https://youtu.be/QkGeuIWj68s (حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی کتاب ’’ہومیو پیتھی یعنی علاج بالمثل ‘‘کی ریپرٹری یعنی ادویہ کی ترتیب بلحاظ علامات تیار کردہ THHRI) ارجنٹم نائیٹریکم Argentum nitricum (Nitrate of silver) گلے میں بھی آبلے بن جاتے ہیں۔ گلے میں ہیپر سلف کی طرح پھانس اٹکنے کا احساس بہت نمایاں ہوتا ہے۔ اسے نکالنے کی کوشش میں تکلیف اور بھی بڑھ جاتی ہے کیونکہ یہ صرف احساس ہوتا ہے،حقیقت میں کچھ نہیں ہوتا۔ نائیٹرک ایسڈ میں بھی یہ علامت ملتی ہے۔ صرف گلے میں ہی نہیں بلکہ جسم کے مختلف حصوں میں کوئی چیز چبھنے کا احساس ہوتا ہے جہاں ذرا بھی ہاتھ لگ جائے تو بہت درد ہوتا ہے۔ (صفحہ۸۰-۸۱) آرسینک البم Arsenicum album (Arsenious Acid) اگر گلے اور مثانے کی تکلیفوں میں آرسینک کی طرح کی بے چینی پائی جائے تو ہوسکتا ہے یہ بیماری کینسر ہو۔ اسے آرسینک پوری طرح شفا نہ دے تو اس کا استعمال پھر بھی جاری رکھنا چاہیے کیونکہ یہ مرض میں کمی ضرور پیدا کر دیتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ متعلقہ کینسر کی بالمثل دوا فوری تلاش کرنی چاہیے۔ (صفحہ۹۴) خشک کھانسی اور خشک دمہ میں بھی آرسینک کو بہت شہرت حاصل ہے۔ناک میں سوزش ہوجائے، خارش محسوس ہو، چھینکیں آنے کا رجحان ہو، ناک سے پانی کی طرح پتلی رطوبت بہے اور گلے کے گلینڈز سوج جائیں تو ان علامتوں سے بھی آرسینک کی نشاندہی ہوتی ہے۔ (صفحہ۹۶) گلا بیٹھنے میں بھی آرسینک مفید ہے۔ (صفحہ۱۰۰) آرسینک آئیوڈائیڈ یا (آرسینیکم آئیوڈیٹم) Arsenicum iodatum (Iodide of Arsenic) آرسینک آئیوڈائیڈ بہت وسیع الاثر دوا ہے۔ اس کے تمام اخراجات کاٹنے اور چھیلنے والے ہوتے ہیں۔ جس مخرج سے بھی گزر یں وہاں سرخی، جلن اور سوزش پیدا کر دیتے ہیں۔ ناک کی اندرونی سطح متورم اور سخت ہو جاتی ہے، حلق اور کان کے درمیان سوزش کی وجہ سے بہرہ پن بھی پیدا ہو جا تا ہے۔ (صفحہ۱۰۱-۱۰۲) آرم ٹرائی فلم Arum triphyllum (Indian Turnip) نزلاتی تکلیفوں کے دوران اگر آنکھوں میں خارش ہو اور پانی بہے، اوپر کے پپوٹوں میں لرزہ ہو تو آرم ٹرائی فلم سے فائدہ ہو سکتا ہے۔ اس کا نزلہ بہت شدید ہو تا ہے اور مسلسل بہ بہ کر دماغ کو کھوکھلا کر دیتا ہے۔ ناک سے بے حد پانی بہتا ہے اور سخت خارش ہوتی ہے۔ گلے میں یہ خارش اور سنسناہٹ لمبے عرصہ تک رہے تو فالجی اثرات ظاہر ہونے لگتے ہیں اور سنسناہٹ کی بجائے بے حسی پیدا ہو جاتی ہے۔ اس کی فالجی علامات بعض دفعہ گلے کے نگلنے والے یا گھونٹ بھرنے والے عضلات میں ظاہر ہوتی ہیں اور خطرہ رہتا ہے کہ ایسا مریض جب لقمہ لے تو لقمہ غلط نالی میں نہ داخل ہو جائے یا گلے کے اندر ہی اٹکا نہ رہ جائے۔ اسی طرح وہ لوگ جو پانی پینے میں جلدی کرتے ہیں اگر آرم ٹرائی فلم کے مریض ہوں تو خطرہ ہے کہ پانی معدے میں جانے کی بجائے اوپر ناک کی نالی میں چڑھ جائے۔ گلے کے غدود متورم ہو جاتے ہیں۔ منہ اور حلق میں گھٹن ،کچاپن دکھن اورجلن کا احساس ہو تا ہے، زبان پر سرخی اور دکھن کے علاوہ جلن دار سنسناہٹ بھی پائی جاتی ہے۔ اس تکلیف کو عموماً Strawberry Tongue کہا جاتا ہے۔ منہ میں زخموں اور چھالوں کی وجہ سے اتنی تکلیف ہوتی ہے کہ پانی پینا بھی دوبھر ہو جا تا ہے۔ اس تکلیف میں آرم ٹرائی فلم غیر معمولی اثر دکھانے والی دوا ہے۔ اس میں آواز کا زیرو بم بدلتا رہتا ہے، زیادہ بولنے اور سردی کی وجہ سے آواز بیٹھ جاتی ہے اور کبھی کبھی اچانک اونچی بھی ہو جاتی ہے۔ (صفحہ۱۰۷-۱۰۸) بپٹیشیا Baptisia بپٹیشیا گلے کی خرابیوں میں بھی بہت مفید ہے۔ گلا متعفن بیماریوں کی وجہ سے سخت متاثر ہو تا ہے لیکن بعض دفعہ اس کے ساتھ درد نہیں ہو تا جس کی وجہ سے مریض کو گلے کی بیماری کی خطرناک صورت کا احساس نہیں ہوتا لیکن گلے کے غدود یعنی ٹانسلز (Tonsils) کے اندر درد کی علامات ملتی ہیں۔ ہاں اس کے اردگرد کے ریشوں میں درد نہیں ہو تا جو گلے کی عام خرابیوں میں ضرور پایا جاتا ہے۔ اگر گلے کی تکلیف میں درد نہ بھی ہو لیکن گلا متعفن ہو تو اس میں بپٹیشیا بہت مؤثر دوا ہے۔ (صفحہ۱۲۱) بپٹیشیا کے گلے کی خرابی میں یہ علامت پائی جاتی ہے کہ مائع چیز پینے میں دقت نہیں ہوتی لیکن ٹھوس غذا نگلنے میں دشواری ہوتی ہے۔ مریض اگر کوشش کرے تو خوراک سانس کی نالی میں چلی جاتی ہے۔ (صفحہ۱۲۴) برائیٹا کارب Baryta carb اس دوا کا سب سے زیادہ اثر گلینڈز پر ظاہر ہوتا ہے۔ گلینڈز (غدود) میں سوزش ہو جاتی ہے۔ جہاں جہاں بھی گلینڈز ہوں، خصوصاً گلے کے اوپر والے حصہ میں، وہاں مستقل سوجن ہو جاتی ہے۔ ہر دفعہ بیماری کا حملہ اس سوجن میں اضافہ کردیتا ہے۔ (صفحہ۱۲۶-۱۲۷) برائیٹا کارب کی یہ علامت ہر قسم کے غدودوں میں بھی پائی جاتی ہے۔ گلے کے غدود اگر ایک دفعہ سوج جائیں تو پھر کم ہونے کا نام نہیں لیتے اور مستقل سوجے ہی رہتے ہیں۔ (صفحہ۱۲۹) بعض دفعہ گلے کے غدود سوج کر کن پیڑوں کی طرح موٹے ہو جاتے ہیں ان میں بھی برائیٹا کارب بہت مفید ہے۔ کن پیڑوں میں بھی یہ مفید ثابت ہو سکتی ہے۔ (صفحہ۱۲۹) برائیٹا کارب میں گلے اور ٹانگوں کا فالج نمایاں ہے۔(صفحہ۱۳۰) بیلا ڈونا Belladonna (Deadly Night Shade) بیلاڈونا کے مریض کی جلد پر نکلنے والے دانوں اور غدودوں کی تکلیف میں سوزش نمایاں ہوتی ہے۔ گلا اچانک پھول جاتا ہے اور سخت سوزش ہوتی ہے، گھونٹ بھرنا بھی دو بھر ہو تا ہے۔ ایسی تکلیف میں بیلاڈونا بہت مفید ہے۔ (صفحہ۱۳۵-۱۳۶) بنزوئیکم ایسڈم Benzoicum acidum (Benzoic Acid) بنزوئیک ایسڈ میں صبح کے وقت مریض کی آواز بیٹھی ہوئی ہوتی ہے۔سبزی مائل بلغم خارج ہوتی ہے۔ کھانسی رات کو بڑھ جاتی ہے۔ رات کو سوتے ہوئے درد میں اضافہ ہوتا ہے۔ آدھی رات کے بعد شدید دھڑکن اور گرمی کی شدت کی وجہ سے مریض کی آنکھ کھل جاتی ہے۔ (صفحہ۱۴۶) بربرس ولگرس Berberis vulgaris (Bar berry) منہ میں خشکی سے زبان چپکتی ہے اور جلی ہوئی اور چھلی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔کبھی کبھی منہ میں دھنکی ہوئی روئی کی طرح کا تھوڑا تھوڑا جھاگ دار تھوک پیدا ہو تا ہے جو منہ اور گلے کو تر نہیں کر سکتا۔ کبھی زبان پر چھالے بھی ہو جاتے ہیں۔ (صفحہ۱۴۹) بوریکس Borax (پھول کیا ہوا سہاگہ) اس دوا میں گلا بیٹھنے کا رجحان بھی پایا جاتا ہے۔ (صفحہ۱۵۶) برومیم Bromium برو میم میں ڈفتھیریا کی بجائے گلے کی دوسری بیماریاں عام ملتی ہیں۔ غدود سوج کر سخت ہو جاتے ہیں اور گٹھلیاں بڑھتی چلی جاتی ہیں، گل کر اور پیپ بن کر ختم نہیں ہو تیں۔ اس دوا کا غدودوں کی ہر قسم کی سوزش سے گہرا تعلق ہے لیکن عام ہومیو پیتھ اس سے پورا استفادہ نہیں کرتے۔ تھائیرائیڈ (Thyroid) کی ہر قسم کی خرابی میں بہت کار آمد ہے۔ اگر دوسری دوائیں علامات ملنے کے باوجود کام نہ کریں اور غدود بہت سخت ہو جائیں اور رفتہ رفتہ بڑھیں تو ایسی صورت میں برومیم کو فراموش نہیں کرنا چاہیے۔(صفحہ۱۵۹) برومیم نرخرہ کے ورم (Laryngitis)میں بھی بہت مفید ہے کیونکہ اس میں بھی زخم بننے کا رجحان ہوتا ہے۔ (صفحہ۱۶۰) برائیونیا ایلبا Bryonia alba گلے کی خرابی سے جو تعفنی بخار ہوتے ہیں وہ نہایت ضدی اور خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انفیکشن گلینڈ ز کے ایسے حصوں میں اپنی جگہ بناتی ہے جہاں خون کا دوران پورا نہیں ہو تا اس لیے جسم کے دفاعی مادے بھی وہاں زیادہ اثر نہیں دکھا سکتے۔ (صفحہ۱۷۰) گلے کے جس انفیکشن میں بخار روزانہ پہلے سے زیادہ ہو تا چلا جائے اور خصوصاً رات کے آخری حصہ میں بہت زور دکھائے تو صبح کے وقت درجہ حرارت کم ہونے پر ہرگز یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ مریض ٹھیک ہو رہا ہے۔ اس غلط فہمی کے نتیجہ میں بے احتیاطی اور بد پر ہیزی بھی ہو جاتی ہے۔ دوسری رات کو بخار پہلے سے بھی زیادہ ہو گا۔ اگر دو تین دفعہ ایسا ہو تو بچوں میں یہ جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے اس لیے گلے کے بخار کو معمولی نہیں سمجھنا چاہیے۔ ڈاکٹر عموماً فوراً اینٹی بائیوٹک دے دیتے ہیں جن سے بخار تو اتر جاتا ہے لیکن اس کے نتیجہ میں اس کا حملہ بار بار ہونے لگتا ہے۔ بعض دفعہ ایک حملہ کے ختم ہوتے ہی دوسرا حملہ شروع ہو جاتا ہے۔ پھر زیادہ طاقتور اینٹی بائیو ٹک دینی پڑتی ہے۔ایسے مریضوں کا جگر لازماً تباہ ہو جاتا ہے، بھوک ختم ہو جاتی ہے،بچے ہڈیوں کا ڈھانچہ بن کر رہ جاتے ہیں، گلے مزید پھولنے لگتے ہیں، بخار غدودوں کو اور بھی موٹا کر دیتا ہے۔ پس جہاں تک ممکن ہو اینٹی بائیوٹک دواؤں سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔(صفحہ۱۷۰-۱۷۱) (نوٹ ان مضامین میں ہو میو پیتھی کے حوالے سے عمومی معلومات دی جاتی ہیں۔قارئین اپنے مخصوص حالات کے پیش نظر کوئی دوائی لینے سے قبل اپنے معالج سے ضرورمشورہ کرلیں۔) مزید پڑھیں: ہومیو پیتھی یعنی علاج بالمثل(گلے کے متعلق نمبر ۱)(قسط ۱۱۷)