https://youtu.be/0v8MIy8sUvQ (از حضرت میاں معراج الدین عمر صاحب رضی اللہ عنہ) حضرت میاں معراج الدین عمر صاحب رضی اللہ عنہ ۱۸۷۵ء میں لاہور کے معروف گھرانے میں میاں عمردین کے ہاں پیدا ہوئے۔آپ ؓ کو ۱۸۹۲ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو قبول کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نےعلاوہ انتظامی قابلیتوں کے آپؓ کو تحریر کا خوب ملکہ بخشا تھا ۔مثلا ًآپؓ نےجب حضرت اقدس مسیح موعود ؑ کی اجازت سے ۱۹۰۶ء میں براہین احمدیہ کا ایک ایڈیشن شائع کیا تو اس میں پچاس سے زائد صفحات پر مشتمل آپؑ کے مقدس سوانح بھی مختصر طورپرتحریرفرمائے تھے۔آپؓ کی وفات ۲۱؍جولائی ۱۹۴۰ء کوہوئی۔ حضرت میاں معراج الدین صاحب کی زیر نظر کتاب ’’تقویم عمری‘‘ جو غالباً ۱۹۰۷ء میں سامنے آئی، مطبع بدر واقع معراج منزل لاہور سے شائع ہوئی تھی۔ اس میں ۱۷۷۳ء سے شرو ع کرکے ۱۹۰۷ء تک کا ایک ایسا کیلنڈر مہیا کیا گیا ہے جس سے استفادہ کرکے محققین ان مذکورہ ۱۲۵ برسوں کی عیسوی، ہجری، فصلی، بکرمی تاریخیں بآسانی معلوم کرسکتے ہیں اوراس کتاب سے مسیح موعود کے انتظار، اس کے ظہور کی نشانیوں کےپورا ہونے اورمسیح موعودؑ کی صداقت کے ثبوتوں سے متعلق متفرق واقعات کے ماہ و سنین کا جاننا کافی آسان ہوگیا۔ اس کیلنڈر کی مدد سے قاری ۱۱۹۷ہجری تا ۱۳۲۵ ہجری اور ۱۱۹۰ فصلی تا ۱۳۹۵ فصلی، نیز ۱۸۳۹سمت تا ۱۹۶۴ بکرمی کی مفصل تاریخیں معلوم کرسکتا ہے اور ان تواریخ کا باہمی تطابق بھی کرسکتا ہے۔ یقیناً یہ اہل وطن کے لیے ایک خاص آسانی اور مدد اور خدمت کا کام تھا۔ ستمبر ۱۹۰۶ء میں بمقام معراج منزل، نولکھا لاہور لکھے گئے اس کتاب کے اپنے دیباچہ میں مصنف نے کیلنڈر کی اہمیت پر روشنی ڈالی ہے۔ اوربتایا ہے کہ خدا تعالیٰ کا شکر کرنا چاہیے کہ جس نے انسان کودیگر تمام مخلوقات سے بڑھ کر دنیا کی مختلف چیزوں کا مالک ہونے، ان اشیاء اور امور کا ریکارڈ رکھنے، اور پھر انہی متفرق واقعات و اشیاء کو اگلی نسلوں تک منتقل کرنے کا عظیم شرف عطا فرمایا ہے اوراگر غور کیا جائے تو صاف عیاں ہوتا ہے کہ سوائے انسان کے کوئی بھی ایسی مخلوق نہیں کہ جو کہ انسان کی طرح جائیداد اور مملوکات کی مالک و وارث ہو سکے یہ ایک ایسا اعلیٰ سلسلہ ہے کہ ایک منظم و مربوط معاشرے کا قیام اس چیز کے سبب سے ہے اور اس میں جتنی بھی ترقی ہوتی جاتی ہے اسی قدر یہ سلسلہ زیادہ مضبوط اور قیمتی ہوتا جاتا ہے اور تمام حقوق اور آداب اوراخلاق آسمانی تعلیم یا صحیفہ فطرت یا انسانی سوسائٹی اورزندگی کی حفاظت اور امن کے لیے منکشف اور تجویز کرتے ہیں وہ سب اسی کی بدولت ہیں ۔ جہاں تک انسان کی پہنچ ہو سکتی ہے تمام کے تمام حقوق موت اور پیدائش سے پیدا ہوتے ہیں۔ اور ان تمام حقوق کا مدار تاریخوں کی نگہداشت پر ہوتا ہے ۔اس لیے تمام دنیا کی ہر ایک قوم نے اپنے اپنے مذاق اور تاریخوں کی یادداشت کے لیے علیحدہ علیحدہ سن اور اور مہینے مقرر کر لیے ہوئے ہیں۔ سالوں کی ابتدا کسی بڑے تاریخی یا مذہبی واقعہ پر کی گئی ہے۔ اسی طرح ملک ہندوستان میں جو ایک مجموع الاقوام ہے۔ کئی قسم کے سن اور مہینے تاریخوں کے لیے مروج ہیں۔ ان سنین کا باہم بہت اختلاف ہوتا ہے۔ بعض اپنے کیلنڈر کا مدار آفتابی گردش پر رکھتے ہیں اور بعض کا قمری گردش پر انحصار ہے اور بعض بروج فلکی کی گردشوں پر منحصر رکھے گئے ہیں۔ قمری حساب بہت سادہ اور صاف اور قابل فہم ہے۔ سن ہجری جو مسلمانوں میں مروج ہے ۔وہ قمری حساب پر ہی منحصر ہے اس سَن کی ابتدا اس روزہوئی جس روز اہل مکہ کےظلموں اور سختیوں کی وجہ سے آنحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ کی طرف تشریف لے گئے تھے۔ ایک امر میں منجموں اور مسلمانوں میں اختلاف ہے اوراس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ منجمین کے نزدیک آفتاب کے نصف النہار پر پہنچ جانے سے دن شروع ہو جاتا ہے اورعلمائے اسلام کے نزدیک غروب آفتاب سے نیا دن شروع ہوتا ہے لیکن اس بات پر کثرت سے مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ ہجرت ۱۶ جولائی ۶۲۲ عیسوی بروز جمعہ ہوئی تھی ۔ قمری حساب کا دورہ ۳۰ سالوں کا ہوتا ہے اور اس میں۱۹سال تو ۳۵۴ دنوں کے ہوتے ہیں اور ۱۱ سال ۳۵۵ دنوں کے ہوتے ہیں۔اور اس طرح اس سارے تیس سالہ دور کے ۱۰۶۳۱ دن ہوتے ہیں جو ۲۹ سال ۳۹ایام شمسی کے برابر ہیں۔ ۳۰ سالہ دور کے دوسرے۔ پانچویں۔ ساتویں۔ دسویں۔ تیرھویں۔ سولہویں۔ اٹھارھویں۔اکیسویں۔ چھبیسویں۔ انتیسویں سال کے ۳۶۵ دن ہوتے ہیں۔ باقی سب سال ۳۵۴ دنوں کے ہوتے ہیں۔یوں بحساب اوسط ہر سال ۳۰؍۱۱ ۳۵۴دنوں کا ہوتا ہے۔ گویا قمر کی صحیح رفتار سے ۳ لمحہ یومیہ فرق پڑتا ہے اور اس حساب سے ایک مدت مدید بعد محض ایک آدھ دن کا فرق پڑے گا۔ ہجری مہینے بھی دوسرے مہینوں کی طرح سال میں بارہ ہی ہوتے ہیں۔ ان کی بنا سادہ اور طبی انداز پر رکھی گئی ہے۔ ہر مہینہ چاند کی رویت سے شروع ہوتا ہے ۔کوئی مہینہ ۲۹ اور کوئی ۳۰ دنوں کا ہوتا ہے۔ ۲۹ سے کم اور ۳۰ سے زیادہ کاکوئی مہینہ نہیں ہوتا۔ مہینے کی پہلی تاریخ کوغرہ اور آخری دن کو سلخ کہتے ہیں۔ مسلمانوں کے کیلنڈر کے مہینوں کے نام دیوتاؤں یا ستاروں کے نام سے نامزد نہیں بلکہ تاریخوں کے شمار پر ان کے نام رکھے ہوئے ہیں۔ برصغیر میں مہینے تو عربی ہی استعمال ہوتے ہیں لیکن ان کا ترجمہ فارسی عام طور پر مروج ہے۔ ذیل میں مہینوں اور دنوں کے نام لکھے جاتےہیں: اسلامی مہینوں نے نام: محرم، صفر، ربیع الاول، ربیع الثانی، جمادی الاول، جمادی الثانی، رجب، شعبان، رمضان، شوال، ذی القعدہ، ذی الحجہ، اسلامی دنوں کے نام: جمعہ، شنبہ، یکشنبہ، دو شنبہ، سہ شنبہ، چہار شنبہ، پنج شنبہ، ہر مہینے اور ہر دن کا نام کوئی نہ کوئی وجہ تسمیہ رکھتا ہے لیکن اس جگہ بخوف طوالت کسی کی وجہ تسمیہ نہیں لکھی جاتی۔ سن عیسوی:اس کا عام طور پر عیسائیوں میں رواج ہے۔ اس کی ابتدا یکم جنوری اور آخیر ۳۱ دسمبر کو ہوتی ہے۔ کئی صدیوں تک عیسائیوں میں رومی اور یونانی سَن ہی جاری رہے لیکن چھٹی صدی میں عیسائیوں کو اپنا ایک علیحدہ سال رواج دینے کی ضرورت محسوس ہوئی ۔