https://youtu.be/yl60hD1icqQ اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔ تمام وظائف اور اذکار کا مجموعہ روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ ۳؍فروری۲۰۱۴ء میں مکرم سیّد حسین احمد صاحب کا ایک مضمون شائع ہوا ہے جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نماز کے بارے میں ارشادات شامل ہیں۔ ان ارشادات کا خلاصہ ہدیۂ قارئین ہے۔ فرماتے ہیں: ٭…نماز سے بڑھ کر اَور کوئی وظیفہ نہیں ہے۔ کیونکہ اس میں حمدِ الٰہی ہے، استغفار ہے اور درودشریف ہے۔ تمام وظائف اور اذکار کا مجموعہ یہی نماز ہے اور اس سے ہر قسم کے غم و ہم دُور ہوتے ہیں اور مشکلات حل ہوتی ہیں۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد۳صفحہ۳۱۰۔۳۱۱۔ایڈیشن۱۹۸۸ء) ٭…یہ پانچ وقت تو خداتعالیٰ نے بطور نمونہ کے مقرر فرمائے ہیں ورنہ خدا کی یاد میں تو ہر وقت دل کو لگا رہنا چاہیے اور کبھی کسی وقت بھی غافل نہ ہونا چاہیے۔ (ماخوذاز تفسیر سورۃالبقرۃ صفحہ۵۱) ٭…جو نماز تم لوگ پڑھتے ہو صحابہؓ بھی یہی نماز پڑھا کرتے تھے اور اسی سے انہوں نے بڑے بڑے روحانی مدارج حاصل کیے۔ فرق صرف حضور اور اخلاص کا ہی ہے۔ (ماخوذ از تفسیرسورۃالبقرۃصفحہ۴۶) ٭…نماز کو ایسے ادا نہ کرو جیسے مرغی ٹھونگ مارتی ہے بلکہ سوز و گداز سے ادا کرو اور دعائیں بہت کیا کرو۔ نماز مشکلات کی کنجی ہے، ماثورہ دعاؤں اور کلمات کے سوا اپنی مادری زبان میں بھی بہت دعا کیا کرو تا اس سے سوزوگداز کی تحریک ہو۔ اسی سے تزکیہ نفس ہوتا ہے اور سب کچھ ملتا ہے۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد۳صفحہ۵۸۹۔ایڈیشن۱۹۸۸ء) ٭…عبودیت کو ربوبیت سے ایک ابدی تعلق اور کشش نماز ہے اور اس رشتہ کو قائم رکھنے کے لیے خداتعالیٰ نے نماز بنائی ہے۔ (ماخوذ ازتفسیربنی اسرائیل:۷۳) ٭…بعض بیوقوف کہتے ہیں کہ خدا کو ہماری نمازوں کی کیا حاجت ہے۔ اے نادانو! خدا کو نہیں مگر تم کو تو حاجت ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہاری طرف توجہ کرے۔ خدا کی توجہ سے بگڑے ہوئے کام سب درست ہوجاتے ہیں۔ نماز ہزاروں خطاؤں کو دُور کردیتی ہے اور ذریعۂ حصولِ قربِ الٰہی ہے۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد۴صفحہ۲۹۲۔ایڈیشن۱۹۸۸ء) ٭…نماز میں کیسی ہی بدذوقی و بدمزگی ہو کبھی آیت اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ کی اور کبھی اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ کی تکرار نہایت مؤثر ہے۔ اور سجدہ میں یَاحَیُّ یَا قَیُّوم بِرَحْمَتِکَ اَسْتِغِیْث۔ (ماخوذ از الحکم ۲۰؍فروری۱۸۹۸ء) ٭…یاد رکھنا چاہیے کہ نماز ہی وہ شے ہے جس سے سب مشکلات آسان ہوجاتے ہیں اور سب بلائیں دُور ہوتی ہیں مگر وہ نماز جس سے انسان کا دل گداز ہوکر آستانہ احدیت پر گرکر ایسا محو ہوجاتا ہے کہ پگھلنے لگتا ہے۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد۵صفحہ۴۰۲۔