عورت اورمرد، دونوں انسانی معاشرت کا لازمی حصّہ ہیں۔ ایک بہترین معاشرہ کی ترقی اور بقا کا مدار اس بات پرہے کہ مرد اور عورت اپنے اپنے کردار بھرپور طریقے سے نبھائیں۔ایک عورت انفرادی طور پر زندگی میں بیٹی، بہن، بیوی، بہو اور ماں کے کردار نبھاتی ہے۔ اس کے علاوہ اجتماعی طور پربھی وہ معاشرے کی ترقی اور بہبود میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اسلام نے عورت کویہ بلند مقام عطا کیے ہیں تو ساتھ ہی اس سے عظیم توقعات بھی وابستہ کی ہیں جن کو نبھا کر ہی وہ معاشرے کا ایک فعال حصّہ بن سکتی ہے۔ سب سے پہلے تو انفرادی طور پر ایک انسان اور خاص طور پر ایک احمدی مسلمان عورت کی حیثیت سے سب سے اہم ذمہ داری حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی اور ذاتی اصلاح ہےکیونکہ ذاتی اصلاح کے بناوہ کسی بھی اور ذمہ داری کو احسن رنگ میں نبھا نہیں سکتی۔ اور اس کاوش میں اس کی راہنمائی خلیفہ وقت کرتا ہے، اگر وہ خلیفہ وقت کے احکامات کو سنے، سمجھےاور ان کی کامل اطاعت کرے تو نہ صرف ذاتی اصلاح میں کامیاب ہو سکتی ہے بلکہ زندگی کی ہر راہ میں، ہر حیثیت میں سرخرو ہو سکتی ہے۔خلیفہ وقت ہر دور میں ہمیں یاد دہانی کرواتے ہیں کہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں، ایک بیٹی کی حیثیت سے والدین سے حسن سلوک اور ان کی خدمت اور بہن بھائیوں سے پیار کا سلوک کرنا ضروری ہے۔خلافت ہی ایک بیٹی کو یہ شعور دیتی ہے کہ وہ علم کےحصول کے ذریعے دین اور قوم کی خدمت کا حق ادا کرے۔ پھر اس کے بعد شادی کے پاک فریضے سےایک عورت پر بحیثیت بیوی، بہو اور ماں کچھ سماجی اور معاشرتی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں جن کا ادا کرناضروری ہے۔رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے ہر ایک نگران ہے اور اپنی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔(بخاری کتاب الجمعۃ)پس اس حوالے سے شوہر کے گھر، مال اور عزت کی حفاظت اور اولاد کی تربیت کے امور میں، ایک نگران کی حیثیت سے عورت خدا کے حضور جواب دہ ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:’’پھر بیوی کو توجہ دلائی کہ خاوند کے گھر کی، اس کی عزت کی، اس کے مال کی اور اس کی اولاد کی صحیح نگرانی کرے۔ اس کا رہن سہن، رکھ رکھاؤ ایسا ہو کہ کسی کو اس کی طرف انگلی اٹھانے کی جرأت نہ ہو۔ خاوند کا مال صحیح خرچ ہو۔ بعضوں کو عادت ہوتی ہے بلا وجہ مال لوٹاتی رہتی ہیں یا اپنے فیشنوں یا غیر ضروری اشیاء پر خرچ کرتی ہیں ان سے پرہیز کریں۔‘‘ (خطبہ جمعہ۶ /اپریل۲۰۰۷ ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۲۷ /اپریل ۲۰۰۷ء)ایک ماں کی حیثیت سے سب سے بڑی ذمہ داری تو یہ ہےکہ وہ اپنےبچوں کی فکری، ذہنی، اخلاقی اور روحانی تربیت اسلامی تعلیمات کی روشنی میں کرے۔ بچے کے فطری تعلیمی نظام کا پہلا مرحلہ ماں کی گود اور گھر کا ماحول ہوتا ہے لہذا یہ ماں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اولاد کی ذہنی و اخلاقی نشوونما میں اس بات کا خیال رکھے کہ صرف الفاظ رٹانے اور مضامین کو ازبر کرادینے سے تربیت ممکن نہیں بلکہ اسے اپنے عملی طریق سے وہ ماحول مہیا کرنا ہے جو بچے کی شخصی تعمیر کی تشکیل میں مددگار ہو۔