اب چونکہ تلوار کا جہاد نہیں بلکہ صرف قلم کا جہاد رہ گیا ہے اس لیے اسی ذریعہ سے اس میں ہمت، وقت اور مال کو خرچ کرنا چاہیے۔خوب سمجھ لو کہ اب مذہبی لڑائیوں کا زمانہ نہیں۔…ہر طرح سے امن اور آزادی ہے۔ہاں اسلام پر جو حملے ہوتے ہیں وہ قلم کے ذریعہ ہوتے ہیں اس لیے ضروری ہے کہ قلم ہی کے ذریعہ ان کا جواب دیا جاوے۔اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں ایک مقام پر فرماتا ہے کہ جس قسم کی طیاریاں تمہارے مخالف کرتے ہیں تم بھی ویسی ہی طیاریاں کرو۔اب کفار کی طیاریاں جو اسلام کے خلاف ہو رہی ہیں ان کو دیکھو وہ کس قسم کی ہیں؟ یہ نہیں کہ وہ فوجیں جمع کرتے ہوں۔نہیں بلکہ وہ تو طرح طرح کی کتابیں اور رسالے شائع کرتے ہیں۔ اس لیے ہمارا یہی فرض ہے کہ ہم بھی ان کے جواب میں قلم اٹھائیں اور رسالوں اور کتابوں کے ذریعہ ان کے حملوں کو روکیں۔یہ نہیں ہو سکتا کہ بیماری کچھ ہو اور علاج کچھ اور کیا جاوے۔اگر ایسا ہو تو اس کا نتیجہ ہمیشہ غیر مفید اور برا ہو گا۔ یقیناً یاد رکھو کہ اگر ہزاروں ہزار جانیں بھی ضائع کر دی جائیں اور اسلام کے خلاف کتابوں کا ذخیرہ بدستور موجود ہو تو اس سے کچھ بھی فائدہ نہیں ہو سکتا۔اصل یہی بات ہے کہ ان کتابوں کے اعتراضوں کا جواب دیا جاوے۔پس ضرورت اس امر کی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دامن پاک کیا جاوے۔مخالفوں کی طرف سے جو کارروائی ہو رہی ہے اس کا انسداد بجز قلم کے نہیں ہو سکتا۔یہ نری خام خیالی اور بیہودگی ہے جو مخالف تو اعتراض کریں اور اس کا جواب تلوار سے ہو۔خدا تعالیٰ نے کبھی اس کو پسند نہیں کیا۔یہی وجہ تھی جو مسیح موعود کے وقت میں اس قسم کے جہاد کو حرام کر دیا۔ (ملفوظات جلد ۷، صفحہ ۲۳۷،۲۳۶، ایڈیشن ۲۰۲۲ء) حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ بیان فرماتے ہیں: آپؑ [حضرت مسیح موعودؑ] کو اخبار پڑھنے کی بھی عادت تھی۔ اپنی بعثت سے پہلے اخبار وکیل ہندوستان، سفیر ہندامرتسر، نور افشاں لودھیانہ، برادرہند لاہور، وزیر ہند سیالکوٹ، منشور محمدی بنگلور، ودیا پرکاش امرتسر، آفتاب پنجاب لاہور، ریاض ہند امرتسر اور اشاعةالسنہ بٹالہ خرید کر پڑھا کرتے تھے۔ ان میں سے بعض اخبارات میں خود بھی مضامین لکھتے تھے۔ اخبار بینی کا مذاق آپ کو دائمی تھا۔ بعثت کے بعد مختلف زبانوں کے اخبارات قادیان میں آنے لگے۔ جو براہ راست غیرزبانوں کے اخبارات آپ کے پاس آتے تھے آپ ان کا ترجمہ کرا کر سنتے اور اگر ان میں کوئی مضمون اسلام کے خلاف ہوتا تواس کا جواب لکھوا کر شائع کرتے تھے۔ اور جو خود پڑھ سکتے تھے وہ ضرور پڑھتے اور اخبار کے پڑھنے کے متعلق آپ کا معمول یہ تھا کہ تمام اخبار پڑھتے اور معمولی سے معمولی خبر بھی زیر نظر رہتی۔ آخری زمانہ میں اخبار عام کو یہ عزت حاصل تھی کہ آپ روزانہ اخبار عام کو خریدتے تھے اور جب تک اسے پڑھ نہ لیتے رومال میں باندھ رکھتے تھے۔ اور بعض اوقات اخبار عام میں اپنا کوئی مضمون بھی بھیج دیتے تھے اخبار عام کی بے تعصبی اور معتدل پالیسی کو پسند فرماتے تھے۔ (سیرت مسیح موعودؑ صفحہ۶۹) مزید پڑھیں: اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنا انسان کی سعادت ہے