https://youtu.be/jrlVdLgRS70 ایک طرف دار الندوہ میں موجود یہ سرداران قریش تھےجو اپنے زعم میں ایک بہترین تدبیر کررہے تھےاور ایک طرف وہ خیر الماکرین خدا تھاجو اپنے برگزیدہ رسول کے لیےفتح و نصرت کے نئے دروازے کھول رہا تھا مکہ کی گلیاں رات کے سکوت میں ڈوبی ہوئی تھیں۔ حاجیوں کی آوازیں بھی دن بھر کی دوڑ بھاگ اور مصروفیات کے بعد اب مدھم سی ہوچکی تھیں۔یہ ذوالحجہ کا مہینہ تھا، اور مناسک حج ادا کرنے کے لیے دُور دراز علاقوں سے آنے والے لوگ مکہ مکرمہ میں جمع تھے۔ انہی زائرین میں بارہ افراد کا ایک گروہ بھی شامل تھا، جو بظاہر عام حاجیوں کی طرح ہی نظر آرہا تھا لیکن یہ کوئی عام لوگ نہیں تھے۔ ان میں سے بعض اپنے دلی جذبات اور ایمان کی حرارت کی وجہ سے باقی لوگوں سے بالکل مختلف تھے۔ ان کے دلوں میں ایک خاص جوش، عزم اور ولولہ تھا، جوان کی آنکھوں سے جھلک رہا تھا۔ ان کے دل خدائے واحد کی محبت سے بھرے ہوئے تھے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کے بعد وہ اپنے علاقے میں واپس جاکر اپنی قوم اور قبیلے میں بھی ایک عظیم الشان تبدیلی پیدا کرنے کے خواہشمند تھے جب کہ ان کے بعض ساتھی ایمان کے حوالے سے کچھ ایسی ہی کیفیات سے گزرنے والے تھے۔ان میں سے پانچ اصحاب تو یثرب کے وہی اولین مسلمان تھے جو پچھلے سال مکہ آکر اسلام قبول کرچکے تھے، اور یہ وعدہ کر کے گئے تھے کہ اس پیغام کو وہ اپنے لوگوں میں بھی پھیلائیں گے۔ اور اس سال اپنے وعدے کو پورا کرتے ہوئے وہ اپنے ساتھ کچھ اور خوش نصیب لوگوں کو بھی لے کر آئے تھے جو نبی کریمﷺ کی لائی ہوئی تعلیم کو قبول کر کے اور آپؐ کے ساتھ عہد وفا باندھ کر ایک نئی زندگی کی ابتدا کرنے کے خواہشمند تھے۔ ملاقات کا وقت اور جگہ طے ہوچکی تھی۔رات کے سناٹے میں جب پورا شہر سورہا تھا، یہ گروہ عقبہ کے مقام پر آنحضرتﷺ سے ملاقات کے لیے حاضر ہوا۔ رسول کریمﷺ نے اس اندھیری گھاٹی میں ان سب سے ملاقات کی اور نہایت شفقت اور محبت کے ساتھ ان سے کلام فرمایا۔حضرت عبادہ بن صامتؓ جو اس موقع پر وہاں موجود تھے،بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ نے عقبہ کے مقام پر ہم سے بیعت لی۔وہ بیعت یہ تھی کہ ہم اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے،چوری نہیں کریں گے،زناسے اجتناب کریں گے، اپنی اولادوں کو قتل نہیں کریں گے،کسی پر بہتان نہیں لگائیں گے اور ہر معروف حکم پر عمل کرنے کے لیے آپؐ کی کامل اطاعت کریں گے۔ اس بیعت کے اختتام پر نبی کریمﷺ نے فرمایاکہ اگرتم اپنےاس عہد پر قائم رہو گے تو اللہ تعالیٰ ضرور تمہیں جنت سے نوازے گا۔