اس آیت میں جس کی مَیں نے تلاوت کی ہے [البقرة: ۲۶۶]اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، اور ان لوگوں کی مثال جو اپنے اموال اللہ کی رضا چاہتے ہوئے اور اپنے نفوس میں سے بعض کو ثبات دینے کے لئے خرچ کرتے ہیں ایسے باغ کی سی ہے جو اونچی جگہ پر واقع ہو اور اسے تیز بارش پہنچے تو وہ بڑھ چڑھ کر اپنا پھل لائے اور اگر اسے تیز بارش نہ پہنچے تو شبنم ہی بہت ہو، اور اللہ اس پر جو تم کرتے ہو گہری نظر رکھنے والا ہے۔ یعنی جو لوگ چندہ دینے والے ہیں، صدقہ دینے والے ہیں ان کا اصل مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا چاہنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے دین کی خاطر جو کچھ بھی تم خرچ کرو گے اور اس کی مخلوق کی خاطر جو کچھ بھی خرچ کرو گے وہ یقیناً اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کا باعث بنے گا۔ اس سے دین کو بھی مضبوطی حاصل ہو گی اور تمہارے دینی بھائیوں کوبھی مضبوطی حاصل ہو گی۔ پھر ایسے لوگوں کی مثال بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ جو لوگ اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اس سرسبز باغ کی طرح ہیں جو اونچی جگہ پر واقع ہو جہاں انہیں تیز بارش یا پانی کی زیادتی بھی فائدہ دیتی ہے۔ نچلی زمینوں کی طرح اس طرح نہیں ہوتا کہ بارشوں میں فصلیں ڈوب جائیں یا باغ ڈوب جائیں۔ یہ خراب نہیں ہو جاتے بلکہ وہ ایسے سیلابوں سے محفوظ رہتے ہیں اور زائد پانی نیچے بہہ جاتا ہے اور باغ پھلوں سے لدا رہتا ہے، اس کو نقصان نہیں پہنچتا۔جو لوگ زمیندار ہیں زمیندارہ جانتے ہیں ان کو پتہ ہے کہ اگر پانی میں درخت زیادہ دیر کھڑا رہے تو جڑیں گلنی شروع ہو جاتی ہیں، تنے گل جاتے ہیں اور پودے مر جاتے ہیں۔ اور اسی طرح جو زمینیں پانی روکنے والی ہیں ان میں بھی یہی حال ہوتا ہے۔ (خطبہ جمعہ۷؍جنوری ۲۰۰۵ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۲۱؍جنوری۲۰۰۵ء) مزید پڑھیں: دجال اور یاجوج ماجوج ایک ہی فتنے کے مختلف مظاہر ہیں