٹکا لگے تو سب کو لگتا ہے۔ گویا خدا تعالیٰ نے اتفاق اور اتحاد کا یہ نشان بتایا ہے حبل اللہ کو ایسا مضبوط پکڑوکہ ایک کے سکھ میں سارے سکھ محسوس کرو۔ اور ایک کے دکھ میں سب کو دکھ پہنچے۔ جب کسی قوم کے لوگ ایسے ہوجائیں تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہےکہ ہم ایسی قوم کی ترقّی کے راستے کھول دیتے ہیں۔ ہماری جماعت کو جہاں اَور بڑے بڑے کاموں کی طرف توجہ ہے۔ وہاں اس طرف بھی بہت توجہ کرنی چاہیے۔ میں نے دیکھا ہے کہ اس میں ابھی کمی ہے۔ جہاں کوئی جھگڑا یا اختلاف ہوتا ہے وہاں ذاتی اغراض کو مدِّنظر رکھ کر جماعت کے اغراض و مقاصد کو قربان کیا جائے تو افسوس کی بات ہے۔ یاد رکھنا چاہیے کہ اس وقت تک کبھی ترقّی نہ ہوگی جب تک کہ ذاتی فوائد کو قومی فوائد پر قربان نہ کیا جائے گا۔ پس ہمارے دوستوں کو چاہیے کہ اس طرف بہت توجّہ کریں۔ کیونکہ جب تک تمام قوم میں اتحاد اور اتفاق نہ ہو اور تمام قوم ایک سِلک میں منسلک نہ ہو اور ہر ایک دوسرے کے دکھ سکھ کو اپنا دکھ سکھ نہ سمجھے ترقی ہونا ناممکن ہے۔ کبھی کوئی انسان یہ نہ دیکھے گا کہ کسی کی آنکھ کو دکھ ہو۔ اور اس کا باقی جسم آرام میں ہو یا ناک،کان، ہاتھ، پاوٴں وغیرہ اعضاء میں تکلیف ہو تو باقی جسم میں دکھ نہ ہو۔ پس ہماری جماعت کو چاہیے کہ آپس میں جسم کے اعضاء کی طرح ہو جائیں۔ بیمار اعضاء کی طرح نہیں بلکہ تندرست اعضاء کی طرح ہو جائیں کیونکہ جب تک یہ نہیں ہوگا قومی ترقی مشکل اور نہایت مشکل ہے۔ پھر آپس کے اختلافات میں کئی جگہ جھگڑے ہوتے ہیں جن کا اگر نتیجہ دیکھا جائے تو یہ ہوتا ہے کہ اپنے کسی رشتہ دار کا خواہ وہ غیر احمدی ہی کیوں نہ ہو لحاظ کر کے احمدی کو نقصان پہنچایا جاتا ہے۔ پس جو ایسا کرتا ہے وہ قومی اتحاد اور اتفاق کو پرا گندہ کرتا ہے اور قومی یک جہتی کو توڑتا ہے۔ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ جو کوئی جماعت میں داخل ہو گیا وہ اپنا ہو گیا اور سب امیر و غریب ایک ہو گئے۔ وہی ایک دوسرے کے رشتہ دار ہیں وہی ایک دوسرے کے عزیز ہیں اور وہی ایک دوسرے کے دوست اور محبّ ہیں۔ باقی دوسروں سے جب مذہبی جدائی ہو گئی تو پھر وہ جسمانی رشتہ دار کہاں ہو سکتے ہیں۔ پس یہی ہماری برادری ہے جو خدا تعالیٰ نے لاکھوں کی تعداد میں پیدا کر دی ہے۔ جو بھی احمدی ہے وہ ہمارا رشتہ دار، ہمارا عزیز اورہمارا پیارا ہے، وہ ہم میں سے ہے اور ہم اس سے ہیں۔ اور جو احمدی نہیں وہ ہمارا کچھ بھی نہیں۔ ہاں اس کے ساتھ اس وقت اور اس حد تک تعلق ہے جہاں تک کہ دنیا کے چین اور امن میں اس سے فائدہ پہنچتا ہے اور دنیاوی کاروبار اس سے متعلق ہیں۔ مگر تمدّن قومی اور جماعت کے فوائد کا جہاں تک تعلق ہوگااور جماعت اور قوم کو جہاں اس سے نقصان پہنچتا ہوگا وہاں وہ کچھ بھی نہیں ہوگا اور وہی ہمارا بھائی وہی ہمارا عزیز ہوگا جو ہماری قوم میں سے ہوگا، اسی کے فوائد ہمارے زیرِنظر ہوں گے۔ جب تک یہ بات پیدا نہ ہوجائےاس وقت تک یہ خیال کر لینا کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہمارے لیے نصرت اور مدد آئے گی۔ محال ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَاذۡکُرُوۡا نِعۡمَتَ اللّٰہِ عَلَیۡکُمۡ اِذۡ کُنۡتُمۡ اَعۡدَآءً فَاَلَّفَ بَیۡنَ قُلُوۡبِکُمۡ فَاَصۡبَحۡتُمۡ بِنِعۡمَتِہٖۤ اِخۡوَانًا تم میری نعمت کو یاد کرو تم ایک دوسرے کے دشمن تھےمیں نے تمہیں بھائی بھائی بنا دیا۔ کیا ہی لطیف بات بیان فرمائی کہ جب ہم نے تمہاری دشمنی کو مٹا کر تمہیں دوست بنا دیا ہے اور تم ایک دوسرے کے بھائی بھائی ہو گئے ہوتو بھائی کے ساتھ بھائی کو محبت رکھنا کیا مشکل ہے؟ بھائی کس طرح بنا دیا۔ بھائی ان کو کہا جاتا ہے جو ایک باپ کے بیٹے ہوتے ہیں اور ان کا آپس میں اس لیے سلوک ہوتا ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ ہم ایک باپ کے بیٹے ہیں۔ دنیا میں جب لڑائیاں اور فساد پیدا ہوجاتے ہیں تو خدا تعالیٰ اپنے مامور کو بھیج دیتا ہے۔ پس جتنے لوگ اس مامور سے تعلق پیدا کرتے جاتے ہیں وہ ایک دوسرے کے بھائی بھائی ہوجاتے ہیں۔ تو خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے ایک آدمی کے ساتھ تعلق کرا کر تم کو ایک باپ کے بیٹے بنادیا اور یہ اس حالت میں بنایا جب کہ تم ایک دوسرے کے دشمن تھے حالانکہ دشمن سے دوستی پیدا کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ جب ہم نے تمہیں دشمنوں سے ایک دوسرے کے بھائی بنا دیا تو تم ایسے کاموں سے پرہیز کرو جن سے بھائی دشمن بن جائے۔ پس ہماری جماعت کو چاہیے کہ خدا نے اپنے فضل سے ہمیں بھائی بھائی بنا دیا ہے تو اب یہ تمہارا کام ہے کہ اس برادرانہ تعلق کو کمزور نہ کرو بلکہ مضبوط کرو اور یہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ آپس میں لڑائی جھگڑے نہ ہوں، ایک بھائی کے مفاد کو اپنا مفاد سمجھا جائے، ایک بھائی کے دکھ کو اپنا دکھ خیال کیا جائے اور ایک بھائی کے سکھ کو اپنا آرام سمجھا جائے۔ ہماری جماعت کو تو کچھ مشکل ہی نہیں کیونکہ یہ ایک عادل گورنمنٹ کے زیر سایہ ہے لیکن جہاں ایسا نہیں ہوتا وہاں وہ قوم بہت جلد تباہ ہو جاتی ہے جس میں اتحاد نہ ہو اور جس کے افراد بھائی بھائی کی طرح نہ ہوں۔ حالات قومی کے بڑھنے کے ساتھ لڑائی اور فساد بھی بڑھتے ہیں۔ ان کی وجہ سے قومیں بہت سی برکتوں سے محروم ہو جاتی ہیں۔ اس لیے ہماری جماعت کو خیال رکھنا چاہیے کہ اگر جھگڑا اور فساد کے وقت ایک آدمی گرم ہے تو دوسرا نرم ہوجائے۔ اگر ایسا کرو گے تو دیکھو گے کہ اسی گرم آدمی کے ساتھ ایسا اتحاد ہوجائے گا کہ وہ تمہاری جگہ خون بہانے کو تیار ہوگا۔ اگر ایک لڑائی کے لیے ہاتھ اٹھائے تو دوسرا نہ اٹھائے۔ اس وقت کے گزر جانے کے بعد دیکھنا کس قدر فائدہ ہوتا ہے۔ تھوڑی سی دیر کے لیے مونہہ کو بند نہ کرکے جھگڑے کو طول دینے کی وجہ سے قومی مفاد کو پراگندہ کردینا بہت نادانی ہے۔ پس ہماری جماعت کو اس کا بہت خیال رکھنا چاہیے۔ ہماری برادری اور رشتہ دار احمدی جماعت ہونی چاہیے۔ بلکہ احمدی کیا اسلام ہونا چاہیے۔ کیونکہ اسلام وہی ہے جو ہمارے پاس ہے۔ احمدی تو تمیز کے لیے نام رکھا گیا ہے۔ اسلام تمام رشتہ داریوں کو مٹا کر ایک ایسی وسیع پیمانہ پر رشتہ داری مقرر کردیتا ہے۔ جس میں ہر قوم، ہر ملک اور طبقہ کے لوگ ہوتے ہیں اور جو بھی اسلام قبول کرتا ہے وہ دوسروں کا بھائی بن جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کو اس بات کی توفیق دے کہ تمام جماعت ایک رشتہ میں مربوط ہو اور وہ مشکلات جو کسی جماعت کی ترقّی میں روک ہو جاتی ہیں آسان ہوکر ترقی کا راستہ صاف ہو جائے۔ (الفضل ۲۷؍ مئی ۱۹۱۵ء ) ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: اسلام دنیوی اور دینی دونوں معاملات میں زیادتی کو ناجائز قرار دیتا ہے