https://youtu.be/zQZWKzEOZqs محترم ميرمحمود احمد ناصر صاحب تاريخ احمديت كا ايك ورق نہیں بلکہ ایك باب تھے اور باب بھی وه جو سنہری حروف سے لكھےجانے كے قابل ہے۔ آپ صحابہؓ جیسے نمونہ كے حامل، سراپا شفقت وہمدردی، خلافت سے بےپناه محبت ركھنے والے بلكہ خلافت كے تو عاشق ولہان تھے۔ آپ ایك بہترین منتظم اور غیرمعمولی علمی قابلیت كے ساتھ ساتھ خاكساری كا بےمثال نمونہ تھے۔ جامعہ احمدیہ میں پڑھائی كے دوران ہم نے آپ سے بہت كچھ سیكھا ۔آپ كی شخصیت ایك مكمل درس گاه تھی۔ آپ ایك ایسی عظیم الشان کتاب تھے جس کے ہر صفحے سے حکمت جھلکتی تھی۔ آپ کا کردار ایک روشن مینار کی طرح تھا، جو سب کو راہ دکھاتا تھا۔ محترم میر صاحب شفقت وہمدردی كا پیكر بن كر قول کی بجائے اپنے كردار سے تربیت كرتے تھے اور پھر اس عمل كو بار بار دہراتے رہتے تھے تا کہ ہمیشہ كے لیے یہ سبق پكا ہو جائے۔ جو كچھ ہم نے سیكھا ان میں دو باتیں نمایاں تھیں؛ ایك خلافت سے محبت وعشق اور دوسری نظام جماعت اور جماعت كے اموال كی قدرا ور اس كا درد۔ میں ذیل میں ان دونوں امور كے بارے میں اپنے مشاہدے میں آنے والے چند واقعات پیش كركے محترم میر صاحب مرحوم كے احسانات كا كسی قدر قرض اتارنے كی كوشش كرتا ہوں ۔ درسِ عشقِ خلافت بزبانِ عاشقِ ولہان: جامعہ احمدیہ میں میری طرح بہت سے طلبہ ربوه سے بہت دُور دراز كے علاقوں سے آئے تھے۔ اُس زمانے میں آج كل كی طرح اس قدر تیزی سے سفر نہیں ہوتے تھے۔مالی حالات بھی اتنے اچھے نہ تھے۔اس لیے بمشكل سال میں ایك بار جلسہ سالانہ پر ہی ربوه كا چكر لگتا تھا ۔ ا س لیے خلیفۂ وقت سے محبت او رعشق كا ذاتى تعلق استوار كرنے كے مواقع كم تھے ۔ محترم میر صاحب نے جامعہ كے طلبہ كے دل میں خلافت كی محبت كوٹ كوٹ كر بھرنے كی بھرپور كوشش كی۔ اس كے لیے انہوں نے كئی طریق پر تربیت كی۔ مثلاً ایك تو آپ كا تقریباً ہر طالبعلم كے ساتھ ہی ذاتی تعلق تھا۔ آپ اس كو اس طرح جانتے تھے کہ اس کے خاندان اور اس كی مشكلات اوراچھی باتوں كا بھی علم رکھتے۔ ہر ایك كے ساتھ شفقت ومحبت كا علیحده ہی اظہار فرمایا كرتے تھے جس كی وجہ سے تقریباً تمام طالبعلم اپنی ہر خوشی غمی كی خبر میں ایك روحانی باپ كی طرح آپ كو شریك كیا كرتے تھے۔ اگر خليفہ وقت كو لكھے گئے خطوط كے جواب میں كسی طالبعلم كو خلیفہ وقت كی تصویربطور ہدیہ موصول ہوتی یا دعاؤں بھرا خط آتا تو وه محترم میر صاحب كو اپنی اس خوشی میں ضرور شریك كرتا۔ میر صاحب اكثر ایسی تصاویر اورخطوط كے جواب نوٹس بورڈ پر لگا دیتے تھے تا دیگر طالبعلم بھی محبت كے اس تعلق سے حظ اٹھا سكیں او ران كے دل میں بھی اس محبت كی راه پر آگے بڑھنے كی تحریك ہوتی رہے۔ آپ کے اندر خلافت كے عاشق كا والہانہ پن اور عجیب وارفتگی كا عالم تھا كہ اپنے محبوب كی نہایت باریك راہوں كی پیروی كرنا اور اپنے اس مؤثر ترین عمل سے خلافت سے والہانہ محبت كا یہ درس اگلی نسلوں تك منتقل كرنا چاہتے تھے۔ اسی سلسلہ كا ایک واقعہ كچھ یوں ہے كہ دسمبر ۱۹۹۱ء میں جب حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ الله نے قادیان كا سفر اختیار فرمایا تو بہت سے جامعہ كے اساتذه اور طلبہ كو بھی جلسہ سالانہ قادیان میں شامل ہونے اور حضو ررحمہ الله سے ملاقات كرنے كا شرف حاصل ہوا۔ اورمیری طرح ایك بڑی تعداد كی حضورؒ سے یہ پہلی ملاقات تھی۔ احمدیوں كی كثیر تعداد كے پیش نظر بڑے بڑے گروپس كی شكل میں ملاقاتیں ہوئیں اور جامعہ احمدیہ ربوه كے اساتذه وطلبہ كی اجتماعی ملاقات مسجد اقصیٰ قادیان كے اس حصہ میں ہوئی جو خطبہ الہامیہ كے نزول كا مقام ہے۔ اس ملاقات سے پہلے اساتذه وطلبہ كو ہدایت كی گئی تھی كہ چونكہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ الله نے بہت سی ملاقاتیں كرنی ہیں اور بہت زیاده مصروفیت ہے ا س لیے صرف اپنا نام او رعلاقے كے نام كے علاوه اگر آپ كسی صحابی كی اولاد ہیں تو ان كا نام بتا دیں ۔ اس کے علاوه اگر حضورؒ خود كچھ پوچھیں تو ٹھیك ورنہ وقت بچانے كے لیے اسی پر اكتفا كیا جائے۔ مجھ سے پہلے جامعہ كے ایك استاد بیٹھے ہوئے تھے۔ انہوں نے اپنے بارے میں بتایا اور جب وه بیٹھے اور میں اپنی باری پر كھڑا ہوا تو حضورؒنے شاید یہ خیال فرمایا كہ میں بھی جامعہ احمدیہ كا استاد ہوں اس لیے میرے بولنے سے قبل ہی فرمایا: آپ جامعہ میں كیا پڑھاتے ہیں؟میں نے عرض كیا كہ حضور! میں ابھی درجہ شاهد كا طالبعلم ہوں۔ اس كے تقریباً چھ سات ماه بعد جب ہم جامعہ سے فارغ التحصیل ہو كر نكلے تو مجھے اگلے چند روز میں ہی یہ حكم ملا كہ آپ كا تقرر جامعہ احمدیہ میں بطور استادہو گیا ہے۔ آپ جامعہ احمدیہ میں رپورٹ كریں۔ جامعہ احمديہ آیا تو میرصاحب دیكھ كر مسكرائے اور فرمانے لگے تمہیں یاد ہو گا كہ قادیان میں دورانِ ملاقات جب حضورنے تمہیں كہا تھا كہ آپ جامعہ میں كیا پڑھاتے ہیں؟ تو میں نے اسی وقت فیصلہ كر لیا تھا كہ حضو ركی زبان مبارك سے نكلنے والے ان الفاظ كو پورا كرنے كےلیے میں تمہاری بطور استاد منظوری لوں گا۔ میں یہ سن كرحیران بھی ہوا اورایك عجیب سحر میں مبتلا ہوكر سوچنے لگا كہ میر صاحب كیسے عاشق ہیں كہ محبوب كے منہ سے نكلنے والے الفاظ كی تكمیل كے لیے انہوں نے چھ ماه قبل ہی فیصلہ كر لیا تھا اور پھر اس وقت تك چَین سے نہیں بیٹھے جب تك وه الفاظ پورے نہیں ہوگئے۔ اپنے اس عمل سے انہوں نے ہمیں عظمتِ خلافت اور اس سے بےمثال محبت كا عظیم درس بھی دے دیا۔ نبی كریمﷺ سے محبت كا عجیب انداز: محترم میر صاحب كی نبی كریم ؐسے محبت كا بھی عجب رنگ تھا۔ اس كا ایك اظہار ان كے درس حدیث میں ملاحظہ كیا جا سكتا تھا جو اكثر مسجد مبارك میں ہوتا تھا۔ ان كے دل میں آنحضرتؐ كی ہر امر میں پیروی كی خواہش كچھ اَور ہی رنگ ركھتی تھی۔ محترم میر صاحب نے كچھ طالبعلموں كو چُن كر انہیں سپینش زبان سكھانے كے لیے ایك الگ كلاس بنائی ہوئی تھی۔ خوش قسمتی سے خاكسار بھی اس كلاس میں شامل تھا۔ایك دفعہ نہ جانے كس بات پر سپینش كلاس نے ضد كی كہ ہم نے میر صاحب سے دعوت كھانی ہے۔ جب میرصاحب نے اصرار دیكھا تو فرمایا كہ اچھا سب مل كر میرے لیے دعا كرو كہ میری عمر تریسٹھ سال ہوجائے۔ اگر ایسا ہو گیا تو پھر میں آپ سب كی اپنے گھر پر دعوت كروں گا۔ اس وقت آپ كی عمر تریسٹھ سال سے كم تھی ۔ اور آپ كی آنحضرتﷺ سے محبت كا یہ ایك انوكھا انداز تھا كہ آپ كو اس وقت یہ فكر لاحق ہو رہی تھی كہ كہیں آنحضرتﷺ كی عمر كو پہنچنے سے قبل آپ كی وفات نہ ہو جائے ۔ ہم نے میر صاحب كا یہ وعده یاد ركھا اور پھر جب آپ كی عمر تریسٹھ سال ہو گئی تو ساری كلاس كو یكجا كر كے میر صاحب كے دفتر حاضر ہو گئے۔چنانچہ میر صاحب نے سب كی اپنے گھر پر بہت ہی پُر تكلف دعوت كی۔ تقریر كی مثال: میر صاحب مرحوم بلا كے مقرر تھے۔ زبان وبیان میں ملكہ حاصل تھا۔ ایك بار ہمیں سمجھاتے ہوئے فرمانے لگے كہ تقریر كرنا ایسے ہی ہے جیسے آپ نے كوئی درخت كاٹ كر گرانا ہو۔ اگر آپ درخت كو پكڑ كركھینچنے اور جھٹكے دے دے كرگرانے كی كوشش كریں گے تو وه نہیں گرے گا۔ اس كا درست طریقہ یہ ہے كہ پہلے اس كو اردگرد سے كلہاڑے كے ساتھ كٹ لگائیں جب سب طرف سے اچھے خاصے كٹ لگ جائیں اور آپ كو یقین ہو جائے كہ اب درخت بہت كمزور ہو گیا ہے تو پھر ایك ہی بار زور سے جھٹكا دینے سے درخت زمین پر گر جائے گا۔ یہی حال تقریر كا ہے ۔ پہلے دلائل كے كلہاڑے سے چاروں طرف سے كٹ لگائیں اور جب آپ كو یقین ہو جائے كہ مضمون كا احاطہ كر لیا گیا ہے تو پھر آخر پر پرجوش لہجہ اور مؤثر كلمات سے زور كا جھٹكا لگائیں تو كامیاب تقریر كا مرحلہ سر ہو جائے گا۔ میر صاحب كے اس بیان كرده اسلوب كی ایك جھلك اگلے واقعہ میں ملتی ہے۔ جماعتی مال كا درد: ہمارے زمانے میں شاهد كلاس میں طلبہ كو دیگر كئی امور كے ساتھ ڈرائیونگ اور ٹائپنگ بھی سكھائی جاتی تھی جس كا انتظام جامعہ سے باہر كسی اور شعبہ میں كیا جاتا تھا۔ ڈرائیونگ پر تو سب چلے جاتے تھے لیكن ٹائپنگ چونكہ پرانی طرز كے ٹائپ رائٹرز پر ہوتی تھی جن پر انگلیوں سے ذرا زور سے ضرب لگانی پڑتی تھی اور بعض طلبہ اس كو مشكل سمجھ كر اس پر اتنا دھیان نہیں دیتے تھے۔ ایك روز میر صاحب كو شكایت موصول ہوئی كہ ساری شاہد كلاس یا اس کے اكثر طلبہ ٹائپنگ كلاس سے غیر حاضر رہے ہیں۔ چنانچہ جب شاهد كلاس والے واپس جامعہ آئے تو میر صاحب ان كو لے كر جامعہ كے ہال میں داخل ہوئے۔ اس وقت میں شاید درجہ ثالثہ یا رابعہ میں تھا۔ میں اپنے ایك كلاس فیلو كے ساتھ ہال میں بیٹھ كر كوئی كام كررہا تھا۔ ہم میر صاحب كو غصے میں دیكھ كر ہال سے نكلنے لگے تو میر صاحب نے ہمیں بھی وہاں پر بیٹھے رہنے كا ارشاد فرمایا۔ پھر آپ نے نہایت دھیمے لہجے میں تقریر شروع كی جو كچھ اس طرح تھی كہ جماعت كا نظام چندوں پر چلتا ہے۔چندوں كی یہ رقم مختلف جماعتی كاموں كی انجام دہی پر خرچ ہوتی ہے۔ ان كاموں میں سے ایك تبلیغ وتربیت كا كام ہے جس كی ضرورت پوری كرنے كا فرض جامعہ احمدیہ ادا كر رہا ہے۔ یہ چندے جماعت كا ہر فرد دیتا ہے۔ ان میں وه بھی ہیں جو لاكھوں كماتے ہیں لیكن ان میں وه بھی ہیں جو دن میں تین كھانے نہیں كھا سكتے۔ ان میں وه غریب بھی ہیں جو اپنا پیٹ كاٹ كر چنده دیتے ہیں۔ ان میں وه یتیم بھی ہیں جو اپنے جیب خرچ سے كچھ پیسے بچا كر چنده دیتے ہیں۔ ان میں وه بیوائیں بھی ہیں جو اپنے جماعتی وظیفہ سے كچھ روپے بچاكر چنده دیتی ہیں۔وغیره وغیره۔ یہاں تك میر صاحب كا لہجہ دھیما اور ناصحانہ تھا۔ اس کے بعد یكدم جوش میں آكر فرمایا کہ یہ غریب اور یہ یتیم اور یہ بیوائیں قیامت كے دن تمہارے گریبان پكڑیں گے اور تمہارے گریبان پكڑ كر كہیں گے كہ بتاؤ كیوں تم نے ہمارے چندوں كو اس طرح پامال كیا؟ اور كیوں ہماری پیٹ كاٹ كر بچائی ہوئی پائی پائی كو اس لاپروائی كے ساتھ ضائع كردیا؟!! میر صاحب كا یہ نہایت مختصر خطاب اس قدر مؤثر تھا كہ میر صاحب تو یہ كہہ كر جلدی جلدی قدم اٹھاتے ہوئے ہال سے نكل گئے لیكن ہمارے سمیت ہال میں موجود سب طلبہ كی آنكھیں ندامت كے آنسو بہا رہی تھیں۔ آخری دم تك خدمت: ڈیڑھ سال قبل خاكسار پاكستان گیا اور میر صاحب سے ملا قات كے لیے ان كے گھرحاضر ہوا تو دیكھا كہ بستر پر لیٹے ہوئے ایك دوست كو احادیث كا ترجمہ ڈكٹیٹ كروارہے ہیں۔ ہم ان كی یہ حالت دیكھ كر بہت متعجب ہوئے كیونكہ ان سے اٹھ كر بیٹھا بھی نہیں جا رہا تھا لیكن كام كرتے جا رہے تھے۔ فرمانے لگے میں نے حضورِانور كی خدمت میں دعا كی درخواست عرض كی تھی تو حضورِانور نے فرمایا كہ آپ بتائیں میں آپ كے لیے كیا دعا كروں؟ مَیں نے عرض كیا كہ میرے لیے دعا كریں كہ الله تعالیٰ مجھے آخری دم تك خدمت كی توفیق عطا فرمائے۔ اورحضورِانور كی دعا كی بركت ہے كہ خدا تعالیٰ اس حال میں بھی خدمت كی توفیق عطا فرماتا چلا جا رہا ہے۔ الله تعالیٰ سے دعا ہے كہ وه محترم میر صاحب مرحوم كو كروٹ كروٹ جنت عطا فرمائے اور اعلیٰ علیّین میں داخل فرمائے اور جماعت كو اور خلافت كو ان جیسے بے شمار جاں نثار فدائی اور عاشق عطا فرمائے۔ آمین۔ مزید پڑھیں: ڈاکٹر شیخ محمد محمود صاحب شہید کا ذکر خیر