https://youtu.be/5y68hMxgrZ0 حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحبؓ نے ۱۹۱۳ء میں اخبار الفضل کے اجرا سے قبل استخارہ کیا اور حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کی خدمت میںاجازت کے لیے عرض کیا تو آپؓ نے فرمایا: ’’جس قدر اخبار میں دلچسپی بڑھے گی خریدار خود بخود پیدا ہوں گے۔ ہاں تائید الٰہی، حسن نیت، اخلاص اور ثواب کی ضرورت ہے۔ زمیندار، ہندوستان، پیسہ میں اور کیا اعجاز ہے وہاں تو صرف دلچسپی ہے اور یہاں دعا نصرت الٰہیہ کی امید بلکہ یقین توکلا ًعلی اللہ کام شروع کردیں۔‘‘ الفضل کا نام بھی حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے عطا فرمایا اور الفضل ۱۹۱۴ء کے ایک اداریہ میں درج ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے فرمایا: مجھے رؤیا میں بتایا گیا ہے کہ الفضل نام رکھو۔ (الفضل ۱۹؍نومبر ۱۹۱۴ء صفحہ۳) چنانچہ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ اس مبارک انسان کا رکھا ہوا نام ’’الفضل‘‘فضل ہی ثابت ہوا۔ حضرت مصلح موعودؓ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: ’’خصوصیات سلسلہ کے لحاظ سے یہاں کے اخباروں میں سے دو اخبار الفضل و مصباح کا مطالعہ ضروری ہے۔ اس سے نظام سلسلہ کا علم ہو گا۔ بعض لوگ اس وجہ سے ان اخباروں کو نہیں پڑھتے کہ ان کے نزدیک ان میں بڑے مشکل اور اونچے مضامین ہوتے ہیں ان کے سمجھنے کی قابلیت ان کے خیال میں ان میں نہیں ہوتی۔ اور بعض کے نزدیک ان میں ایسے چھوٹے اور معمولی مضامین ہوتے ہیں وہ اسے پڑھنا فضول خیال کرتے ہیں۔ یہ دونوں خیالات غلط ہیں۔ حضرت امام ابوحنیفہؒ کے متعلق یہ بیان کیا جاتا ہے۔ ان سے کسی نے پوچھا کہ آپ کو کبھی کوئی لائق استاد بھی ملا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ مجھے ایک بچے سے زیادہ کوئی نہیں ملا۔اس نے مجھے ایسی نصیحت کی کہ جس کے خیال سے میں اب بھی کانپ جاتا ہوں۔ اس بچے کو بارش اور کیچڑ میں دوڑتے ہوئے دیکھ کر میں نے اسے کہا۔ میاں کہیں پھسل نہ جانا۔ اس نے جواب دیا ۔امام صاحب! میرے پھسلنے کی فکر نہ کریں اگر میں پھسلا تو اس سے صرف میرے کپڑے ہی آلودہ ہوں گے مگر دیکھیں کہ کہیں آپ نہ پھسل جائیں آپ کے پھسلنے سے ساری امت پھسل جائے گی۔ پس تکبر مت کرو اور اپنے علم کی بڑائی میں رسائل اور اخبار کو معمولی نہ سمجھو۔ قوم میں وحدت پیدا کرنے کے لیے ایک خیال بنانے کے لیے ایک قسم کے رسائل کا پڑھنا ضروری ہے۔‘‘(مستورات سے خطاب، انوارالعلوم جلد ۱۱ صفحہ ۶۷) حضرت مصلح موعودؓ بانی الفضل نے جلسہ سالانہ ۲۷؍دسمبر ۱۹۴۱ء پر خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ’’دوستوں کو اخبارات کی اشاعت کی طرف خاص طور پر تو جہ کرنی چاہئے اور دوسروں کو بھی اس کی تحریک کرنی چاہئے۔ہماری جماعت اتنی ہی نہیں جتنی یہاں موجود ہے۔ہماری جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس سے بہت زیادہ ہے۔ … لوگ غیرضروری باتوں پر روپے خرچ کردیتے ہیں۔ امراء کے گھروں میں بیسیوں چیزیں ایسی رکھی رہتی ہیں جو کسی کام نہیں آتیں۔ … ایسی غیر ضروری چیزوں پر تو لوگ روپے خرچ کردیتے ہیں لیکن خداتعالیٰ کی باتوں پر نہیں کرتے۔