https://youtu.be/aR0AU4snFJ8 ٭… قریش نے عہد اس امر کے لیے توڑا ہے جس کا ارادہ الله تعالیٰ نے کیا ہے ٭…مجھے اُس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، مَیں اِن (بنو خزاعہ)کی ہر اُس چیز سے حفاظت کروں گا جس سے مَیں اپنے اہل اور گھر والوں کی حفاظت کرتا ہوں (رسول کریم ﷺ) ٭… عالمی حالات کے تناظر میں مسلمانوں کے اتحاد کی ضرورت اور دعاؤں کی تحریک ٭… اَلْکُفْرُ مِلَّۃٌ وَاحِدَۃٌ ہو چکا ہے اور اب مسلمانوں کو بھی امّت واحدہ بننا پڑے گا، تبھی ان کی بچت ہے خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۳؍جون ۲۰۲۵ء بمطابق ۱۳؍احسان ۱۴۰۴؍ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے اميرالمومنين حضرت خليفة المسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے مورخہ ۱۳؍جون ۲۰۲۵ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت دانیال تصورصاحب (مربی سلسلہ)کے حصے ميں آئي۔ تشہد،تعوذاور سورة الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنےفرمایا: چند جمعے پہلے فتح مکّہ کے حوالے سے ابتدائی ذکر کیا تھا۔ آج اِس حوالے سے مزید تفصیل بیان کروں گا۔ اِس غزوے کے سبب کے بارے میں بیان ہوا ہے کہ اِس کا فوری سبب یہ ہوا کہ قریش نے اس معاہدہ کو توڑ دیاجو حدیبیہ میں ہوا تھا اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے قاصد کو بڑے تکبّرانہ انداز میں کہہ دیا کہ ہم معاہدہ ختم کرتے ہیں اور ہم محمد (صلی الله علیہ وسلم) سے جنگ کریں گے۔ جب رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو یہ خبر پہنچی تو آپؐ نے مکّے کا رخ کیا۔ اِن کی عہد شکنی کی تفصیل یوں ہے کہ جب صلح حدیبیہ ہوئی تو اُس میں ایک شرط یہ بھی تھی کہ قبائلِ عرب میں سے جو چاہے، وہ رسول اللهؐ کے ساتھ معاہدہ کر لے اور جو چاہے وہ قریش کے ساتھ معاہدہ کر لے۔ چنانچہ بنو بکر اور بنو خزاعہ، جو حرم کے اِرد گرد آباد تھے، اِن میں سے بنو خزاعہ نے رسول اللهؐ کے ساتھ معاہدہ کر لیا اور اِن کے حریف قبیلےبنو بکر نے قریش کے ساتھ معاہدہ کر لیا اور دونوں قبائل آپسی لڑائی سے محفوظ ہو گئے۔ دورِ جاہلیت میں بنو خزاعہ اور بنو بکر کی لڑائی تھی جس میں بنو بکر نے ایک خزاعی شخص کو قتل کیا اور بنو خزاعہ نے بنو بکر کے تین آدمی حدودِ حرم میں قتل کیے تھے۔ بنو بکر اور بنو خزاعہ اِسی حالت میں تھے، یعنی اُن کی آپس میں لڑائیاں چل رہی تھیں کہ رسول اللهؐ کی بعثت ہوئی تو لوگ اسلام کے بارے میں مصروف ہو گئے۔ نئی چیز اُن کے سامنے آگئی۔اِس بارے میں باتیں ہونے لگیں اور ایک دوسرے سے رُک گئے مگر وہ دلوں میں غیظ و غضب چھپائے ہوئے تھے۔ جب شعبان ۸؍ہجری کا مہینہ آیا اور صلح حدیبیہ کو بائیس ماہ گزر چکے تھے تو بنو بکر کے ایک شخص نے رسول اللهؐ کی شان میں ہجو کی یعنی توہین آمیز شعر کہے۔ بنو خزاعہ کے ایک نوجوان نے اُس کو گاتے سنا تو اُس نے اُس شخص کو مارا اور اُس کا سر پھاڑ دیا۔ اس واقعے پر دونوں قبیلوں میں جھگڑا ہو گیا، جبکہ پہلے سے ہی قبائلی دشمنی چلی آ رہی تھی۔ بکر کے جس شخص نے یہ توہین آمیز شعر لکھے تھےوہ بنو بکر کے ایک خاندان بنو نفاسہ کا فرد تھا، جب اِس شاعر کو بنی خزاعہ کےایک نوجوان نے زخمی کر دیا تو بنو بکر میں سے بنو نفاسہ نے قریش سے بنو خزاعہ کے خلاف افراد اَور اسلحے کی مدد کی درخواست کی۔ قریش نے سوائے ابوسفیان کے اُن کی مدد کرنے کی حامی بھر لی۔ اس نے نہ یہ مشورہ دیا تھا اور نہ اُسے اِس کا علم تھا۔ایک قول یہ ہے کہ اِس کے ساتھ مشورہ کیا گیا تھا مگر اُس نے لڑائی کا انکار کر دیا۔ لیکن اِس کے باوجود قریش نے اسلحے، گھوڑوں اور آدمیوں کے ساتھ اُن کی مدد کی۔ ان سب نے رازداری کے ساتھ حملہ کیا تاکہ بنو خزاعہ اپنا دفاع نہ کر سکیں۔ بنو خزاعہ معاہدے کی وجہ سے اپنے آپ کو محفوظ سمجھ رہے تھے اور غافل تھے۔قریش، بنو بکر اور بنو نفاسہ نے وتیر کے مقام پر ملنے کا وعدہ کیا۔یہ مکّہ مکرمہ کا نشیبی علاقہ تھا۔بنو خزاعہ کے گھر اِسی جگہ تھے۔ یہ لوگ جو مخالفین تھے وہ مقررہ وقت پر وہاں ملے۔قریش کے رؤساء نے بھیس بدلے ہوئے تھے اور نقاب اوڑھ رکھے تھے۔ان سب کے ہمراہ ان کے غلام بھی تھے اور بنو بکر کا رئیس نوفل بن معاویہ بھی ساتھ تھا۔ بنو خزاعہ غافل اور مطمئن ہو کر رات کو سوئے ہوئے تھے۔ اُن میں زیادہ تر بچے، خواتین اور کمزور لوگ تھے۔ قریش اور بنو نفاسہ نے اِن پر حملہ کیا اور لوگوں کو قتل کرنا شروع کیایہاں تک کہ ان میں سے کچھ بھاگ کر حدودِ حرم میں پہنچ گئے۔بنو خزاعہ نے بنو بکر کے قائد نوفل بن معاویہ سے کہا کہ اے نوفل! اب تو ہم حرم میں داخل ہو گئے ہیں، تمہیں تمہارے معبود کا واسطہ ہے ، تو نوفل نے بڑے تکبّر سے کہا کہ آج کوئی معبود نہیں ہے۔ اور حرم میں بھی اُنہوں نے قتل و غارت جاری رکھی۔بنو بکر نے بنو خزاعہ کے بیس آدمی قتل کیے۔ بہرحال بعد میں قریش اپنے اِس فعل پر شرمندہ بھی ہوئے، پریشان ہوئے۔انہیں علم تھا کہ ان کے اس فعل سے وہ معاہدہ ٹوٹ گیا ہے جو رسول اللهؐ اور اُن کے درمیان ہے۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو بھی اِس واقعے کا کشفی طور پر الله تعالیٰ نے علم دیا۔ اُمّ المومنین حضرت میمونہ بنتِ حارث رضی الله عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللهؐ نے اُن کے پاس رات بسر کی۔ آپؐ نماز کے لیے وضو کرنے کے لیے اُٹھے۔آپؐ وضو کی جگہ پر تھے کہ مَیں نےسنا کہ آپؐ نے تین بار لبّیک، لبّیک، لبّیککہا یعنی مَیں حاضر ہوں! مَیں حاضر ہوں! مَیں حاضر ہوں! اور پھر تین بار ہی نُصِرْتَ، نُصِرْتَ، نُصِرْتَبھی کہا۔یعنی تمہاری مدد کی گئی ، تمہاری مدد کی گئی ، تمہاری مدد کی گئی ہے۔ جب آپؐ وضو کر کے تشریف لائے تو کہتی ہیں کہ مَیں نےعرض کیاکہ یارسول اللهؐ! مَیں نے سنا کہ آپؐ نے تین بار لبّیک اور تین بار ہی نُصِرْتَ کہا، کیا آپؐ کے پاس کوئی شخص تھا جس سے آپؐ باتیں کر رہے تھے؟ آپؐ نے فرمایا کہ بنو کعب جو بنو خزاعہ کی شاخ کا ایک شخص تھا، جو بنو بکر کے خلاف رِجز یا شعر کہتے ہوئے مجھے مدد کے لیے پکار رہا تھا( یہ کشفی رنگ تھا) اور یہ کہہ رہا تھا کہ قریش نے اُن کے خلاف بن بکر بن وَائل کی مدد کی ہے۔آپؓ بیان کرتی ہیں کہ تین دن کے بعد رسول اللهؐ نے لوگوں کو صبح کی نماز پڑھائی تو مَیں نے کسی کو یہ شعر پڑھتے ہوئے سنا ! يَا رَبِّ اِنِّیْ نَاشِدٌ مُحَمَّدًا حِلْفَ اَبِيْنَا وَاَبِيْهِ الْاَتْلَدَا اَے میرے ربّ! مَیں محمد (صلی الله علیہ وسلم) کو وہ معاہدہ یاد دلاتا ہوں، جو ہمارے قدیم آباء اور اُن کے آباء کے درمیان ہوا تھا۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ اُس رات کی صبح، جس رات بنو نفاسہ اور بنو خزاعہ کا واقعہ وتیر مقام پر ہوا ، آپؐ نے حضرت عائشہؓ سے فرمایا کہ اے عائشہ! خزاعہ میں کوئی واقعہ رونما ہوا ہے۔آپؓ نے عرض کیا کہ اے الله کے رسولؐ! کیا قریش اس عہد کو توڑنے کی جرأت کریں گے جو آپؐ اور اُن کے درمیان ہےجبکہ جنگوں نے اُنہیں پہلے ہی فنا کر دیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا کہ انہوں نے وہ عہد اس امر کے لیے توڑا ہے جس کا ارادہ الله تعالیٰ نے کیا ہے۔آپؓ نے کہا کہ الله کے رسولؐ! کیا اِس میں بھلائی ہے؟ آپؐ نے فرمایا کہ ہاں! اِس میں بھلائی ہے۔ یعنی یہ تو الله کی مرضی تھی کہ وہ عہد توڑیں تو پھر آگے اُن کو اِس کی سزا ملے۔ بنو بکر اور قریش کی اِس ظالمانہ کارروائی کے بعد عمرو بن سالم بنو خزاعہ کے چالیس سواروں کے ساتھ رسول اللهؐ سے مدد طلب کرنے کے لیے نکلا۔ خزاعہ قبیلے کا رئیس بُدَیْل بن ورقاء خزاعی بھی اس جماعت کے ساتھ تھا۔ اُنہوں نے آپؐ کو تفصیل بتائی کہ اُنہیں کس مصیبت کا سامنا کرنا پڑا ہے اور قریش نے کس طرح اُن کے خلاف اسلحہ، آدمی اور گھوڑوں سے بنو بکر کی مدد کی ہے اور کس طرح صفوان ، عکرمہ اور قریش کے دیگر رؤساء نے اِس قتلِ عام میں شرکت کی ہے۔ اُس وقت آپؐ مسجد میں صحابہؓ کے ساتھ تشریف فرما تھے۔ جب وہ اپنی بات کہہ چکےتو عمرو بن سالم کھڑا ہوا تو اس نے چند اشعار پڑھ کر مدد طلب کی، جن میں سے ایک اوّل الذکر شعر بھی تھا۔ رسول اللهؐ نے فرمایا کہ عمرو بن سالم!تیری مدد کی جائے گی۔ حضرت عبدالله بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ جب بنو خزاعہ کا کارواں آپؐ کے پاس پہنچا اور اُنہوں نے آپؐ کو ساری باتیں بتا دیں تو آپؐ نے فرمایا کہ علیحدہ علیحدہ ہو کے واپس چلے جاؤ۔ حضور انور نے تصریح فرمائی کہ آپؐ نے یہ اِس لیے فرمایا کہ کسی کو یہ علم نہ ہو کہ وہ آپؐ سے ملاقات کر کے واپس آ رہے ہیں۔ اِس معاملے کو خفیہ رکھو، چنانچہ بنو خزاعہ علیحدہ علیحدہ ہو کر واپس چلے گئے۔ حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ آپؐ بنو کعب یعنی خزاعہ کے معاملے کی وجہ سے بہت غصّے میں آ گئے، مَیں نے آپؐ کو اتنے شدید غصّے میں کبھی نہیں دیکھا تھا۔ حضرت ابنِ عبّاسؓ سے روایت ہے کہ آپؐ کو خزاعہ کے واقعے کی خبر ملی تو فرمایا کہ مجھے اُس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، مَیں اِن کی ہر اُس چیز سے حفاظت کروں گاجس سے مَیں اپنے اہل اور گھر والوں کی حفاظت کرتا ہوں۔ اِس غزوے کی تفصیل حضرت مصلح موعود ؓنے بھی بیان فرمائی ہے کہ خزاعہ کو جب معلوم ہوا کہ قریش نے بنو بکر سے مل کر یہ حملہ کیا ہے تو اُنہوں نے اِس عہد شکنی کی اطلاع دینے کے لیے چالیس آدمی تیز اُونٹوں پر فوراً مدینہ کو روانہ کیے اور رسول اللهؐ سے مطالبہ کیا کہ باہمی معاہدے کی رُو سے اب آپؐ کا فرض ہے کہ ہمارا بدلہ لیں اور مکّے پر چڑھائی کریں۔ جب یہ قافلہ رسول اللهؐ کے پاس پہنچا تو آپؐ نے فرمایا کہ تمہارا دکھ میرا دکھ ہے، مَیں اپنے معاہدے پر قائم ہوں، اور فرمایا کہ یہ بادل جو سامنے برس رہا ہے ، جس طرح اِس میں سے بارش ہو رہی ہے، اِسی طرح جلد ہی اسلامی فوجیں تمہاری مدد کے لیے پہنچ جائیں گی۔ ایک روایت کے مطابق آپؐ نے حضرت ضمرہ رضی الله عنہ کو قریش کے پاس بھیجا اور تین امور میں سے ایک کو اختیار کرنے کے لیے کہا کہ یا تو وہ بنو خزاعہ کے مقتولوں کی دیّت ادا کر دیں یا بنو نفاسہ سے لاتعلقی کا اظہار کر دیں یا حدیبیہ کا معاہدہ ختم کر دیں۔آپؓ رسول اللهؐ کے قاصد کے طور پر اِن کے پاس گئے۔ مسجدِ حرام کے دروازے کے پاس اونٹنی بٹھائی اور اندر چلے گئے۔ قریش اپنی اپنی جگہوں پر تھے۔آپؓ نے اُنہیں بتایا کہ وہ حضورِ اکرمؐ کے قاصد ہیں اور اُنہیں آپؐ کا پیغام دیا۔ کردہ بن عبدعمرو نے کہا کہ اگر ہم بنو خزاعہ کے مقتولوں کی دیّت دے دیں گے تو ہمارے پاس نہ اناج رہے گا اور نہ ہی مویشی رہیں گے کیونکہ اتنے لوگوں کی دیّت ادا کرنا ایک بھاری رقم کو چاہتا ہے۔ جہاں تک بنو نفاسہ سے لاتعلقی کا تعلق ہے، تو اہلِ عرب کا کوئی قبیلہ نہیں جو اُن کی طرح بیت الله کی تعظیم کرتا ہو۔ وہ ہمارے حلیف ہیں۔ہم اُن کی دوستی سے برأت کا اعلان نہیں کریں گے جب تک ہمارے پاس کچھ موجود ہے ہاں! ہم محمد(صلی الله علیہ وسلم) سے جنگ کریں گے۔ اس لیے ہم معاہدے ہی کو ختم کر دیتے ہیں۔ آپؓ حضورِ اکرمؐ کی خدمت میں آ گئے اور قریش کی باتوں سے آپؐ کو آگاہ کیا۔ حضورانور نے فرمایا کہ بہرحال بعد میں قریش کو اپنے کیے پر پچھتاوا ہوا اَور اُنہوں نے ابو سفیان کو رسول اللهؐ کی طرف بھیجا۔ اس کے آنے کے بارے میں بھی الله تعالیٰ نے آنحضرتؐ کو پہلے بتا دیا تھا ۔ چنانچہ آنحضرتؐ کی پیشگوئی کے مطابق ابو سفیان کی تجدیدِ صلح کے لیے آمد ہوئی ۔اِس کی تفصیل میں لکھا ہے کہ آنحضرتؐ نے ابوسفیان کے مدینہ آنے سے پہلے صحابہؓ سے فرمایا کہ ابوسفیان تمہارے پاس آ رہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ معاہدے کی تجدید کر دو اور صلح میں اضافہ کر دو لیکن وہ ناراضگی لے کر واپس جائے گا۔اُس کی کوئی بات نہیں مانی جائے گی۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔پھر ابوسفیان، حضرت ابوبکرؓ کے پاس گیا اور اُن سے کہا کہ محمد (صلی الله علیہ وسلم) سے بات کرو یا اپنی طرف سے لوگوں میں پناہ کا اعلان کر دو۔ حضرت ابوبکرؓ نے کہا کہ میری پناہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی پناہ میں ہے۔ پھر وہ حضرت عمرؓ کے پاس آیا اور پہلے کی طرح کی گفتگو کی اور پھر حضرت عثمانؓ کے پاس گیا اور اُن سے کہا کہ لوگوں میں تم سے زیادہ صلہ رحمی کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ صلح کی مدت میں اضافہ کر دو اور معاہدے کی تجدید کر دو۔تمہارا ساتھی تمہاری بات کو نہیں ٹالے گا۔ اُنہوں نے کہا کہ میری پناہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی پناہ میں ہے۔پھر وہاں سے ناکام ہوا تو حضرت علیؓ کے پاس گیا اور کہا کہ اے علی! تم رشتے داری میں میرے سب سے قریبی ہو، مَیں ایک ضروری کام کے لیے آیا ہوں لیکن خالی ہاتھ واپس نہیں جانا چاہتا۔ محمد (صلی الله علیہ وسلم) کے حضور میری سفارش کرو۔ اُنہوں نےکہا کہ ابوسفیان! تیرے لیے ہلاکت۔ جب حضورﷺ کسی بات کا عزم کر لیں تو ہم میں استطاعت نہیں کہ ہم آپؐ سے اِس پر گفتگو کر سکیں۔ اُس نے کہا کہ اے علی! معاملات مجھ پر شدّت اختیار کر گئے ہیں، مجھے کوئی مشورہ دو۔ آپؓ نے کہا کہ الله کی قسم! میرے علم میں ایسی کوئی چیز نہیں جو تجھے فائدہ دے سکے۔لیکن تم بنو کنانہ کے رئیس ہو۔اُٹھو اور لوگوں کے درمیان پناہ کا اعلان کرو اور پھر اپنے شہر لوٹ جاؤ۔ وہ مسجدِ نبویؐ میں گیا اور کہا کہ اے لوگو! مَیں نے لوگوں میں امن کا اعلان کر دیا ہے، میرا خیال ہے کہ تم میرے عہد کو نہیں توڑو گے۔ وہ رسول اللهؐ کے پاس آیا اور اِس امن کے اعلان کی خبر دی تو آپؐ نے فرمایا کہ اے ابو حنظلہ! صرف تُو ہی کہہ رہا ہے یعنی ہم اس کے بارے میں کچھ نہیں کہہ رہے۔یہ تیرا یکطرفہ اعلان ہے۔ پھر وہ اپنے اونٹ پر سوار ہو کر واپس چلا گیا۔ ایک روایت کے مطابق اُس نے حضرت فاطمہؓ سے بھی سفارش کی بات کی تھی مگر اُنہوں نے بھی معذرت کر دی اور یوں وہ کسی بھی نئے عہدوپیمان یا اتفاقِ رائے کی کوشش میں ناکام و نامراد واپس لَوٹ آیا۔ حضور انور نے فرمایا کہ اِس مہم پر جانے کی تفصیل کے بارے میں لکھا ہے کہ آنحضرتؐ نے رازداری کے ساتھ سفر کی تیاری شروع کی۔آپؐ نے لوگوں کو سفر کی تیاری کا ارشاد فرمایا لیکن یہ نہیں بتایا کہ کہاں جانا ہو گا۔ایسا ہی آپؐ نے حضرت عائشہؓ سے فرمایا کہ سفر کے لیے میرا سامان تیار کر دو۔ یہ کہہ کر آپؐ گھر سے باہر تشریف لے گئے تو حضرت ابوبکرؓ اپنی بیٹی حضرت عائشہؓ کے پاس داخل ہوئے۔اُس وقت آپؓ رسول اللهؐ کے سامان کو تیار کر رہی تھیں، تو حضرت ابوبکرؓ نے پوچھا کہ کیا آپؐ کسی غزوے کے لیے جانے کا ارادہ ہے؟ تو آپؓ خاموش رہیں۔ پھر کہنے لگے کہ شاید رومیوں کی طرف جانے کا ارادہ ہو یا شاید اہلِ نجد کی طرف جانے کا ارادہ ہو یا شاید قریش کی طرف نکلنے کا ارادہ ہو لیکن اِن کے ساتھ تو معاہدے کی میعاد ابھی باقی ہے؟ آپؓ اِن کے ہر سوال پر خاموش رہیں۔ اِس واقعے کی مزید وضاحت میں سیرتِ حلبیّہ میں لکھا ہے کہ حضرت ابوبکرؓ نے آپؐ سے پوچھا کہ یا رسول اللهؐ! کیا آپؐ نے سفر کا ارادہ فرمایا ہے؟ آپؐ نے فرمایا کہ ہاں! آپؓ نے عرض کیا تو پھر مَیں بھی تیاری کروں؟ آپؐ نے فرمایا کہ ہاں! نیز دریافت کیا کہ آپؐ نے کہاں کا ارادہ فرمایا ہے تو آپؐ نے فرمایا کہ قریش کے مقابلے کا۔مگر ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ ابوبکر! اس بات کو ابھی پوشیدہ ہی رکھنا۔ غرض آنحضرتؐ نے لوگوں کو تیاری کا حکم دیا مگر آپؐ نے لوگوں کو اِس سے بے خبر رکھا کہ آپؐ کا کہاں جانے کا ارادہ ہے۔اِس کے بعد رسول اللهؐ نےدیہات اور اِردگرد کے مسلمانوں میں پیغامات بھجوائے اور اُن سے ارشاد فرمایا کہ جو شخص الله تعالیٰ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے، وہ رمضان کے مہینے میں مدینے حاضر ہو جائے۔ آپؐ کے اعلان کے مطابق قبائلِ عرب مدینہ آنے شروع ہو گئے۔ ایک روایت کے مطابق نبی اکرمؐ نے پہلے حضرت ابوبکر رضی الله عنہ کو بُلا کر مشورہ کیا، پھر حضرت عمر رضی الله عنہ کو بُلا کر مشورہ کیا اور پھر تمام مسلمانوں کو سفر کی تیاری کا ارشاد فرمایا۔ اِس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ نے یوں لکھا ہے کہ آنحضرتؐ نے حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی الله عنہما کو بُلایا اور کہا کہ دیکھو! تمہیں پتا ہے کہ خزاعہ کے آدمی اِس طرح آئے تھے اور پھر بتایا کہ یہ واقعہ ہوا ہے اور مجھے خدا نے اِس واقعہ کی پہلے سے خبر دے دی تھی کہ اُنہوں نے غداری کی ہے اور ہم نے اُن سے معاہدہ کیا ہوا ہے۔ اب یہ ایمان کے خلاف ہے کہ ہم ڈر جائیں اور مکےّ والوں کی بہادری اور طاقت دیکھ کر اُن کے مقابلے کے لیے تیار نہ ہوں۔تو بہرحال ہم نے وہاں جانا ہے۔تمہاری کیا رائے ہے؟ حضرت ابوبکرؓ نے کہا کہ یا رسول اللهؐ! آپؐ نے تو ان سے معاہدہ کیا ہوا ہے اور پھر وہ آپؐ کی اپنی قوم ہے۔ مطلب یہ تھا کہ کیا آپؐ اپنی قوم کو ماریں گے؟ آپؐ نے فرمایا کہ ہم اپنی قوم کو نہیں ماریں گے۔ معاہدہ شکنوں کو ماریں گے۔ پھر حضرت عمرؓ سے پوچھا(اُن کا تو اپنا مزاج تھا) تو اُنہوں نے کہا کہ بسم الله! مَیں تو روز دعائیں کرتا تھا کہ یہ دن نصیب ہو اور ہم رسول الله ؐکی حفاظت میں کفّار سے لڑیں۔رسولِ کریمؐ نے فرمایا کہ ابوبکر بڑی نرم طبیعت کا ہے مگر قولِ صادق عمر کی زبان سے جاری ہوتا ہے۔ آپؐ نے اِس سفر کو پوشیدہ رکھنے کے لیے مختلف تدابیر اختیار فرمائیں۔ چنانچہ آپؐ نے سفر سے پہلے آٹھ آدمیوں پر مشتمل ایک پارٹی کو حضرت ابو قتادہ بن رِبعی رضی الله عنہ کی قیادت میں وادیٔ اِضم کی طرف مکّہ کی مخالف سمت بھیجا تاکہ گمان کرنے والا گمان کرے کہ آپؐ اِس سمت جانے کا عزم کر رہے ہیں اور خبر نہ پھیل سکے۔اِس کے علاوہ آپؐ نے مدینہ کے آس پاس کچھ آدمی روانہ کر دیے اور اِن سب کی ڈیوٹی یہ تھی کہ کوئی بھی اجنبی شخص مکّہ کی طرف جا رہا ہو تو اُس کو واپس لوٹا دیا جائے۔ اِس سارے کام کی نگرانی کے لیے حضرت عمر رضی الله عنہ کو مقرر کیا گیا۔ یہ ساری تدابیر اختیار کرنے کے بعد آپؐ نے اپنے خدا کے حضور دعا کے لیے ہاتھ اُٹھائے اور عرض کیا کہ اَے الله! قریش کے کانوں اور اِن کی آنکھوں کو روک لے یعنی اِن کے جاسوسوں اور مخبروں کو روک لے کہ وہ ہمیں نہ دیکھ سکیں، مگر یہ کہ ہم اچانک اُن تک جا پہنچیں اور نہ ہی وہ ہمارے متعلق کوئی خبر معلوم کریں سوائے اِس کے کہ اچانک اُنہیں ہماری خبر پہنچے۔ خطبہ ثانیہ سے قبل حضور انور نے عالمی حالات کے تناظر میں اُمّتِ مسلمہ کے لیے اتحاد کی ضرورت اور اس حوالے سے دعا کی تحریک فرمائی جس کی تفصیل درج ذیل لنک پر ملاحظہ ہو: https://www.alfazl.com/2025/06/13/124534/٭…٭…٭