چنانچہ رومی سال کی بنا پر یسوع مسیح کی پیدائش سے نئے سال کی تجویز کر کے رواج دے دیا۔عیسائیوں کے تین متواتر سالوں میں ہر ایک ۳۶۵ دنوں کا اور چوتھا سال ۳۶۶ دنوں کا ہوتا ہے۔ ان کے ہاں بھی ۱۲ مہینے ہی ہوتے ہیں۔ انہوں نے اپنے نئے سالوں کے مروج کرنے میں اتنی احتیاط نہیں کی کہ مہینوں کے نام نئے تجویز کر لیتے بلکہ قریباً وہی پرانے نام ہی اپنے طرز میں بھی جاری رکھے۔ ان مہینوں کے نام جنوری، فروری، مارچ، اپریل، مئی، جون ، جولائی، اگست، ستمبر، اکتوبر، نومبر اور دسمبر ہیں۔ان میں سے اپریل، جون ، ستمبر، نومبر تیس دنوں کے ہیں اور باستثنائے فروری کے باقی سب مہینے ۳۱ دنوں کے ہوتے ہیں۔ فروری ہمیشہ ۲۸ دنوں کا ہے لیکن ہر چوتھے سال اس مہینہ کے ۲۹ دن ہوتے ہیں۔ اس کو لیپ کا سال یا کیبسہ کہتے ہیں۔ سن فصلی:جب شہنشاہ اکبر ۲ ربیع الثانی ۹۶۳ ہجری بمطابق ۱۵ فروری۱۵۵۶ء کو سریرسلطنت پر رونق افروز ہوا، تو اس وقت سمت بکرماجیتی کا تمام دفاتر شاہی میں رواج تھا۔ کونسل واضعان قانون دربار اکبری، جن کا نام نورتن تھا، نے سمت بکرماجیتی کا نکال کر سن ہجری کو اس کی جگہ جاری کرنا چاہا۔ لیکن چونکہ یہ حساب قمری تھا اور اصول ملک داری یکدم ایسے تغیر کی اجازت نہ دیتے تھے، نیز مدار تحصیل حاصل فصول شمسی حساب پر تھا۔ اس لیے یہ نیا سال جاری کردیا گیا اور اس کا نام سال فصلی رکھا گیا۔ اس کی ابتدا اس طرح کی کہ ابتدا فصل خریف میں جب ونرات برابر ہوئے اور اتفاق سے محرم کا مہینہ بھی تھا تو جتنے ہجری سال گزر چکے تھے اور فصل خریف کے دن شروع تھے، شمار کر کے فصلی نام رکھا اور پہلے مہینے کاکنوار نام مشہورکیا اس مہینے کو بعض علاقوں میں اسوں بھی کہتے ہیں۔ اس مہینے کا پہلا دن سدی پکھ کا دن ہوتا ہے۔ فصلی مہینوں کے نام بھی ملک کی آسانی کے لیے سمتی مہینوں کے نام پر رکھے گئے ۔ فصلی سن کا ہندوستان کے بعض علاقوں میں بہت رواج ہے۔ ہندی سال: ہندیوں میں شمسی اور قمری دونوں قسم کے سال مروج ہیں۔ شمسی سال ۳۶۵ دن ۱۵ گھڑی ۳۰ پل اور ساڑھے ۲۲ لمحہ کے ہوتے ہیں۔ ان میں بھی ۱۲ مہینے ہی ہوتے ہیں اوران مہینوں کا حساب برجوں کے حساب پر رکھا ہوا ہے۔ اہل نجوم نے آفتابی گردش کے لیے ۱۲ بروج مقرر کیے ہوئے ہیں۔ اور اس تقسیم میں ہندی، یونانی، فارسی، لاطینی وغیرہ سب متفق ہیں۔ ان کے حساب سے آفتاب ہر ایک برج میں جتنا عرصہ رہتا ہے اس کومہینہ شمار کیا جاتا ہے۔ جب ایک برج سے نکل کر آفتاب دوسرے برج میں داخل ہوتا ہے تو اس وقت سے جدید شمسی مہینہ شروع اور پہلا مہینہ ختم سمجھا جاتا ہے۔ ذیل کا نقشہ یہ امر دکھا رہاہے کہ دنیا کی مختلف اقوام میں شمسی نظام کا حساب کیسا ہم رنگ اور متوافق ہے: الغرض اس قیمتی کتاب سے جو مصنف نے نہایت محنت اور عرق ریزی سے مرتب کی ہے، ایک قاری درج ذیل طریق پر کوئی ماہ و سن معلوم کرکے باہم تطابق بھی کرسکتا ہے: سال: ۱۹۰۱ء ۱۳۱۹ہجری ۱۳۰۸فصلی ۱۹۵۸ سمت مزید پڑھیں: نشانِ فضل(از حضرت پیر منظور محمد صاحب رضی اللہ عنہ)(قسط ۶۷)