منظوم کلام حضرت مصلح موعودؓ (سو سال قبل کے الفضل سے) کون سا دل ہے جو شرمندۂ احسان نہ ہوکون سی روح ہے جو خائف و ترسان نہ ہو میرے ہاتھوں سے جدا یار کا دامان نہ ہومیری آنکھوں سے وہ اوجھل کبھی اک آن نہ ہو مضغۂ گوشت ہے وہ دل میں جو ایمان نہ ہوخاک سی خاک ہے وہ جسم میں گر جان نہ ہو اپنی حالت پہ یونہی خرم و شادان نہ ہویہ سکوں پیش رَوِ آمدِ طوفان نہ ہو مبتلائے غم و آلام پہ خندان نہ ہویہ کہیں تیری تباہی کا ہی سامان نہ ہو اپنے اعمال پہ غرّہ ارے نادان نہ ہوتو بھلا چیز ہے کیا اُس کا جو احسان نہ ہو نہ ٹلیں گے نہ ٹلیں گے نہ ٹلیں گے ہم بھیجب تلک سر بدع و کفر کا میدان نہ ہو رنگ بھی روپ بھی ہو حسن بھی ہو لیکن پھرفائدہ کیا ہے اگر سیرتِ انسان نہ ہو نہ سہی جود پہ وہ کام تو کر تُو جس میںغیر کا نفع ہو تیرا کوئی نقصان نہ ہو عشق کا دعویٰ ہے تو عشق کے آثار دکھادعویٰ باطل ہے وہ جس دعویٰ پہ برہان نہ ہو مرحبا! وحشتِ دل تیرے سبب سے یہ سنامیں ترے پاس ہوں سرگشتہ و حیران نہ ہو بادۂ نوشی میں کوئی لطف نہیں ہے جب تکصحبتِ یار نہ ہو مجلسِ رندان نہ ہو بلبلِ زار تو مر جائے تڑپ کر فوراًگر گلِ تازہ نہ ہو بوئے گلستان نہ ہو تیری خدمت میں یہ ہے عرض بصد عجز و نیازقبضۂ غیر میں اے جاں مری جان نہ ہو (اخبار الفضل جلد ۱۲۔ ۱۶؍جون ۱۹۲۵ء بحوالہ کلام محمود مع فرہنگ صفحہ۱۷۸) مزید پڑھیں: میں اپنے پیاروں کی نسبت