یہ بیعت تاریخ میں بیعت عقبہ اولیٰ کہلاتی ہےیعنی کہ وہ پہلی بیعت جو عقبہ کے مقام پر نبوت کے ۱۲؍سال بعد اہل مدینہ سے لی گئی تھی۔ یہ ایک تاریخی لمحہ تھا، یہ ایک ایسا اہم واقعہ تھا جس نے آنے والے چند سال کے اندر اندر اسلامی تاریخ کا رخ تبدیل کردیا اور یثرب کو مدینۃالنبیؐ میں تبدیل کر دیا۔(سیرت ابن ہشام الجزء اول صفحہ۴۳۴ مکتبہ مصطفیٰ البابی طبعہ ثانیہ ۱۹۵۵ء) راستہ آسان نہیں تھا اگرچہ اس واقعہ نے تبلیغ اسلام کے لیےایک نیا راستہ کھول دیا تھا،لیکن یہ سفر ہر گزآسان نہیں تھا۔ اس راہ پر چلنے کے لیے جس صبر، استقامت اور یقین کی ضرورت تھی، وہ رسول اللہﷺ کے کردار میں نمایاں نظر آتا ہے۔نبی کریمؐ نے تو اپنی ساری زندگی ہی اللہ کے پیغام کو عام کرنے کے لیےوقف کردی تھی لیکن قدم قدم پر رکاوٹیں تھیں،ہر موڑ پر ایک نیا خطرہ لاحق تھا۔ ہر لمحہ مخالفین کی طرف سے شدید مزاحمت، مخاصمت اور مخالفت کا سامنا رہتا تھا، تاہم ان سب تکالیف کا مقابلہ کرتے ہوئے آپؐ کے پہاڑوں سے بھی بلند عزم میں ایک ذرہ بھی کمی واقع نہیں ہوئی۔ ایک صحابیؓ بیان کرتے ہیں کہ جوانی میں ایک مرتبہ وہ اپنے والد کے ہمراہ منی ٰ کے مقام پر ٹھہرے ہوئے تھے۔ اس موقع پر آپ نے رسول کریمﷺ کو دیکھا جو عرب کے مختلف قبائل کے پاس تشریف لے جارہے تھے اور انہیں اسلام کا پیغام پہنچا رہے تھے۔آپؐ انہیں فرما رہے تھے کہ میں خداتعالیٰ کی طرف سے رسول ہوں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ حکم ہے کہ تم صرف اس کی عبادت کرو اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤ۔اس کے بعد صحابی بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایک اور شخص کو دیکھا جو آپؐ کے پیچھے چل رہا تھا اورجونہی آنحضرتﷺ نے اپنی بات مکمل کی تو وہ شخص فوراً بولا: اےلوگو! یہ تمہیں تمہارے معبودوں لات اور عزیٰ سے دُور لے جانا چاہتا ہے۔ یہ تم لوگوں کو گمراہ کرنا چاہتا ہے۔پس تم ہرگز اس کی کسی بات پر توجہ نہ دو۔ وہ صحابی کہتے ہیں اس پر میں نے اپنے والد سے پوچھا کہ یہ کون شخص ہے جو ان کے ساتھ ساتھ پھر رہا ہے اور ان کی باتوں کو جھٹلا رہا ہے۔اس پر انہوں نے مجھے بتایا کہ یہ انہی کا چچا ابو لہب بن عبدالمطلب ہے۔ ابو لہب کی ان حرکتوں نے آپؐ کی تبلیغی کوششوں کو بڑی حد تک متاثر بھی کیا کیونکہ جب بھی آپؐ قبائل عرب کے سامنے اسلام کا پیغام پیش کرتے تو ان میں سے اکثر و بیشتر کا یہی جواب ہوتا کہ ہم کیسے تمہاری بات کا یقین کر لیں جبکہ تمہارے اپنے ہی چچا،اور تمہارے اپنے خاندان اور قبیلے کے لوگ تمہارا انکار کرچکے ہیں؟ آپ نے قبیلہ کلب کے سامنے اسلام پیش کیا مگر انہوں نے آپ کی بات پر کوئی توجہ نہ دی اور انکار کردیا۔پھر بنی عامر کے لوگوں سے ملاقات ہوئی تو آپ نے انہیں بھی اسلام کی دعوت دی اور ساتھ یہ خوش خبری بھی دی کہ اللہ تعالیٰ ہمیں مخالفوں پر فتح عطا کرے گا۔ بنی عامر کے سرداروں نے کہا کہ اگر ہم تمہاری بات مان لیں تو کیا تم ہمیں اپنا جانشین بنادو گے؟ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’یہ معاملہ تو اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ وہ جسے چاہے یہ مقام دے۔‘‘یہ سن کر وہ سردار بھی وہاں سے اٹھ کر چلے گئے۔ (تلخیص از سیرت حلبیہ جزء ۲ صفحات۳ تا ۵ دارالکتب العلمیہ بیروت طبعہ ثانیہ ۱۴۲۷ ھ) ہر انکار، ہر طعنہ، ہر ایک مخالفانہ فقرہ آپؐ کے دل کو زخمی تو کرتا تھا، لیکن آپؐ کے غیرمعمولی توکل علی اللہ اور مضبوط عزم و ہمت کی وجہ سے آپؐ کو ہر وقت یہ یقین بھی رہا کرتا تھا کہ یہ خداتعالیٰ کا کام ہے اور وہ آپ کی پشت پر خود موجود ہے اس لیے وہ کبھی آپ کو ناکام نہیں ہونے دے گا اور کسی مشکل میں تنہا نہیں چھوڑے گا۔ ہر مشکل ایک نئی امید کا دروازہ کھولتی تھی اور ہر ناکامی ایک نئی کامیابی کا پیش خیمہ قرار پاتی تھی۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں:’’آپؐ کا یہ ہمیشہ دستور تھا کہ جہاں مکہ کے لوگ جمع ہوتے آپؐ وہاں چلے جاتے اور انہیں تبلیغ کرتے حج کے لیےجو لوگ آتے ان کے خیموں میں تشریف لے جاتے اورانہیں تبلیغ کرتے اور اس طرح نہیں کہ کوئی مل گیا تو اسے تبلیغ کردی بلکہ آپؐ تلاش کرتےپھرتے اور ڈھونڈ کر انہیں حق پہنچاتے جس طرح ماں باپ بچےکو تلاش کرکرکے کھلاتے پلاتے ہیں کہ بھوکا نہ رہ جائے‘‘۔ (انوارالعلوم جلد ۶ صفحہ ۴۵۲) مدینہ میں امید کی کرن آنحضرتﷺ نے معمول کے مطابق تبلیغ کے سلسلہ کو جاری رکھا۔انہی دنوں ایک مرتبہ آپؐ کو یہ خبر ملی کہ مدینہ جو اس وقت یثرب کہلاتا تھا،وہاں سے ایک نامور شخص سویدبن صامت مکہ آیا ہوا ہے۔چنانچہ آپؐ اس کے پاس پہنچے اور اسے اسلام کا پیغام پہنچایا۔آپؐ نے اسے قرآن کریم کا کچھ حصہ پڑھ کر سنایا جس پر اس نے آپؐ کی تصدیق کی اور کہا کہ واقعی یہ بہت ہی بہترین کلام ہے مگر افسوس کہ مدینہ واپس جانے کے بعد یہ زیادہ دیر زندہ نہ رہ سکا اور اسے قتل کردیا گیا۔ یہ واقعہ جنگ بعاث کے نزدیکی ایام میں ہی واقع ہوا تھا۔یہ وہ جنگ ہے جو ہجرت سے پہلے یثرب کے دو قبائل اوس اور خزرج کے مابین لڑی گئی تھی۔