ایڈیشن۱۹۸۸ء) ………٭………٭………٭……… پہلی صدی کے مجدّد حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ اموی خلیفہ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے بارے میں روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ ۳؍فروری ۲۰۱۴ء میں مکرم محمد احمد بشیر صاحب کا ایک مضمون شامل اشاعت ہے۔ آپؒ ۶۸۱ء میں مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔ آپؒ کے والد مروان بن حکم تھے جو قریباً اکیس سال مصر کے گورنر رہے۔ والدہ اُمّ عاصم تھیں جو حضرت عمرفاروقؓ کی پوتی تھیں۔ نازونعم میں پرورش ہوئی لیکن پاکیزگی نفس آپؒ کی شخصیت کا خصوصی وصف تھا۔ آپؒ کی تعلیم وتربیت کی طرف خصوصی توجہ دی گئی۔ حافظ قرآن بھی تھے۔ایک بار نماز میں شریک نہ ہوسکے تو اپنے استاد صالح بن کیسان کے پوچھنے پر بتایا کہ بالوں میں کنگھی کررہا تھا۔ استاد نے مصر میں والد کو یہ اطلاع بھجوائی تو والد نے آپؒ کے بال منڈوا دیے۔ آپؒ کے استاد کا کہنا تھا کہ ’’مجھے ایسے کسی آدمی کا علم نہیں جس کے دل میں اللہ تعالیٰ کی عظمت اس لڑکے سے زیادہ نقش ہو۔‘‘ یہی وجہ تھی آپؒ خلافت سے قبل جس عہدے پر فائز کیے گئے آپؒ کی خداخوفی کی روش قائم رہی۔ چنانچہ خلیفہ عبدالملک نے اپنی چہیتی بیٹی فاطمہ کی شادی آپؒ سے کردی۔ ۷۰۷ء میں ولید بن عبدالملک نے آپؒ کو مدینہ کا گورنر مقرر کرنا چاہا تو آپؒ نے اس شرط پر یہ عہدہ قبول کیا کہ کسی پر ظلم نہیں ہونے دیں گے۔ چنانچہ ۷۱۳ء تک آپؒ نے ایسا عدل قائم کیا کہ اہل حجاز کے دل جیت لیے۔ خلیفہ سلیمان بن عبدالملک نے اپنے وزیر رجاء سے مشورے کے بعد آپؒ کو اپنے بعد خلافت کے لیے وصیت میں نامزد کیا اور اس وصیت کو لفافے میں بند کرکے بنوامیّہ سے اس پر بیعت لی۔ ۷۱۸ء میں سلیمان کی وفات ہوئی تو آپؒ خلیفہ بنے۔ ہشام (جسے اپنی خلافت کا یقین تھا) اُس نے بیعت سے انکار کیا تو رجاء نے اُسے سر قلم کرنے کی دھمکی دے کر بیعت کروائی۔ دوسری طرف حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ اس ذمہ داری کے اٹھانے پر لرزاں تھے اس لیے یہ اعلان کیا: ’’لوگو! میری خواہش اور عام مسلمانوں کی رائے لیے بغیر مجھے خلافت کی ذمہ داری میں مبتلا کیا گیا ہے اس لیے میری بیعت کا جو طوق تمہاری گردن میں ہے خود اُسے اُتارے دیتا ہوں، تم جسے چاہو اپنا خلیفہ بنالو۔‘‘ اس پر لوگوں نے بآوازِ بلند آپؒ کے حق میں رائے دی۔ تب آپؒ نے اطاعت پر خطبہ دیا اور کہا کہ اگر مَیں اللہ تعالیٰ کی اطاعت کروں تو میری اطاعت کرو اور اگر مَیں خدا کی نافرمانی کروں تو میری بات نہ مانو۔ لباس فاخرانہ زیب تن کرنے والے عمربن عبدالعزیزؒ خلیفہ بنتے ہی سراپا عجزونیاز بن گئے۔ اعلیٰ نسل کے گھوڑوں پر سواری کی بجائے اپنے خچر پر سوار ہونا پسند کیا۔ آگے چلنے والے نیزہ بردار کو ہٹادیا اور کہا کہ مَیں بھی تمام مسلمانوں کی طرح ایک مسلمان ہوں۔ سلیمان کا اثاثہ تقسیم ہونے لگا تو آپؒ نے سارا مال بیت المال میں جمع کروانے کا حکم دیا۔ قصر خلافت کی بجائے اپنے گھر میں ہی رہنا پسند کیا۔ بیوی سے کہا کہ اپنے سارے زروجواہر بیت المال میں جمع کروادو ورنہ مجھ سے علیحدہ ہوجاؤ۔ اُس نے آپؒ کی خواہش کی تعمیل کی۔ الغرض آپؒ کی زندگی درویشی اور فقر و استغنا کا نمونہ ہوکر رہ گئی۔ ہر وقت اُمّتِ مسلمہ کے حقوق کی نگہداشت اور اللہ تعالیٰ کے احکامات کے نفاذ کی فکر دامن گیر رہتی اور پریشانی آپؒ کے چہرے سے عیاں ہوتی۔دوسری طرف اہل بیت کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا ازالہ کیا اور اُن کی اور دیگر لوگوں کی ضبط کی ہوئی جائیدادیں اُن کو واپس کردی گئیں۔ بنوامیہ کی اور اپنی بھی بڑی موروثی جاگیر واپس کردی۔ بعض لوگوں نے آپؒ سے کہا کہ یہ نہ کریں ورنہ اولاد کی کفالت کیسے کریں گے؟ آپؒ نے فرمایا: اُن کو اللہ کے سپرد کرتا ہوں۔ آپؒ نے بیت المال کو خلیفہ کی بجائے عوام کا حق قرار دیا۔ خاندانِ بنوامیہ کے تمام وظائف بند کردیے۔ ذمّیوں سے حسن سلوک کیا اور جزیہ لینا بند کردیا۔ اس اعلان کا ایک پہلو یہ ہوا کہ کثیر تعداد میں لوگ اسلام قبول کرنے لگے اور دوسری طرف مصر کے حاکم نے آمدنی کم ہونے کی شکایت کی تو آپؒ نے فرمایا: ’’جزیہ بہرحال ختم کردو، آنحضورﷺ ہادی بناکر بھیجے گئے تھے، محصل بناکر نہیں۔‘‘ کئی معاشی اور سیاسی اصلاحات کیں۔ بیت المال کی حفاظت کا سخت انتظام کیا، سرکاری اخراجات میں تخفیف کردی، معذوروں، علماء اور شیرخوار بچوں کے وظائف مقرر کیے۔ ناجائز آمدنیوں کی روک تھام اور ظلم کے سدّباب کے نتیجے میں صرف ایک سال میں یہ حالت ہوگئی کہ لوگ صدقہ لے کر آتے تھے لیکن صدقہ لینے والے نہ ملتے تھے۔ حضرت علیؓ پر لعن طعن کا سلسلہ جو پہلے سے جاری تھا، آپؒ نے اُسے فوری بند کرادیا۔ الغرض بنوامیہ کی ۹۲سالہ حکومت کے درمیان آپؒ کے اڑھائی سال تاریکی میں روشنی کا مینار دکھائی دیتے ہیں۔ اسی لیے آپؒ کو خلیفہ راشد بھی کہا جاتا ہے اور اہل سنّت اور اہل تشیع دونوں آپؒ کا بےحد احترام کرتے ہیں۔ آپؒ نے بےشمار سرائیں بنوائیں جن میں مسافروں کی ایک دن اور بیمار مسافروں کی دو دن میزبانی کی جاتی، شراب کی دکانوں کو بند کرادیا۔ آپؒ کے دَور میں ہی سندھ کے راجہ داہر کے بیٹے جے سنگھ نے اسلام قبول کیا تھا۔ آپؒ نے خلافت کی موروثی حیثیت ختم کرنے کی کوشش کی تو بنوامیہ کی ریشہ دوانیوں نے یہ تبدیلی لانے کا موقع نہ دیا اور جنوری ۷۲۰ء میں بنوامیہ نے ایک خادم کو ایک ہزار اشرفیاں دے کر آپؒ کو زہر دلوادیا جس سے آپؒ بیمار ہوگئے۔ جب حقیقت معلوم ہوئی تو خادم کو معاف کرکے آزاد کردیا لیکن اُس سے اشرفیاں لے کر بیت المال میں جمع کروادیں۔ پھر اپنے بعد آنے والے خلیفہ یزید بن عبدالملک کے نام وصیت لکھوائی جس میں تقویٰ کی تلقین کی۔ ۱۰؍فروری ۷۲۰ء کو صرف چالیس سال کی عمر میں آپؒ کی شہادت ہوگئی اور شام کے شہر حلب کے قریب دیرسمعان میں تدفین ہوئی۔ ………٭………٭………٭……… انگریزی ادیب ولیم سڈنی پورٹر روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ ۳؍فروری ۲۰۱۴ء میں مکرم عطاءالوحید باجوہ صاحب کے قلم سے مشہور انگریزی ادیب William Sydney Porter کا تعارف شامل اشاعت ہے جس نے O.Henry کے نام سے انگریزی ادب میں نمایاں مقام حاصل کیا۔ اوہینری امریکہ کی سٹیٹ Greensboro میں ۱۱؍ستمبر۱۸۶۲ء کو ایک طبیب Algernon Sydney Porter کے ہاں پیدا ہوا۔ صرف تین سال کی عمر میں والدہ کی وفات ہوگئی تو دادی نے پرورش کی۔ نامساعد حالات کی وجہ سے پندرہ سال کی عمر میں سکول چھوڑ کر ایک فارم پر کام کرنا پڑا جہاں جانور پالے جاتے تھے۔ ۱۸۸۲ء میں اُس نے شادی کی۔ ۱۸۸۴ء سے اُس نے The Rolling Stone کے عنوان سے ایک مزاحیہ کالم ہفتہ وار لکھنا شروع کیا لیکن بدقسمتی سے جلد ہی اسے نشے کی لت پڑگئی۔ پھر ایک اخبار میں رپورٹر بنا۔ ۱۸۹۴ء میں ایک بینک میں کلرک تھا جب رقم خردبرد کرنے کے الزام پر کسی دوسری سٹیٹ میں چلاگیا۔ ۱۸۹۷ء میں اپنی بیوی کی وفات پر آسٹن آیا تو گرفتار ہوگیا۔ قید کے دوران اُس نے مختصر کہانیاں لکھنی شروع کیں اور آمدن سے اپنی بیٹی مارگریٹ کی مالی مدد کرتا رہا۔ جلد ہی اپنی کہانیوں کی بدولت وہ شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گیا۔ ۱۹۰۱ء میں اُس نے اپنا قلمی نام اوہینری اختیار کیا۔ ۱۹۰۲ء میں وہ نیویارک آگیا اور ایک اخبار سے وابستہ ہوگیا۔ پھر یکے بعد دیگرے اُس کی کہانیوں کے دس مجموعے شائع ہوئے جن میں قریباً چھ سو کہانیاں تھیں۔ اوہینری کی عمر کا آخری حصہ نشہ اور غربت کی وجہ سے انتہائی تکلیف سے دوچار تھا۔ ۱۹۰۷ء میں اُس نے دوسری شادی کی جو ناکام ہوگئی۔ ۵؍جون۱۹۱۰ء کو وہ جگر سکڑنے کی بیماری سے وفات پاگیا۔ ۱۹۱۸ء سے ایک سالانہ ایوارڈ اُس کے نام سے بہترین کہانی نویس کے لیے جاری کیا گیا۔ یہ ایوارڈ آج بھی جاری ہے۔ اُس کی کتابیں انگریزی ادب کے نصاب میں شامل ہیں۔ ………٭………٭………٭……… روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ ۲۰؍ستمبر۲۰۱۴ء میں ربوہ کے حوالے سے کہی گئی مکرم عبدالکریم قدسی صاحب کی ایک نظم شامل اشاعت ہے جو مکرم روشن دین تنویر صاحب کی ایک نظم پر تضمین ہے۔ اس نظم میں سے انتخاب ہدیۂ قارئین ہے: سیلاب دھو کے شہر کے دیوار و در گیابیٹھی جو دھول چہرۂ ربوہ نکھر گیادن کو الاپے شور کے نغمے بہت مگرشب کی عبادتوں کے قرینے سے ڈر گیالہروں نے جھوم جھوم کے گائے وفا کے گیتپانی مچل مچل کے بالآخر اُتر گیاسیلاب سے گو وعدہ اُچھلنے کا تھا کیالیکن پھر عین وقت پہ دریا مُکر گیاسیلاب تُند و تیز تھا شوریدہ سر ، مگر’’ربوہ کے پاؤں چُوم کے آگے گزر گیا‘‘ مزید پڑھیں: توجہ اور ارتکاز کے ہائی جیکرز