https://youtu.be/QgewVuoJQXA (انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ یکم اپریل ۲۰۰۵ء) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہر وقت، ہر لمحہ اس تلاش میں رہتے تھے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا جائے۔ کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہ دیتے تھے جس میں خدا تعالیٰ کے حضور شکر کے جذبات کے ساتھ دُعا نہ کی ہو۔ آپ کی ہر وقت یہ کوشش رہتی تھی کہ سب سے بڑھ کر عبدشکور بنیں اور اس کے لئے ہر وقت دعا مانگا کرتے تھے۔ چنانچہ روایت میں آتا ہے، عبداللہ بن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ یہ دعا کیا کرتے تھے کہ ’’اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنِیْ لَکَ شَاکِرًا لَکَ ذَاکِرًا‘‘ یعنی اے میرے اللہ! تو مجھے اپنا شکر بجالانے والا اور بکثرت ذکر کرنے والا بنا دے۔ (ابوداؤد، کتاب الوتر، باب ما یقول الرجل اذا سَلَّمَ) ایک اور روایت میں آتا ہے اس میں دعا کے ساتھ یہ زائد الفاظ آتے ہیں۔ اپنے رب کے حضور یہ عرض کرتے ہیں کہ اے اللہ مجھے ایسا بنا دے کہ مَیں تیراسب سے زیادہ شکر کرنے والا ہوں اور تیری نصیحت کی پیروی کرنے والا ہوں اور تیری وصیت کو یاد کرنے والا ہوں۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 2صفحہ 311 مطبوعہ بیروت) آئندہ جو آگے میں مثالیں پیش کروں گاان سے پتہ لگے گا کہ آپؐ کس حد تک شکر گزاری کرتے تھے۔ کس طرح ہر وقت ہر لمحہ اس تلاش میں رہتے تھے کہ شکر کے جذبات کا اظہار کریں۔ لیکن اس کے باوجود یہ فکر ہے اور یہ دعا کررہے ہیں کہ مَیں ہمیشہ شکر گزار بندہ بنوں، شکر گزار رہنے والا بنوں۔ آپ ہر بات خواہ وہ چھوٹی سے چھوٹی ہو لیکن جس سے آپ کی ذات کو فائدہ پہنچتا ہو یا پہنچا ہو اس پر اللہ تعالیٰ کی ذات کا شکر ادا کیا کرتے تھے۔ اور پھر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا تو سوال ہی نہیں کہ اس کا شکریہ ادا کئے بغیر رہیں۔ چنانچہ روایت میں آتا ہے کہ جب بھی پہلی بارش ہوتی تھی تو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے تھے۔ اس بارے میں حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم حضورﷺ کے ساتھ تھے۔ بارش ہوئی اور آپﷺ نے اپنے سر سے کپڑا ہٹا دیا اور ننگے سر پر بارش لینے لگے۔ پوچھنے پر فرمایا کہ یہ میرے رب سے تازہ تازہ آئی ہے۔ (مسند احمد بن حنبل – جلد 3صفحہ267 مطبوعہ بیروت) ایک اور روایت میں آتا ہے کہ پہلی بارش پر بارش کے قطرے زبان پر لیا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے اور اس کا شکر گزاری کا طریقہ یہی ہے کہ اس کو اپنے اوپر لیا جائے یا اس کو چکھا جائے۔ پھر اور بہت ساری باتیں ہیں مثلاً کھانے کے بعد اللہ تعالیٰ کا شکر کس طرح ادا کرتے تھے۔ روایت میں آتا ہے ابو سعیدؓ سے روایت ہے کہ جب بھی کوئی چیز کھاتے یا پیتے تو اس کے بعد یوں شکر ادا کیا کرتے تھے کہ ’’اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ اَطْعَمَنَا وَسَقَانَا وَجَعَلَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ‘‘کہ سب تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں جس نے ہمیں کھلایا اور پلایا اور ہمیں مسلمان بنایا۔ (ابوداؤد کتاب الاطعمۃ باب ما یقول الرجل اذا طعم – حدیث نمبر 3846) اور کھانے بھی یہ نہیں کہ کوئی بڑے اعلیٰ مرغن قسم کے کھانے کھایا کرتے تھے بلکہ نہایت سادہ غذا تھی اور بڑے شکر کے جذبے سے ہر چیز کھا رہے تھے۔ چنانچہ ایک روایت میں آتا ہے، حضرت عبداللہ بن سلامؓ کہتے ہیں کہ مَیں نے نبی کریمﷺ کو دیکھا آپ نے روٹی کے ایک ٹکڑے پر کھجور رکھی ہوئی تھی اور فرما رہے تھے کہ یہ کھجور اس روٹی کا سالن ہے۔ (ابوداؤد،کتاب الایمان، باب الرجل یحلف ان لا یأتدم) اور اکثر یہ ہوتا تھا کہ سرکہ سے یا پانی کے ساتھ ہی روٹی تناول فرمالیا کرتے تھے۔ اور اس پر بھی اللہ تعالیٰ کا بے انتہا شکر ادا کیا کرتے تھے۔ پھر جب نیا کپڑا پہنتے تو اسے پہن کر بھی اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے۔ اس کے بد اثرات سے بچنے کی دعا مانگا کرتے تھے۔ اس بار ے میں حضرت ابوسعید خدریؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ جب کوئی نیا کپڑاپہنتے تو اس کا نام لے کر(عمامہ، قمیض یا چادر) یہ دعا مانگتے کہ ’’ اَللّٰھُمَّ لَکَ الْحَمْدُ أَنْتَ کَسَوْتَنِیْہِ أَسْأَلُکَ خَیْرَہٗ وَخَیْرَ مَا صُنِعَ لَہٗ وَاَعُوْذُبِکَ مِنْ شَرِّہٖ وَشَرِّ مَا صُنِعَ لَہٗ ‘‘ کہ اے اللہ! ہر قسم کی تعریفیں تیرے ہی لئے ہیں۔ تُو نے ہی مجھے پہنایا۔ میں تجھ سے اس کے خیر اور جس غرض کے لئے بنایا گیا اس کی خیر مانگتا ہوں۔ اور تجھ سے اس کے شر اور جس غرض کے لئے یہ بنایا گیا ہے اس کے شر سے پناہ مانگتا ہوں۔ (ترمذی، کتاب اللباس باب ما یقول اذا لبس ثوبا جدیدًا- حدیث نمبر 1767) اصل میں تو اس کے بہت سارے پہلو ہیں۔ ایک تو بعض دفعہ بعض کپڑوں میں اس قسم کی چیز بھی ہوتی ہے، آجکل خاص طور پر، جن سے بعض لوگوں کو الرجی بھی ہو جاتی ہے۔ یہ بھی ایک شرکا پہلو نکل جاتا ہے۔ پھر بعض لوگ بڑے اعلیٰ قسم کے سوٹ اور جوڑے سلواتے ہیں گو آپؐ میں وہ چیز تو نہیں آنی تھی لیکن اپنی امت کو سبق دینے کے لئے یہ دعا مانگتے تھے کہ اس کے شر سے بھی بچانا، کسی قسم کے کپڑے سے کبھی کسی قسم کا تکبر پیدا نہ ہو۔ پھر سوتے وقت اور نیند سے بیدار ہوتے ہوئے اللہ کی تعریف کے ساتھ یہ دعا کیا کرتے تھے۔ اس کا روایت میں یوں ذکر آتا ہے۔ حضرت حذیفہؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنے بستر پر آرام کے لئے جاتے تو یہ دعافرماتے کہ اے اللہ ’’ اَللّٰھُمَّ بِاسْمِکَ اَمُوْتُ وَاَحْیَا‘‘ کہ میرا مرنا اور جینا تیرے نام کے ساتھ ہے۔ اور جب صبح ہوتی تو یہ دعامانگتے کہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ اَحْیَانَا بَعْدَ مَا اَمَاتَنَا وَاِلَیْہِ النُّشُوْر، کہ ہر قسم کی تعریف اللہ کے لئے ہے جس نے ہمیں مارنے کے بعد پھر زندہ کیا اور اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ (بخاری،کتاب التوحید، باب السؤال باسماء اللّٰہ تعالیٰ والاستعاذ بھا) مزید پڑھیں: مالی قربانی کے بعض ایمان افروز واقعات