اس لڑائی میں قتل ہونے والے ایک شخص ایاس بن معاذ بھی تھے جن کا تعلق قبیلہ اوس سے تھا۔جنگ بعاث سے پہلے وہ بھی ایک مرتبہ اپنی قوم کے ہمراہ قبیلہ خزرج کے خلاف قریش سے مدد حاصل کرنے کے لیےمکہ تشریف لائے۔اس قبیلہ کے آنے کا علم جب آپؐ کو ہوا تو آپ ان کے پاس تشریف لے گئےاور انہیں اسلام کی دعوت دی۔ آپﷺ نے جب اپنا دعویٰ پیش کیا تو ایاس نےجو اس وقت کم عمر تھےاپنی قوم سے کہاکہ خدا کی قسم جس مقصد کے لیےہم یہاں آئے ہیں اس سے کہیں زیادہ بڑھ کر یہ پیغام ہےجس کی طرف یہ شخص ہمیں بلا رہا ہے۔ایاس چونکہ ابھی چھوٹے تھے تو قبیلہ کے سرداروں نے اسی وقت آپ کو خاموش کروادیااور کہا کہ ہم اس مقصد کے لیےیہاں نہیں آئےاور یوں یہ معاملہ وہیں ختم ہوگیا۔(سیرت ابن ہشام الجزء اول صفحہ۴۲۷۔۴۲۸ مکتبہ مصطفیٰ البابی طبعہ ثانیہ ۱۹۵۵ء) لیکن ان ابتدائی کوششوں کے کارآمد ثابت نہ ہونے کے باوجود بھی رسول کریمﷺ حسب دستور ہر سال حج کے موسم میں مختلف عرب قبائل سے ملتے رہےاور بالآخر وہ گھڑی بھی آپہنچی جب اللہ تعالیٰ نے آپ سے کیے ہوئے وعدہ کو پورا کرنے کا ارادہ فرمایا۔حج کے دوران جب آپؐ تبلیغ اسلام میں مصروف تھے تو آپ کی ملاقات یثرب کے چند لوگوں سے ہوئی۔ یہ قبیلہ خزرج کی ایک چھوٹی سی جماعت تھی۔آپؐ نے ان سے پوچھا کہ کیا آپ تھوڑی دیر کے لیےمیری بات سننا پسند کریں گے؟انہوں نے کہا ضرور۔آخرآپؐ ان کے ساتھ بیٹھ گئے اور انہیں اپنے دعویٰ کے بارہ میں بتانے لگے۔جب ان لوگوں نے یہ دعویٰ سنا تو آپس میں ایک دوسرے کو کہنے لگے کہ یہ تووہی نبی معلوم ہوتے ہیں جن کے بارے میں یہود ہمیں ڈراتے ہیں۔اس سے پہلے کہ وہ ایمان لائیں ہم آپ پر ایمان لاکر سبقت لے جاتے ہیں۔اس مشورے کے ساتھ قبیلہ خزرج کے یہ ۶ اشخاص مسلمان ہوگئے،جن کے نام یہ ہیں: ۱۔ حضرت اسعد بن زرارہؓ ۲۔ حضرت عوف بن حارثؓ ۳۔ حضرت رافع بن مالکؓ ۴۔حضرت قطبہ بن عامرؓ ۵۔حضرت عقبہ بن عامرؓ ۶۔حضرت جابر بن عبداللہؓ (سیرت ابن ہشام الجزء اول صفحہ۴۲۹۔۴۳۰ مکتبہ مصطفیٰ البابی طبعہ ثانیہ ۱۹۵۵ء) (اسدالغابہ جلد۱صفحہ۴۹۲ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت۲۰۰۳ء) مکہ سے جاتے ہوئے انہوں نے آپؐ سے عرض کیا کہ آپ ابھی اپنی رسالت کا سلسلہ یہاں جاری رکھیں ہم اپنی قوم میں جاکر انہیں اسلام کی تبلیغ کریں گے،ممکن ہے کہ خدا تعالیٰ آپ کے ذریعہ سے ہمارے درمیان اصلاح پیدا فرما دے۔ اتنے سال کی محنت اور کوشش کے بعد بالآخراب مدینہ میں کامیابی کی امید نظر آرہی تھی۔