https://youtu.be/0I47fzy4CY0 غیب پر ایمان اتنا ہی اہم ہے جتنا خدا تعالیٰ کی ہستی کا اقرار کرناکیونکہ ایمان بالغیب، ہستی باری تعالیٰ تک پہنچنے کا ایک عظیم راستہ ہے اللہ تعالیٰ کی ایک صفت علیم ہے۔ جہاں تک علم کا تعلق ہے خدا تعالیٰ کی ذات ہی تمام علوم کا منبع ہے۔ تمام علوم خدا تعالیٰ کی طرف سے ہی ملتے ہیں اور ہر ایک چیز کا کامل علم خداتعالیٰ کی ذات کو ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے: وَ لَا یُحِیْطُوْنَ بِشَیْءٍ مِّنْ عِلْمِهٖۤ اِلَّا بِمَا شَآءَ(البقرۃ:۲۵۶) اور وہ اس کے علم کا کچھ بھی احاطہ نہیں کرسکتے مگر جتنا وہ چاہے۔ علم غیب: علم غیب کا جہاں تک تعلق ہے یہ بھی علم کی ایک شاخ ہے اور غیب پر ایمان اتنا ہی اہم ہے جتنا خدا تعالیٰ کی ہستی کا اقرار کرنا کیونکہ ایمان بالغیب، ہستی باری تعالیٰ تک پہنچنے کا ایک عظیم راستہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے صفت رحمٰن اور رحیم کے تحت اس کائنات کو تخلیق فرمایا اور صفت رب العالمین کے تحت ساری کائنات کو رزق مہیا کیا ۔ پھر صفت مالک یوم الدین کے تحت اس دنیا میں جزا اور سزا کا نظام جاری فرمایا ۔ جزا سزا کے نظام کو ایمان بالغیب کے ساتھ جوڑ دیا۔اسی لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی ابتدا میں مومنوں کی پہلی صفت ایمان بالغیب کو ہی قرار دیا ہے۔ جیسا کہ فرمایا: اَلَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ (البقرۃ:۴) یعنی مومن وہ ہیں جو غیب پر ایمان لاتے ہیں۔ علم غیب کی دین و دنیا میں اہمیت: علم غیب کا مضمون دین و دنیا میں یکساں اہمیت کا حامل ہے۔جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ اگر کسی کو علم ہو جائے کہ آنے والے وقت میں کسی چیز کی قیمت بڑھنے والی ہے تو وہ یہی خواہش کرتا ہے کہ دنیا بھر میں جہاں بھی وہ چیز موجود ہو، وہ چیز اسے مل جائے اور کل کو وہ اس چیز کو مہنگے داموں بیچ کر خوب منافع حاصل کرے۔ اس مضمون کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے: لَوْ كُنْتُ اَعْلَمُ الْغَیْبَ لَا سْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَیْرِ(الاعراف:۱۸۹) کہ اے محمد ﷺ !کہہ دیجئے کہ اگر میں غیب کا جاننے والا ہوتا تو یقیناً میں بہت دولت اکٹھی کر سکتا تھا۔ دنیا میں ہم اس مضمون کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگا سکتے ہیں کہ اس دور کو Information Technology کا دور کہتے ہیں۔ بچوں کو بھی نصاب کی فراہمی کے بعد ایک مخفی سوالنامے کو حل کرنے پر ہی اگلی کلاس میں ترقی دی جاتی ہے۔حفاظتی نقطہ نظر سے بھی یہی حکم ہے کہ ہر وقت دشمن کی چالوں کی خبر رکھو اور ہوشیار رہو۔پس یہ مضمون دنیاوی لحاظ سے بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔ جہاں تک دین کا تعلق ہے جیسا کہ میں نے مضمون کے شروع میں ہی عرض کی ہے کہ علمِ غیب اور ایمان بالغیب کا مضمون ہستی باری تعالیٰ کا بنیادی ثبوت ہے۔ اسی طرح خدا تعالیٰ علم غیب کے ذریعہ سے اپنے پیاروں کی صداقت کو بھی دنیا پر ظاہر فرماتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے: عٰلِمُ الْغَیْبِ فَلَا یُظْهِرُ عَلٰى غَیْبِهٖۤ اَحَدًا۔اِلَّا مَنِ ارْتَضٰى مِنْ رَّسُوْلٍ (الجن:۲۷-۲۸) کہ وہ غیب کا جاننے والا ہے پس وہ کسی کو اپنے غیب پر غلبہ عطا نہیں کرتا۔بجز اپنے برگزیدہ رسولؐ کے۔ پس اللہ تعالیٰ اپنے پیارے رسولوں کو وہ علم غیب عطا فرماتا ہے جس سے ان کی صداقت روزروشن کی طرح ظاہر ہوجاتی ہے اور انبیاء اس علمِ غیب پر سب سے پہلے ایمان لاتے اور پھر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ علمِ غیب ہمیں خدا تعالیٰ نے دیا ہے۔پس غیب پر ایمان ہستی باری تعالیٰ کا بھی بنیادی ثبوت بن جاتا ہے۔ جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ تک جتنے بھی انبیاء علیہم السلام دنیا میں تشریف لائے سب نے آکر یہی دعویٰ کیا کہ خدا تعالیٰ نے ہمیں اس زمانے کا امام بنایا ہے اور خدا تعالیٰ ہم سے کلام کرتا ہے اور ہمیں غیب کی خبریں دیتا ہے۔ حضرت نوح علیہ السلام جب اپنی قوم کو یہ سمجھاتے تھے کہ دیکھو! اپنے پیدا کرنے والے خدا پر ایمان لے آؤ اور غلط کاموں سے باز آجاؤ تو آپؑ کی قوم آ پ علیہ السلام پر ہنستی تھی۔پھر جب حضرت نوح علیہ السلام نے خدا تعالیٰ سے علم غیب پا کر کشتی بنانی شروع کی تو ان کی قوم کا استہزا اور بھی بڑھ گیا۔ لیکن خدا تعالیٰ جو علیم ہے اس نے حضرت نوح علیہ السلام اور آپ کے ماننے والوں کو اسی کشتی میں بچا لیا اور آپ کی قوم کو پانی کےعذاب سےغرق کر دیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب خدا سے خبر پاکر نمرود کو شرک سے روکا تو وہ نہ مانا۔ یہاں تک کہ وہ بھی ہلاک ہوگیا جبکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا نام آج تک زندہ ہے اور درود شریف میں ہم ان کے لیے دعائیں کرتے ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب فرعون کو فرمایا کہ بنی اسرائیل کو آزاد کر دو اور میرے ساتھ جانے دو تو وہ نہ مانا۔ یہاں تک کہ وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا تعاقب کرتے ہوئے اپنی قوم سمیت غرق ہوگیا۔ سب سے بڑھ کر ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفیٰﷺ کو اللہ تعالیٰ نے علم غیب عطا فرمایا۔ قرآن کریم اس کا سب سے بڑا اور بیّن ثبوت ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے قیامت تک کے تمام مضامین اکٹھے کر کے بیان فرمادیے ہیں۔ اس زمانے میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو بھی علم غیب سے اتنا وافر حصہ دیا کہ آپ علیہ السلام نے علم غیب اور پیشگوئیوں کی صداقت کے ذریعے احیائے دین کا کام مکمل کردیا۔آپ علیہ السلام فرماتے ہیں:’’خدا تعالیٰ اس زمانہ میں بھی اسلام کی تائید میں بڑے بڑے نشان ظاہر کرتا ہے اور جیسا کہ اس بارہ میں میں خود صاحب تجربہ ہوں اور میں دیکھتا ہوں کہ اگر میرے مقابل پر تمام دنیا کی قومیں جمع ہو جائیں اور اس بات کا بالمقابل امتحان ہو کہ کس کو خدا غیب کی خبریں دیتا ہے اور کس کی دعائیں قبول کرتا ہے اور کس کی مدد کرتا ہے اور کس کے لئے بڑے بڑے نشان دکھاتا ہے تو میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں ہی غالب رہوں گا۔‘‘(حقیقۃالوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲صفحہ۱۸۱۔۱۸۲) وہ خدا اب بھی بناتا ہے جسے چاہے کلیم اب بھی اس سے بولتا ہے جس سے وہ کرتا ہے پیار حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپورتھلوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام جالندھر میں ہی تھے تو اس زمانہ کے اعتقاد کے بموجب کہ دل کی بات اہل اللہ بتادیا کرتے ہیں۔ میں نے اپنے دل میں سوچا کہ نماز میں وساوس کس طرح دُور ہو سکتے ہیں۔ تقریر کرتے کرتے حضور نے میری طرف مخاطب ہو کر فرمایا! ’’اِیَّاکَ نَعْبُدُ کے تکرار سے‘‘ اور پھر تقریر جاری رکھی۔ میرا اس وقت آپ پر ایمان ہوگیا۔ (سیرت المہدی جلد دوم صفحہ۲۸) ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ایمان بالغیب کے متعلق فرماتے ہیں: ’’ہدایت کے راستوں کو پانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلا قدم جو رکھا ہے وہ ایمان بالغیب ہے، اور یہ کوئی معمولی چیز نہیں ہے۔ یہ ایمان بالغیب ہی ہے جو ایمان میں ترقی کا باعث بنتا ہے۔ اور یہ ایمان میں ترقی ہدایت کے ان راستوں کی طرف لے جاتی ہے جو خدا تعالیٰ کے پانے کے راستے ہیں۔ خدا تعالیٰ کی تعلیم کو سمجھنے کے راستے ہیں۔ خدا تعالیٰ کے ساتھ تعلق میں بڑھنے کے راستے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک جگہ اس کی وضاحت اس طرح فرمائی ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ’’متقی کی حالت میں چونکہ رؤیتِ باری تعالیٰ اور مکالمات و مکاشفات کے مراتب حاصل نہیں ہوتے اس لئے اس کو اوّل ایمان بالغیب ہی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور وہ تکلّف کے طور پر ایمانی درجہ ہوتا ہے کیونکہ قرائن قویہ کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ کی ہستی پر ایمان لاتا ہے جو بین الشک والیقین ہوتا ہے‘‘(کہ شک اور یقین کے درمیان یہ چیزیں ہوتی ہیں )۔ فرمایا کہ ’’… متقی اللہ تعالیٰ کو مان لیتا ہے اور اس پر ایمان لاتا ہے۔ جیسے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ‘‘۔ فرمایا کہ’’یہ مت سمجھو کہ یہ ادنیٰ درجہ ہے یا اس کا مرتبہ کم ہے‘‘۔ پھر فرماتے ہیں ’’یہ ایمان بالغیب متقی کے پہلے درجہ کی حالت اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہت بڑی وقعت رکھتی ہے۔ حدیث صحیح میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے پوچھا کہ جانتے ہو کہ سب سے بڑھ کر ایمان کس کا ہے؟ صحابہ نے عرض کی کہ حضور آپ ﷺ کا ہی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ میرا کس طرح ہو سکتا ہے، میں تو ہر روز جبریل کو دیکھتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ کے نشانات کو ہر وقت دیکھتا ہوں۔ پھر صحابہ نے عرض کی کہ کیا ہمارا ایمان؟ پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ تمہارا ایمان کس طرح؟ تم بھی تو نشانات دیکھتے ہو۔ آخر خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو لوگ صدہا سال کے میرے بعد آئیں گے ان کا ایمان عجیب ہے کیونکہ وہ کوئی بھی ایسا نشان نہیں دیکھتے جیسے تم دیکھتے ہو مگر پھر بھی اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتے ہیں۔ غرض خدا تعالیٰ متقی کو اگر وہ اسی ابتدائی درجہ میں مر جاوے، تو اسی زمرہ میں داخل کر لیتا ہے‘‘۔ فرماتے ہیں کہ ’’اس لذت اور نعمت سے ابھی اس نے کچھ بھی نہیں پایا‘‘۔ (جو نشانات دیکھ کر ملتی ہے)۔ ’’لیکن پھر بھی وہ ایسی قوت دکھاتا ہے کہ نہ صرف اللہ تعالیٰ پر ایمان ہی رکھتا ہے بلکہ اس ایمان کو اپنے عمل سے بھی ثابت کرتا ہے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ۲۰؍اگست۲۰۱۰ء) پس ہم بھی خوش قست ہیں کہ ہم نے ایمان بالغیب کے ذریعہ اس زمانہ کے امام حضرت اقدس مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام کو پہچان لیا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم آپ کی تعلیم پر عمل کرتے ہوئے کامل متقی اور کامل مومن بنیں تا کہ خدا تعالیٰ ہمیں بھی اپنے پیاروں میں شامل کرتے ہوئے ہم سے بھی ہمکلام ہو اور ہم اپنے پیارے خدا سے اس دنیا میں باتیں کر کے اس لذت سے حظ اٹھانے والے ہوں۔ آمین (ابن زاہد) مزید پڑھیں: کیا جنگیں تنازعات کا حل ہوا کرتی ہیں؟