والدین کو حکم ہے کہ اپنی اولاد کی بہترین تربیت کرو۔ کوئی امر اس تربیت میں مانع نہ ہو۔ غربت بھی اس میں حائل نہ ہو۔ پس یہ والدین پر فرض کیا گیا ہے کہ اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کا ایسا خیال رکھو کہ وہ روحانی اور اخلاقی لحاظ سے مردہ نہ ہو جائیں(حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز) قرآن کریم، احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اقوال سے ہمیں تربیتِ اولاد کی بہت مفصل اور اعلی راہنمائی ملتی ہے۔ قرآن کریم اور تربیتِ اولاد قرآن کریم نے تربیتِ اولاد کے بارے میں بنیادی طور پر دعا کو اہمیت دی ہے۔ اس ضمن میں سورة الفرقان میں ایک دعا ان الفاظ میں ہے وَالَّذِيْنَ يَقُولُوْنَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِيْنَ إِمَامًا (الفرقان:۷۵) اور وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ اے ہمارے ربّ !ہمیں اپنے جیون ساتھیوں اور اپنی اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا کراور ہمیں متقیوں کا امام بنا دے۔ ایک اور دعا قرآن میں اولاد کی اصلاح کے لیے یہ ہے۔ رَبِّ اَوۡزِعۡنِیۡۤ اَنۡ اَشۡکُرَ نِعۡمَتَکَ الَّتِیۡۤ اَنۡعَمۡتَ عَلَیَّ وَ عَلٰی وَالِدَیَّ وَ اَنۡ اَعۡمَلَ صَالِحًا تَرۡضٰہُ وَ اَصۡلِحۡ لِیۡ فِیۡ ذُرِّیَّتِیۡ ۚؕ اِنِّیۡ تُبۡتُ اِلَیۡکَ وَ اِنِّیۡ مِنَ الۡمُسۡلِمِیۡنَ (الاحقاف:۱۶)۔ اے میرے رب! مجھے توفیق عطا کر کہ میں تیری اس نعمت کا شکریہ ادا کرسکوں جو تُونے مجھ پر اور میرے والدین پر کی اور ایسے نیک اعمال بجا لاؤں جن سے تُو راضی ہو اور میرے لیے میری ذریت کی بھی اصلاح کردے۔ یقیناً میں تیری ہی طرف رجوع کرتا ہوں اور بلاشبہ میں فرمانبرداروں میں سے ہوں۔ اس کے علاوہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اولاد کے بارے میں کئی انبیاء کی دعائیں محفوظ کی ہیں۔ ان میں سے ایک دعا حضرت زکریا علیہ السلام کی ہے۔ آپؑ نے اولاد ہونے سے پہلےپاکیزہ ذریت عطا ہونے کی دعا ان الفاظ میں کی۔ رَبِّ ہَبۡ لِیۡ مِنۡ لَّدُنۡکَ ذُرِّیَّۃً طَیِّبَۃً ۚ اِنَّکَ سَمِیۡعُ الدُّعَآءِ (اٰل عمران: ۳۹)۔ پھر اولاد ہوجانے کے بعد اولاد کو توحید پر قائم رہنے کی حضرت ابراہیم ؑکی یہ دعا ہے۔ وَاِذۡ قَالَ اِبۡرٰہِیۡمُ رَبِّ اجۡعَلۡ ہٰذَا الۡبَلَدَ اٰمِنًا وَّاجۡنُبۡنِیۡ وَبَنِیَّ اَنۡ نَّعۡبُدَ الۡاَصۡنَامَ(ابراهيم:۳۶)۔ جب ابراہیم نے کہا اے میرے ربّ! اس شہر کو امن کی جگہ بنا دے اور مجھے اور میرے بیٹوں کو اس بات سے بچا کہ ہم بتوں کی عبادت کریں۔ پھر اولاد کو نماز پر قائم رکھنے کے لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ایک دعا یہ ہے۔ رَبِّ اجۡعَلۡنِیۡ مُقِیۡمَ الصَّلٰوۃِ وَمِنۡ ذُرِّیَّتِیۡ ٭ۖ رَبَّنَا وَتَقَبَّلۡ دُعَآءِ (ابراہیم :۴۱)۔ اے میرے ربّ! مجھے نماز قائم کرنے والا بنا اور میری نسلوں کو بھی۔ اے ہمارے ربّ! اور میری دعا قبول کر۔ سو قرآن کے مطابق تربیتِ اولاد کا سب سے اہم گر ان کے لیے دعا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیتِ اولاد کے بارے میں تعلیم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف اولاد کی بہترین تربیت کی تعلیم دی بلکہ اپنے اسوہ سے اس پر عمل کر کے دکھایا۔ آپؐ نےتربیتِ اولاد کے جو اصول بتائے ان میں سے چند درج ذیل ہیں۔ پہلا اصول تو قرآنی تعلیم کے مطابق دعا کا ہی ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ دُعَاءُ الْوَالِدِ لِوَلَدِ ہٖ کَدُعَاءِ النَّبِیِّ لِاُ مَّتِہٖ ۔ باپ کی دُعا اپنے بچے کے حق میں ایسے ہی مقبولیت کا درجہ رکھتی ہے جیسے نبی کی دُعا اپنی امت کے لیے۔(الجامع الصغیر للسیوطی، ابن ماجہ)ایک اور اصول آپ نے بتایا کہ تربیت کا آغاز بچپن سے ہوتا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ بچپن کا سکھایا ہواپتھر پر نقش کی طرح ہوجاتا ہے۔(الجامع الصغیر للسیوطی)اس اصول کے تحت آپ نے پیدائش کےفوراً بعد بچے کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کا حکم دیا۔ (الجامع الصغیر جلد۲صفحہ ۱۸۲) تاکہ پیدائش کے ساتھ ہی تربیت کا سلسلہ شروع ہواور بچے کے ذہن پر پہلا اثر توحید کا قائم ہو۔ پھر یہ اصول بیان فرمایا کہ بچے کا اچھا نام رکھا جائے، اس کی صفائی ستھرائی کا خیال رکھا جائے، اس کا عقیقہ کیا جائے۔(مسند احمد بن حنبل۔ جلد ۳صفحہ ۴۴۷ مطبوعہ بیروت)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بچوں کے سامنے مذاق میں بھی جھوٹ بولنے سے منع فرمایا ہے۔ ایک مرتبہ ایک ماں نے اپنے بچے کو کچھ دینے کے بہانے بلایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تمہارا (بچے کو) کچھ دینے کا ارادہ تھا؟اس نے کہا کہ جی حضور میرا ارادہ تھا کہ اسے کھجور دوں گی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تمہارا کچھ دینے کا ارادہ نہ ہوتا تو تمہارے نامہ اعمال میں ایک جھوٹ لکھ دیاجاتا ۔(سنن ابی داؤد ،باب التشدید فی الکذب) رسول کریمﷺ نے بچوں کو بچپن ہی سے ادب سکھا نے کا حکم دیا ۔ حد یثوں میں آ تا ہے،امام حسن ؓجب چھو ٹے تھے تو ایک دن کھا تے وقت آ پؐ نے ان کو فرمایا کہ دائیں ہاتھ سے کھا ؤ اور اپنے آگے سے کھا ؤ۔ ایک دفعہ بچپن میں امام حسنؓ نے صدقہ کی کھجوروں میں سے ایک کھجور مُنہ میں ڈال لی تو رسول کریم ﷺ نے اُن کے منہ میں انگلی ڈال کر نکال لی۔ (صحیح بخاری) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اصول بیان فرمایا کہ جب بچہ سات سال کا ہوجائے تو اُسے نماز کا حکم دو اگر تین سال کی کوشش کے بعد بھی نماز نہ پڑھے تو اس کو سرزنش کی جائے اور دس سال کی عمر میں اس کو علیحدہ سلائیں اور جب بڑا ہوجائے تو اس کو گھر میں اجازت لے کر داخل ہونا چاہیے۔(ابوداؤد) پھر یہ اصول کہ اپنے بچوں سے عزت کے ساتھ پیش آؤاور ان کی اچھی تربیت کرو۔ (ابن ماجہ کتاب الادب باب بر الوالد)۔ پھر یہ اصول کہ نیکی کے کاموں میں اپنے بچوں کی مدد کیا کرو۔ (الجامع الصغیر للسیوطی، ابن ماجہ)۔ اپنی اولاد کا واجبی احترام کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے آنحضور ﷺ نے فرمایا کہ والدین اپنی اولاد کے ساتھ نرمی و ملاطفت اور درگزر کا سلوک کریں۔ ان کا واجبی احترام کریں اور ان کو آداب سکھلائیں۔ (ابن ماجہ) اس ضمن میں قرآن کریم میں جو اولاد کی والدین کے حق میں دعا ہے رَبِّ ارۡحَمۡہُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیۡ صَغِیۡرًا (بنی اسرائیل:٢۵) اس سے بھی اولاد سے نرم سلوک اور رحم کی طرف اشارہ ہے۔ یعنی کہ اے میرے ربّ! ان دونوں پر رحم کر جس طرح ان دونوں نے بچپن میں میری رحم سے تربیت کی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا انداز تربیت قرآن کی تعلیم اور اپنے آقا کی پیروی میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی تربیتِ اولاد کے لیے بنیادی طور پر دعا پر ہی زور دیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’ہدایت اور تربیتِ حقیقی خدا کا فعل ہے ۔سخت پیچھا کرنا اور ایک امر پر اصرار کو حد سے گزار دینا یعنی بات بات پر بچوں کو روکنا اور ٹوکنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ گویا ہم ہی ہدایت کے مالک ہیں ۔‘‘ نیز فرمایا: ’’ہم تو اپنے بچوں کے لیے دعا کرتے ہیں اور سرسری طور پر قواعد اور آدابِ تعلیم کی پابندی کراتے ہیں ۔بس اس سے زیادہ نہیں اور پھر اپنا بھروسہ اللہ تعالیٰ پر رکھتے ہیں۔ جیسا کسی میں سعادت کا تخم ہوگا وقت پر سرسبز ہوجائے گا۔‘‘ (ملفوظات جلد۱ صفحہ ۳۰۹۔ ایڈیشن ۱۹۸۸ء) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس اصول کے تحت اپنی اولاد کے لیے بہت دعائیں کیں۔ فرماتے ہیں کہ کر اِن کو نیک قسمت دے اِنکو دین و دولت کر اِن کی خود حفاظت ہو ان پہ تیری رحمت دے رُشد اور ہدایت اور عُمر اور عزّت یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ یَّرَانِیْ (محمود کی آمین۔ دُرِّثمین) مرے مولیٰ مری یہ اِک دُعا ہے تری درگاہ میں عِجز و بُکا ہے وہ دے مجھ کو جو اِس دل میں بھرا ہے زباں چلتی نہیں شرم و حیا ہے مری اولاد جو تیری عطا ہے ہر اک کو دیکھ لُوں وہ پارسا ہے تری قدرت کے آگے روک کیا ہے وہ سب دے اِن کو جو مُجھ کو دیا ہے (بشیر احمد ،شریف احمد اور مبارکہ کی آمین۔ دُرِّثمین) اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی ان دعاؤں کو بھی سنااور حضرت زکریا علیہ السلام کی دعا آپ کو بھی دو بار الہاماً سکھائی گئی۔ چنانچہ پہلا الہام مارچ ۱۸۸۲ء میں ہوا اور دوسری بار ۱۸۹۳ء میں یہ الہام ہوا: ’’رَبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ مِّنَ السَّمَآءِ۔ رَبِّ لاَ تَذَرْنِیْ فَرْدًا وَّ اَنْتَ خَیْرُ الْوَارِثِیْنَ۔ رَبِّ اَصْلِحْ اُمَّۃَ مُحَمَّدٍ۔ رَبَّنَا افْتَحْ بَیْنَنَا وَ بَیْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَ اَنْتَ خَیْرُالْفَاتِحِیْنَ۔‘‘ (تذکرہ، صفحہ ۴۷، مطبوعہ ۱۹۶۹ء )۔ پھر نومبر ۱۹۰۷ء میں آپ کو ایک اور الہام ہوا، جس کا ایک حصہ یہ ہے ۔’’سَأَھَبُ لَکَ غُلَامًا زَکِیًّا۔ رَبِّ ھَبْ لِیْ ذُرِّیَۃً طَیِّبَۃً اِنَّا نُبَشِّرُکَ بِغُلٰمٍ اسْمُہٗ یَحْیٰی‘‘۔ ایسے ہی اپنے آقا کی پیروی میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے طفولیت کے زمانہ سے ہی تربیتِ اولاد کی تاکید فرمائی ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں: ’’دینی علوم کی تحصیل کے لیے طفولیت کا زمانہ بہت ہی مناسب اور موزوں ہے جب داڑھی نکل آئی تب ضرب یضرب یاد کرنے بیٹھے تو کیا خاک ہوگا۔ طفولیت کا حافظہ تیز ہوتا ہے۔‘‘(تقریر جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ء بحوالہ ملفوظات جلد اول صفحہ ۶۰، ایڈیشن ۲۰۲۲ء) حضرت مسیح موعود علیہ السلام تربیتِ اولاد کا ایک گُر والدین کی اپنی اصلاح بیان فرماتے ہیں۔ فرمایا کہ ’’صالح اور متقی اولاد کی خواہش سے پہلے ضروری ہے کہ وہ خود اپنی اصلاح کرے اور اپنی زندگی کو متقیانہ بنا دے‘‘۔(ملفوظات جلد ۲صفحہ ۳۷۰۔ ایڈیشن۱۹۸۸ء)ایسے ہی آپ نے تربیتِ اولاد میں دین کو فوقیت دینے کی ہدایت کی۔ تربیتِ اولاد کے لیے دعا کے ساتھ ساتھ آداب تعلیم کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک دفعہ سالانہ جلسہ پر تقریر کرکے حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب واپس گھر تشریف لائے تو آپ نے حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب سے، جن کی عمر اس وقت ۱۰-۱۲ سال کی ہوگی، اپنی تقریر کے بارے میں پوچھا۔ آپؓ نے اس تقریر کو اپنی سمجھ اور حافظہ کے موافق دہرایا تو حضرت صاحبؑ بہت خوش ہوئے اور فرمانے لگے خوب یاد رکھاہے۔(سیرت المہدی روایت نمبر ۶۵۶) حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی اولاد کی تربیت کے لیے سبق آموز اچھی کہانیاں سنایا کرتے تھے۔ فرمایا کہ ’’اچھی کہانی سنا دینی چاہیے اس سے بچوں کو عقل اور علم آتا ہے۔‘‘(سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۳۷۰ حصہ سوم از حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ) آپؑ بچوں کی معمولی غلطیوں سے عفو و درگزر سے کام لیتے تھے۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ بچپن میں حضرت خلیفۃالمسیح الثانی ؓنے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک نہایت ضروری مسوّدے کو دیا سلائی دکھا دی اور مسودہ جل کر راکھ ہوگیا۔ لیکن جب حضور ؑکو معلوم ہوا کہ مسودہ جل چکا ہے تو حضور نے مسکرا کر فرمایا: ’’خُوب ہوا اس میں اللہ تعالیٰ کی کوئی بڑی مصلحت ہوگی اور اب اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ اس سے بہتر مضمون ہمیں سمجھائے۔