آپؐ نے بھی اسی خیال سے یہ سال گزارا کہ دیکھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی تقدیر کس رنگ میں ظاہر ہوتی ہے اور اس تبلیغ کا کیا نتیجہ نکلتا ہے۔ اگلے سال حج کے موقع پر آپؐ ان لوگوں سے دوبارہ ملنے کے شوق میں اپنے گھر سے نکلے اور ان کو تلاش کرنے لگے۔چنانچہ مختلف قبائل کے درمیان آپؐ کو اہل مدینہ کی ایک جماعت نظر آئی۔یہ گروہ جو پہلے ہی جوش اور جذبہ لیے مکہ آیا تھا، نہایت ہی پیار اور محبت کے ساتھ آپؐ سے ملا اور یہی وہ خوش نصیب اصحاب ہیں جن کا مضمون کے شروع میں ذکر کیا گیاہے۔ یہ وہ پہلے انصار صحابہ کرامؓ تھے جنہوں نے عقبہ کے مقام پر رسول کریمؐ کی بیعت کی۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’ا صل بات یہ ہے کہ جب مدینہ والوں کو اسلام کی خبر ہوئی اور ایک حج کے موقع پر کچھ اہل مدینہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملے اور آپ کی صداقت کے قائل ہو گئے تو انہوں نے واپس جا کر اپنی قوم سے ذکر کیا کہ جس رسول کی آمد کا مدینہ میں رہنے والے یہودی ذکر کیا کرتے تھے وہ مکہ میں پیدا ہوگیا ہے اس پر اُن کے دلوں میں رسول کریمؐ کی طرف رغبت پیدا ہو گئی اور انہوں نے دوسرے حج پر ایک وفد بنا کر آپ کی طرف بھجوایا۔اس وفد نے جب آپ سے تبادلہ خیالات کیا تو آپ پر ایمان لے آیا اور آپ کی بیعت کر لی‘‘۔(تفسیر کبیر جلد ۱ صفحہ ۲۵۲) مدینہ میں اسلام کا چرچا واپس مدینہ جانے سے پہلے ان انصار نے رسول کریمﷺ سے یہ درخواست بھی کی کہ ہمارے ساتھ کسی معلم کو بھجوادیں جو ہمیں قرآن کریم اور دین کی تعلیم سکھائے۔ آپؐ نے ان کی اس درخواست پر حضرت مصعب بن عمیرؓ کو مدینہ جانے کا ارشاد فرمایا۔ حضرت مصعبؓ مدینہ پہنچ کر اسعد بن زرارہ کے مکان پر ٹھہرے۔ اور یوں مدینہ میں تبلیغ کا کام اور بھی تیزی سے جاری ہوگیااور لوگ کثرت کے ساتھ مسلمان ہونا شروع ہوگئے۔اس صورتحال کو دیکھ کر مدینہ کے سردار بڑے فکرمند تھےاور یہ خیال کر رہے تھے کہ یہ مسلمان ہمارے لوگوں کو بے وقوف بنا رہے ہیں۔چنانچہ سعدبن معاذ جو قبیلہ بنو عبد الاشھل کے رئیس تھے اور قبیلہ اوس کے سردار تھے، وہ بھی ان تمام باتوں سے بے حد پریشان تھے۔ اسعد بن زرارہ سے چونکہ ان کی قریبی رشتہ داری تھی اس وجہ سے انہوں نے خود تو اس معاملے میں کوئی دخل اندازی کرنا مناسب نہیں سمجھا لیکن اپنے ایک دوسرے رشتہ دار اسید بن حضیر سے اس بارہ میں بات کی اور ان سے کہا کہ اسعد اور مکہ سے آئے ہوئے شخص کو روکو کہ وہ ہمارے لوگوں کو بےدین نہ کریں اور ان حرکتوں سے باز آجائیں۔