ایک ماں کی ذمہ داریوں کے بارے میں نصیحت فرماتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ا یدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:’’پس اگر احمدی بچوں کی مائیں اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے والی بنی رہیں۔ آج اگر آپ اپنی ذ مہ داریوں کو صحیح رنگ میں ادا کرتی رہیں، آپ کے قول اور فعل میں کوئی تضاد نہ ہو۔ آپ کی ہر بات سچ اور صرف سچ پر بنیاد رکھنے والی بنی رہی تو جماعت احمدیہ کی آئندہ نسلیں انشاء اللہ، اللہ سے تعلق جوڑنے والی نسلیں رہیں گی۔ پس ہر وقت اپنے ذہنوں میں اپنے اس مقام کو بٹھائے رکھیں اور اپنی عبادتوں اور اپنے عملی نمونے کے اعلیٰ معیار حاصل کرنے کی کوشش کرتی رہیں۔ قرآن کریم کے جتنے حکم ہیں ان پر عمل کرنے کی کوشش کرتی رہیں۔ تمام اعلیٰ اخلاق جن کی طرف ہمیں اللہ تعالیٰ نے توجہ دلائی ہے انہیں حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ ہمیشہ نیکیاں بجا لانے کے ساتھ ساتھ نیکیوں کی تلقین بھی کرتی رہیں۔ برائیوں کو ترک کرنے والی بنیں اور پھر اپنے ماحول میں برائیوں کو روکنے والی بنیں۔‘‘(جلسہ سالانہ آسٹریلیا۱۵/ اپریل۲۰۰۶ء خطاب از مستورات، مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۱۲/جون۲۰۱۵ء) نکلیں تمہاری گود سے پل کر وہ حق پرستہاتھوں سے جن کی دین کو نصرت نصیب ہو(درعدن صفحہ ۴۸) اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے: پس نیکیوں میں ایک دوسرے پر سَبقت لے جاؤ۔ (البقرہ:۱۴۹)اس آیت سے ثابت ہے کہ صرف مرد ہی نہیں بلکہ عورتوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ ہر میدان میں کوشش کرتے ہوئے آگے بڑھیں۔ ایسا ہی ایک میدان تبلیغ کا بھی ہےاور اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدی خواتین میں استطاعت ہے کہ پردہ کی روح کو قائم رکھتے ہوئے عورتوں کو تبلیغ کرنے کی ذمہ داری بھی بھرپور طریقے سے ادا کرسکتی ہیں۔حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نےمستورات سے ایک خطاب میں فرمایا : ’’پس اے احمدی خواتین،میں تم سے توقع رکھتا ہوں، خدا کا رسول تم سے توقع رکھتا ہے،کہ تم اس بات کی پرواہ نہ کروکہ مرد تمہیں کیا کہتے ہیں بلکہ تم ہر اس نیکی کے میدان میں جس میں مردغافل ہو رہے ہیں آگے بڑھنے کی کوشش کرو۔ ہر نیکی کے میدان میں نئی فتوحات حاصل کرویہاں تک کہ تمہارے مردوں میں بھی غیرت جاگ اٹھے اور وہ بھی دین کی حمیّت میں اور دین کے دفاع میں تم سے آگے بڑھنے کی کوشش کریں۔‘‘ (خطاب مستورات ۲۷ /دسمبر ۱۹۹۱ءصد سالہ جلسہ سالانہ جماعت احمدیہ عالمگیر،حوّا کی بیٹیاں اور جنت نظیر معاشرہ، صفحہ۹۱)پس آج کے دور میں یہ ضروری ہے کہ ہم خلافت کی راہنمائی میں اپنے جائزے لیں اور خلافت کی اطاعت میں اپنی ذمہ داریوں کو اس طور پر نبھائیں کہ ہر احمدی گھرانہ ایک پاک اسلامی معاشرہ کا نقشہ پیش کرے اور ہم حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ اور امام وقت کی توقعات کو پورا کرتے ہوئے اپنے گھروں اور ماحول کو جنت نظیر بنانے والیاں ہوں۔ آمین۔ مزید پڑھیں:ایک احمدی عورت اپنے گھر اور معاشرے میں اعلیٰ اخلاق کی ضامِن ہے