(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ۱۱؍جنوری ۲۰۱۳ء) حضرت میاں غلام حسن صاحب بھٹیؓ کی روایت ہے۔ فرماتے ہیں کہ مَیں فتاپور (فتح پور) تعلیم حاصل کرتا تھا، پھر دو تین سال کے بعد میرے دوست میاں لال دین آرائیں جو ایک مخلص اور نیک اور راست گو آدمی تھے، انہیں رات کو خواب میں آیا کہ مَیں (یعنی وہ، میاں لال دین صاحب) جناب حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں حاضر ہوا ہوں۔ حاضر ہونے پر مَیں نے حضور کو السلام علیکم عرض کیا۔ حضور نے وعلیکم السلام فرما کر فوراً فرمایا کہ میاں لال دین! آ گئے ہو؟ تو مَیں نے عرض کیا جی ہاں !آ گیا ہوں۔ حضور ایک کرسی پر رونق افروز تھے اور آپ کی دائیں طرف ایک کرسی پر ایک اور شخص بیٹھا تھا۔ حضور نے فرمایا کہ میاں لال دین! تو نے اس آدمی کو پہچانا ہے؟ یہ مہدی ہے۔ اُسے پہچان لے۔ مَیں نے عرض کیا جناب مَیں نے پہچان لیا ہے۔ کہتے ہیں، میاں لال دین صاحب مرحوم فرماتے ہیں کہ مَیں نے جو مہدی کی طرف دیکھا تو معلوم ہوا کہ اُن کے چہرے سے نور کی شعاعیں نکل رہی ہیں۔ اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی۔ اس خواب کے دیکھنے پر اُن کی طبیعت(یعنی میاں لال دین صاحب کی طبیعت) فوراً خدا تعالیٰ کی طرف جھک گئی اور بال بچوں کو نماز کی تلقین شروع کی۔ خود مسجد میں زیادہ جاتے۔ لوگوں نے اُنہیں دیوانہ تصور کیا اور دیوانگی کا علاج کرنے لگے۔ مولوی سلطان حامد صاحب احمدی مرحوم ایک زبردست حکیم تھے۔ انہوں نے جب یہ خواب سنی تو فوراً قادیان کی طرف روانہ ہو پڑے۔ اُس وقت مہدی کی آمد کی مشہوری تھی۔ مولوی صاحب کی روانگی پر میاں لال دین نے اُن کو فرمایا کہ حضرت صاحبؑ سے میرے لئے بھی دعا طلب فرماویں۔ جب مولوی صاحب مذکور بیعت کر کے واپس آئے(یعنی مولوی سلطان حامد صاحب) تو میاں لال دین نے اُن سے دریافت فرمایا کہ میرے لئے دعا آپ نے حضرت صاحب سے منگوائی تھی۔ مولوی صاحب نے فرمایا کہ بھائی میں بھول گیا ہوں۔ میاں لال دین صاحب نے فرمایا کہ اچھا آپ قادیان سے ہو آئے ہیں لیکن مَیں نہیں گیا، آپ مجھ سے قادیان کا حال دریافت فرما لیویں۔ (یعنی گو مَیں گیا تو نہیں لیکن مَیں نے خواب میں جو نظارے دیکھے ہیں، وہ سارا حال بیان کرسکتا ہوں۔) چنانچہ انہوں نے قادیان کا نقشہ خواب میں جو دیکھا تھا، خوب کھینچ دیا۔ مولوی صاحب متحیر ہو گئے۔ مولوی صاحب کی زبانی گفتگو سن کر (جو انہوں نے قادیان کے واقعات بیان کئے، یہ بیان کرنے والے کہتے ہیں کہ) ہم تین آدمی یعنی منشی کرم الٰہی گرداور (گرداور محکمہ مال کا ایک پٹواری اور گرداوری عملے کا کارکن ہوتا ہے جو کھیتوں میں فصلوں کی پیمائش وغیرہ اور جو لگان لگتا ہے اُس کے لئے مقرر کیا جاتا ہے۔ بہر حال محکمہ مال کے ملازم کو جو گاؤں میں متعین ہوتا ہے اُس کو گرداور بھی کہتے ہیں۔ تو کہتے ہیں) منشی کرم الٰہی صاحب گرداور، میاں رمضان دین میانہ اور میں نے بیعت کے خط تحریر کر دئیے۔ (یہ وضاحت مَیں اس لئے بیان کر دیتا ہوں کہ بعض ترجمہ کرنے والے کہتے ہیں کہ ہمیں بعض باتوں کا پتہ نہیں لگتا) کہتے ہیں اس کے چند ماہ بعد میاں لال دین اور مَیں اور میاں محمد یار اور مراد باغبان (یعنی مرادنامی باغبان تھے)۔ چاروں نے مل کر قادیان جانے کا قصد کیا۔ ہم پیدل چل کر رات کو میاں چنوں کے سٹیشن پر پہنچے۔ پچھلی رات اُٹھ کر نفل پڑھے۔ پھر میاں لال دین نے رات کو خواب سنایا کہ حضرت صاحب فرماتے ہیں کہ گدھے کے لے آنے کا کیا فائدہ ہے۔ (رات کو میاں لال دین نے خواب دیکھی کہ حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا کہ ’’گدھے کو لے آنے کا کیا فائدہ ہے‘‘) تو انہوں نے اصرار کیا (میاں لال دین صاحب نے اس بات پر پھر یہ اصرار کیا کہ) بھائی !ہم میں سے کون ہے جو منافقانہ ایمان رکھتا ہے۔ (یہ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ گدھے کو لے کے آئے ہو، اس کا مطلب ہے کہ یقیناً ہم میں سے کوئی منافقانہ ایمان رکھنے والا ہے۔ فرداً فرداً انہوں نے ان چاروں میں سے ہر ایک سے پوچھا۔ تو مراد باغبان بولا (مرادنامی جو باغبان تھا، اُس نے کہا) کہ مَیں تیرے لئے آ رہا ہوں کہ تم اس جگہ ٹھہر نہ جاؤ، ورنہ مَیں بیعت تو نہیں کروں گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ علیٰ ھذا القیاس۔ ہم گاڑی پر سوار ہو کر بٹالہ اتر کر میاں لال دین کی رہنمائی سے قادیان پہنچے۔ ہم قادیان میں بالا مسجد ٹھیک دوپہر کے وقت داخل ہوئے۔ کھانا کھانے کا وقت تھا، کپڑے وغیرہ ہم نے وہیں رکھے۔ (غالباً یہ مسجد مبارک کے اوپر کے حصہ کی بات کر رہے ہیں ) کہتے ہیں کپڑے وغیرہ ہم نے وہیں رکھے۔ ایک شخص نے آواز دی کہ کھانا تیار ہے۔ سب بھائی آ جاؤ۔ ہم تقریباً اُس وقت دس بارہ آدمی تھے، اکٹھے ہوگئے۔ ایک شخص نے اُنہی میں سے ہم سے پوچھا کہ تمہارا گھر کس ضلع میں ہے۔ میاں لال دین نے جواب دیا کہ ملتان میں۔ اُس نے پھر پوچھا کہ تم کو کس طرح شوق ہوا کہ اس طرف آئے۔ میاں لال دین نے مذکورہ تمام خواب سنایا۔ اُس نے کہا کہ اب تم حضرت صاحب کو پہچان لو گے۔ تو میاں لال دین نے کہا کہ ان شاء اللہ ضرور۔ چنانچہ نئے آدمی جو آتے جاتے رہے۔ وہ آدمی جو بھی ان کا میزبان تھا ان کو آزمانے کے لئے ان سے پوچھتا رہا کہ یہ ہیں مسیح موعود؟تو میاں لال دین نے کہا کہ یہ نہیں ہیں۔ مختلف آدمیوں کے متعلق انہوں نے پوچھا کہ یہ ہیں؟ انہوں نے کہا نہیں، یہ نہیں ہیں۔ کیونکہ مَیں نے خواب میں جو دیکھا وہ کچھ اور شخص تھا۔ لیکن جب حضرت صاحب نے طاقچی سے جھانک کر مسجد میں دیکھا، (جو تھوڑی سی کھڑکی تھی وہاں سے جھانک کر جب مسجد میں دیکھا) تو میاں لال دین نے فوراً کہا کہ وہ حضرت صاحب ہیں۔ وہی نور مجھے نظر آ گیا ہے جو مَیں نے خواب میں دیکھا تھا۔ اُس آدمی نے کہا ٹھیک ہے، تم ٹھیک کہہ رہے ہو۔ (ماخوذ از رجسٹر روایاتِ صحابہ۔ غیرمطبوعہ۔ جلدنمبر ۱۲ صفحہ ۹۲ تا ۹۵۔ از روایات حضرت میاں غلام حسن صاحب بھٹیؓ) مکرم میاں شرافت احمد صاحب اپنے والد حضرت مولوی جلال الدین صاحب مرحوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں کہ والد صاحب سے احمدیت سے پہلے بھی الہامات کا سلسلہ جاری تھا اور قبولِ احمدیت کے بعد یہ سلسلہ بہت ترقی کر گیا۔ احمدیت کی بدولت آپ کو رؤیت باری تعالیٰ بھی ہوئی۔ حضرت رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت بھی کافی دفعہ ہوئی۔ حضرت عمرؓ اور دوسرے بزرگوں کی زیارت وقتاً فوقتاً ہوتی رہتی تھی۔ پھر یہ اپنے والد صاحب کے بارے میں ہی لکھتے ہیں کہ ایک دن مسجد محلہ دارالرحمت میں کسی بات میں چند دوستوں کو رؤیا سنائی جن میں سے ایک دوست تو جناب ماسٹر اللہ دتہ صاحب مرحوم گجراتی تھے۔ بیان کیا کہ حضرت مسیح موعودؑ کا ایک صحابی تھا، اُس کو روزانہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حضوری ہوتی تھی۔ وہ صبح کو وہ کشف حضرت کے حضور پیش کرتے، (یعنی روزانہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو وہ کشف یا رؤیا جو تھے وہ پیش کرتے تھے) اور حضور اُس پر اپنی قلم سے درست ہے یا ٹھیک ہے، لکھ دیتے تھے۔ والد صاحب بیان کرتے ہیں کہ میرے دل میں شیطان نے وسوسہ ڈالا کہ یہ غلط باتیں ہیں۔ (یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ روز روز حضوری ہو رہی ہے اور روز ہی دیدار ہو رہا ہے۔ تو کہتے ہیں) قریب تھا کہ یہ وسوسہ زیادہ شدید ہو جائے کہ خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے میرا دامن پکڑ لیا اور مجھ کو غرق ہونے سے بچا لیا۔ (وہ کس طرح بچایا؟) کہتے ہیں رات کو مَیں بھی خواب میں اپنے آپ کو حضرت رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں پاتا ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بھی وہاں پر تشریف فرما ہیں۔ حاضرینِ مجلس میں سے کسی نے سوال کیا کہ حضور! مکہ کی نسبت تو یہ آیا ہے کہ مَنْ دَخَلَہٗ کَانَ اٰمِنًا۔ کہ اس میں جو داخل ہو گیا امن میں ہو گیا۔ پھر یہ مکّہ جناب کے لئے تو جائے امن نہ بنا۔ (یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے تو امن کی جگہ نہیں بنا۔) حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ میں جا کر پناہ لینی پڑی۔ (یہ خواب اپنی بیان کر رہے ہیں) کہتے ہیں اس کے جواب میں حضرت رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ بھی تو ہے کہ مکّہ کو کوئی فتح نہیں کرسکتا۔ مَیں نے اس کو فتح بھی تو کر لیا۔ کیونکہ یہ میرے نکالے جانے کی وجہ سے میرے لئے حل ہو گیا کہ مَیں اس کو فتح کروں۔ اور بھی کچھ خواب کا حصہ بیان کیا۔ لیکن کہتے ہیں کہ مَیں کم علمی کی وجہ سے پورے طور پر اُس کو یادنہیں رکھ سکا، بھول گیا ہوں۔ پھر کہتے ہیں اُس کے بعد والد صاحب نے کہا کہ اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی۔ اس خواب کے بعد تہجد کا وقت تھا۔ تہجد ادا کی اور مسجد میں چلا گیا۔ صبح کو وہی دوست پھر تشریف لائے اور انہوں نے رات کی سرگذشت کاپی پر لکھی ہوئی حضور کے سامنے رکھ دی۔ حضور نے پھر اس پر اپنی قلم سے تصدیق فرما دی۔ مَیں نے وہ پڑھا تو وہی خواب جو کہ مَیں عرض کر چکا ہوں یعنی وہی سوال اور وہی جواب ہے جو مَیں نے عرض کیا ہے۔ (یعنی ان کو بھی جو خواب آئی تھی، وہی اُس دوست نے بھی سنائی۔ ) اس طرح کہتے ہیں خدا تعالیٰ نے اُس وقت میری دستگیری فرمائی اور مجھے ہلاکت سے بچا لیا کہ یہ خوابیں جو بیان کرتے ہیں وہ سچی خوابیں ہیں۔ (ماخوذ از رجسٹر روایاتِ صحابہ۔ غیرمطبوعہ۔ جلدنمبر ۱۲ صفحہ ۲۷۲ تا ۲۷۴۔ ازروایات حضرت مولوی جلال الدین صاحبؓ) مزید پڑھیں: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک عظیم خلق۔شکرگزاری