https://youtu.be/6QML_kITRXA (خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۲؍اپریل ۲۰۲۴ءبمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے) یوکے) سوال نمبر۱: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے خطبہ کے عنوان کی بابت کیابیان فرمایا؟ جواب:فرمایا:رمضان سے پہلے آنحضرتﷺ کے غزوات کا ذکر ہو رہا تھا اور اس حوالے سے جنگِ اُحد کے واقعات مَیں بیان کر رہا تھا۔ جس میں آنحضرتﷺ کی سیرت کے بارے میں بھی بیان تھا۔ آج بھی اس حوالے سے بیان کروں گا۔ سوال نمبر۲:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حضرت ام سعدؓ کےایمان اورآنحضرتﷺسےمحبت کی بابت کیابیان فرمایا؟ جواب: فرمایا: روایت میں آتا ہے حضرت سعد بن معاذؓ کی والدہ آنحضرتﷺ کے پاس آئیں۔ آنحضرتﷺ گھوڑے پر سوار تھے اور حضرت سعد بن معاذؓ گھوڑے کی لگام پکڑے ہوئے تھے۔ حضرت سعدؓ نے ان کو دیکھ کر آنحضرتﷺ سے کہا: یا رسول اللہﷺ! میری والدہ ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا ان کو خوش آمدید کہو۔ آپؐ نے ان کی وجہ سے اپنا گھوڑا روک لیا یہاں تک کہ وہ قریب آکر آنحضرتﷺ کو دیکھنے لگیں۔ آپﷺ نے ان کے بیٹے حضرت عمرو بن معاذ ؓکی شہادت پر تعزیت فرمائی تو انہوں نے کہا جب میں نے آپﷺ کو صحیح سلامت دیکھ لیا تو بس اب میری مصیبت اور غم ختم ہو گیا۔ آنحضرتﷺ نے اُمّ سعد سے فرمایا اےاُمّ سعد !تمہیں خوشخبری ہو اور سب شہیدوں کے گھر والوں کو بھی خوشخبری دے دو کہ ان سب کے مقتولین جنت میں ایک دوسرے کے ساتھی ہیں اور سب نے اپنے اپنے گھر والوں کے لیے حق تعالیٰ سے شفاعت اور سفارش کی ہے۔یعنی یہ جوشہداءتھے انہوں نے اپنے گھر والوں کے لیے بھی اللہ تعالیٰ کے حضور سفارش کی ہے۔ حضرت اُمّ سعدؓ نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ! ہم سب راضی برضا اور خوش ہیں اور اس خوشخبری کے بعد بھلا ان پر کون رو سکتا ہے۔ کیا مقام ہے ان کے ایمان اور اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی ہونے کا۔ پھر انہوں نے آپﷺ سے درخواست کی کہ یا رسول اللہﷺ! سب شہیدوں کے پسماندگان کے لیے دعا کریں۔ چنانچہ آپﷺ نے سب شہدائے اُحد کے گھر والوں کے لیے دعا کرتے ہوئے فرمایا۔ اَللّٰهُمَّ أَذْهِبْ حُزْنَ قُلُوْبِھِمْ وَاجْبُرْ مُصِیْبَتَهُمْ، وَأَحْسِنِ الْخَلَفَ عَلٰى مَنْ خُلِّفُوْا۔ اے اللہ! ان کے دلوں سے غم و الم کو مٹا دے۔ ان کی مصیبتوں کو دُور فرما دے اور شہیدوں کے جو جانشین ہیں انہیں ان کا بہترین جانشین بنا دے۔ سوال نمبر۳:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جنگ اُحدمیں ایک مسلمان خاتون کےآنحضرتﷺکےساتھ عشق ومحبت کی بابت کیابیان فرمایا؟ جواب: فرمایا: آپؓ [حضرت مصلح موعودؓ]نے فرمایا کہ ’’اُحد کا میدان مدینہ سے آٹھ نو میل کے فاصلہ پر تھا۔ جب مدینہ میں رسول کریمﷺ کی شہادت کی خبر پہنچی تو عورتیں بے تحاشہ روتی اور بلبلاتی ہوئی شہر سے باہر نکل آئیں اور میدانِ جنگ کی طرف دوڑ پڑیں۔ اکثر عورتوں کو رستہ میں آپؐ کی سلامتی کی خبر مل گئی اور وہ وہیں ٹھہر گئیں مگر ایک عورت دیوانہ وار اُحد تک جا پہنچی۔ اس عورت کا خاوند، بھائی اور باپ اُحد میں مارے گئے تھے اور بعض روایتوں میں ہے کہ ایک بیٹا بھی مارا گیا تھا۔جب وہ مسلمان لشکر کے قریب پہنچی تو اس نے ایک صحابی سے دریافت کیا کہ رسول کریمﷺ کا کیا حال ہے؟ چونکہ خبر دینے والا رسول کریمﷺ کی طرف سے مطمئن تھا اس لئے اس نے اس عورت سے کہا۔ بی بی! افسوس ہے کہ تمہارا باپ اس جنگ میں مارا گیا ہے۔ اس پر اس عورت نے کہا تم عجیب ہو۔میں تو پوچھتی ہوں کہ رسول کریمﷺ کا کیا حال ہے؟ اور تم یہ خبر دیتے ہو کہ تیرا باپ مارا گیا ہے۔ اس پر اس صحابی نے کہا بی بی! مجھے افسوس ہے کہ تیرا خاوند بھی اس جنگ میں مارا گیا ہے۔ اس پر عورت نے پھر کہا میں نے تم سے اپنے خاوند کے متعلق دریافت نہیں کیا۔ میں تو یہ پوچھتی ہوں کہ رسول کریمﷺ کا کیا حال ہے؟ اس پر اس صحابی نے اسے پھر کہا۔ بی بی! مجھے افسوس ہے کہ تیرا بھائی بھی اس جنگ میں مارا گیا ہے۔ اس عورت نے بڑے جوش سے کہا میں نے تم سے اپنے بھائی کے متعلق دریافت نہیں کیا۔ میں تو تم سے رسول کریمﷺ کے متعلق پوچھ رہی ہوں۔تم یہ بتاؤ کہ آپؐ کاکیا حال ہے؟ جب لوگوں نے دیکھا کہ اسے اپنے باپ، بھائی اور خاوند کی موت کی کوئی پروا نہیں۔ وہ صرف رسول کریمﷺ کی خیریت دریافت کرنا چاہتی ہے تو وہ اس کے سچے جذبات کو سمجھ گئے اور انہوں نے کہا بی بی! رسول کریمﷺ تو خیریت سے ہیں۔ اس پر اس نے کہا مجھے بتاؤ وہ کہاں ہیں؟ اور پھر دوڑتی ہوئی اس طرف گئی جہاں رسول کریمﷺ کھڑے تھے اور وہاں پہنچ کر رسول کریمﷺ کے سامنے دو زانو ہو کر آپؐ کادامن پکڑ کر کہنے لگی۔ یا رسول اللہؐ! میری ماں اور باپ آپؐ پر قربان ہوں جب آپؐ سلامت ہیں تو کوئی مرے مجھے کیا پروا ہے۔ مجھے تو صرف آپؐ کی زندگی کی ضرورت تھی۔ اگر آپؐ زندہ ہیں تو مجھے کسی اَور کی وفات کا فکر نہیں۔‘‘ آپؓ فرماتے ہیں کہ ’’اب دیکھو! اس عورت کو رسول کریمﷺ سے کس قدر عشق تھا۔ لوگ اسے یکے بعد دیگرے باپ، بھائی اور خاوند کی وفات کی خبر دیتے چلے گئے لیکن وہ جواب میں ہر دفعہ یہی کہتی چلی گئی کہ مجھے بتاؤ رسول کریمﷺ کا کیا حال ہے؟ غرض یہ بھی ایک عورت ہی تھی جس نے رسول کریمﷺ سے اس قدر عشق کا مظاہرہ کیا۔‘‘ سوال نمبر۴: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے جنگ احدمیں یہوداورمنافقین مدینہ کےطرزعمل کی بابت کیابیان فرمایا؟ جواب: فرمایا: لکھا ہے کہ جب رسول اللہﷺ غزوۂ اُحد کے بعد مدینہ پہنچے تو منافقین اور یہود خوشیاں منانے لگے اور مسلمانوں کو برا بھلا کہنے لگے اور کہنے لگے کہ محمدﷺ بادشاہت کے طلبگار ہیں، نعوذ باللہ اور آج تک کسی نبی نے اتنا نقصان نہیں اٹھایا جتنا انہوں نے اٹھایا ہے۔ خود بھی زخمی ہوئے اور ان کے صحابہ ؓبھی زخمی ہوئے اور کہتے تھے کہ اگر تمہارے وہ لوگ جو قتل ہوئے ہمارے ساتھ رہتے تو کبھی قتل نہ ہوتے۔ حضرت عمرؓ نے رسول اللہﷺ سے ان منافقین کے قتل کی اجازت چاہی جو اس طرح یہ باتیں کر رہے تھے یعنی منافقین۔ تو آپﷺ نے فرمایا کیا وہ اس شہادت کا اظہار نہیں کرتے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں؟ لا الٰہ الا اللہ نہیں پڑھتے؟ اور میں اللہ کا رسول ہوں اور محمد رسول اللہ نہیں کہتے؟ کلمہ تو پڑھتے ہیں فرمایا کہ کلمہ تو پڑھتے ہیں ناںیہ لوگ؟ اس پر حضرت عمرؓ نے عرض کیا کیوں نہیں۔ یقیناً پڑھتے ہیں۔ یہ تو کہتے ہیں لیکن منافقانہ باتیں بھی ساتھ کر رہے ہیں۔ حضرت عمرؓ نے کہا لیکن یہ تلوار کے خوف سے اس طرح کہتے ہیں۔ ساتھ یہ بھی حضرت عمرؓ نے کہا کہ تلوار کے خوف سے یہ اس طرح کرتے ہیں۔ کلمہ پڑھ رہے ہیں یا محمد رسول اللہ کہہ رہے ہیں۔ پس ان کا معاملہ اب ظاہر ہو گیا ہے اور اب جب ان کے دل کی بات نکل گئی ہے اور اللہ نے ان کے کینوں کو ظاہر کر دیا ہے تو پھر ان سے انتقام لینا چاہیے، ان کو سزا دینی چاہیے۔آپﷺ نے فرمایا کہ مجھے اس کے قتل سے منع کیا گیا ہے جو اس شہادت کا اظہار کرے۔ سوال نمبر۵: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے جنگ احد کے شہداءکی نمازجنازہ ادا کرنے اورخداتعالیٰ کےان پرانعام کی بابت کیابیان فرمایا؟ جواب: فرمایا: حضرت عقبہ بن عامرؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہﷺ نے آٹھ سال بعد اُحد کے شہیدوں پر نماز جنازہ پڑھی۔ زندوں اور مردوں کو الوداع کرنے والے کی طرح۔ اس کے بعد آپؐ منبر پر چڑھے اور فرمایا: میں تمہارے آگے پیشرو ہوں گا اور میں تم پر گواہ ہوں گا اور تم سے ملنے کی جگہ حوض ہے اور میں اسے اپنے اس کھڑے ہونے کی جگہ سے دیکھ رہا ہوں۔ اور تمہارے متعلق مجھے یہ ڈر نہیں کہ تم شرک کرو گے لیکن مجھے تمہارے متعلق دنیا کا ڈر ہے کہ تم اس کے لیے ایک دوسرے کا مقابلہ کرنے لگو۔…حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب تمہارے بھائی اُحد میں شہید ہوئے اللہ نے ان کی روحوں کو سبز پرندوں کے پیٹ میں رکھا۔ وہ جنت کی نہروںپر اترتے اس کے پھل کھاتے اور عرش کے سائے میں لٹکی ہوئی سونے کی قندیلوں میں بسیرا کرتے۔ جب انہوں نے اپنی پسند اور مرضی کا کھا لیا اور پی لیا اور اپنی مرضی کا آرام کیا تو انہوں نے کہا ہمارے بھائیوں کو کون پہنچائے گا کہ ہم جنت میں زندہ ہیں اور ہمیں رزق دیا جاتا ہے تاکہ وہ جہاد سے بے رغبتی نہ کریں اور جنگ کے وقت کیل کانٹے نہ لیں، پیچھے نہ ہٹیں۔ تو اللہ سبحانہٗ نے کہا میں تمہاری طرف سے ان کو پہنچا دیتا ہوں۔ فرمایا پھر اللہ نے یہ آیت نازل کی وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتًا۔ (آل عمران:170) وہ لوگ جو اللہ کی راہ میں مارے گئے ہیں ان کو مردہ نہ سمجھو۔ سوال نمبر۶: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے شہدائےاحد کی نمازجنازہ کی بابت حضرت مرزابشیراحمدصاحبؓ کاکیاموقف بیان فرمایا؟ جواب: فرمایا: حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے بیان کیا کہ ’’زمانہ وفات کے قریب آنحضرتﷺ نے خاص طور پر شہداء اُحد پر جنازہ کی نماز ادا کی اور بڑے دردِ دل سے ان کے لئے دعا فرمائی۔ آپؐ اُحد کے شہداء کو خاص محبت اور احترام سے دیکھتے تھے۔ ایک دفعہ آپؐ اُحد کے شہداء کی قبروں کے پاس سے گزرے تو فرمایا یہ وہ لوگ ہیں جن کے ایمان کا میں شاہد ہوں۔ حضرت ابوبکر ؓنے عرض کیا یا رسول اللہؐ! کیا ہم ان کے بھائی نہیں ہیں؟ کیا ہم نے انہی کی طرح اسلام قبول نہیں کیا؟ کیا ہم نے انہی کی طرح خدا کے رستے میں جہاد نہیں کیا؟ آپؐ نے فرمایا۔ ’’ ہاں! لیکن مجھے کیا معلوم ہے کہ میرے بعد تم کیا کیا کام کرو گے۔‘‘ اس پر حضرت ابوبکر ؓرو پڑے اور بہت روئے اور عرض کیا۔ یا رسول اللہؐ! کیا ہم آپؐ کے بعد زندہ رہ سکیں گے؟‘‘ یہ تصور ہی ہمیں مارنے والا ہے۔ پھر آپؓ لکھتے ہیں کہ ’’صحابہ بھی اُحد کے شہداء کی بڑی عزت کرتے تھے اور اُحد کی یاد کو ایک مقدس چیز کے طور پر اپنے دلوں میں تازہ رکھتے تھے۔ چنانچہ ایک دفعہ آنحضرتﷺ کی وفات کے بعد حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کے سامنے افطاری کا کھانا آیا جو غالباً کسی قدر پُرتکلف تھا۔ اس پر انہیں اُحد کا زمانہ یاد آگیا جب مسلمانوں کے پاس اپنے شہداء کو کفنانے کے لئے کپڑا تک نہیں تھا اور وہ ان کے بدنوں کو چھپانے کے لئے گھاس کاٹ کاٹ کر ان پر لپیٹتے تھے اور اس یاد نے عبدالرحمٰن بن عوفؓ کو ایسا بے چین کر دیا کہ وہ بے تاب ہو کر رونے لگ گئے اور کھانا چھوڑ کر اٹھ کھڑے ہوئے حالانکہ وہ روزے سے تھے۔‘‘ سوال نمبر۷: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے آنحضرتﷺکے شہدائے احد کے لواحقین اور بچوں کے ساتھ دلجوئی اورمحبت کےکیاواقعات بیان فرمائے؟ جواب: فرمایا: حضرت بِشْرؓکے والد حضرت عَقرَبَہؓ کا ذکر جنگِ اُحد کے شہداء میں بیان ہوا ہے۔ بعض نے حضرت بِشْرؓکا نام بشیر بھی بیان کیا ہے۔ جب عَقرَبَہؓ شہید ہو گئے تو ان کے بیٹے بِشران کے پاس بیٹھے رو رہے تھے۔ رسول اللہﷺ وہاں سے گزرے تو آپؐ نے فرمایا۔اُسْكُتْ ،اَمَا تَرْضٰى اَنْ اَكُوْنَ اَنَا أَبُوْكَ وَعَائِشَةُ اُمُّكَ۔چپ ہو جاؤ، کیا تم اس بات پر خوش نہیں ہو کہ میں تمہارا باپ بن جاتا ہوں اور عائشہ تمہاری ماں بن جاتی ہے۔ بِشرنے کہا کیوں نہیں میں بالکل راضی ہوں۔ ان کا پرانا نام بَحِیرتھا آپﷺ نے ان کا نام بشیر رکھ دیا۔ اور ان کی زبان میں لکنت تھی۔ آپﷺ نے ان کے منہ پر دم کیا تو لکنت جاتی رہی۔ رسول اللہﷺ نےان کے سر پر اپنا دستِ مبارک بھی پھیرا۔ جب وہ عمر رسیدہ ہو گئے تو سارا سر سفید ہو گیا مگر جس جگہ آپؐ نے اپنا دست مبارک پھیرا تھا اس جگہ کے بال بدستور کالے ہی رہے۔ انہوں نے لمبی عمر پائی۔ فلسطین میں 85 ہجری میں فوت ہوئے۔… حضرت جابر بن عبداللہؓ بیان کرتے ہیں کہ مجھے رسول اللہﷺ ملے تو آپؐ نے فرمایا۔ اے جابر! کیا بات ہے میں تمہیں غمگین دیکھ رہا ہوں۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ! میرے والد غزوۂ اُحد میں شہید ہو گئے اور وہ قرض اور اولاد چھوڑ گئے ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا: کیا میں تمہیں اس چیز کی خوشخبری نہ دوں جس سے اللہ نے تمہارے والد سے ملاقات کی ہے۔ میں نے عرض کی یا رسول اللہ !ضرور دیں۔ آپؐ نے فرمایا: اللہ نے کسی سے کلام نہیں کیا مگر پردے کے پیچھے سے۔ جس سے بھی اللہ تعالیٰ نے کلام کیا پردے کے پیچھے سے کیا لیکن اللہ تعالیٰ نے تمہارے والد کو زندہ کیا اور پھر ان سے آمنے سامنے ہو کر کلام کیا اور فرمایا: اے میرے بندے! مجھ سے مانگ کہ میں تجھے دوں۔ انہوں نے عرض کی کہ اے میرے ربّ! مجھے دوبارہ زندہ کر دے تاکہ میں تیری راہ میں دوبارہ قتل کیا جاؤں۔ ایک روایت میں ہے کہ اس موقع پر حضرت عبداللہؓ نے عرض کی کہ اے میرے ربّ! میں نے تیری عبادت کا حق ادا نہیں کیا میری تمنا ہے کہ تُو مجھے دوبارہ دنیا میں بھیج تاکہ میں تیرے نبیﷺ کے ساتھ ہو کر تیری راہ میں لڑوں اور تیری راہ میں دوبارہ مارا جاؤں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں یہ فیصلہ کر چکا ہوں کہ جو ایک بار مر جائیں وہ دنیا میں دوبارہ نہیں لوٹائے جائیں گے۔ حضرت عبداللہ بن عمروؓ نے اللہ تعالیٰ سے عرض کی کہ اے میرے ربّ! میرے پیچھے رہنے والوں تک یہ بات پہنچا دے۔ اس موقع پر پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْیَاءٌ عِنْدَ رَبِّہِمْ یُرْزَقُوْنَ (آل عمران: 170) یعنی جو اللہ کی راہ میں مارے گئے تم انہیں ہرگز مردہ نہ سمجھو بلکہ وہ تو زندہ ہیں انہیں ان کے ربّ کے ہاں رزق عطا کیا جا رہا ہے۔ مزید پڑھیں: خلافت کی اطاعت میں احمدی عورت کی ذمہ داریاں