مشرق بعیدکےچند اہم واقعات و تازہ حالات کا خلاصہ آسٹریلیا میں عام انتخابات آسٹریلیا میں ۳؍مئی ۲۰۲۵ء کو ہونے والے وفاقی انتخابات میں وزیر اعظم انتھونی البانیز کی قیادت میں لیبر پارٹی نے تاریخی کامیابی حاصل کی، جو ۱۹۸۷ء کے بعد پارٹی کی سب سے بڑی جیت ہے۔ اس انتخاب میں تمام ۱۵۰؍نشستوں پر ووٹنگ ہوئی، اور لیبر پارٹی نے ۸۷؍نشستیں جیت کر واضح اکثریت حاصل کی۔ ان انتخابات کے نتائج کچھ یوں رہے۔ لیبر پارٹی: ۸۷؍نشستیں، ۳۴.۷۹؍فیصد ووٹ لبرل-نیشنل اتحاد: ۴۰؍نشستیں، ۳۲.۱۷؍فیصد ووٹ گرینز : صفر نشستیں، ۱۱.۷۶؍فیصد ووٹ آزاد امیدوار: ۸؍نشستیں دیگر: Katter’s Australian Party اور Centre Alliance نے ایک ایک نشست حاصل کی ان انتخابات میں کئی اہم تبدیلیاں بھی دیکھنے کو ملیں۔ Peter Dutton کی شکست: اپوزیشن لیڈر پیٹر ڈٹن اپنی نشست Dickson میں لیبر کی علی فرانس سے ہار گئے، جس کے بعد انہوں نے سیاست سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کیا۔ گرینز کی پارلیمنٹ سے ممکنہ غیر موجودگی: گرینز پارٹی کے راہنما ایڈم بینڈٹ اپنی نشست Melbourne میں لیبر کی سارہ وٹی سے پیچھے ہیں، جس سے گرینز کی ایوان زیریں میں نمائندگی ختم ہونے کا امکان ہے۔ آزاد امیدواروں کی کارکردگی: ‘‘ٹیل’’ آزاد امیدواروں کو کئی نشستوں پر شکست کا سامنا کرنا پڑا، اور کچھ سابقہ ارکان نے اپنی نشستیں دوبارہ حاصل کیں۔ ان انتخابات کے بعد انتھونی البانیز آسٹریلیا کے وزیراعظم منتخب ہوئے ہیں۔ الیکشن میں البانیز کی سیاسی جماعت لیبر پارٹی نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی ہے اور اسے حیرت انگیز واپسی قرار دیا جا رہا ہے۔ انتھونی ۲۱؍برسوں میں مسلسل دوسری تین سالہ مدت جیتنے والے پہلے آسٹریلوی وزیرِاعظم بن گئے ہیں۔انتھونی البانیز ۱۹۶۳ء میں سڈنی میں ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے سڈنی یونیورسٹی سے معاشیات میں تعلیم حاصل کی۔وہ ۲۰؍سال کی عمر سے لیبر پارٹی کا حصہ ہیں۔ ۱۹۹۶ء کے دوران اپنی ۳۳ویں یوم پیدائش کے موقع پر وہ اندرون سڈنی سے الیکشن جیتے تھے۔ وہ آسٹریلیا کے سب سے زیادہ عرصے سے خدمات انجام دینے والے اراکین پارلیمان میں سے ایک ہیں۔ ۲۰۰۷ء میں پہلی مرتبہ البانیز سینئر وزیر بنے۔ دنیا میں جہاں تارکین وطن کے خلاف جذبات بڑھ رہے ہیں وہیں البانیز کو تارکین وطن کے ساتھ ہمدردی کے جذبے کے لیے یاد کیا جاتا ہے۔ اپنے پچھلے دور اقتدار میں البانیز نے امریکہ جیسے اپنے حلیف ممالک سے الگ راہ اختیار کرتے ہوئے چین کے ساتھ اپنے تعلقات کو مستحکم کرنا شروع کیا جو کہ ایک بہت بڑی معاشی تبدیلی کے ساتھ ساتھ خارجہ پالیسی میں تبدیلی شمار ہو رہی ہے۔ دوبارہ منتخب ہونے کے بعد وزیر اعظم نے اپنی کابینہ میں بھی کچھ تبدیلیاں کی ہیں انہوں نے این ایلی کو چھوٹے کاروبار، بین الاقوامی ترقی اور کثیر الثقافتی امور کی وزیر مقرر کیا ہے جو پہلی مسلمان خاتون وفاقی وزیر ہیں۔ انتھونی البانیز نے دوبارہ منتخب ہونے کے بعد اپنا پہلا غیرملکی دورہ انڈونیشیا کا کیا ہے۔ یہ دورہ آسٹریلیا اور انڈونیشیا کے تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے اہم ہے۔ چین کا ہانگ کانگ میں عالمی ثالثی ادارے(IOMed) کا قیام چین نے عالمی عدالت انصاف کے طرز پر نیا بین الاقوامی ثالثی ادارہ قائم کیاہے۔ اس کا نام ’’انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار میڈیئیشن‘‘رکھا گیا ہے۔ اس ثالثی ادارے کے قیام کا مقصد بین الاقوامی تنازعات کا حل تلاش کرنا ہے۔ ہانگ کانگ حکومت کے مطابق IOMed دنیا کا پہلا بین الحکومتی ادارہ ہوگا، جو ثالثی کو اپنا بنیادی طریقہ کار بنائے گا۔چینی وزیر خارجہ کے مطابق اس نئے ثالثی ادارے کے قیام کا مقصد عالمی سطح پر ثالثی کے شعبے میں ایک ’’خلا کو پُر‘‘ کرنا ہے۔ IOMed نہ صرف ممالک کے درمیان تنازعات بلکہ ممالک اور کسی دوسرے ملک کے افراد یا بین الاقوامی نجی اداروں کے درمیان بھی ثالثی کا کام کرے گا۔یہ ادارہ رواں سال کے آخر یا ۲۰۲۶ء کے اوائل میں کام شروع کرے گا۔ اس کا مقصد اسے عالمی عدالت انصاف (آئی سی جے) جیسے بین الاقوامی اداروں کے مساوی بنانا ہے۔۳۰؍مئی ۲۰۲۵ء کو اس ادارے کے قیام کے حوالے سے تقریب منعقد کی گئی۔ اس کے حوالے سے منعقدہ دستخطی تقریب کی صدارت کرتے ہوئے چینی وزیر خارجہ وانگ ژی نے کہاکہ ’’آئی او ایم ای ڈی کا قیام ’جیت یا ہار‘ کی ذہنیت سے بالاتر ہو کر بین الاقوامی تنازعات کے پرامن حل اور زیادہ ہم آہنگ عالمی تعلقات کے قیام میں مدد دے گا۔‘‘ دوسری طرف اس اقدام کو ہانگ کانگ کی کاروباری ساکھ کو بحال کرنے کی ایک کوشش کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے، جسے ۲۰۲۰ء میں نافذ کیے جانے والے قومی سلامتی کے سخت قانون کے بعد شدید نقصان پہنچا تھا اور شہر کے عدالتی نظام کی غیرجانبداری پر سوالات اٹھے تھے۔ چین کی قیادت میں قائم ہونے والے اس ادارے ’انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار میڈیئیشن‘(IOMed) کے کنونشن پر دنیا کے ۳۳؍’’ہم خیال‘‘ ممالک نے بھی دستخط کیے ہیں۔ چین اس وقت دنیا میں بین الاقوامی ثالثی کے ذریعہ بھی دنیا میں اپنی طاقت اور اہمیت منوانے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہ ادارہ بھی اس کی ایک کڑی ثابت ہو سکتی ہے۔ اس ادارے کے قیام کا پس منظر: چینی حکومت کے مطابق اس ادارے کے قیام کی بنیاد اس وقت رکھی گئی جب چین نے ایتھوپیا، مصر اور سوڈان کے درمیان ایک تنازع میں ثالثی کی کوشش کی، جو سنہ ۲۰۱۱ء میں ایتھوپیا کی جانب سے دی گرینڈ ایتھوپین ری انسائینس ڈیم کی تعمیر کے فیصلے سے شروع ہوا تھا۔ اسی طرح سال ۲۰۱۶ء میں چین نے دی ہیگ میں قائم مستقل ثالثی عدالت کے ایک فیصلے پر شدید رد عمل کا اظہار کیا تھا۔ مستقل ثالثی عدالت کا ایک مشہور فیصلہ جنوبی بحیرہ چین میں فلپائن کے حق میں آیا تھا، جسے بیجنگ نے نہ صرف مسترد کیا بلکہ اُس کارروائی میں حصہ لینے سے بھی انکار کر دیا تھا۔ عدالت نے بحیرہ جنوبی چین پر چین کے دعوے کو مسترد کر دیا تھا، جس پر خطے کے دیگر ممالک بھی دعویٰ کرتے ہیں۔ ۲۰۲۲ء کے اختتام تک چین اور تقریباً ۲۰؍ممالک نے اس تنظیم کے قیام کا مشترکہ طور پر آغاز کیا اور متفقہ طور پر اس کے صدر دفتر کو ہانگ کانگ میں قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ ۱۶؍فروری ۲۰۲۳ء کو تنظیم کے عبوری دفتر کا قیام عمل میں آیا اور سُن جِن کو اس کا سربراہ (ڈائریکٹر جنرل) مقرر کیا گیا۔ ۱۷؍فروری ۲۰۲۳ء کو مشترکہ بیان پر دستخط کرنے والے ممالک کے نمائندوں نے افتتاحی تقریب میں شرکت کی، جس میں چین کے اس وقت کے اسٹیٹ کونسلر اور وزیر خارجہ چِن گانگ نے ویڈیو پیغام کے ذریعے خطاب کیا۔ ۳۰؍مئی ۲۰۲۵ء کو تنظیم کے قیام سے متعلق معاہدے پر دستخط کی تقریب گرینڈ ہائٹ ہانگ کانگ میں منعقد ہوئی۔ کنونشن کی دستخطی تقریب میں چین اور پاکستان کے علاوہ انڈونیشیا، لاؤس، کمبوڈیا اور سربیا سمیت کئی ممالک شریک ہوئے جبکہ ہانگ کانگ کے سرکاری نشریاتی ادارے کے مطابق اقوام متحدہ سمیت ۲۰؍سے زائد بین الاقوامی تنظیموں کے نمائندے بھی تقریب میں شریک تھے۔اس گروپ میں زیادہ تر افریقہ اور ایشیا کے ترقی پذیر ممالک شامل ہیں جن کے چین کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں۔ ملائیشیا میں ۲۰۲۵ء کی پہلی سہ ماہی میں ایک کروڑ سے زائد سیاحوں کی آمد ملائیشیا نے اس سال کی پہلی سہ ماہی میں ۱۰؍اعشاریہ ۱؍ملین غیر ملکی سیاحوں کا استقبال کیا، جو اس کی ویزا میں نرمی کی پالیسیوں کی بدولت جنوب مشرقی ایشیا کا سب سے زیادہ دورہ کیا جانے والا ملک بنا۔ وی این ایکسپریس کی ایک رپورٹ کے مطابق، تھائی لینڈ، جس نے برسوں تک چیمپئن کا اعزاز اپنے پاس رکھا، ۹.۵۵؍ملین کے ساتھ دوسرے، ویتنام (چھ ملین) اور سنگاپور (۴.۳۱؍ملین) کے ساتھ، تیسرے اور چوتھے نمبر پر رہے۔ ملائیشیا نے حال ہی میں ہندوستانی مسافروں کے لیے ویزا سے استثنیٰ کی مدت میں ۲۰۲۶ء تک توسیع کا اعلان کیا ہے۔ اس استثنیٰ سے ہندوستانی شہریوں کو تیس دن تک بغیر ویزا کے ملائیشیا جانے کی اجازت ملتی ہے۔ اسی طرح کی رخصت چینی شہریوں کو بھی دی گئی ہے۔ ملائیشیا اپنی اعلیٰ درجہ کی یونیورسٹیوں، سستی ٹیوشن فیس اور نسبتاً کم مہنگائی کی وجہ سے بین الاقوامی طلبہ کے لیے ایک تیزی سے مقبول تعلیمی ملک بن رہا ہے۔ ۲۰۲۵ء کیو ایس ورلڈ یونیورسٹی رینکنگز (QS World University Rankings) میں ملائیشیا کی آٹھ یونیورسٹیوں کو ٹاپ ۵۰۰؍میں شامل کیا گیاہے۔ مزید برآں بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے والی دیگر اہم جگہوں کے مقابلے میں ملائیشیا انتہائی سستی طرز زندگی پیش کرتا ہے۔ گذشتہ سال، آسٹریلیا، امریکہ، برطانیہ، جرمنی، جاپان، سنگاپور، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، سوئٹزرلینڈ اور فن لینڈ سمیت ۲۳؍ممالک کے طلبہ ۱۲؍ماہ کے گریجوایٹ پاس پروگرام میں شامل ہوئے۔ دوسری طرف تھائی لینڈ جہاں پچھلے کئی سال سے ریکارڈ تعداد میں سیاح جایا کرتے تھے حفاظتی خدشات کی وجہ سے سیاحت کے بحران کا شکار ہے، خاص طور پر جنوری میں چینی اداکار ژنگ زنگ کے اغوا کے بعد، غیر ملکی سیاحوں کی آمد میں کمی واقع ہوئی ہے۔ ایشائی ممالک میں کورونا وائرس کی نئی لہر ایشیا کے کئی ممالک میں کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور ہسپتالوں میں داخل ہونے والے افراد کی تعداد میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔خاص طور پر ہانگ کانگ، سنگاپور اور تھائی لینڈ میں صورتحال تشویشناک ہوتی جارہی ہے۔ ان ممالک میں متاثرہ افراد کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور ہسپتالوں میں داخل ہونے والوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ سنگاپور میں کووڈ ۱۹ کے کیسز میں ۲۸؍فیصد اضافہ ہوا ہے۔ حالات اس قدر بگڑ چکے ہیں کہ حکومت نے ہائی الرٹ جاری کر دیا ہے۔ سنگاپور میں کووڈ ۱۹کے کل تخمینہ شدہ کیسز ۱۴,۲۰۰؍تک پہنچ گئے ہیں۔ زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ ہسپتالوں میں داخل ہونے والوں کی تعداد میں بھی تقریباً ۳۰؍فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ۵سے ۱۱؍مئی کے درمیان سنگاپور میں ۲۵,۹۰۰؍نئے کیسز رپورٹ ہوئے۔اسی عرصے کے دوران ہسپتال میں داخل مریضوں کی اوسط یومیہ تعداد ۱۸۱؍سے بڑھ کر ۲۵۰؍ہوگئی ہے۔ماہرین کا اندازہ ہے کہ یہ لہر اگلے دو سے چار ہفتوں میں اپنے عروج پر پہنچ سکتی ہے۔ وزیر صحت نے تمام شہریوں سے ویکسینیشن کا نیا دور شروع کرنے اور بوسٹر ڈوز لینے کی درخواست کی ہے۔ ہانگ کانگ میں بھی کووڈ ۱۹ انفیکشن کی ایک نئی لہر شروع ہوگئی ہے۔ محکمہ صحت کے مطابق مارچ میں کیسز کی شرح ۱.۷ فیصد تھی، اب یہ بڑھ کر ۱۱.۴؍فیصد ہو گئی ہے۔ اب تک ۸۱؍نئے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں جن میں سے ۳۰؍لوگوں کی موت واقع ہو چکی ہے۔ تھائی لینڈ کے محکمہ امراض کنٹرول کے مطابق گذشتہ ہفتے ۳۳,۰۳۰؍ نئے کیسز رپورٹ ہوئے۔ ان میں سے ۶۰۰۰؍ سے زیادہ کیسز صرف بنکاک میں پائے گئے ہیں۔ ان میں سے ۱,۹۱۸؍مریضوں کو ہسپتال میں داخل کرایا گیا ہے جبکہ دو اموات کی بھی تصدیق ہو چکی ہے۔ کووڈ- ۱۹ کی نئی قسم کا انکشاف کووڈ- ۱۹؍کی نئی قسم NB.1.8.1 کا تعین جاپان، جنوبی کوریا، فرانس، تھائی لینڈ، نیدرلینڈز، اسپین، ویتنام، چین اور تائیوان سےآنے والے مسافروں میں ہوا ہے۔ امریکی سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن (CDC) کے ایئرپورٹ اسکریننگ پروگرام نے کووڈ۔۱۹ کی نئی قسم NB.1.8.1 کے متعدد کیسز کی نشاندہی کی ہے، جو چین میں وائرس کے وسیع پیمانے کے پھیلاؤ سے منسلک ہے اور ایشیا کے کئی حصوں میں پھیل رہا ہے۔اس وائرس کی علامات تقریباً کورونا کی دیگر اقسام سے بہت حد تک ملتی جلتی ہیں۔ لیکن اس میں کچھ مختلف علامات ہیں جن سے اس کی شناخت کی جا سکتی ہے۔ ماہرین صحت اور حکام کا کہنا ہے کہ یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ کورونا کا یہ نئی قسم کا ویریئنٹ کتنا خطرناک ہے۔ اب تک سامنے آنے والے کورونا کے نئے کیسز کو دیکھتے ہوئے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ پہلے کی شکل سے زیادہ خطرناک ہے اور تیزی سے پھیل رہا ہے۔ مزید پڑھیں: مکتوب مشرق بعید (اپریل ۲۰۲۵ء)