ان کے متعلق کہہ دیتے ہیں کہ وہ دہرائی جاتی ہیں حالانکہ اخبارات نہ صرف ان کے فائدہ کی چیز ہیں بلکہ ان کی اولادوں کے لیے بھی ضروری ہیں۔ میں تو یہاں تک کوشش کرتا ہوں کہ جہاں تک ہوسکے ایک کتاب کی کئی کئی جلدیں مہیا کر کے رکھوں۔ … بعد میں ان کے لیے ان کا حاصل کرنا مشکل ہوگا۔… سلسلہ کے اخبارات میں سے الفضل روزانہ ہے۔جہاں کوئی فرد نہ خرید سکے وہاں کی جماعتیں مل کر اسے خریدیں۔مجلس شوریٰ میں بھی اس سال یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ جن جماعتوں کے افراد کی تعداد بیس یا اس سے زیادہ ہے وہ لازمی طور پر روزانہ الفضل خریدیں … دوستوں کو چاہئے کہ کثرت سے ان اخبارات اور رسائل کو خریدیں اور انہیں خریدنا اور پڑھنا ایسا ہی ضروری سمجھیں جیسا زندگی کے لیے سانس ضروری ہے۔یا جیسے وہ روٹی کھانا ضروری سمجھتے ہیں۔‘‘ (انوارالعلوم جلد۱۶ صفحہ۲۳۴ تا ۲۳۶) حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ فرماتے ہیں: ’’سب سے زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر گھر میں الفضل پہنچے اورالفضل سے ہر گھر فائدہ اٹھارہا ہو۔ابھی جماعت کے حالات ایسے ہیں کہ شاید ہر گھر میں الفضل نہیں پہنچ سکتا۔لیکن جماعت کے حالات ایسے نہیں کہ ہر گھر اس سے فائدہ بھی نہ اٹھا سکے۔اگر ہر جماعت میں الفضل پہنچ جائے اور الفضل کے مضامین وغیرہ دوستوں کو سنائے جائیں تو ساری جماعت اس سے فائدہ اٹھاسکتی ہے۔ خصوصاًخلیفہ وقت کے خطبات اور مضامین اور درس اور ڈائریاں وغیرہ ضرور سنائی جائیں۔ خصوصاًمیں نے اس لیے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے خلیفہ وقت کو امربالمعروف کا مرکزی نقطہ بنایا ہے۔ … ہر جماعت میں کم ازکم ایک پرچہ الفضل کا جانا چاہئے …. اگر وہ آواز جماعت کے کانوں تک نہیں پہنچے گی تو جماعت بحیثیت جماعت متحد ہو کر غلبہ اسلام کے لیے وہ کوشش کیسے کرے گی جس کی طرف اسے بلایا جارہا ہے۔ پس الفضل کی اشاعت کی طرف جماعت کو خاص توجہ دینی چاہئے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو الفضل خریدنا چاہئے اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کے کانوں تک وہ آواز پہنچنی چاہئے جو مرکز کی طرف سے اٹھتی ہے۔‘‘(روزنامہ الفضل۲۸مارچ۱۹۶۷ء) حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ جلسہ سالانہ ۱۹۸۲ء کے موقع پر حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے الفضل کی اشاعت ۱۰؍ہزار تک بڑھانے کی تحریک فرمائی اور جب مارچ ۱۹۸۴ء میں مینیجر الفضل کی طرف سے سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی خدمت میں ایک چٹھی لکھی گئی جس میں یہ ذکر تھا کہ ماہ فروری ۱۹۸۴ء میں الفضل کی اشاعت سات ہزار تھی (خطبہ نمبر کی اشاعت آٹھ ہزار تھی) اس پر حضور انور نے اپنے دست مبارک سے رقم فرمایا۔ ’’ابھی تک اشاعت تھوڑی ہے۔ دس ہزار تو میں نے کم سے کم کہی تھی۔ پندرہ بیس ہزار ہونی چاہئے‘‘۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے ایڈیٹر الفضل کے نام خط میں تحریر فرمایا: ’’بڑی توجہ سے الفضل کا مطالعہ کر رہا ہوں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے دن بدن ترقی کررہا ہے۔ … میں دعا میں اس نکتے کو یاد رکھتا ہوں کہ الفضل کی زبان محض ۳۲ دانتوں میں نہیں بلکہ ۳۲ دشمن دانتوں میں گھری ہوئی عمدگی سے مافی الضمیر ادا کرنے کی توفیق پا رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اس کی حفاظت فرمائے۔ چشم بد دُور۔ … ‘‘(الفضل ۱۸ جنوری ۱۹۸۹ء صفحہ۱) حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے الفضل کے صفحہ اول پر شائع ہونے والے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے اقتباسات کے انتخاب کو سراہتے ہوئے فرمایا: ’’الفضل میں مَیں جو مطالعہ آج کل کر رہا ہوں اس پہلو سے مجھے سب سے زیادہ حسین چیز یہی دکھائی دیتی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ایسے اقتباسات کو چُن کر پہلے صفحے پر شائع کیا جاتا ہے جس سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی باخدا بنانے والی شخصیت نمایاں ہوتی ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ ان اقتباسات کو جو ہر جگہ کتابوں میں موجود ہیں لیکن جس عمدگی کے ساتھ انتخاب کیا گیا ہے اس سے تمام دنیا کی جماعتوں کو استفادہ کرنا چاہئے اور جتنی زبانوں میں بھی جماعت احمدیہ کے رسائل یا اخبارات شائع ہورہے ہیں ان میں وہ اقتباسات شائع کرنے چاہئیں۔کیونکہ وہ انتخاب جہاں تک میں نے غور کیا ہے بہت پُر حکمت انتخاب ہے اور بہت سے ایسے اقتباسات بھی چنے گئے ہیں جو آجکل کے مسائل پر خصوصیت سے روشنی ڈالنے والے ہیں۔پہلے اگر اس معاملے میں کچھ غفلت ہوئی ہے تو آئندہ سے نہ صرف تازہ اقتباسات کو اپنی اپنی زبانوں میں ترجمہ کرکے اپنے اخبارات میں شائع کرنا چاہئے بلکہ پرانے اقتباسات میں سے بھی اس حد تک انتخاب کریں جس حد تک آپ اب اپنے رسائل میں ان کو سمو سکتے ہیں اور اس پہلو سے تمام دنیا کی مختلف زبانوں میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی یہ شخصیت نمایاں کر کے پیش کرنی چاہئے۔تمام دنیا کے احمدیوں کی تربیت کے لیے یہ نہایت ضروری ہے۔( خطبه جمعه ۶؍اکتوبر ۱۹۸۹ء، خطبات طاہر جلد ۸ صفحہ ۶۶۱، ۶۶۲) حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ڈنمارک میں ۸؍مئی ۲۰۱۶ء کو خدام الاحمدیہ کی میٹنگ میں ہدایات دیتے ہوئے فرمایا: ’’الفضل ربوہ میں میرے خطبات سوال و جواب کی صورت میں شائع ہوتے ہیں۔ آپ بھی خطبہ میں سے سوال و جواب نکال کر ڈینش زبان میں ترجمہ کرکے اپنی سائٹ پر ڈال دیا کریں اس طرح نوجوان پڑھنے لگ جائیں گے۔‘‘(الفضل ۲۸ مئی ۲۰۱۶ء) ۲؍جولائی ۲۰۰۵ء کو حضور نے جامعہ احمدیہ کینیڈا کے طلبہ کو ہدایات دیتے ہوئے فرمایا: ’’الفضل پڑھنے کی عادت ڈالیں۔ ‘‘(الفضل ۱۸؍جولائی ۲۰۰۵ء) الفضل کی صد سالہ جوبلی کے موقع پر حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغام میں فرمایا: ’’الفضل کا کام احباب جماعت کو حضرت مسیح موعودؑکی تعلیمات سے آگاہ کرنا خلیفہ وقت کی آواز ان تک پہنچانا نیز جماعتی ترقی اور روزمرہ کے اہم جماعتی حالات و واقعات سے باخبر رکھنا ہے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعودؑ کے ملفوظات اور ارشادات شائع ہوتےہیں۔ خلفائے احمدیت کے خطبات و خطابات اور تقاریر وغیرہ شائع ہوتی ہیں اور یہ خلیفہ وقت اور احباب جماعت کے مابین رابطے اور تعلق کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ اس میں دنیا کے مختلف ممالک سے مراکز کی رپورٹیں چھپتی ہیں۔ جن سے مربیان اور سلسلہ کے مخلصین کی نیک مساعی کا علم ہوتا ہے اور جماعت کی ترقی اور وسعت کا پتہ چلتا ہے۔ الفضل میں مختلف موضوعات پر اہم اور مفید معلوماتی مضامین شائع ہوتے ہیں جو احباب جماعت کی روحانی پیاس بجھاتے ہیں اور ان کی دینی اور اخلاقی اور علمی تعلیم و تربیت کا سامان کرتےہیں۔ الفضل کا مطالعہ بہت سی بھٹکی روحوں کی ہدایت کا ذریعہ ہے۔‘‘(روزنامہ الفضل صد سالہ جوبلی نمبر ۲۰۱۳ء صفحہ۲) الفضل کے محسنین: سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ۵؍اگست ۲۰۱۱ء کے خطبہ جمعہ کے آخر پر اپنی والدہ حضرت صاحبزادی ناصرہ بیگم صاحبہ کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا: ۱۹۱۳ء میں حضرت مصلح موعودؓ نے الفضل جاری کرنے کا ارادہ فرمایا تو حضرت ام ناصر صاحبہ نے ابتدائی سرمائے کے طو رپر اپنا کچھ زیور پیش کیا۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے میری بیوی کے دل میں اس طرح تحریک کی جس طرح خدیجہ ؓ کے دل میں رسول کریم ؐ کی مددکی تحریک کی تھی۔ انہوں نے اس امر کو جانتے ہوئے کہ اخبار میں روپیہ لگانا ایسا ہی ہے جیسے کنویں میں پھینک دینا اور خصوصاً اس اخبار میں جس کا جاری کرنے والا محمود ہو ( یہ بھی ایک عاجزی تھی حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓکی ) جو اس زمانے میں شاید سب سے بڑا مذموم تھا۔ آپ نے اپنے دو زیور مجھے دے دئیے کہ میں ان کو فروخت کر کے اخبار جاری کر دوں۔ ان میں سے ایک تو ان کے اپنے کڑے تھے (سونے کے) اور دوسرے ان کے بچپن کے کڑے سونے کے تھے جو انہوں نے اپنی اور میری لڑکی عزیزہ ناصرہ بیگم کے استعمال کے لیے رکھے ہوئے تھے۔ میں زیورات کو لے کر اسی وقت لاہور گیا اور پونے پانچ سو میں وہ دونوں کڑے فروخت ہوئے اور اس سے پھر یہ اخبار الفضل جاری ہوا۔ (الفضل ۴؍جولائی۱۹۲۴ء صفحہ۴) قارئین الفضل حضرت مصلح موعودؓ کی اس پیاری بیٹی اور میری والدہ کو بھی الفضل پڑھتے ہوئے دعائوں میں یاد رکھیں کہ الفضل کے اجراء میں گو بے شک شعور رکھتے ہوئے تو نہیں لیکن اپنے ماں باپ کے ساتھ آپ نے بھی حصہ لیا اور یہ الفضل جو ہے ، آج انٹرنیشنل الفضل کی صورت میں بھی جاری ہے۔اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرماتا چلا جائے اور ان کی دعائیں ہمیشہ ہمیں پہنچتی رہیں۔ (الفضل ۲۰؍ستمبر ۲۰۱۱ء صفحہ۷) امیرالمومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ الودود بنصرہ العزیز نے خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۴؍مارچ ۲۰۲۳ء میں الفضل انٹرنیشنل کے روزنامہ ہونے پر اسے پڑھنے اور خریدنے کی تحریک فرمائی نیز اس میں لکھنے والوں کے لیے دعائیہ کلمات ارشاد فرمائے۔حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: ’’الفضل انٹرنیشنل جو ہفتے میں دو بار شروع ہو گیا تھا اب روزنامہ کی صورت اختیار کر گیا ہے۔ اس لیے زیادہ سے زیادہ اردو جاننے والے اور پڑھنے والوں کو اسے پڑھنا بھی چاہیے، خریدنا بھی چاہیے،subscribeکرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ سب کو اس سے فیض اٹھانے کی توفیق دے اور الفضل میں لکھنے والوں کو بھی توفیق دے کہ وہ اعلیٰ مضامین لکھنے والے ہوں۔‘‘(آمین) مزید پڑھیں: بیعت عقبہ