سعد کی اس بات پر اسید بن حضیر اٹھے اور ان دونوں کے پاس گئے اور ان سے کہا کہ تم دونوں ہمارے لوگوں کو بے دین کرنے پر تلے ہوئے ہو،اگر تو تمہیں اپنی جان عزیز ہے تو فوراً اس کام سے باز آجاؤ۔حضرت مصعبؓ نے بڑے ہی نرم لہجے میں اسید سے کہا کہ ذرا ایک منٹ بیٹھ کر میری بات تو سن لیں،اگر آپ کو یہ بات پسند آئی تو اسے مان لیجیےگا اور اگر بات اچھی نہ لگے تو بیشک ہمیں روک دینا۔اسید نے اس پر کہا کہ تمہاری بات تو معقول ہے اور میں اسے سننے کے لیے تیار ہوں۔ یہ کہہ کر وہ وہاں بیٹھ گئے۔حضرت مصعبؓ نے ان کو قرآن کریم پڑھ کر سنایااور اسلام کی خوبصورت تعلیم پیش کی۔اسید پر اس الٰہی کلام کا بے حد اثر ہوا اور کہا کہ یہ کیا ہی خوبصورت کلام ہے اور وہیں اسلام قبول کرلیا۔ مسلمان ہوجانے کے بعد اسید نے ان دونوں سے کہا کہ تم لوگ یہیں انتظار کرو،میں ایک اور شخص کو جانتا ہوں اگر وہ مسلمان ہوگئے تو ان کے ساتھ پورا قبیلہ بھی ایمان لے آئے گا۔اسید بن حضیر واپس سعد بن معاذ کے پاس گئے اور انہیں ان سب باتوں سے مطلع کیااور بتایا کہ میں نے ان کی باتوں میں کوئی خرابی نہیں دیکھی۔آخر سعد بن معاذ شدید غصے میں وہاں سے اٹھے اور حضرت مصعبؓ اور اسعد بن زرارہؓ کے پاس پہنچے اور بڑی سختی سے اسعد کو کہا کہ اے ابو امامہ، خدا کی قسم! تم ان حرکتوں کی وجہ سے اپنی رشتہ داری کا غلط فائدہ اٹھا رہے ہو۔حضرت مصعبؓ نے انہیں کہا کہ آپ ذرا بیٹھ کرہماری بات تو سن لیں،پھر اگر آپ کو بات پسند نہ آئے تو بیشک اعتراض کرلیجئے گا۔ سعد یہ کہہ کر کہ یہ بات تو منصفانہ ہے،آپ کی بات سننے کے لیےبیٹھ گئے۔حضرت مصعبؓ نے دوبارہ اسی طرح قرآن کریم پڑھ کر سنایا اور اسلام کی بنیادی تعلیم بیان کی۔سعد بن معاذ پر ان باتوں کا ایسا اثر ہوا کہ وہ بھی اسید کی طرح مسلمان ہوگئے۔اس واقعہ کے بعد سعد اپنے قبیلے بنی عبد الاشھل کے پاس گئے اور ان سے کہاکہ تمہارا میرے بارہ میں کیا خیال ہے؟سب نے ایک ساتھ کہا کہ آپ ہمارے سردار ہیں اور ہمارے لیےقابل اعتماد ہیں۔سعد نے ان سے کہا تو پھر سن لو کہ میں مسلمان ہوچکا ہوں اور اب میں تم سے اسی وقت تعلق قائم کروں گا جب تم اللہ اور اس کے نبی پر ایمان لے آؤ گے۔یہ تقریر سن کر تمام قبیلہ کے لوگ بھی مسلمان ہوگئے۔(سیرت ابن ہشام الجزء اول صفحہ۴۳۶۔۴۳۷ مکتبہ مصطفیٰ البابی طبعہ ثانیہ ۱۹۵۵ء) بیعت عقبہ ثانیہ ۱۳؍نبوی اگلے سال یعنی ۱۳؍نبوی ذو الحجہ کا مہینہ آنے تک پچھلے دو سال میں اسلام کافی تیزی کے ساتھ مدینہ میں پھیل چکا تھا۔انصار کے ۶ افراد تھے جو سب سے پہلے آپؐ پر ایمان لائے تھے، دوسرے سال ۱۲ اشخاص نے آپؐ سے بیعت کا شرف حاصل کیا۔