‘‘(سیرت حضرت مسیح موعودؑ ازحضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی رضی اللہ عنہ صفحہ ۲۳) آپؑ بچوں کی تربیت میں سختی کے خلاف تھے۔ ایک مرتبہ ایک دوست نے اپنے بچے کو مارا۔ حضور نے اسے بلایا اور فرمایا: ’’میرے نزدیک بچوں کو یوں مارنا شرک میں داخل ہے۔…جس طرح اور جس قدر سزا دینے میں کوشش کی جاتی ہے کاش دعا میں لگ جائیں اور بچوں کے لیے سوزِ دل سے دُعا کرنے کو ایک حزب مقرر کرلیں اس لیے کہ والدین کی دعا کو بچوں کے حق میں خاص قبول بخشا گیا ہے۔‘‘ فرمایا کہ ’’میں التزاماً چند دعائیں ہر روز مانگتا ہوں۔ اوّل : اپنے نفس کے لیے دُعا مانگتا ہوں کہ خدا وند کریم مجھ سے وہ کام لے جس سے اس کی عزت و جلال ظاہر ہو اور اپنی رضا کی پوری توفیق دے۔ دوم:پھر اپنے گھر کے لوگوں کے دعا مانگتا ہوں کہ ان سے قرۃالعین (اولاد) عطا ہو اور اللہ تعالیٰ کی مرضیات کی راہ پر چلیں۔ سوم: پھر اپنے بچوں کے لیے دعا مانگتا ہوں کہ یہ سب دین کے خادم بنیں۔ چہارم: پھر اپنے مخلص دوستوں کے لیے نام بنام۔ پنجم: پھر ان سب کے لئے جو اس سلسلے سے وابستہ ہیں خواہ ہم انہیں جانتے ہیں یا نہیں۔‘‘ (ملفوظات جلد اول صفحہ ۳۰۹،ایڈیشن۱۹۸۸ء) لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ بچوں کی تربیت میں غفلت برتی جائے۔ بچوں کے غلط کاموں پر ان کو سمجھانا ضروری ہے۔ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ کی اس بات پر سرزنش کی کہ انہوں نے مرزا نظام الدین صاحب کا نام لیا۔ فرمایا۔ ’’میاں آخر وہ تمہارا چچا ہے اس طرح نام نہیں لیا کرتے۔‘‘(سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۳۵۵ از حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ) ایک مرتبہ صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب سے بچپن میں قرآن شریف کی کوئی بے حرمتی ہوگئی۔ اس پر حضرت مسیح موعودؑ نے سرزنش فرمائی۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثانی ؓ فرماتے ہیں کہ ’’مجھے یاد ہے ایک دفعہ ایک کتا ہمارے دروازہ پر آیا ۔ میں نے اس کتے کو اشارہ کیا۔ اور کہا ٹیپو، ٹیپو، ٹیپو…حضرت صاحبؑ نے بڑے غصہ سے فرمایا۔ تمہیں شرم نہیں آتی کہ انگریزوں نے تو دشمنی کی وجہ سے اپنے کتوں کا نام ایک صادق مسلمان کے نام پر ٹیپو رکھ دیا ہے اور تم ان کی نقل کر کے کتے کو ٹیپو کہتے ہو۔ خبردار آئندہ ایسی حرکت نہ کرنا۔‘‘(الفضل یکم اپریل ۱۹۵۸ء صفحہ ۳) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد آپ کے خلفاء نے بھی تربیتِ اولاد کے لیے کئی نصائح فرمائی ہیں۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثانی ؓ تربیتِ اولاد کے لیے ۲۶ نصائح فرمائی ہیں، جن کا خلاصہ درج ذیل ہے۔ بچے کے پیدا ہونے پر اذان، ان کی صفائی کا خیال رکھنا، مقررہ وقت پر غذا دینا، مختلف قسم کی غذا دینا، وقت پر پا خا نہ کی عادت، کھیل کے مواقع، زیادہ چومنے چا ٹنے کی عادت سے پرہیز، ایثار کا سلوک، بیماری کے دوران حسن سلوک، بہادر بنانا، ان کے دوست خود چننا، ان کو ذمہ داریاں دینا، نیک کہنا، ضد پیدا نہ ہونے دینا، ادب سے کلام کرنا، بچوں کے سامنے جھوٹ ،تکبراور ترش رو ئی و غیرہ سے پرہیز، انہیں نشہ سے بچانا، علیحدہ بیٹھ کر کھیلنے سے روکنا، ننگا ہو نے سے روکنا، عادت ڈالنا کہ وہ ہمیشہ اپنی غلطی کا اقرار کر یں، کچھ مال کا مالک بنانا کہ صدقہ وغیرہ کریں، اور آداب و قواعد تہذیب سکھا تے رہنا۔ (منہا ج الطّا لبین ،انوارالعلوم جلد ۹صفحہ ۱۹۹تا۲۰۸) حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ ایک خطبہ جمعہ میں وَلَا تَقْتُلُوْٓا اَوْلَادَکُمْ خَشْیَۃَ اِمْلَاقٍ (بنی اسرائیل: ۳۲) کی تفسیر میں فرماتے ہیں ۔رزق کی تنگی کی وجہ سے اپنی اولاد کو قتل نہ کرو۔ اس کے بھی کئی معنی ہیں۔ یہاں قرآنِ کریم کے احکام کی ایک اور خوبصورتی بھی واضح ہوتی ہے کہ پہلے اولاد کو کہا کہ تم نے والدین کی خدمت کرنی ہے، اُن سے احسان کا سلوک کرنا ہے، اُن کی کسی بات پر بھی اُف نہیں کرنا۔ انسان کو اعتراض تو اُسی صورت میں ہوتا ہے جب کوئی بات بری لگے۔ تو فرمایا کہ کوئی بات والدین کی بری بھی لگے تب بھی تم نے جواب نہیں دینا بلکہ اس کے مقابلے پر بھی تمہاری طرف سے رحم اور اطاعت کا اظہار ہونا چاہیے۔ اب والدین کو حکم ہے کہ اپنی اولاد کی بہترین تربیت کرو۔ کوئی امر اس تربیت میں مانع نہ ہو۔ غربت بھی اس میں حائل نہ ہو۔ پس یہ والدین پر فرض کیا گیا ہے کہ اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کا ایسا خیال رکھو کہ وہ روحانی اور اخلاقی لحاظ سے مردہ نہ ہو جائیں۔ اُن کی صحت کی طرف توجہ نہ دے کر اُنہیں قتل نہ کرو۔ بعض ناجائز بچتیں کر کے اُن کی صحت بربادنہ کرو۔ پس ماں باپ کو جب ربوبیت کا مقام دیا گیا ہے تو بچوں کی ضروریات کا خیال رکھنا اُن پر فرض کیا گیا ہے۔ بچوں کو معاشرے کا بہترین حصہ بنانا ماں باپ پر فرض کیا گیا ہے۔ کیونکہ اگر یہ نہ کیا جائے تو یہ اولاد کے قتل کے مترادف ہے۔ (خطبہ جمعہ ۲۶؍ جولائی ۲۰۱۳ء) سو تربیتِ اولاد کے لیے ان سب ہدایات پر عمل کرنا چاہیے۔ سب سے اہم دعا ہے۔ پھر ظاہری قواعد اور آدابِ تعلیم کی پابندی بھی ضروری ہے۔ ان کی دینی تربیت کا خیال رکھنا چاہیے اور جماعتی پروگراموں میں لانا چاہیے۔ ان کے سامنے اپنا نیک نمونہ پیش کرنا چاہیے۔ صحیح تربیت سے ہی آنے والی نسلیں بہتر ہو سکتی ہیں۔ ایسا نہ ہوا تو پھر اولاد آنکھوں کی ٹھنڈک (قُرَّةَ أَعْيُنٍ ) کی بجائے فتنہ بھی بن سکتی ہے جیسا کہ قرآن کریم میں ہے کہ اِنَّمَااَمْوَالُکُمْ وَاَوْلَادُکُمْ فِتْنَۃٌ (التغابن:۱۶) ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ان تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ مزید پڑھیں: ایمان بالغیب …ہستی باری تعالیٰ تک پہنچنے کاعظیم راستہ