کوئی یہ دعویٰ کرہی نہیں سکتا کہ ہم نے کتب کو پڑھ لیا ہے۔ یا قرآن کریم کا ترجمہ پڑھ لیا ہے یا تفسیریں پڑھ لی ہیں یا کچھ احادیث پڑھ لی ہیں اس لئے اب ہم اتنے قابل ہوگئے ہیں کہ اب مزید علم کی ضرورت نہیں۔علم کو تو بڑھاتے چلے جانا چاہئے۔ جو اپنے آپ کو اپنے زعم میں بہت بڑا علمی آدمی سمجھتے ہیں ان کی سوچیں بڑی غلط ہیں۔ حضرت مصلح موعودؓ نے ایک مرتبہ فرمایا کہ الفضل جماعت کا اخبار ہے۔ لوگ وہ نہیں پڑھتے اور کہتے ہیں کہ اس میں کون سی نئی چیز ہوتی ہے، وہی پرانی باتیں ہیں۔حضرت مصلح موعود ؓجن کے بارے میں خداتعالیٰ نے حضرت مسیح موعودؑ کو بتایا تھا کہ وہ علوم ظاہری و باطنی سے پُر کیا جائے گا، وہ فرماتے ہیں کہ شائد ایسے پڑھے لکھوں کو یا جو اپنے زعم میں پڑھا لکھا سمجھتے ہیں کوئی نئی بات الفضل میں نظر نہ آتی ہو اور وہ شائد مجھ سے زیادہ علم رکھتے ہوں لیکن مجھے تو الفضل میں کوئی نہ کوئی نئی بات ہمیشہ نظر آجایا کرتی ہے۔ (مصری صاحب کے خلافت سے انحراف کے متعلق تقریر،انوارالعلوم جلد ۱۴ صفحہ ۵۴۶،۵۴۵) تو جس کو علم حاصل کرنے کا شوق ہو وہ تو پڑھتا رہتا ہے اور بغیر کسی تکبر کے جہاں سے ملے پڑھتا رہتا ہے۔جو علم رکھتے ہیں انہیں اپنا علم مزید بڑھانے کی کوشش کرنی چاہئے اور جو کم دینی علم رکھتے ہیں ان کو بھی اس طرف توجہ دینی چاہئے تا کہ پھر یہ علم جہاں ان کی اپنی معرفت بڑھانے کا باعث بنے وہاں ان کے بچوں کے لئے بھی نمونہ قائم کرنے والا ہو۔جب بچے دیکھیں گے کہ گھروں میں دینی کتابیں پڑھی جارہی ہیں تو ان میں بھی رجحان پیدا ہوگا۔اکثر ان گھروں میں جہاں یہ کتابیں پڑھی جاتی ہیں ان کے بچے شروع میں ہی چھوٹی عمر میں ہی کتابیں پڑھ رہے ہوتے ہیں اور یہ علم پھر سب سے بڑھ کر دعوت الی اللہ کے میدان میں کام آتا ہے۔ (خطاب سالانہ اجتماع مجلس انصاراللہ یوکے ۴؍اکتوبر ۲۰۰۹ء، مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۲۵؍دسمبر ۲۰۰۹ء) مزید پڑھیں: مالی قربانی کا اصل مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا چاہنا ہے