مگر اس سال امید سے کہیں بڑھ کر لوگ آنحضرتﷺ سے ملنے کے لیےمکہ آئے۔۷۰ اشخاص کی جماعت حضرت مصعب بن عمیرؓ کے ہمراہ مکہ تشریف لائی۔ آنحضرتﷺ کو جب اس کی اطلاع ملی توپچھلے سال ہی کی طرح ایک اجتماعی ملاقات کا وقت مقرر کیا گیا۔ چنانچہ یہ طے پایا کہ حج کے بعد گذشتہ سال والے مقام پر ہی رات کے اندھیرے میں سب اکٹھے ہوں گے۔آخر جب وہ رات آگئی توانصار ایک ایک کر کے عقبہ کے مقام پر جمع ہونا شروع ہوگئے۔آپؐ بھی گھر سے نکلے اور اپنے چچا حضرت عباسؓ کو ساتھ لے کر اس سنسان گھاٹی میں پہنچ گئے۔ سب سے پہلے آپؐ کے چچا حضرت عباس نے بات شروع کی اور کہاکہ اے مدینہ کے لوگو!محمد (ﷺ) اپنے خاندان میں سب سے زیادہ محبوب اور عزیز ہے۔ہر مشکل اور خطرے کے موقع پر آپ کا خاندان ہمیشہ آپ کی حفاظت کرتا رہا ہے۔لیکن اب محمد نے اس بات کا ارادہ کیا ہے کہ وہ اس شہر کو چھوڑ کر تمہارے پاس چلاجائے۔اگر تو تم یہ چاہتے ہو کہ وہ تمہارے پاس آجائے تو تمہیں دشمن کی طرف سے ہر خطرے کے لیےتیار رہنا ہوگااور اگر تم اس سب کے لیےتیار نہیں ہوتو ابھی واضح طور پر بتادو۔البراء بن معرور ایک صحابی ہیں انہوں نے یہ سب سنا تو کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ رسول اللہؐ خود کچھ ہم سے فرماویں۔آنحضرتﷺ نے اس موقع پر قرآن کریم کی چند آیات کی تلاوت فرمائی اور حقوق اللہ اور حقوق العباد پر ایک تقریر پیش کی اور فرمایا کہ میری بس یہی خواہش ہے کہ تم میری ایسی ہی حفاظت کرنا جیسی تم اپنے رشتہ داروں اور اقرباء کی کرتے ہو۔البراء بن معرور نے یہ سب سنا تو آپؐ کا ہاتھ تھام لیا اور کہا کہ خدا کی قسم !ہم اپنی جانوں کی طرح آپ کی حفاظت کریں گے۔یہاں پر ان انصار بھائیوں نے آپؐ سے یہ بھی پوچھا کہ ہمیں دشمن کے ہر مقابلہ کے لیےتیار ہونا ہوگا اور اس کے لیےمختلف قسم کی قربانی بھی دینی پڑے گی لیکن اس سب کے بدلے ہمیں کیا ملے گا؟ آپؐ نے اس پر فرمایا کہ تمہیں اللہ تعالیٰ جنت کی نعمتوں سے نوازے گاجو تمام انعامات سے بڑھ کر ہے۔سب نے یک زبان ہو کر کہا کہ ہمیں یہ سودا قبول ہےاور یوں ان ۷۰ فدائیوں نے بھی اپنی جانوں کو آپؐ کے ہاتھ پر بیچ دیا۔ یہ بیعت تاریخ میں بیعت عقبہ ثانیہ کے نام سے مشہور ہے۔بیعت کے بعد آپؐ نے ان ۷۰ انصار مسلمانوں میں سے ۱۲ نقیب مقرر فرمائے اور انہیں ان کے فرائض سے آگاہ کیا۔اس کے بعد ان سب کو خاموشی کے ساتھ اپنے خیموں میں واپس جانے کا حکم دے دیا۔ اس واقعہ کے حوالہ سے قریش مکہ کو بھی اڑتی اڑتی خبریں موصول ہونا شروع ہوچکی تھیں اس لیےاگلے روز وہ اہل مدینہ کے خیموں میں گئے اور ان سے اس خفیہ بیعت کے حوالہ سے پوچھا۔ اوس اور خزرج کے ان گروہوں میں بت پرست لوگ بھی تھے۔انہوں نے صریح طور پر اس کا انکار کردیااور کہا کہ یہ ہرگز سچ نہیں ہے۔چنانچہ ان کا یہ شک وقتی طور پر تودور ہوگیالیکن ابھی مدینہ والے واپسی کے لیےمکہ سے نکلے ہی تھے کہ اس کی حقیقت قریش پر واضح ہوگئی۔(تلخیص از سیرت ابن ہشام الجزء اول صفحات۴۳۹ تا ۴۵۰ مکتبہ مصطفیٰ البابی طبعہ ثانیہ ۱۹۵۵ء) حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’سچ چھپا نہیں رہتا۔ آپ کی تعلیم کی خبریں باہر مشہور ہوئیں اور یثرب نامی ایک شہر کے لوگ (جسے اب مدینہ کہتے ہیں) حج کے لیےمکہ آئے تو آپ سے بھی ملے۔ آپ نے ان کو اسلام کی تعلیم دی اور ان لوگوں کے دلوں پر ایسا گہرا اثر کیا کہ انہوں نے واپس جاکر اپنے شہر کے لوگوں سے ذکر کیا اور ستّر ۷۰ آدمی دوسرے سال تحقیق کے لیےآئے جو سب اسلام لے آئے اور انہوں نے درخواست کی کہ آپ ان کے شہر میں چلے جائیں مگر آپ نے اس وقت ان کی بات پر عمل کرنا مناسب نہ سمجھا۔ ہاں وعدہ کیا کہ جب ہجرت کا موقع ہوگا آپ مدینہ تشریف لائیں گے‘‘۔(انوار العلوم جلد ۸ صفحہ ۵۵۱) قریش مکہ کی بے چینی اب مزید بڑھتی چلی جارہی تھی۔ انہیں اب یہ احساس ہورہا تھا کہ ان کی گرفت اب کمزور ہورہی ہے۔اسی گھبراہٹ اور غصہ میں انہوں نے دارالندوہ میں ایک اجلاس منعقد کروایا۔قبیلہ کا ہر سردار اس میں شریک تھااور اب ایک بہت ہی خوفناک منصوبہ تیار کیا گیا اور یہ فیصلہ ہوا کہ وقت آچکا ہے کہ اس سلسلے کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیا جائے اور چاہے کچھ بھی ہو اب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اس مشن کی تکمیل کا موقع نہ دیا جائے چاہے اس کے لیے آپؐ کی جان ہی کیوں نہ لینی پڑے۔ ایک طرف دار الندوہ میں موجود یہ سرداران قریش تھےجو اپنے زعم میں ایک بہترین تدبیر کررہے تھےاور ایک طرف وہ خیر الماکرین خدا تھاجو اپنے برگزیدہ رسول کے لیےفتح و نصرت کے نئے دروازے کھول رہا تھا۔ گو یہ نیا راستہ بھی آسان نہیں تھا لیکن تمام تر مشکلات کے باوجود یہ راستہ مسلمانوں کو عظیم ترین بلندیوں تک لے کر جانے والا تھا۔ مخالفوں کے مشورے جاری تھے۔ شیطانی تدبیروں کو حتمی شکل دی جا رہی تھی لیکن اپنی طاقت کے نشے میں چُور ان سرداروں کو کیا معلوم تھا کہ الٰہی تقدیر کے فیصلہ کا اعلان ابھی باقی تھا۔… وہ فیصلہ جو ان کی امیدوں اور منصوبوں کے بالکل خلاف لکھا جا چکا تھا۔ مزید پڑھیں: ایمان بالغیب …ہستی باری تعالیٰ تک پہنچنے کاعظیم راستہ